نبی اکرمﷺکی شانِ مبارک کی بابت جو کچھ بھی عرض کیا جائے گا آپﷺہمیشہ اس سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ہمارے استاذ کہا کرتے ہیں کہ فارسی نعت کی روایت کا سب سے بڑا شعر انوری کا ہے:
در جہانی و از جہاں بیشی
ہمچو معنی کہ در بیاں باشد
یعنی آپﷺاس دنیا میں ہیں لیکن اس دنیا سے زیادہ ہیں، جیسے معنی بیان میں ہوتا ہے لیکن وہ بیان سے زیادہ ہوتا ہے۔ہم ایسے بے بضاعت نبی کریمﷺکی شان کیا بیان کریں گے:
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
یا جو غالب نے کہا کہ:
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم
تو کیوں نہ رسول کریمﷺکا وہ تعارف بیان کیا جائے جو رب کریم نے کرایا ہے اور یہ سب سے بڑا تعارف ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں﴿واعلموا أن فیکم رسول اللہ﴾۔
تفہیمِ مدعا کے لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ رسول اللہﷺکی ذاتِ والا صفات دو حصوں میں منقسم تھی۔ایک آپﷺکا اپنے خالق و مالک ومحبوبِ حقیقی یعنی اللہ تعالی سے تعلق جس کو ہم اختصار سے تعلق مع الحق کہہ سکتے ہیں اور دوسرا ماسوا للہ سے تعلق جس کو ہم تعلق مع الخلق کا عنوان دے سکتے ہیں۔ یہ دو پہلو ہوئے آپ ﷺکی شخصیت کے ، لیکن ایک تیسری جہت بھی قائم کی جا سکتی ہے یہ ذات حق اور اس کی خلق کے درمیان ربط و رابطے کی جہت ہے ۔جب تک رسول اللہ ﷺکی ان سبھی جہات کا صحیح ادراک حاصل نہ ہو آپ ﷺکا تعارف ناقص رہ جائے گا۔
تعلق مع الحق کے حوالے سے دیکھا جائے تو آپﷺعبدِ کامل تھے،آپ کی شخصیت کا سب سے نمایاں وصف اس کی عبدیتِ کاملہ تھی۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ ہم سے خوش گفتاریاں فرما رہے ہوتے تھے کہ اذان کی آواز آپ کے گوشِ مبارک میں پڑتی تو آپ ہمیں یوں چھوڑ کر اٹھ جاتےگویا آپ ہمیں جانتے ہی نہیں۔یا آپ کا سیدہ سے یہ فرمانا کہ ’’ہٹ جاؤ! مجھے اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے دو‘‘۔اس میں کیا شبہہ ہے کہ آپ کی بعثت کے اساسی مقاصد میں اظہارِ دین شامل تھا اور اس کے لیے آپﷺنے جاں گسل محنت کی لیکن اگر پوچھا جائے کہ آپﷺکا اپنا رجحان کس طرف تھا تو وہ یقینا تبتل الی اللہ ہی کی طرف تھا۔اسی لیے قرآن میں حق تعالی نے ان سے فرمایا:﴿إِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيلًا﴾’’بے شک دن میں آپ کے لیے ایک طویل شغل ہے‘‘۔
تعلق مع الخلق کے حوالے سے دیکھیں تو رسول اللہﷺکی آمدِ مبارک سے جو شرف انسانیت کو حاصل ہوااور جو فیض پورے عالم نے آپﷺسے حاصل کیا و ہ لافانی ہے ۔ اس کے بارے میں اقبال نے بہت صحیح کہا:
ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو زاں کہ از خاکش بروید آرزو
یا زنورِ مصطفی او را بہاست یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفی است
تو آپﷺلوگوں کے لیے باعث نفع بنے اور بنے رہیں گے لیکن آپ کی اس شان کو باقی شانوں پر غالب قرار دے دینا ایک دوسری بات ہے۔
دور استعمار میں جہاں مستشرقین نے اسلام اور پیغمبرِ اسلامﷺکو نشانے پر لیا اس کے نتیجے میں بہت سے اسلامی مفکرین نے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا۔اسی سلسلے میں سیرت نگاری کا بھی ایک نیا اسلوب اختیار کیا گیا جس میں Humanization of the Prophet ایک اہم عنصر تھا۔کوشش کی گئی کہ پیغمبر کی شخصیت اور ان کی حیاتِ مبارکہ کو خالص انسانی نقطۂ نظر سے دیکھا اور دکھایا جائے۔رسول اللہﷺکی بشریت اور افادیت کے پہلو کو بہت نمایاں کر کے پیش کیا گیا۔ محمد حسن عسکری کے الفاظ میں:’’لیکن اب سرسید کے زیرِ اثر اور پیرویِ مغرب کے شوق میں لارڈ میکالے کے عقیدت مند ابھرنے لگے تھے جو کہتے تھے کہ اسلام افضل ترین مذہب ہے کیونکہ یہ مذہب ہے ہی نہیں بلکہ دنیاوی زندگی بسر کرنے کا ایک سیدھا سادہ راستہ ہے اور آنحضرت محض پیغمبر نہیں بلکہ ’مصلح ‘اور ’ریفارمر‘ ہیں‘‘۔
