لاگ ان

جمعرات 16 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 19 ستمبر 2024

لاگ ان

جمعرات 16 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 19 ستمبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 16 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 19 ستمبر 2024

جمعرات 16 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 19 ستمبر 2024

مولانا عبد المتین

امام و خطیب جامع مسجد جاکی، لیاری کراچی

زندگی کی قدر و قیمت اور وقت کی تنظیم

الله رب العزت نے ہمیں جتنی نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان میں زندگی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ زندگی ایک مقصد حاصل کرنے کے لیے دی گئی ہے۔ زندگی کو الله رب العزت نے بہت ہی مختصر رکھا ہے اور ساتھ میں یہ بھی سمجھا دیا ہے کہ یہ مختصر سی زندگی تم اپنی جنت اور آخرت بنانے میں گزارو۔ اس مقصد سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس مختصر زندگی میں جتنی زیادہ وقت کی قدر کی جائےگی اتنا ہی زیادہ زندگی کا مقصد حاصل کرنا آسان ہوگا اور وقت کی جتنی ناقدری کی جائےگی، ہم زندگی کے مقصد سے اتنا ہی دور ہوتے جائیں گے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ کوئی چیز اگر اپنے مقصد سے ہٹ کر استعمال کی جاتی ہے تو اس میں خرابیاں بڑھتی جاتی ہیں، مثلاً جوتوں کا مقصد ان کو پہننا ہے تاکہ پیر محفوظ رہیں، اب اگر کوئی جوتوں کو شاپر میں ڈال کر پیادہ گھومے پھرےگا تو اس کے پیر زخمی ہو جائیں گے اور کچھ وقت کے بعد وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو جائےگا۔ کیونکہ اس نے جوتوں کے استعمال کو نہیں سمجھا۔ ٹھیک اسی طرح زندگی کا واحد مقصد اللہ کی مرضی اور جنت کا حصول ہے، اس مقصد سے زندگی گزاری جائےگی تو زندگی آسان ہوگی، پھر ایسے شخص کے لیے عبادت کرنا، نیکی کرنا، صبر کرنا، لوگوں کی خدمت کرنا، حلال کا اہتمام کرنا وغیرہ سب آسان ہوجائےگا۔ اور اگر کوئی زندگی کے مقصد کو بھول کر عالی شان گھر، منصب، شہرت، دولت وغیرہ کو ہی اپنا مقصد بنا لے تو وہ جلد پریشان ہوجائےگا، گھریلو مسائل کا سامنا نہیں کر سکے گا، کچھ وقت کے بعد دولت کی کمی سے گلے شکوے کرےگا اور کچھ وقت کے بعد بیماریوں میں گزار کر اس کا کھیل ختم ہوجائےگا۔ اگر یہ دنیا انھی کاموں کے لیے ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس دنیا کو اس قدر مسائل کے ساتھ نہ بناتے اور اتنی ہی اچھی ہوتی تو زندگی اتنی مختصر نہ بناتے۔ دنیا اور انسان دونوں کی زندگی ختم ہونے والی ہے، تبھی اللہ پاک نے آخرت کا نظام پیدا کیا، تاکہ تم یہاں اپنے مقصد کو سامنے رکھ کر اس میں کامیابی حاصل کرو۔

