محمد عثمان خان
معاونِ شعبۂ تعلیم، فقہ اکیڈمی
اسلام میں استاذ کا مقام و مرتبہ
قسط نمبر۱
اللہ رب العزت نے انسان کی تخلیق کو احسنِ تقویم ارشادفرمایاہے، خالق کا یہ عظیم شاہ کار دنیاے رنگ وبو میں خالقِ کائنات کی نیابت کا حق دار بھی ٹھہرا۔ اشرف المخلوقات، مسجودِ ملائکہ اور خلیفۃ اللہ فی الارض سے متصف حضرتِ انسان نے یہ ساری عظمتیں اور رفعتیں صرف اور صرف علم کی وجہ سے حاصل کی ہیں ورنہ عبادت وریاضت، اطاعت وفرمان برداری میں فرشتے کمال رکھتے تھے۔ ان کی شانِ امتثال کو اللہ کریم نے قرآنِ پاک میں بیان فرمایا ہے کہ وہ اللہ کی کسی بات میں نافرمانی نہیں کرتے اور ان کو جو حکم دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔ علم، عقل و شعور، فہم و ادراک، معرفت اور جستجو وہ بنیادی اوصاف تھے جن کی وجہ سے انسان باقی مخلوقات سے اشرف و اعلیٰ قرار دیا گیا۔ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ حصولِ علم میں مرکزی حیثیت استاذ اور معلّم ہی کی ہے۔ معلّم ہی وہ اہم شخصیت ہے جو تعلیم وتربیت کا محور اور منبع و مرکز ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ قوموں اور مہذب معاشروں میں استاذ کو ایک خاص مقام ومرتبہ اور نمایاں حیثیت حاصل ہوتی ہے، کیونکہ مہذب اور باشعور معاشرے کا قیام استاذ ہی کے مرہونِ منت ہے۔ اسلام نے دنیا کو علم کی روشنی عطا کی، استاذ کو عظمت اور طالبِ علم کو اعلیٰ و ارفع مقام عطا کیا ہے۔ نبیِ کریمﷺنے فرمایا: ’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘۔ (ابنِ ماجہ) اسلام نے استاذکو روحانی والد قرار دے کر ایک قابلِ قدر ہستی، محترم ومعظّم شخصیت، مربی و مزکّی کی حیثیت عطا کی۔ معلّم کے کردار کی عظمت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ اس عالمِ رنگ و بو میں معلّمِ اوّل خود ربِّ کائنات ہیں۔ چنانچہ قرآنِ پاک میں ارشاد ہے: ’’اور آدم کو اللہ تعالیٰ نے سب چیزوں کے اسما کا علم عطا کیا‘‘۔ (سورۃ البقرۃ:31) اسی طرح انسان کی تخلیق کے ساتھ ساتھ تعلیم کا بھی انتظام فرمایا: ’’رحمٰن ہی نے قرآن کی تعلیم دی، اس نے انسان کو پیدا کیا اس کو گویائی سکھائی‘‘۔ (سورۃ الرحمٰن:۱تا۲) اور ذریعۂ تعلیم قلم کو بنایا: ’’پڑھ! اور تیرا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم سے سکھایا، اور آدمی کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘۔ (سورۃ العلق:۱تا 6) اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی رہنمائی اور تعلیم کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاے کرام علیہم السلام کو معلّم ومربّی بنا کر بھیجا، ہر نبی شریعت کامعلّم ہونے کے ساتھ ساتھ کسی ایک فن کا ماہر اور معلّم بھی ہوتا تھا۔ جیسے حضرت آدم علیہ السلام دنیا میں زراعت اور کپڑا سازی کے معلّم ِاوّل تھے۔ کلام کو ضبط تحریر میں لانے کا علم سب سے پہلے حضرت ادریس علیہ السلام نے ایجاد کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے کشتی سازی کے فن کو کمال بخشا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے علم ِمناظرہ اور حضرت یوسف علیہ السلام نے علمِ تعبیر الرؤیا میں کمال حاصل کیا۔ (مرآة المناجیح، ج: ۴، ص:۲۲۸) خاتم الانبیاءﷺنے معلّم کو انسانوں میں بہترین شخصیت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے‘‘۔ (بخاری) معلّم کے لیے نبیِ کریمﷺکی بشارت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ میں روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺکو فرماتے ہوئے سنا: ’’غور سے سنو، دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے وہ اللہ کی رحمت سے دور ہے۔ البتہ اللہ کا ذکر اور وہ چیزیں جو اللہ تعالی سے قریب کریں، یعنی نیک اعمال، عالم اور طا لبِ علم (یہ سب چیزیں اللہ کی رحمت سے دورنہیں ہیں)‘‘۔ (بخاری) معلّم کو اللہ اور اس کی مخلوقات کی محبوبیت نصیب ہوتی ہے۔ مخبرِ صادقﷺنے استاذ کی محبوبیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا: ’’لوگوں کو بھلائی سکھانے والے پر اللہ، ان کے فرشتے، آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں پانی میں رحمت بھیجتی اور دعائیں کرتی ہیں‘‘۔ (ترمذی) اساتذہ کے لیے نبیِ کریمﷺنے دعا فرمائی کہ: ’’اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش و خرم رکھے جس نے میری کوئی بات سنی اور اسے یاد رکھا اور اس کو جیسا سنا اسی طرح لوگوں تک پہنچایا‘‘۔ (ابو داؤد) لہذا ان فضائل کی بنا پر استاذ ہونا ایک بہت بڑی نعمت اور عظیم سعادت ہے۔
اسلامی تاریخ میں اساتذہ کی اہمیت
خیر القرون میں معلّمین کو اتنی زیادہ اہمیت حاصل تھی کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ معلّمین کو درس وتدریس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ انتظامی امور اور عہدوں پر فائز کرتے تھے۔ خلیفۂ رابع حضرت علی المرتضی کا قول ہے کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھا دیا میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے آزاد کر دے یا بیچ دے۔ حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم استاذ سے اتنا ڈرتے اور ان کا اتنا ادب کرتے تھے جیسا کہ لوگ بادشاہ سے ڈرا کرتے ہیں۔ حضرت یحییٰ بن معین رحمہ اللہ بہت بڑے محدث تھے، امام بخاری رحمہ اللہ ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ محدثین کا جتنا احترا م وہ کرتے تھے اتنا کرتے ہوئے میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ جو استاذ کی قدر نہیں کرتا وہ کامیاب نہیں ہوتا۔ (تعلیم المتعلم) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اساتذہ کے سامنے تواضع اور انکساری کا اظہار کرتے تھے۔ علمِ حدیث کے لیے ان کے گھروں کی دہلیز پر بیٹھ جاتے اور استاذ کے نکلنے کا انتظار کرتے رہتے، ہوا سے چہرے پر گرد اور مٹی پڑتی رہتی تھی۔ جب ان کے اساتذہ اپنے کا م سے باہر نکلتے تو آپ کو منتظر پاتے اور آپ استاذ کے سامنے یوں گویا ہوتے کہ میں علم کا طالب ہوں، میرا دل نہیں چاہتا کہ آپ میری وجہ سے اپنی ضروریات سے فارغ ہونے سے پہلے آئیں۔ (سننِ دارمی) یہی ادب تھا جس کی وجہ سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو امام المفسرین، حبر الامت اور بحر العلم کا لقب عطا ہوا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے معلّمِ کائنات کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا، تربیت اور تزکیہ کی چکی میں پسے۔ آپﷺکی مجلس میں ان کے ادب کا یہ عالم ہوتا تھا کہ صحابۂ کرام آپﷺکے چہرۂ انور کی طرف سیدھا نہیں دیکھتے تھے، بیٹھنے کا اندازایسا مؤدبانہ ہوتا تھا کہ پرندے آ کرصحابۂ کرام کے سروں پر بیٹھ جاتے تھے۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ اپنے استاذ کا اتنا ادب کرتے تھے کہ کبھی استاذکے گھر کی طرف پاؤں کر کے نہیں سوئے۔ فقہِ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ کے مصنف، شیخ الاسلام برہان الدین رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ائمۂ بخارا میں سے ایک امام دورانِ درس بار بار کھڑے ہو جاتے، شاگردوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ میرے استاذ کا لڑکا گلی میں بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے جب مسجد کے دروازے کے سامنے آتا ہے میں اپنے استاذ کی وجہ سے ادب میں کھڑا ہو جاتا ہوں۔ قاضی امام فخر الدین ارسابندی رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے علما میں بڑا مقام عطا فر مایا تھا، بادشاہ ان کی بہت عزت کرتا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ: میں نے تیس سال قاضی امام ابو یزید دبوسی رحمہ اللہ کی خدمت کی ہے اور ان کے لیے کھانا پکایا ہے، اور اس کھانے میں سے کبھی نہیں کھایا تھا۔ علماے ہند میں شیخ العرب و العجم حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ علم و فضل، تقویٰ و طہارت، جہد و عمل، تواضع و انکساری میں منفرد مقام کے حامل تھے۔ آپ اپنے استاذ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ کے گھر کا پانی اپنے سر پر اٹھا کر لاتے تھے۔ شمس الائمہ علامہ حلوانی رحمہ اللہ نے بخارا کو خیرباد کہا اور کسی دوسری جگہ تشریف لے گئے۔ آپ کے تمام تلامذہ آپ کی زیارت کے لیے آئے سواے قاضی شمس الائمہ الزرنوجی رحمہ اللہ کے، جب استاذ کی شاگرد سے ملاقات ہوئی تو فرمایا کہ آپ میری ملاقات کو کیوں نہیں آئے تھے؟ عرض کیا کہ والدہ کی خدمت میں مشغولیت مانع تھی۔ امام نے فرمایا کہ آپ عمر لمبی پائیں گے مگر درس نصیب نہیں ہو گا۔ استاذ کے منھ سے نکلی ہوئی اس بات کو وقت نے سچ ثابت کیا، علامہ زرنوجی رحمہ اللہ زندگی کا اکثر حصہ دیہاتوں میں رہے آپ کو تدریس کا موقع نہ میسر آسکا۔ خلیفہ ہارون رشید نے امام اصمعی رحمہ اللہ کے پاس اپنا بیٹا تحصیلِ علم کے لیے بھیجا۔ ایک دن خلیفہ نے دیکھا کہ امام اصمعی رحمہ اللہ وضو کر رہے ہیں اور اس کا بیٹا استاذ کے پاؤں پر پانی ڈال رہا ہے۔ خلیفہ نے امام صاحب کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنا بیٹا اس لیے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ اس کو علم و ادب سکھائیں، آپ اسے یوں کیوں نہیں کہتے کہ یہ ایک ہاتھ سے آپ کے پاؤں پر پانی ڈالے اور دوسرے ہاتھ سے اس پاؤں کو دھوئے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں معلّم کو سب سے بہترین انسان قرار دیا گیا ہے۔ استاذ کے ادب کو تحصیلِ علم کے لیے بنیاداور اساس کہا گیا ہے۔ عربی مقولہ ہے: الأدب شجر والعلم ثمر، ثم فکیف یجدون الثمر بدون الشجر، ادب درخت ہے اور علم پھل ہے، پھل بغیر درخت کے کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔ اسی طرح اگر تدریس کو بحیثیت ِمشغلہ دیکھا جائے تو یہ مشغلہ تمام پیشوں سے اعلیٰ، اشرف و افضل ہے۔ عربی ضرب المثل ہے: خیر الإشغال تهذیب الأطفال، بہترین مصروفیت و مشغلہ بچوں کی تربیت کرنا ہے۔ معلّمِ انسانیت پر محنت کر کے کارِ نبوّت سر انجام دے رہا ہوتا ہے۔ استاذ افراد کی تربیت کر کے ایک مہذب معاشرہ تشکیل دیتا ہے، گویا بادشاہ لوگوں پر حکومت کرتے ہیں جبکہ بادشاہوں پر معلّمین کی حکومت ہوتی ہے۔ پیغمبر ِاسلامﷺکا یہ ارشادِ مبارک منصب ِتدریس کی اہمیت کو مزید واضح کر دیتا ہے کہ جس شخص نے لوگوں کو خیر کی طرف بلایا، لوگوں کے اجر کے برابر اس کو بھی اجر ملے گا اور لوگوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جائےگی۔ (مسلم) معلّم کا فرض سب سے اہم اور اس کی ذمے داری سب سے مشکل ہے۔ شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال نے معلّم کی حیثیت، عظمت اور اہمیت کو بہت احسن انداز میں بیان فرمایاہے کہ استاذ دراصل قوم کا محافظ ہوتا ہے، کیونکہ آئندہ آنے والی نسلوں کو سنوار نا اور ان کو ملک و ملت کی خدمت کے قابل بنانا ان ہی کے سپرد ہے۔ سب محنتوں میں اعلیٰ درجے کی محنت اور کارگزاریوں میں سب سے بیش قیمت کارگزاری معلّموں کی ہے، کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی، تمدنی اور مذہبی تعلیمات کی کلید اس کے ہاتھ میں ہے، اور ہر قسم کی ترقی کا سر چشمہ اس کی محنت ہے۔ معلّم کی یہ عظمت، مقام و مرتبہ اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ صفاتِ حسنہ اور اخلاقِ حمیدہ کا جامع، صبر واخلاص کا پیکر ہو۔ استاذ کا مطمحِ نظر رضاے خداوندی، انسانیت کی تربیت اور نونہالان ِقوم کو علم ومعرفت سے روشناس کرانے کا جذبہ ہونا چاہیے۔ معلّم کے قول و عمل میں یکسانیت، صداقت، شجاعت، قوت برداشت، معاملہ فہمی، تحمل مزاجی اور استقامت جیسے اوصاف نمایاں ہونے چاہییں، کیونکہ شاگرد استاذ کا عکس ہوا کرتا ہے۔ بزرگوں کا قول ہے کہ اساتذہ نیک تو طلبہ بھی نیک، یعنی اساتذہ خود اپنے بڑوں کے قدردان ہوں تو طلبہ بھی اپنے اساتذہ کے قدر دان ہوں گے۔ چنانچہ اساتذۂ کرام شریعت اور سنت کے پابند، اپنے منصب کے قدر دان، طلبہ پر مشفق اور جذبۂ خیر سگالی سے سرشار ہوں تو ان کے ہاتھوں تربیت پانے والی نسلیں بھی صفاتِ حمیدہ کی حامل ہوں گی۔ معلّم کا جذبہ یہ ہونا چاہیے کہ میرے ذریعے امت کے ایسے نونہال تیار ہو جائیں جو امتِ محمدیہ کی نشأۃ ثانیہ کا فریضہ سرانجام دے سکیں۔ اور وہ ایسے تناور درخت کی مانند ہوں جو سب کو چھاؤں اور پھل دیں، جو تحقیق و جستجو کے میدان کے شہسوار ہوں۔ ایک معلّم کی یہ آرزو ہونی چاہیے کہ میری ساری زندگی کی محنت اور جگر سوزی اس لیے ہے کہ قیامت کے دن میرا حشر معلّمین کے ساتھ ہو۔ اسلامی معاشرے میں اساتذہ کی درج ذیل تین اقسام ہو سکتی ہیں:
معلّمینِ مکاتب: یہ اساتذہ بچوں کی ابتدائی تعلیم پر مامور ہوتے تھے۔ یہ حضرات طلبہ کو ابتدائی دینیات و ناظرہ، قرآن سے لے کر عربی، فارسی املا تک سکھایا کرتے تھے، ساتھ ہی ساتھ بچوں کو ایک یا دو زبانوں میں لکھنا اور پڑھانا ان کی ذمے داری ہوا کرتی تھی۔ بعض جاہل قسم کے افراد نے اس پیشے کو پیسہ کمانے کا آسان ذریعہ بنایا۔ ایسے لوگوں کی وجہ سے اس پیشے کی کافی بدنامی ہوئی۔ اس میں شک نہیں ان کہانیوں میں سے اکثر مبالغہ آمیز یا بالکل بے بنیاد ہیں، لیکن بہرحال پھر بھی کچھ بات ضرور ہے جس پر راویوں نے مضحکہ انگیزقصّے گھڑ لیے ہیں۔ مکاتب کےمدرسین کومحض اس بنا پر ملازمت مل جاتی تھی کہ وہ حافظِ قرآن ہوتے تھے، نہ ان میں علمیت تھی اور نہ تعلیمی تربیت انھوں نے حاصل کی تھی۔ ابنِ عبدون (ایک اندلسی شاعر) اس قسم کے لوگوں کو اس لیے قابل ِالزام تصور کرتا ہے کہ صرف قرآن حفظ کر لینے سے کوئی شخص مُدَرِّسی کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ بہرحال، ابتدائی تعلیم کے مدرسین کی جماعت میں کافی تعداد ایسے حضرات کی بھی تھی جو اجل علماے دین تھے، زبان دان تھے، خوش نویس تھے اور ادبی ذوق رکھتے تھے۔
اتالیق: اتالیق سے مراد ایسے اساتذہ ہیں جو شہزادوں یا امیر زادوں کی تعلیم و تربیت کے لیے رکھے جاتے تھے۔ ان کے بابت ڈاکٹر شبلی فرماتے ہیں: ’’اتالیق کا عہدہ نہایت شہرت اور ناموری کا حامل تھا۔ جو شخص کسی گھرانے کا اتالیق مقرر کیا جاتا وہ اس گھرانے کا فرد تصور ہوتا تھا۔ بعض اوقات یہ تعلق اتنا گہرا ہوتا کہ اتالیق اس خاندان کا نام بھی اپنے نام کے آگے لگا لیتا تھا‘‘۔ (تاریخِ تعلیم و تربیتِ اسلامیہ، ترجمہ محمد حسین خان زبیری، ص178 ) خلیفہ اور دیگر بڑے لوگ اپنے بچوں کے اتالیق کا بےحد خیال کیا کرتے تھے۔ انھوں نے ان اساتذہ کا مرتبہ بہت بلند کر دیا تھا۔ مثال کے طور پر ہارون الرشید نے اپنے بیٹے کے اتالیق الاحمر کو کوٹھی عطا کی اور ہر طرح کی آسائش مہیا کی۔ لوگ اس کو دیکھ کر رشک کرتے تھے۔
معلّمینِ مساجد و مدارس: یہ اعلیٰ تعلیم کے اساتذہ ہوا کرتے تھے۔ ان کا مقام بھی معاشرے میں بہت بلند تھا۔ بادشاہ انھیں دربار میں اپنے برابر جگہ دیا کرتے تھے اور ان سے مختلف مواقع پر رہنمائی لیا کرتے تھے۔ ان کی مالی حیثیت بہت اچھی ہوا کرتی تھی۔ بادشاہ انھیں وظائف کے علاوہ کثیر ہدایا دیا کرتے تھے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ یہ لوگ معلمی کے علاوہ دیگر پیشوں کو حقیر جانتے تھے۔ کسی بڑے خلیفہ سے ایک بار پوچھا گیا کہ اللہ نے آپ کو سب سے بڑا رتبہ عطا کیا ہے اس کے بعد بھی آپ کو کسی منصب کی حاجت ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں، میں چاہتا ہوں کہ میں عالم ہوتا اور لوگوں کو درس کے ذریعے نفع پہنچاتا۔ (تاریخِ تعلیم و تربیتِ اسلامیہ، ترجمہ محمد حسین خان زبیری)
جاری ہے