امتِ مسلمہ کو ہر دور میں مختلف مسائل کا سامنا رہا ہے۔ ان مسائل کی نوعیت اور صورتیں اگرچہ مختلف رہیں لیکن ان کے اسباب و وجوہات میں ایک چیز تقریبا ہر دور میں مشترک رہی :عدمِ اتحاد و یکجہتی ۔مسلمان جب متحد تھے تو ملک کیا پورے پورے براعظموں پر عدل و مساوات کا نظام قائم کیے رکھتے تھے ، لیکن جیسے جیسے اتحاد اور یکجہتی کا فقدان فقدان ، اجتماعی مفادات پر ذاتی مفادات کی ترجیح اور امت پن کے تصور میں کمزوری آتی گئی مسلمانوں کا شیرازہ بکھرتا چلا گیا۔آج امتِ مسلمہ کو جتنے بھی مسائل کا سامنا ہے یکجہتی اورایک امت ہونے کے تصور کا فقدان ہی اس کی اصل وجہ ہے۔ شام،فلسطین،عراق،افغانستان، یمن،کشمیر ،نکوروکاراباغ وغیرہ آج کے زندہ مسائل ہیں جس کا امتِ مسلمہ کو سامنا ہے۔ اس کے علاوہ نسلی مسائل جو برما،چین وغیرہ میں موجود ہیں ان کی ایک الگ فہرست ہے۔ ان مسائل میں یہ تو بالکل عیاں ہے کہ پسِ پردہ عالمی طاقتوں کا ہاتھ ہے، چاہے وہ شام ہو جہاں ایک درجن کے قریب علاقائی اور عالمی طاقتیں خانہ جنگی کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں یا افغانستان،عراق اور فلسطین ہو جہاں عالمی مفادات کی خاطر مختلف طاقتیں زور آزمائی کررہی ہیں ،لیکن ایک چیز جس پر نہ ہم سوچتے ہیں نہ خود کو اس حوالے سے مجرم گردانتے ہیں کہ ہم ہی کہیں نہ کہیں ان مسائل کے ذمے دار ہیں ۔
یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ مڈل ایسٹ اور سنٹرل ایشا کی جغرافیائی اہمیت اور معدنیات نے ان طاقتوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہےلیکن کیا دنیا کے ۵۶ اسلامی ممالک میں یہ سکت نہیں ہے کہ وہ یکجہتی اور بھائی چارے کا ثبوت دے کر اس خطے کےذخیرۂ معدنیات اور جغرافیائی اہمیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک بار پھر عالمی اقوام کے مدمقابل آسکیں۔امریکہ اگر چند ریاستوں کو اکھٹا کرکےدنیا کوتا بع بنا سکتا ہے،یورپی ممالک اگر یونین بناکر پوری دنیا کو اپنی مرضی پر چلانے کے لیے مجبور کرسکتےہیں تو مسلمان متحد ہوکر اقوامِ عالم کی ہم سری کیوں نہیں کرسکتے؟ یہ جانتے ہوئے کہ یہ مشکل کام ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اس کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔اس کےلیےمضبوط عزم اورایک عظیم ولولے کی ضرورت ہے جو الحمد اللہ مسلمان قوموں میں بدرجہ اتم موجود ہے۔بس ہمت کی دیر ہے، سوچ و فکر کا محور ذاتی مفادات سے بلند کرکے اجتماعی مفادات کو ترجیح دینی ہے۔ اگر مسلمان ریاستیں اجتماعی طور پر یہ کام کرلیتی ہیں تو اس وقت یہ کام سہل سے سہل ہوتا چلا جائے گا۔
نوجوانانِ ملت کی آگاہی و بیداری کے لیے ہم گاہے گاہے مسلم دنیا کے مسائل اور ان کا پس منظر بیان کرتے رہیں گے۔ اس بار ہم کشمیر ، شام اور افغانستان کے حوالے سے اپنی گزارشات پیش کرتے ہیں :
کشمیر