زندگی کیا ہے ؟

زندگی کسے کہتے ہیں؟ یہ جو ہماری زندگی کے مختلف دور ہیں، مثلاً بچپن، لڑکپن، جوانی، ادھیڑ عمر، ضعیفی اور بڑھاپا وغیرہ یہ سب زندگی کہلاتے ہیں۔ اور یہ مختلف دور وقت کی ہی پیداوار ہیں اور وقت جسے ہم گھڑی اورکیلنڈر وغیرہ میں دیکھتے ہیں جس میں سیکنڈ، منٹ، گھنٹہ، دن، رات، ہفتہ، مہینا، سال ہمیں نظر آتے ہیں، یہ وقت ہی کی پیداوار ہیں اور یہی وقت ہی زندگی ہے۔ عربی مقولہ ہے کہ: الوقت هو الحیاة، وقت ہی زندگی ہے۔ لہٰذا جو اچھی اور بامقصد زندگی گزارنا چاہتا ہے وہ زندگی کی قدر کرے۔ اور زندگی کی قدر کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ وقت کی قدر کی جائے اور وقت کی قدر کرنے مطلب اپنے ایک ایک سیکنڈ کی قدر کی جائے، جو سیکنڈ کی قدر کرے گا وہ منٹ اور گھنٹوں کی قدر کرے گا اور پھر اسی طرح دن رات، ہفتہ، مہینا، سال بھر کی قدر کرنا آسان ہوجائےگا۔ معلوم ہوا کہ جو اپنا سیکنڈ ضائع کرتے ہیں وہ درحقیقت اپنی زندگی ضائع کررہے ہوتے ہیں۔ حکما فرماتے ہیں کہ گھڑی کا سیکنڈ کانٹا ٹک ٹک کر کے ہمیں خبردار کر رہا ہوتا ہے کہ میں بظاہر آگے جا رہا ہوں، لیکن تمہاری زندگی کم کرتا جا رہا ہوں۔ وقت ہمیں موت کی طرف دھکیلتا جا رہا ہے، عربی محاورہ ہے کہ: الوقت کالسیف، فإن لم تقطعه لقطعک، ’’وقت تلوار کی طرح ہے اگر تم نے اسے اچھا استعمال کر کے نہیں کاٹا تو یہ تمھیں کاٹ لے گا‘‘۔ اور وقت کی کاٹ ایسی ہے جس سے کوئی نہیں بچ سکتا، بچہ، جوان، بوڑھا، بادشاہ، امیر، غریب، سب اس کی زد میں آجاتے ہیں اور یہ بڑی بے رحمی سے اپنا کام تمام کر لیتا ہے:

سدا عیشِ دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

شاعر کا مقصد یہ ہے کہ وقت ایک مرتبہ ہاتھ سے نکل جائے تو دوبارہ ہاتھ نہیں آتا، آج کا وقت نکل گیا تو دوبارہ موت تک نہیں آئےگا۔ اس کی وضاحت اس شعر میں اور زیادہ عمدہ طریقے پر کی گئی ہے:

ہو رہی ہے عمر مثلِ برف کم
چپکے چپکے رفتہ رفتہ دم بدم

جو اپنے آج کی فکر کرےگا اور اپنے عمل کو سدھارےگا اس کا حال خود بخود درست ہوجائےگا۔ جس کا حال درست ڈگر پر ہے تو کچھ وقت کے بعد یہی حال ماضی بن چکا ہوگا اور اس طرح ماضی بھی ٹھیک ہوجائےگا۔ اور اسی طرح استقامت کے ساتھ چلتا رہے تو یہی حال مستقبل میں بدل جائےگا۔ اس طرح ’’آج‘‘ کی فکر کرنے والے شخص کا ماضی، حال اور مستقبل تینوں سنور جائیں گے اور اسے ماضی کا پچھتاوا، مستقبل کا اندیشہ نہیں رہےگا اور ان سب کا دار و مدار آج پر ہے۔

وقت کے ضیاع سے بچنے کی ضرورت

موجودہ دور میں ہمارے وقت کو ضائع کرنے والی سب سے بڑی چیز ہم سب کی جیبوں میں موجود ”موبائل“ کی صورت میں چھوٹا سا آلہ ہے، جو ہمیں وقت بے وقت اپنے ساتھ مصروف کر لیتا ہے اور ہم لاشعوری طور پر اس موبائل کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ موبائل کے بغیر ہمیں زندگی ادھوری معلوم ہوتی ہے۔ موبائل کے فوائد اپنی جگہ، لیکن ان دو چار فوائد کے چکر میں اس بلا جیسی ایجاد نے ہمارے عقائد و نظریات، عبادت وریاضت، اخلاق و اقدار، معاشرتی تعلقات اور سب سے بڑی چیز ہماری زندگی کو تہس نہس کر دیا ہے۔ اور اس آلے نے پوری انسانیت کو سوشل میڈیائی مصنوعی انسان میں بدل دیا ہے، جو کہ ریلز اور ویڈیوز کو دیکھتے ہوئے اپنے ناقابلِ واپسی وقت کو ضائع کرتا جا رہا ہے۔