ترازو کا جھکا ہوا پلڑا ،دوسرے پلڑے کو ہلکا کر کے اٹھا بھی تو دیتا ہے۔پس اس عدم اعتدال کی زد ، شخصیت محمدی علی صاحبھا السلام کی اس جہت پر پڑی جسے ہم نے خالق و مخلوق کےدرمیان رابطے کا نام دیا تھا ۔جو اللہ کے بندوں کو اللہ سے ملانے کا کام تھا جسے کار نبوت و رسالت کہا جا سکتا ہے۔ تو یہ پہلو کچھ دب سا گیا تو محسوس ہوتا ہے کہ کچھ اس حوالے سے ضرور لکھا جائے۔ذات رسولﷺکے افادی پہلو یا زیادہ واضح الفاظ میں کہیں تو مادی افادیت کے پہلو سے ذرا بچ کر یہ دیکھنے کی کوشش کی جائے کہ ذات رسول ﷺکے ایمانی ثمرات کیا ہیں۔ ایمان بالرسالت کس طرح میرے ایمان باری تعالی میں اضافے و تکمیل کا باعث بنتا ہے۔
ایمان بالرسالت کے قانونی اور اعتقادی پہلو واضح ہیں لیکن اس کی ایک حکیمانہ جہت بھی ہے جسے پیش نظر رہنا چاہیے۔ رسول اللہﷺپر ہمارا ایمان غیب کو واجب الاثبات بنانے والی سب سے بڑی قوت ہے اس ایمان کی مدد سے ہمارے تمام عقائد میں ایک زندہ تیقن پیدا ہو جاتا ہے۔اس کی تھوڑی سی تفصیل یہ ہے کہ رسول اللہﷺجس حجت کو قائم فرمانے آئے تھے وہ حجت اپنے دو مظاہر رکھتی ہے :قرآن اور رسول اللہﷺکی ذاتِ مبارکہ۔ قرآن؛ایمان کی حقیقت کو ذہن اور ارادے پر حتماً غالب کر دیتا ہے اور ذاتِ رسول اللہﷺآدمی کی طبیعت میں اس کا استحضار پیدا کر دیتی ہے۔ گویاآپﷺمحض حجت لے کر ہی نہیں آئے تھے بلکہ اللہ نے آپﷺکو حجت بنا کر بھی بھیجا تھا۔
عقائد کا جو بھی کلی بیان اور اس کا فہم قرآن سے میسر آتا ہے، رسول اللہﷺسے تعلق اس فہم کے ہر جز کو ہمارے نفس میں اسی زندگی کے ساتھ حاضر کر دیتا ہے جس سے غیب کے حدود بھی نہیں ٹوٹتے اور وہ حضور بھی قائم ہو جاتا ہے جو ایمان بالغیب کے مدارِ یقین بن جانے کی بنیادی ضرورت ہے۔ ایمان جس غیر متزلزل یقین کا تقاضا کرتا ہے اس یقین کو ہمارا شعور اپنی کسی بھی صلاحیت اور قوت سے حاصل نہیں کر سکتا،کیونکہ وہ اپنی نارسائی کا اعتراف تو دور کی بات اپنی نارسائی پر قانع بھی نہیں رہ سکتا ‘ شعور چونکہ ایک تحکمانہ قسم کی واقفیت اور تیقن کا عادی ہے جو اسے تجربے اور مشاہدے سے حاصل ہوتا رہتا ہے تو غیب اگر اسے بتا بھی دیا جائے تو یہ غیب اس کے دلائل کا منتہا تو ہو سکتا ہے مگر اسے یقین کے موقف پر اس طرح استوار نہیں کر سکتا جس طرح کے تیقن سے یہ مانوس ہے۔
عقل تصور سازی میں چاہے کتنا بھی انہماک رکھے اس کے تصورات اس کی تسکین نہیں کر سکتے۔ یقین کی ہر قسم میں شعور کی وہ تسکین ناگزیر ہے جو تجربے اور مشاہدے سے حاصل ہوتی ہے۔چونکہ شعور ، غیب اور امور غیب کے مشاہدے اور تجربے سے محروم ہے۔
اور اپنی ساخت کے اعتبار سے وہ ان دونوں کی ضرورت کو محسوس بھی کرتا ہے تو اب حل کیا ہو سکتا ہے مگر یہی کہ شعور کو ایک ایسی ہستی سے متعارف کرایا جائے جو ایک طرف اس کے مشاہدے و تجربے کے دائرے میں آتی ہو اور دوسری طرف اس ہستی کو غیب کا تجربہ و مشاہدہ بھی حاصل ہو تاکہ شعور بالواسطہ سہی لیکن غیب کو اپنے لیے مشاہدہ بنا کر اپنے یقین کو برقرار رکھ سکے۔
رسالت کی ایمانی اہمیت یہ ہے کہ یہ شعور کو اس دو طرفہ شہود تک پہنچا دیتی ہے جس کا ایک سرا یہاں ہے اور دوسرا غیب میں اور یہ دونوں سرے رسول اللہﷺکی ذات میں جڑے ہوئے ہوتے ہیں…ادھر اللہ سے واصل ادھر مخلوق میں شامل۔ جیسے ایک بے کنار سمندر کا ساحل اس کے ان دیکھے کناروں پر بھی یقین پیدا کر دیتا ہے۔ مختصر یہ کہ غیبِ مطلق کو ماننے کا خدائی تقاضا پورا ہی نہیں ہو سکتا جب تک رسول اللہﷺکی شخصیت کے دونوں اصول یعنی انسانیت اور رسالت سے مومنانہ نسبت نہ پیدا کی جائے ۔ آپﷺکی یہ دونوں جہتیں ایک دوسرے میں اپنے اپنے کمالات کے ساتھ مدغم ہیں اور یہی ادغامِ غیب کو شہود کی طرح موجب یقین بناتا ہے۔ رسول اللہﷺکی مبارک شخصیت کی یہ دوجہتیں ایک دوسرے میں مدغم کیسے ہیں اس کی کچھ تفصیل یہ ہے: رسول اللہﷺکی رسالت ہویا بشریت دونوں کا قوام ایک ہی ہے، یعنی رسالت کے کمالات عین بشریت کے کمالات ہیں اورآپﷺکی بشریت کے مراتب رسالت کے مقامات سے اس طرح جڑے ہوئے ہیں جیسے دو متحد المعانی الفاظ؛ یعنی لفظ ایک دوسرے سے ممتاز ہونے کے باوجود معنوی اتحاد رکھتے ہیں اور ان پرآخری حکم اتحاد کا لگایا جائے گا نہ کہ امتیاز کا۔جس طرح ہم جانتے ہیں کہ نبی جس سلسلۂ معجزات کو لے کر آتا ہے اس میں پہلا معجزہ وہ خود ہوتا ہے۔ یہ الٰہی معجزہ عصمت کی شکل میں ظہورکرتا ہے،یعنی رسول اللہﷺمیں رسالت او ر بشریت کا منتہائی اتحاد؛ نقطۂ عصمت پر واقع ہوتا ہے۔ یہ عصمت اس کی بشریت کو بھی حاصل ہے اور رسالت کو تو خیر ہے ہی۔ عصمت، اللہ کی مستقل اور کلی حفاظت کا نام ہے ۔ اس حفاظت کے دو پہلو ہیں: شر سے حفاظت اور نقص سے حفاظت۔ شر اخلاقی ہے اور نقص وجودی۔ نبی؛ کامل الاخلاق تو ہوتا ہی ہے،کامل الوجود بھی ہوتا ہے۔