۱۹۴۷ ء میں برطانیہ سے ہندوستان کی آزادی کے ساتھ دو خود مختار ریاستیں پاکستان اوربھارت وجود میں آئیں، آس پاس آباد چھوٹی ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے عوام کی منشا کے مطابق کسی بھی ملک میں شامل ہونے کا فیصلہ کر سکتی ہیں ۔چونکہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اس لیے وہاں کے مسلمان پاکستان سے الحاق چاہتے تھے لیکن وہاں سکھوں کی حکومت تھی ۔ جس نے مسلمانوں کی مرضی کے برعکس ہندوستان کا ساتھ دیا ۔واقعہ کچھ یوں تھا کہ ۱۵ /اگست ۱۹۴۷ ءکو یعنی پاکستان کی آزادی کے اگلے دن مہاراجہ نے پاکستان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے رو سے معاملات کو جوں کا توں رکھا جانا تھا لیکن معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مہاراجہ کی طرف سے جموں اور پونچھ کے شہریوں کو حکم ملا کہ وہ علاقہ خالی کردیں اور پھر یہ بھی انتظار نہ کیا گیا کہ وہاں کے باشندگان نقل مکانی کرتے، ہندو اور سکھ بلوائیوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی جنھوں نے اہلِ کشمیر کے گھروں کو مسمار ،نذر اتش اور یہاں کےباشندوں کو قتل کرنا شروع کر دیا ،ٹائمز آف لندن کے اعداد و شمار کے مطابق ۲ لاکھ ۳۷ ہزار افراد قتل کیے گئے،اسی طرح آئن اسٹیفن نے اپنی کتاب ’’ہارنڈ مون‘‘ میں مقتولین کی تعداد ۲ لاکھ بتائی ہے،ایک اور کتاب’’انڈرسٹینڈ کشمیر اینڈ کشمیریز‘‘ جو آکسفورڈ یونیورسٹی سے چھپی ہے جس کے مصنف سنڈن کرسٹوفر نے بھی یہ تعداد لاکھوں میں بتائی ہے ،اس قتل عام کا اعتراف ’’دی ہندو‘‘ کے رپورٹرلوپوری نے اپنی کتاب ’’اکراس دی لائن آف کنٹرول‘‘ میں کیا ہے اور اس سانحے کی گواہی ’’کشمیر لائف‘‘ میں وید بھیسن نے بھی دی ہے۔نہ صرف یہ کہ مہاراجہ نے کشمیری مسلمانوں کو آر ایس ایس اور اکالی دل کے جھتوں کے ذریعے قتل کروایا بلکہ ریاست پٹیالہ سے فوجی دستے طلب کرکے پاکستان کے ساتھ کیےگئے معاہدے کی دھجیاں اڑا دی گئی۔ اس کا اعتراف میجر جنرل ڈی کے پلٹ کی کتاب’’ ہسٹری آف جموں کشمیر رائفلز‘‘،رابرٹ ورسنگ کی کتاب ’’انڈیا، پاکستان اینڈ دی کشمیر ڈسپیوٹ‘‘ اور لیفٹنٹ جنرل ایل پی سین کی کتاب ’’کشمیر کنفرٹیشن‘‘ میں موجود ہے اور اس سے بڑھ کر خودبھارتی وائٹ پیپر میں بھی اس کا تذکرہ ہے۔ مہاراجہ نے معاہدے کے برخلاف کشمیریوں کو بے دخل کرنے کا حکم دیا اور مختلف ہندو اور سکھ تنظیموں نے فوج سمیت کشمیر پر چڑھائی کی جس کے بعد قبائل کے غیور مسلمان ، اپنے نہتے کشمیری بھائیوں کی مدد کو آگے بڑھے ۔ کشمیر کا ایک حصہ ڈوگرہ راج سے آزاد کرا لیا گیا ۔ جب انڈیا مجاہدین کے ہاتھوں پٹ رہا تھا تو روایتی مکاری کا سہارا لے کر اقوامِ متحدہ پہنچ گیا جس کی مداخلت سے اس شرط پہ جنگ بندی کرائی گئی کہ کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دیا جائے اور عام استصواب رائے سے کشمیری عوام کی مرضی معلوم کی جائے کہ وہ پاکستان اور انڈیا میں سے کس کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں ۔ لیکن بعد میں انڈیا مختلف حیلوں بہانوں سے استصوابِ رائےکو ٹالتا رہا بلکہ اب تو اپنی پوزیشن مضبوط کر کے رائے شماری سے منحرف ہو کر کشمیر کے بھارتی اٹوٹ انگ ہونے کا راگ الاپ رہا ہے۔ بہر حال کشمیر جب سے اب تک لہوں لہان ہے، خصوصا پچھلے ایک سال سے بنیادی انسانی ضروری اشیا تک بھی کشمیریوں کی رسائی نہیں ہے اور اس کا اعتراف یورپی یونین،امریکہ،او آئی سی سب کرتے ہیں ۔
شام