قرآن وسنت میں وقت کی قدر و قیمت

الله رب العزت نے قرآنِ حکیم میں بہت سے مقامات پر وقت ضائع کرنے کی بہت ہی شدت کے ساتھ مذمت بیان فرمائی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿قَدْ أَفْلَحَ الْمُوْمِنُوْنَ* الَّذِیْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ* وَالَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ﴾ (مؤمنون، آیات:۱تا ۳) ’’وہ ایمان والے کامیاب ہو چکے جو اپنی نماز میں خشوع کا اہتمام کرتے ہیں اور بے مقصد فضول کاموں کو نظر انداز کرنے والے ہوتے ہیں‘‘۔ الله رب العزت نے ایمان والوں کی ایک اہم خوبی یہ بتلائی کہ وہ ایسے کاموں سے خود کو بچاتے ہیں جن میں نہ دین کا کوئی فائدہ ہے اور نہ دنیا کا۔ ایسے کام جن میں وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور زندگی بھی ضائع ہوتی ہے۔ سورۃ الفرقان میں الله رب العزت نے ”عبادالرحمٰن“ کے عنوان سے اپنے خاص بندوں کی کچھ خوبیاں بیان فرمائی ہیں، جن میں ایک خوبی یہ بیان فرمائی کہ: ﴿وَإِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا﴾ (الفرقان:۷۲) ’’اور جب کسی فضول معاملے کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں‘‘۔ یعنی جب ایمان والوں کا گزر کسی ایسی جگہ سے ہوتا ہے جہاں فضول کام ہورہے ہوں اور وقت ضائع کیا جا رہا ہو تو ایسی جگہ سے وقار کے ساتھ گزرتے ہوئے وہاں سے رخصت ہوجاتے ہیں، وہاں ٹھہرنا پسند نہیں کرتے۔ الله رب العزت سورۃ القصص میں فرماتے ہیں کہ: ﴿وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ وَقَالُوْا لَنَآ أَعْمَالُنَا وَلَکُمْ أَعْمَالُکُمْ، سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ لَا نَبْتَغِي الْجٰهِلِیْنَ﴾ (سورة القصص: ۵۵) ’’اور جب وہ کوئی بےہودہ بات سنتے ہیں تو اسے ٹال جاتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ: ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال۔ ہم تمھیں سلام کرتے ہیں، ہم نادان لوگوں سے الجھنا نہیں چاہتے‘‘۔ اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ ایک مومن مسلمان ایک ذمے دار انسان ہوتا ہے، اسے حساب دینے کی فکر مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے وقت اور اپنی صلاحیت کو غلط جگہ استعمال ہونے سے بچائے۔ لہذا ان کے کانوں میں جیسے ہی کوئی فضول بات پڑتی ہے، جیسے غیبت، حسد، گالیاں، بے حیائی کا تذکرہ، گانے بجانے، میوزک وغیرہ تو وہ ایمان والے وہاں توجہ نہیں لگاتے اور اپناقیمتی وقت برباد نہیں کرتے۔ یہ وقت جو ہمیں ملا ہے یہ کتنا قیمتی ہے اس کا احساس تب ہوگا جب ہمارے پاس مہلت ختم ہو جائےگی۔ اس کا اندازہ الله رب العزت کے اس ارشاد سے بخوبی کیا جا سکتا ہے: ﴿وَلَوْ تَرٰٓی إِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاکِسُوْا رُء ُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَل صَالِحًا إِنَّا مُوْقِنُوْنَ﴾ (السجدة:۱۲) ’’اور کاش تم وہ منظر دیکھو جب یہ مجرم لوگ اپنے رب کے سامنے سر جھکائے ہوئے (کھڑے ) ہوں گے، (کہہ رہے ہوں گے کہ) ہمارے پروردگار! ہماری آنکھیں اور کان کھل گئے، اس لیے ہمیں (دنیا میں) دوبارہ بھیج دیجیے، تاکہ ہم نیک عمل کریں۔ ہمیں اب اچھی طرح یقین آ چکا ہے‘‘۔