اللہ کا یہ مستقل حفاظتی نظام جسمانیات کے دائرے میں نہیں ہے، مثلاً یہ کہ بیماری اور تکلیف وغیرہ نہ آئے۔ عصمت کا حقیقی جوہر یہ ہے کہ بندے کا مظہر حق ہونا کسی بھی پہلو سے مجروح نہ ہو یاادھورا نہ رہ جائے۔ اور یہ ممکن نہیں کہ حق کی مظہریت پر فائز بندہ اپنی ایک جہت سے مظہر حق ہو اور دوسری جہت سے نہ ہو۔ سو رسول اللہﷺکی شانِ کمال یعنی حق کی آخری اور اکمل مظہریت جہت رسالت سے بھی ظاہر ہے اور جہت بشریت سے بھی واضح ہے۔ آپﷺسے ایمان کی حالت میں انسانوں میں پائے جانے والے تعلق کی کیفیت کے ساتھ متعلق ہوجانا آپﷺکی رسالت کے محتوی کا بھی حضور پیدا کر دیتا ہے۔
دین ایک اندازِ بیان کی رو سے حکم اور تعمیل کا ایک مکمل سلسلہ ہے۔ رسول اللہﷺکی ذاتِ اقدس ا س سلسلے کا ایک فعال اظہار ہے جو آپﷺکے ماننے والوں میں غیب سے وابستگی کی طبعی مناسبت پیدا کر دیتا ہے،یعنی حکم کا تعلق عالمِ غیب سے ہے اور تعمیل کا عالمِ شہود سے۔ رسول اللہﷺسے اظہار پانے والی تعمیل کی صورتیں ایمان کی آنکھ سے مشہود ہو کر حکم سے بھی زندہ تعلق پیدا کر دیتی ہیں جو ایمان کے یقین بننے کا سب سے طاقتور ذریعہ ہے۔ ہم دیکھتے نہیں کہ رسول اللہﷺکی ذات میں حکم کا محفوظ ہونا اور تعمیل کا کامل ہونا ان دونوں کے درمیان پائے جانے والے فاصلے کو ختم کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ سے عبودیت کے منتہا کا اظہار توہوتا ہی ہے معبودیت کا بھی مکمل تعارف ہوجاتا ہے۔ اس طرح آپ کو ماننے والا بندگی کے ہر مرحلے پر معبودیت کی ایک شان کا ادراک اور تجربہ کر لیتا ہے۔ غیب سے شعور کو متعلق کرنے اور رکھنے کا اس کے علاوہ کوئی انداز فرض بھی نہیں کیا جا سکتا۔
رسول اللہﷺکی معرفت کا جو کمال سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کے قول میں نظر آتا ہے وہ قرآن کے باہر کہیں نہیں پایا جاتا: ﴿کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰنُ﴾ یعنی آپﷺکے اخلاق کی اصل اور تفسیر قرآن ہے۔ اپنی معنویت میں یہ جملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ اخلاقِ رسول کا قرآن ہونا اس حقیقت پر کامل ترین دلالت رکھتا ہے کہ آپﷺمیں بشریت اور رسالت متحد الاصل ہیں۔ اس قولِ مبارک کا ممکن حد تک مکمل مفہوم یہ ہے کہ آپﷺقرآن کے بنے ہوئے تھے۔ آپﷺکو کسی ایک پہلو سے جاننا دوسرے نامعلوم پہلؤوں کا یقین بھی فر اہم کر دیتا ہے۔ یعنی آپﷺکی شخصیت کی شان؛ شہودِ رسالت کے جوہرِ غیب پر گویا حسی دلالت کرتی ہے۔ اسی کو ہم اس بات سے تعبیر کر رہے ہیں کہ ایمان بالغیب میں یقین کی کیفیت کا حصول ایمان بالرسول کے بغیر محال ہے۔
خوش رہیں تیرے دیکھنے والے
ورنہ کس نے خدا کو دیکھا ہے
ایمان کا سب سے پہلا لازمہ اطاعت ہے۔ ایمان کا فطری تقاضا اور اوّلین مطالبہ اگر غور کیا جائے تو اطاعت ہی ہے۔ ایمان باللہ ہو یا ایمان بالرسول دونوں پہلے عزمِ اطاعت کو تحریک دیتے ہیں اور پھر یہی عزم جذبہ ٔمحبت میں منقلب ہو جاتا ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ ایمان انسان کی اصل حقیقت یعنی بندگی کو اپنا موضوع بناتا ہے اور اس کی تصحیح اور تکمیل کا واحد سبب بنتا ہے۔ بندگی بالقوۃ کو عمل میں لانے کے لیے پہلے تصحیح درکار ہے اور پھر تکمیل۔ اطاعت اسی تصحیح کو بالفعل ممکن بناتی ہے اور محبت اس کی بنیاد پر بندگی کی تکمیل کرتی ہے،گویا اطاعت صحتِ بندگی ہے اور محبت کمال بندگی۔ تاہم اس اصول میں کچھ ایسی باریکیاں بھی ہیں جنھیں سمجھ لینا ضروری ہے:
پہلا نکتہ یہ ہے کہ اللہ کا مطاع ہونا اس کی حاکمیت کے ساتھ معبودیت کو بھی شامل ہے ،لہٰذا اللہ کی اطاعت میں اس کی عبادت بھی داخل ہے۔ اسی فقرے کو یوں بھی کہا جائے تو درست ہوگا کہ اللہ کی عبادت میں اس کی اطاعت بھی موجودہے۔یہ اس لیے ہے کہ انسانی ادراک میں یہ دونوں تصورات یکساں شدت کے ساتھ موجود ہیں کہ معبودیت کو اللہ کی ذات کے ساتھ زیادہ قریبی اور قوی نسبت حاصل ہے جبکہ دوسرا تخیل یہ ہےکہ حاکمیت اقرب الی الذات ہے۔ ان دونوں تصورات میں فرق صحیح اور غلط کا نہیں بلکہ مزاجِ بندگی کا ہے اور یہ اختلاف عقلی طور پر کسی تضاد کا حامل نہیں ہے اور فطری طور پر تو بالکل ہی حقیقی ہے۔
رسول اللہﷺکی اطاعت میں بھی دو باتیں ہیں۔ ان کو یوں سمجھنا چاہیے کہ رسول اللہﷺکا مطاع ہونا ایک تو شارع کی حیثیت سے ہے اور دوسرے نمونۂ کمال کی حیثیت سے۔ اس میں بھی ترجیحات کا ذوقی اختلاف ہوسکتا ہے۔ کوئی محض احکام تک محدود رہ کر مطمئن ہے اور کوئی رسول اللہﷺکے نمونۂ کمال ہونے کی تمام تفصیلات کو مقصود بنا کر ان کے ایک ایک جز کی پیروی کرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنت کے موضوع پر بہت سے اختلاف شروع سے چلے آ رہے ہیں،یعنی رسول اللہﷺکی مطاعیت کے اجزا کی فہرست میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ تو اب اس کا یہ مطلب نہیں ہےکہ اس اختلاف کی بنیاد پر اطاعتِ رسول ہی کو تفصیلات میں غیر محکم اور مخدوش قرار دے دیا جائے۔ اس طرح تو اللہ کی اطاعت بھی لپیٹ میں آجائے گی،کیونکہ اس کے مظاہر کا تعین بھی تقریباً محال ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ بعض لوگ اطاعت کو حکم کے مطابق رکھنا چاہتے ہیں اور دوسرے حضرات اس معاملے میں اس ذوق کو فیصلہ کن حد تک دخیل رکھنا چاہتے ہیں جو حکم کے خلاف نہیں مگر حکم تک محدود بھی نہیں ہے۔ اس بات کو ہم آگے چل کر کھولیں گے کہ ذوق کا علم کے مطابق ہوتے ہوئے بھی اس تک محدود نہ رہنے کا کیا مطلب ہے۔ اس وقت سمجھنے کی چیز یہ ہے کہ رسول اللہﷺکی اطاعت دراصل مجاز ہے اللہ کی اطاعت کا۔ اس وجہ سے ان دونوں اطاعتوں سے بننے والا ماحول اپنے جوہر میں یکساں ہونے کے باوجود اپنی تفصیل میں ایک نہیں ہوتا۔ اللہ کو خالق، حاکم اور معبود ماننا اس کی اطاعت کی شرائط میں سے ہے۔ اللہ کی ان حیثیتوں کا مستقل استحضار ہی اس کی اطاعت کو ممکن بناتا ہے اور یوں بھی نفسِ اطاعت اپنی ماہیت میں مطاع کے لیے بہرپہلو ، الٰہ ہونے کا تقاضا رکھتی ہے اور اس تقاضے کی تسکین کے بغیر اطاعت کا صدور و ظہور محال ہے۔ ورنہ دین کے مطلوبات اطاعتِ رسول سے اعلیٰ درجے میں پورے ہو جاتے ہیں مگر ایک چیز رہ جاتی ہے اور وہ ہے مطاعِ مطلق کی معبودیت کا یقین جس کے بغیر اطاعت کا فطری داعیہ اور استعداد حرکت میں نہیں آ سکتی تھی۔ اطاعت اپنے منتہا پر جذبۂ عبادت ہی کا دوسرا نام ہے۔ اگر ہم کچھ فطری حقائق کا تجزیہ کریں تو ان شاء اللہ یہ واضح ہو کر سامنے آجائے گا کہ اللہ کا مطاع ہونا فطرتِ بندگی میں اس کی معبودیت کے خلقی شعور ہی سے متحقق ہوتا ہے۔
رسول اللہﷺکی ذات بندگی کے ان فطری اساسات کی صحیح پرداخت اور درست تکمیل کے لیے مطاعیت کے درجے پر رکھی گئی ہے۔ آپ ہی کی بدولت اقتضاے بندگی اپنی تکمیل اور تصحیح کے یقینی ذرائع حاصل کرتا ہے۔ آپ درمیان سے ہٹ جائیں تو خود اللہ ایک مفروضہ ہے اس کا مطاع وغیرہ ہونا تو ثانوی بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وحی پرہمارا ایمانی اعتماد اس وقت تک محض ایک تصور ہے جب تک صاحب وحی اس تصور کے مقابل میں تصدیق بن کر سامنے نہ آئیں،یعنی خبر پر اعتماد دراصل خبر دینے والے پر اعتماد کا نام ہے۔اسی طرح حق سے نسبت دراصل حق کولانے والے کے ساتھ تعلق پر منحصر ہے۔ رسالت بیچ میں سے ہٹ جائے تو بندگی اور معبودیت کے تعلق کی ہر صورت محال ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ تصحیح بندگی کے موقف پر کھڑے ہو کر اطاعت کا رنگ قانونی ہوگا اور یہ بہت ضروری ہے بلکہ اطاعت کے تمام اجزا کا دار و مدار ہی اطاعت کی قانونی اساس پر ہے تاہم اس سے اطاعت کے ضروری عملی حدود تو متعین ہو جاتے ہیں مگر ذوقِ اطاعت اور استعداد تعلق کا احاطہ نہیں ہو تا۔ یہ احاطہ اسی وقت ہو گا جب فرائض نوافل کے محرک بنیں گے اور اطاعت رسول؛ اتباعِ رسول پر غلبے کے ساتھ مائل کرے گی۔