شام میں اس وقت بشار الاسد کی حکومت ہے یہ علوی نُصَیری فرقے سے تعلق رکھتا ہے جو کل آبادی کا ۱۰ سے ۱۵ فیصد ہے اس ۱۵ فیصد اقلیت نے ۸۵ فیصد اکثریت کو بد ترین استحصال اور ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا ہوا ہے۔ اس کی ظلم و بربریت کا اندازہ یتیم ،بیواؤں اور بے گھر ہونے والوں کی تعداد سے لگایا جاسکتا ہے شام کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ کئی شہر نیست و نابود ہوگئے ہیں ۵ لاکھ سے زیادہ افراد جام ِشہادت نوش کرچکے ہیں لاکھوں افراد معذور اور اس سے کئی گنا زیاہ بے گھر ہیں ،آدھی سے زیادہ آبادی قریبی ممالک اور شام کے مضافات میں مہاجرت کے دن گزاررہے ہیں،چونکہ شام خانہ جنگی کا شکار رہا اور دنیا کی تمام طاقتوں نے شام کو اکھاڑا سمجھ کر زور آزمائی کی یہی وجہ ہے کہ یہاں ظلم و بربریت کے وہ نشان موجود ہیں جس سے انسانیت شرماجائے۔ہسپتال،درسگاہ مسجد کوئی بھی ایسی جگہ جسے عوام الناس میں تقدیس حاصل ہو، نہیں چھوڑی گئی ۔اس کے مرکزی کرداروں میں روس،امریکہ،شام،ایران اور اسرائیل سمیت داعش وغیرہ شامل ہیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ لاکھوں لوگ بے یارو مدد گار کھلے آسمان کےنیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں پاکستان ترکی اور دیگر اسلامی ممالک ان مہاجرین کی خدمت میں پیش پیش ہیں فاتح فاؤنڈیشن پاکستان نے حال ہی میں ادلب اور دیگر شہروں میں پانی اور خوراک کی مستقل بنیادوں پر ترسیل کا انتطام کیا ہے۔
افغانستان
۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ ءکو امریکہ میں دھماکے ہوئے، اس وقت کے صدر جارج بش نے اس کا ذمےدار القاعدہ کو ٹھہراتے ہوئے افغانستان پر حملہ کر دیا ۔ اندھا دھند بمباری اور تباہ کن میزائلوں سے دھرتی کو بھسم کر دیا گیا۔ طالبان حکومت نے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی حکومت کو ساقط کر دیا اور گوریلا جنگ کا راستہ اختیار کیا ۔ اور اتحادی افواج کو بے پناہ نقصانات پہنچاتےرہے ۔کئی علاقوں پر طالبان کا کنٹرول واپس آگیا ہے ۔ یہ جنگ ۲۰ سال جاری رہنے کے بعد بالآخر امریکی شکست کے ساتھ انجام کو پہنچی ہے کیونکہ جنگ میں ہار اور جیت کا تعین مقاصد کے حصول کے پیمانے کو سامنے رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے، اگر امریکی مقاصد کا جائزہ لیا جائے تو اس میں امریکہ ناکام دکھائی دیتا ہے حالانکہ امریکہ کو اس جنگ میں دو درجن سے زائد ممالک کی فوجی حمایت بھی حاصل تھی جبکہ مقابلہ ایک غیر تربیت یافتہ گروہ سے تھا ۔یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ اس جنگ کی وجہ سے افغانستان کوجن مشکلات مصائب اور آلام سے گزرا پڑا وہ بہت زیادہ ہیں کیونکہ ہلاکتوں کی تعداد لاکھوں میں ہے، معذور بے گھر ہونے والوں کی بھی کمی نہیں ۔لیکن حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اب یہ جنگ امریکی پسپائی کے ساتھ ختم ہونے جارہی ہے ۔ عالمی سطح پر طالبان کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کر لیا گیا ہے ۔ امریکہ افغان مذاکرات کے کئی دور مکمل ہو چکے ہیں ۔ مذاکرات کی شرائط کے مطابق بہت سارے قیدی رہا کر دیے گئے۔ امریکہ نے اسی سال افغانستان سے فوجی انخلا کا اغاز کیا ہے جو تاحال جاری ہے صدر ٹرپ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ۲۵دسمبر سے پہلے پہلے تمام فوج نکال لے گا۔ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد کے افغانستان کی سیاست میں طالبان کا اہم کردار متوقع ہے ۔اس جنگ میں امریکہ کوجانی اور مالی دونوں اعتبارات سے بھر پور خسارہ ہوا ۔ امریکی وزارت دفاع کے مطابق افغانستان میں اکتوبر 2001 ءسے مارچ 2019 ءتک فوجی اخراجات 760 ارب ڈالر تھے۔