رسول اللهﷺایک حدیثِ مبارکہ میں اسلام کی خوبی یوں بیان فرماتے ہیں کہ: «مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْء ِ تَرْکُهُ مَا لَایَعْنِیه» (ترمذی) ’’کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی اور فضول باتوں کو چھوڑ دے‘‘۔ مسلمان جب اسلام کا نام لیوا ہے تو اس کے مسلمان ہونے کی بہت سی خوبیوں میں سے ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ مسلمان اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی بدولت فضولیات سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح ایک جگہ ارشاد ہے: «نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِیهِمَا کَثِیرٌ مِنَ النَّاسِ الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ» (بخاری) ’’دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان نعمتوں کے حوالے سے دھوکے کا شکار ہیں: صحت اور فرصت‘‘۔ یہ دو نعمتیں ہیں تو بہت بڑی، لیکن ان سے متعلق ایسا لگتا ہے کہ انسان بس یہ سمجھنے میں اپنے روز و شب گزارتا ہے کہ یہ نعمتیں ہمیشہ میرا ساتھ دیں گی۔ فرصت کے جو لمحات آج میسر ہیں وہ ہمیشہ نہیں رہیں گے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے ہماری مصروفیت بڑھتی جاتی ہے اور زندگی کے ان لمحات کو یاد کر کے خود کو کوستے ہیں کہ کاش! میں فرصت کے لمحات کی کچھ قدر کرتا اور اپنے وقت کو کسی بہتر مشغلے میں لگاتا، کیونکہ آج جب کہ میں بہت کچھ کرنا چاہتا ہوں اور کر بھی سکتا ہوں، لیکن زندگی کے جھمیلے مجھے کچھ اور کرنے ہی نہیں دیتے۔ فرصت کے جو لمحات تمھیں میسر ہیں ان کی قدر کرو اور فرصت کو زیادہ کمانے، زیادہ عیش و آرام کے چکر میں گنواؤ مت، بلکہ ان لمحات کو زیادہ سے زیادہ اپنی آخرت بنانے میں لگادو، ورنہ ایک وقت آئےگا کہ تمہارے پاس اسباب کی بھرمار ہوگی، لیکن ان سے لطف اندوز ہونے کا وقت نہیں ہوگا۔