اس مبحث میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کے حوالے سے اگر غور کریں تو یہی بات ٹھیک ہے کہ اللہ کی محبت ہمیشہ اللہ کی اطاعت کا ثمر ہوگی لیکن رسول اللہﷺکے معاملے میں یہ شرط کہیں کہیں اٹھ بھی جاتی ہے۔ یہاں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ رسول اللہﷺکی اطاعت فی الواقع آپ کی محبت کا نتیجہ ہے۔اس فرق کی ایک وجہ یہ ہے کہ کمالِ بندگی کا کوئی مرتبہ بھی صحتِ بندگی کی پختہ تحصیل کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا جبکہ نفس کی صلاحیتِ تعلق کا حال یہ ہے کہ یہ اپنی استعدادِ اطاعت کی پوری کمک کے بغیر بروئے کار آ سکتی ہے۔ رسول اللہﷺنفسِ بندگی کی صلاحیتِ تعلق کا مقصود ہیں اور اللہ اس کی استعدادِ اطاعت و عبادت کا،جس کی کارفرمائی کا انداز؛ صلاحیتِ تعلق سے مختلف ہے۔ مختصر یہ کہ رسول اللہﷺکا مطا ع ہونا فی الحقیقت اطاعتِ الٰہیہ کا واحد ذریعہ ہے اور اسی وجہ سے آپ کی اطاعت اپنی جگہ مقصود ہو گئی ہے۔
اطاعت کے بیان کے بعد اتباع کے بارے میں بھی کچھ اصولی باتیں عرض کی جاتی ہیں۔اتباع کے سلسلے میں پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ کسی عمل یا خیال کی نہیں ہوتی بلکہ شخصیت کی ہوتی ہے۔ جیسے اطاعت کا مقصود تعمیلِ امر ہے لیکن اتباع کا مطلوب متبوع کی پوری شخصیت کا رنگ اختیار کرنا ہے اور اس کا مزاج قانونی نہیں ہوتا یعنی یہ عمل کسی کام کی انجام دہی یا کسی حکم کی بجاآوری کی کیفیت نہیں رکھتا بلکہ اس کے پیچھے نفس کا بنیادی داعیہ یہ ہوتا ہے کہ اس مجموعی کمال تک پہنچا جائے جو متبوع کی ذات میں خاصے کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے تمام رویوں اور اعمال سے منعکس ہوتا رہتا ہے۔اتباع لگ کر چلنے کو کہتے ہیں یا قدم؛ قدم پر رکھنے کا عمل اتباع ہے۔ اس کا محرک اطاعت سے زیادہ وہ جذبۂ محبت ہوتاہے جو آدمی کو اپنے متبوع سے تعلق کے دائرے میں سمائے رہنے پر مائل کرتاہے۔اطاعت اور اتباع واحد الاصل ہیں،کیونکہ مطاع اور متبوع ایک ہی ذات ہے۔ ان میں کچھ امتیازات یقیناً ہیں مگر وہ اسی طرح کے ہیں جیسے کہ ایک کل کے دو اجزاوحدت پر قائم ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ایک دوسرے سے ممتاز بھی ہوتے ہیں،کیونکہ ان میں سے ہر ایک کی اپنے کل کے ساتھ نسبت کا مزاج اور معنویت دوسرے سے منفرد ہوتی ہے۔ رسول اللہﷺسے تعلق کو اگر ہم کل تصور کر لیں تو اطاعت اور اتباع کل کے وہ ایسے دو لازمی اجزا ہیں جن میں سے ایک بھی کم ہو جائے تو تعلق کا کل ناقص رہ جائے گا۔
ان دونوں لازمی اجزا کی اپنے کل کے ساتھ نسبت کی کیفیت میں جو امتیازات ہیں ان میں سے کچھ ہم ابھی بیان کریں گے اور اسی طرح معنوی سطح پر بھی ان اجزا کا اپنے کل کےساتھ تعلق کہاں کہاں منفرد ہے اس پر بھی نظر ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ پہلے مزاج یا کیفیت کو لے لیتے ہیں۔ مزاج سے ہماری مراد یہ ہے کہ اس جزکی اندرونی بناوٹ اور اس کا اندازِ حرکت کیا ہے اور اس جز کی کارفرمائی بعض احوال کی حامل ہے اور بعض کی بانی۔ ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ وہ احوال کیا ہیں؟دوسرے لفظوں میں یوں کہنا شاید زیادہ قابل فہم ہو کہ اطاعت اور اتباع کی تحریک اور تاثیر میں کچھ بنیادی امتیازات ہیں جن میں سے چند کا تعلق نفس سے ہے اور بعض کی نسبت خود اس پیغام کی طرف ہے جس کی اساس پر یہ دونوں قوتیں اپنے مقصود کا تعین کر کےعمل میں آتی ہیں۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو اطاعت اور اتباع میں مزاجی اور تاثیری امتیازات یہ ہیں:
۱ اطاعت کا اولین محرک خوف ہے جبکہ اتباع کا محبت۔
۲ اطاعت کا مقصود سزا سے بچنا ہے، اتباع کا مقصود رضا کا حصول ہے۔
۳ اطاعت کی بنیادی قوت ارادے سے فراہم ہوتی ہے جبکہ اتباع کی اصل طاقت طبیعت سے میسر آتی ہے اور ایک نوع کے حال پر ختم ہوتی ہے۔
۴ اطاعت میں ہمہ وقت مستحضر رہنے والا تسلسل محال ہے جبکہ اتباع میں ممکن ہے۔
۵ اطاعت امر میں ہوتی ہے جبکہ اتباع ذات میں ہوتی ہے۔
۶ اطاعت اپنے مزاج میں بندگی پر عملی استقامت اور ارادی استحکام کا نام ہے جبکہ اتباع بندگی میں مسلسل ترقی کرنے کا عمل ہے۔
۷ اطاعت میں مطاع کا حضور نہ ہونا کسی نقص پر دلالت نہیں کرتا جبکہ اتباع میں متبوع کا حضور شرط لازم کی حیثیت رکھتا ہے۔
۸ اطاعت میں ایک نوع کی انتخابی حس بہت قوت سے برسرکار رہتی ہے جبکہ اتباع کا مزاج انتخابی اور جزوی نہیں ہوتا بلکہ عمومی اورمجموعی ہوتا ہے، یعنی اطاعت میں احکام کی درجہ بندی اور ترجیحات کا عمل نہ ہو تو اس کی بجاآوری مشکل ہوجاتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف اتباع میں درجہ بندی اور ترجیحات داخل ہو جائیں تو اس میں نقص واقع ہو جاتا ہے۔
۹ اطاعت کچھ کرنا ہے جبکہ اتباع کچھ بننا ہے۔ دین ایک جہت سے جس احکامی structureکانام ہے اس سے کچھ مخصوص اعمال ہی نہیں پیدا ہوتے بلکہ اخلاق کی بنیاد بھی پڑتی ہے۔ اللہ کے ہر حکم میں یہ مطالبہ پایاجاتا ہے کہ اس کی تعمیل کو عمل اور اخلاق دونوں میں جاری کرو، تو حکم کی تعمیل عمل میں ہو تو اطاعت اور اخلاق میں ہو تو اتباع۔ رسول اللہﷺکے حوالے سے بھی عین یہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہم بندگی کے مستقل حدود میں رہنے کی قوت اطاعت سے حاصل کرتے ہیں اور بندگی کی اخلاقی بناوٹ کے قیام اور اس کی تکمیل کی تمام صورتیں آپﷺکے اس مزاجِ عبودیت سے اخذ کرتے ہیں جو آپﷺکی شخصیت کے تمام پہلؤوں سے یکساں کمال کے ساتھ ظاہر ہے۔ مراد یہ کہ آپﷺکی جہتِ رسالت ہو یا جہتِ بشریت دونوں ایک ہی طرح کے کمالات سے کامل ہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھنا چاہیے کہ آپ کو نماز بھی مرغوب تھی اور ٹھنڈا پانی بھی۔ ان دونوں میں مادۂ رغبت ایک ہے۔اتباع کے بغیر آدمی رسول اللہﷺکے اس کمالِ حقیقی سے زندہ تعلق نہیں پیدا کر سکتا جس کا ظہور آپ کی شخصیت کے تمام اجزا میں مشترک ہے۔
۱۰ بندگی مثال کے طو رپر عاجزی کا نام ہے اور اس عاجزی کا اظہار اطاعت اور اتباع میں منقسم ہے۔ فرق یہ ہے کہ عاجزی کا جو شعور اطاعت کے پیچھے کارفرما ہے وہ اس شعور سے مختلف ہے جو اتباع کی بنیاد بنتا ہے۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔ اطاعت میں عاجزی کا تصور پایا جاتا ہے کہ بندہ اپنی فلاح کا سامان خود سے نہیں کر سکتا ۔یہاں عاجزی کی نوعیت عقلی اور عملی ہے جبکہ اتباع میں عاجزی کی نوعیت روحانی اور وجودی ہے۔ اطاعت کا کوئی بھی تصور عاجزی میں ناگواری کے عنصر کو زائل نہیں کرتا جبکہ بندگی کی بنیادی ضرورت کے طور پر سامنے رہتی ہے اور بندہ اس میں مزید اضافے کا خواہش مند رہتا ہے۔ اطاعت بندے کو عاجزی کے ایک دائرے میں رکھتی ہے جبکہ اتباع میں اس کے نئےنئے دائرے بنتے اور عبور ہوتے چلے جاتےہیں، گویا بندگی یہی ہے کہ عاجزی کو ایک سطح پر زائل کیا جائے اور دوسری سطح پر محفوظ رکھا جائے۔
۱۱ اطاعت سے جبر منہا نہیں ہو سکتا اور اتباع میں جبر داخل نہیں ہو سکتا۔
۱۲ اطاعت سے احکام کا تاریخی تسلسل اور تعمیل کے عملی حدود کی حفاظت ہوتی رہتی ہے جبکہ اتباع میں بندگی کے بنیادی احوال اور اس کے مجموعی مزاج کی تشکیل ہوتی ہے۔
رسول اللہﷺکا متبوع ہونا آپ سے محبت کی نسبت پراستوار ہے ۔ جہاں تعلق میں کوئی شرط نہ پائی جائے یعنی مطاع کا مطاع ہونا بھی مطلق ہو اور مطیع کا مطیع ہونا بھی مستقل ہو۔ ایسے تعلق میں محبت کا مطلب دیگر تعلقات میں کارفرما محبت سے مختلف ہو جاتاہے۔محبت بہرحال ایک جذبۂ فنا ہے۔ ہدایت کے ان قطبین کے تعلق میں طلب کی جانے والی محبت کا لازمی تقاضا ہے کہ اُمتی اپنے رسول کے ساتھ نثار ہو جانے والے جذبے سے متعلق رہے۔ یعنی یہ محبت مسلسل اکساتی رہے کہ ہم خود سے خالی ہو کر رسول اللہﷺکے تعلق سے بھرجائیں۔ اتباع کی اصل غایت یہی ہے کہ ہم رسول اللہﷺکی معلوم شخصیت کو اپنے وجود کی تشکیل نو کا واحد ماخذ بنائیں۔ یہی کمالِ بندگی کا منتہا ہے اور اس کی طرف لپکنے کا مزاج پیدا کیے بغیر عبودیت میں سچائی کی اصل ایسی مجروح ہوجاتی ہے کہ پھر تعمیل کی قانونی قوت بھی اس کا ازالہ نہیں کرسکتی۔ ازالہ تو دور کی بات ہے خود وہ قوت مطلوبہ معیار پر آنے کے قابل نہیں رہتی۔