وقت کی قدر کریں اس سے پہلے کہ وہ باقی نہ رہے

موجودہ دور میں جن لوگوں کو زیادہ ترقی یافتہ سمجھا جاتا ہے ان کے گھریلو حالات معلوم کرکے انسان حیرت زدہ ہوجاتا ہے کہ کسی نے سالوں سے اپنے بچوں کو نہیں دیکھا، کوئی اپنی ازدواجی زندگی سے محروم ہو چکا اور کوئی اپنے والدین کی خدمت کے لیے وقت نکالتے نکالتے ان کے جنازے تک نہیں پہنچ سکا۔ وہ مصروفیت کس کام کی جو ہمیں کسی کی خوشی میں شریک نہ کر سکے، وہ عیش و آرام کس کام کا جس کے حاصل کرتے کرتے انسان اپنی صحت سے ہاتھ دھو بیٹھے، وہ آرام دہ کمرہ کس کام کا جو ہمیں سکون کی نیند نہ دلا سکے۔ لہٰذا صحت اور فرصت کے لمحات کی بھرپور قدر کی جائے اور ان تمام کاموں کو آج ہی سے کیا جائے جن کے نہ کرنے پر کل پرسوں ہم حیران پریشان اور پچھتاوے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ رب تعالیٰ نے تمھیں فرصت کے لمحات دیے ہیں ان کی قدر کرو، اس سے پہلے کہ مصروفیت بہت بڑھ جائے اور بہت تیزی کے ساتھ تم ایسے مصروف ہو جاؤ کہ کچھ کرنا چاہو بھی تو نہ کر سکو اور پھر سب سے بڑی بات اللہ نے تمھیں زندگی دی ہے اس زندگی کو موت کے جھٹکے سے پہلے پہلے تول تول کر خرچ کرو۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے عمل کو آج اور ابھی سے بدلنے کی جستجو کی جائے، اسے کل پر ٹالا نہ جائے۔ اسی لیے علما فرماتے ہیں کہ ہمارے دل میں جب کسی نیک کام کے کرنے کا خیال آتا ہے تو یہ خیال درحقیقت اللہ کی طرف سے مہمان ہوتا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ مہمان جب میزبان کے پاس جاتا ہے اور وہ میزبان اچھے سے مہمان نوازی کرتا ہے تو مہمان کا دل کرتا ہے کہ میں دوبارہ جاؤں اور اگر میزبان اپنے مہمان کو نظر انداز کرے تو مہمان بدظن ہو کر دوبارہ اس میزبان کے پاس جانا پسند نہیں کرتا۔ اسی طرح جب دل میں نیکی کا خیال آتا ہے تو یہ بھی اللہ کی طرف سے ایک مہمان ہوتا ہے اگر اس پر عمل کیا جائے تو یہ خیال بار بار آتا ہے اور اگر اس خیال کو جھٹک دیا جائے اور یہ کہہ کر ٹال دیا جائے کہ کل یا پرسوں کروں گا، ذرا میرا فلاں کام ہو جائے، ذرا یہ مصروفیت نمٹ جائے۔ شیطان جب کسی مسلمان کو وسوسہ دیتا ہے تو اسے کبھی بھی یہ نہیں کہتا کہ تم نماز نہ پڑھو، بلکہ وہ یوں کہتا ہے کہ نماز پڑھنا بہت اچھی بات ہے، ضرور پڑھنی چاہیے، لیکن تم کل سے پڑھ لینا، جمعے کے مبارک دن سے نہا دھو کر شروع کر دینا یا رمضان المبارک کے مہینے میں شروع کر دینا اور وہ ”کل“ موت تک دوبارہ نہیں آتا۔

معمولات کو منظم کریں

سب سے پہلے وقت کی قدر کا احساس اپنے اندر بیدار کیا جائے۔ مجھ میں کس کام کے کرنے کی صلاحیت زیادہ ہے اسے سمجھا جائے۔ پھر اسی کو اپنا نصب العین بنایا جائے۔ دن بھر میں کچھ نہ کچھ سیکھنے کے لیے ضرور وقت نکالا جائے، چاہے وہ کورس، مطالعہ وغیرہ ہو۔ وقت میں بے برکتی کی سب سے بڑی وجہ وقت کو منظم نہ کرنا ہے، کس وقت کیا کرنا ہے؟ یہ طے ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر ہم اپنے موڈ کے مطابق کام کرتے رہیں گے تو وہ کبھی ٹھیک سے نہیں ہو سکیں گے اور ایک کام کی وجہ سے دوسرے بہت سے کام متاثر ہو جائیں گے۔ کامیاب زندگی گزارنے کے لیے لازم ہے کہ اپنے وقت کو اس انداز سے تقسیم کیا جائے کہ اس میں کوئی بھی ضروری مصروفیت رہ نہ جائے۔ بلکہ سب معاملات کو ضرورت کے مطابق وقت دیا جا سکے، کسی ایک کام کو زیادہ وقت دینا اور دوسرے کام کو معمولات سے خارج کرنا، ناکام طرزِ زندگی کی علامت ہے۔ معمولات کو منظم کرنے کا بہترین طریقۂ کار یہ ہے کہ ہم اپنے اوقات کو تقسیم کریں کہ ہم نے آج کے دن چوبیس گھنٹوں کو کس طرح استعمال کرنا ہے۔ چوبیس گھنٹے کوئی کم وقت نہیں ہے۔ پھر اس کا جائزہ لینا ہے کہ ہم متعین کام میں کس حد تک کامیاب ہوئے اور مزید اس میں کتنی بہتری کی گنجائش ہے۔ جب ہم اس طرح سوچنا شروع کریں گے تو ہمارے اوقات میں خود بخود نظم پیدا ہو جائےگا۔

لرننگ پورٹل