اس پس منظر میں دیکھیں تو بالکل واضح ہو جائے گا کہ آپ کے مزاجِ مبارک یعنی اخلا ق و خصائص کی مستقل قبولیت اور ان کی طرف اٹل رغبت رکھے بغیر ہم اپنے اندر انسانیت کا وہ جوہر پیدا ہی نہیں کر سکتے جو حق کی قبولیت اور اس قبولیت پر ثابت قدم رہنے کے لیے لازماً درکار ہے۔حق پرستی، صداقت ،نیکی وغیرہ کی جڑ اگر طبیعت میں محکم نہ ہو تو ان کا زیادہ اعتبار نہیں ہے۔ اسی طرح احکام کی تعمیل اگر اقتضاے بندگی نہ بنے تو اس پر بھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ اتباع جو حق کے ذوق اور قدر شناسی سے کی جاتی ہے دراصل ہمیں حق کے ساتھ وابستگی میں سچا، مخلص اور بے نفس بناتی ہے۔ مجھ سے پوچھا جائے تو میں تو کم از کم یہی کہوں گا کہ رسول اللہﷺکے معاملے میں محبت کو اطاعت پر اولیت حاصل ہے۔ آپﷺکے حقوق محبت سے شروع ہوتے ہیں اور اطاعت سے تصدیق پا کر اسی محبت پر تمام ہوتے ہیں۔
اتباع کے معاملے میں افراط و تفریط بھی پائی جاتی ہے جو اکثر موقعوں پر خلافِ سنت معلوم ہوتی ہے۔ مثلاً رسول اللہﷺنے کئی مواقع پر اپنے کسی خاص معمول کی نقل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ایسی چیزوں کی موجودگی میں ظاہر ہے کہ اتباع کسی بے لگام جذبۂ محبت کے سپرد نہیں کیاجا سکتا اس کی یقیناً کچھ حدود ہیں۔ آپ نے بعض معاملات میں جو دینی نوعیت کے بھی تھے اور تہذیبی نوعیت کے بھی، صحابہ کو اپنی پیروی یا نقل سے صریح لفظوں میں روکا ہے مثلاً صومِ وصال اور اپنی طرح کا لباس پہننا وغیرہ۔ ان واقعات کو ذرا اس نظر سے بھی دیکھیں کہ ان میں جذبۂ اتباع پر روک لگانے کا شائبہ بھی نہیں پایاجاتا بلکہ اس جذبے کے اظہار کی بعض ایسی صورتوں پر بندش لگائی گئی ہے جن کا جائز یا ناجائز ہوناموضوع نہیں بنایا گیا بلکہ ان میں بعض نقصانات کا اندیشہ ہونے کی وجہ سے ان سے روکا گیا۔ مثال کے طور پر صومِ وصال کی مخالفت میں یہ رنگ نہیں پایاجاتا کہ تمہارا یہ عمل گناہ تھا۔ اس سے توبہ کرو بلکہ اس کی مخالفت کا واضح محرک یہ تھا کہ اس سے تمہاری جسمانی قوت گھٹ جائے گی اور اسی نوع کے بعض ضروری حقوق سے غافل کر دے گی یا ان کی ادائی کے قابل نہیں چھوڑے گی۔ جیسے سیدنا عثمان بن مظعون، سیدنا ابن مسعود اور بعض اصحابِ کرام رضی اللہ عنہم کو شب بیداری اور صومِ مسلسل سے روکتے وقت آپﷺنے یہی فرمایا تھا کہ تم میرے لائے ہوئے نظامِ حقوق و فرائض کی پاسداری کے لائق نہیں رہو گے۔ایسی ممانعتوں سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہیے کہ ایسے معمولات کا محرک بننے والا والہانہ جذبۂ اتباع خود اپنی جگہ درست نہ تھا۔ اب رہی حدودِ اتباع کی بات تو اس میں ایک اصول کو ضرور پیش نگاہ رکھنا چاہیے:
اصول : اتباع کے نام سے اطاعت کی حدود کو توڑا نہیں جا سکتا ،کیونکہ اتباع اپنے نفس میں ذوقِ اطاعت ہی کی تکمیل ہے، اور جو جذبۂ تعلق اس کی اساس ہے ،اس جذبے کی انتہائی شدت میں بھی آپﷺکا رسول ہونا قلب اور ذہن میں مرکزیت کے ساتھ حاضر رہنا چاہیے۔ اس اصول کی روشنی میں اتباع کی متعین حدود بالکل واضح ہو کر سامنے آتی ہیں۔
رستے عام ہی ہوتے ہیں ، کسی چلنے والے کے قدموں کے نشان انھیں خاص بنا دیتے ہیں۔ ایک سیدھی سادی زندگی کی راہ تھی جسے سب گزار تے آ رہے تھے لیکن جب میرے حضور ان راہوں پر چلے اور آپ کے وحی کے سانچےمیں ڈھلے مزاجِ مبارک نے اپنا اظہار کیا تو ان راہوں کو منزلوں کی شان دے دی۔ یہ اظہار اخلاق میں بھی ہے، عادات میں بھی ہے اور طبعی امور میں بھی ہے تو ان سبھی میدانوں میں اتباع کرنا ہے ۔البتہ اس میں دھیان رکھا جائےگا کہ کون سی چیزیں لائق تلقین ہیں اور کون سی نہیں۔ مثلاً رسول اللہﷺکو دودھ مرغوب تھا تو اس رغبت کو خودمیں پیدا کرنے کی خواہش اور کوشش بندگی کے بنیادی مزاج کا لازمہ ہے لیکن اگر اسی کو تلقین و تبلیغ کا موضوع بنایا جائے تو شاید خلافِ مصلحت ہو جائے گا۔ قانونی پیچیدگیوں سے صرف نظر کر کے دیکھیں تو اتباع کا سارا مقصد یہ ہے کہ ایک تو رسول اللہﷺسے محبت کے تقاضے پورے ہو جائیں اور دوسرے وہ مزاج بندگی میسر آجائے جس کا آپﷺنمونۂ کامل تھے۔ مزاجِ بندگی کی ترکیب شاید کچھ ابہام رکھتی ہے اس لیے اس کے مفہوم کو متعین کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔ اس اصطلاح سے ہماری مراد یہ ہے کہ نفس میں عبودیت کی طرف سے بنیادی مزاحمتوں کا ایسا خاتمہ ہوجائے کہ ہمارا بندہ ہونا ہمارے شعورِ ذات کے ہر حصے میں ایک ہی انداز سے سرایت کر جائے، یعنی ہم باعتبار ساخت؛ اللہ کے بندے بن جائیں جس کے وجود کی تمام قوتیں بندگی کی غایت کو اندر باہر سے پورا کرنے میں مرتکز ہوں۔ انسانی شخصیت میں اور اس کی تشکیل کے ہر عمل میں طبیعت سب سے زیادہ بنیادی حیثیت رکھتی ہے جو چیز ہماری طبیعت میں جگہ نہ بنائے ہم خود کو اس سے پوری طرح منسوب نہیں کر سکتے۔ رسول اللہﷺکے مزاجِ مبارک میں ڈھل جانے کی مسلسل کوششوں کے علاوہ اور کوئی ایسا راستہ ہمارے پاس نہیں ہے جس پر چل کر ہم بندگی کو اپنی طبیعت کے تمام داعیات کا واحد جوہر بنا سکیں۔
محسوس ایسا ہوتا ہے کہ اتباع کے دائرے میں رسول اللہﷺکی عاداتِ مبارکہ بھی آ جاتی ہیں تاہم اس معاملے میں مشکل یہ ہے کہ اگر آپﷺکی ہر عادت اور ہر معاشرتی عمل لائق اتباع قرار پائے تو اس سے بعض بڑے مسائل پیداہوسکتے ہیں اور معاشرت میں کچھ ایسی مشکلات آ سکتی ہیں جو دین کے نظام العمل کو شاید ممکن ہی نہ رہنے دیں۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ ہم متعین کر کے بتائیں کہ اتباع کا دائرہ کن امور کا احاطہ کرتا ہے اور کون سی چیزیں اس سے باہر ہیں۔ رسول اللہﷺکی شخصیت دو جہتیں رکھتی ہے،ایک جہت سے آپﷺعرب تھے اور اس روایت میں رہتے ہوئے آپﷺنے بعض اوضاع و اعمال اختیار فرمائے حتیٰ کہ بعض عادات بھی عرب ماحول ہی کی مناسبت سے آپﷺکی شخصیت میں جگہ بناپائیں۔ دوسری جہت یوں کہہ لیجیے کہ انسان کے لیے مثالیے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس پہلو پر آپﷺکی شخصیت میں عمومی بشری ساخت کی تکمیل ہوئی۔ عمومی بشریت سے مراد یہ ہے کہ انسانی نفس اور اس کے مرغوبات و معمولات کا وہ حصہ جو انسانوں میں بلاقید زمان و مکان مشترک اور مستقل ہے۔ اس میں نفس فطرت کے موقف پر کھڑا ہو کر کچھ عادتیں اور چند رویے اختیار کرتا ہے جن کا اظہار زندگی کی عام سطح اور پسند ناپسند کے بنیادی داعیات و جذبات کی کارفرمائی میں ہوتا ہے۔ بالفاظِ دیگررسول اللہﷺکی تاریخی شخصیت کے خالص تہذیبی اور معاشرتی مظاہر میں سے اکثر اتباع کا موضوع نہیں ہیں لیکن آپﷺکے ماورائے تہذیب انسانی مظاہر دراصل اتباع کے حقیقی مقاصد ہیں۔ مثلاً آپﷺدراز گوش پر سوار ہوتے تھے ، کھجور کی بعض اقسام کو پسند فرماتے تھے ، عربی زبان بولتے تھے، ایک خاص ہیئت کے گھر میں رہتے تھے، کچھ جگہیں آپﷺکو اچھی لگتی تھیں وغیرہ۔ یہ اتباع بمعنی نقل کا موضوع نہیں ہیں جبکہ دوسری طرف آپﷺعموماً سر ڈھانپتے تھے، ازار اونچا رکھتے تھے، کھانے کی کچھ ہئیتوں پر کاربند رہتے تھے، ہمیشہ دائیں کروٹ سوتے تھے اور اٹھتے تھے، خوشبوپسند فرماتے تھے، مزاجِ مبارک میں ظرافت بھی تھی ، طبعاً کمالِ زہد ہی پر رہنا مرغوب تھا، بچوں سے محبت فرماتے تھے، کشادہ رو تھے وغیرہ۔ یہ تمام افعال و اعمال تقاضا کرتے ہیں کہ ہم ان کی اتباع کریں تاکہ بشریت کی مثالی ساخت حاصل کر سکیں، جو ہدایت میں ثابت قدم اور روبکمال رہنے کے لیے شرط کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان میں سے کچھ باقاعدہ سنتیں ہیں، ہم نے ایک مصلحت سے انھیں عادات و معمولات میں شمار کیا ہے۔مختصر یہ کہ رسول اللہﷺکے مزاج مبارک سے ہر نوع کی مناسبت پیدا کیے بغیر نہ انسانیت میں ترقی ممکن ہے نہ ہی عبدیت میں کمال کا کوئی امکان۔ہم اپنی گزارشات کا اختتام حضرت قاری طیب صاحب قاسمی کے ایک اقتباس پر کریں گے۔میلادالنبیﷺکی حقیقت نامی مضمون میں فرماتے ہیں:
’’حاصل یہ ہے کہ جناب رسول اللہﷺکے حقوق میں جو امت پر عائد ہوتے ہیں تین حقوق بنیادی ہیں:محبت، عظمت اور متابعت۔اگر انسان عاشقِ رسول ہے لیکن مگر عظمت نہیں رکھتاتو وہ یقیناً اتلافِ حقوق کا مرتکب ہے۔عظمت و بڑائی رکھتا ہے مگر محبت نہیں رکھتا تووہ بھی حق تلف ہے اور اگر محبت و عظمت رکھتاہے مگر متابعت نہیں رکھتا تو وہ بھی حق تلف ہے۔ادائے حقوق کی صورت اس کے سوا نہیں کہ حضورﷺکی محبت و عظمت اور متابعت سے بیک وقت اس کا قلب و قالب منور ہو‘‘۔