شمس الرحمٰن فاروقی
اکبرؔ الٰہ آبادی، نو آبادیاتی نظام اور عہدِ حاضر
اکبر الٰہ آبادی کے بارے میں چند باتیں عام ہیں۔ ہم انھیں دو حصوں میں منقسم کر کے مختصراً یوں بیان کر سکتے ہیں:
(۱)اکبر طنز ومزاح کے بڑے شاعر تھے۔ (۲) وہ حریت پسند تھے۔ (۳) انھوں نے انگریز کی مخالفت میں پرچم تو نہیں اٹھایا لیکن بہت سی انگریز مخالف باتیں ضرور لکھیں۔
دوسرے حصے میں حسب ذیل باتیں ہیں:
(۱) وہ ترقی کے مخالف تھے، یعنی انگریزی تعلیم کے مخالف تھے۔ (۲) انگریزی تعلیم ہی نہیں، وہ تمام جدید چیزوں، مثلاً ریل، تار، چھاپہ خانہ، ٹیلی فون، صنعت وحرفت، ان سب کے مخالف تھے۔ (۳) وہ جدید تہذیب کے اداروں، مثلاً سیاسی پارٹی، کانفرنس، کونسل، کونسل کی ممبری وغیرہ ان سب کے مخالف تھے، حالانکہ یہ چیزیں دراصل ہمارے لیے آزادی کا پیش خیمہ تھیں۔ (۴) وہ عورتوں کی تعلیم اور آزادی کے بھی مخالف تھے۔ (۵) لہٰذا وہ رجعت پرست تھے، نئی روشنی کے دشمن تھے اور آج ان کی شاعری ہمارے مطلب کی نہیں ہے۔
مندرجہ بالا باتوں میں سے سب نہیں تو زیادہ تر باتیں اکبر کے موافقین بھی کہتے ہیں، یعنی اکبر کے موافقین کی نظر میں بھی اکبر ایک مزے دار طنزیہ مزاحیہ شاعر تھے، لیکن ان کا پیغام اب ہمارے لیے نقصان دہ نہیں تو بےمعنیٰ ضرور ہے۔ قمر رئیس صاحب نے تو حال میں یہ بات بھی کہی ہے کہ جوش ملیح آبادی کا اکبر سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہو سکتا کیونکہ جوش تو اکبر سے بہت ہی زیادہ بڑے شاعر ہیں۔ دوسری بات جس پر اکبر کے چاہنے والے اور اکبر سے چڑنے والے دونوں متفق ہیں، یہ ہے کہ طنزیہ شاعری کی عمر یوں بھی زیادہ نہیں ہوتی۔ جب اسبابِ طنز نہ رہیں تو طنز بھی اپنی قوت اور معنیٰ کھو دیتا ہے، لہٰذا اکبر کا المیہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی زیادہ تر تخلیقی قوت طنز ومزاح میں صرف کی۔ وہ مسائل نہ رہے جن کو انھوں نے اپنے طنز کا موضوع بنایا تھا تو وہ طنز بھی نہ رہا، صرف کتابی بات ہو کر رہ گیا۔ میرا معاملہ یہ ہے کہ میں اکبر کو اردو کے پانچ سب سے بڑے شاعروں میں شمار کرتا ہوں اور دنیا کے طنزیہ مزاحیہ ادب میں اکبر کا مقام بہت بلند سمجھتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اکبر کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا اور ان کے کلام کو سطحی طور پر یا سرسری پڑھ کر یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ وہ ایک قدامت پسند بوڑھے تھے۔ اگرچہ جذبۂ حریت ان میں ضرور تھا اور اپنے طنز کو انھوں نے سماجی اصلاح کے مقصد کے لیے استعمال تو کیا، لیکن انھوں نے یہ نہ سوچا کہ اصلاح اور ترقی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ترقی کے خلاف رہیں تو اصلاح نہیں ہو سکتی۔ اس کے برعکس میرا خیال یہ ہے کہ اکبر پہلے شخص ہیں جن کو بدلتے ہوئے زمانے، اس زمانے میں اپنی تہذیبی اقدار کے لیے خطرہ اور انگریزی تعلیم و ترقی کو انگریزی سامراج کے قوت مند ہتھیار ہونے کا احساس شدت سے تھا اور انھوں نے اس کے مضمرات کو بہت پہلے دیکھ لیا تھا۔ اس معاملے میں مہاتما گاندھی اور اقبال بھی ان کے بعد ہیں۔ ہونا بھی چاہیے، کیونکہ اکبر کی پیدائش ۱۸۴۶ء کی ہے، مہاتما گاندھی ۱۸۶۹ء میں پیدا ہوئے اور اقبال ۱۸۷۷ء میں۔ میں نے ایک مضمون میں اسی تہذیبی بحران کا ذکر کیا ہے جس کا احساس اکبر کو تھا اور جس کی بنا پر انھوں نے انگریزی سامراج کی علامتوں کو مطعون کیا۔ آج کی صحبت میں اس سے ذرا مختلف مضمون بیان کرنا مقصود ہے، یعنی اکبر دراصل محض غیر ملک کی غلامی کے خلاف نہیں تھے، بلکہ وہ نوآبادیاتی نظام کے خلاف تھے اور انھوں نے سرمایہ داری اور نوآبادیاتی نظام میں مضمر کئی بنیادی خطرات کو محسوس کر لیا تھا۔ وہ صرف رسماً انگریز مخالف نہیں تھے اور نہ ہی وہ محض قدامت پرستی کی بنا پر مغربی تہذیب کے خلاف تھے۔
کچھ دن ہوئے الٰہ آباد میں ایک سیمینار ’’اکبر الٰہ آبادی اور نوآبادیاتی تجربہ‘‘ کے بارے میں ہوا تھا۔ اس سیمینار میں فضیل جعفری نے اکبر کو محض روایتی قدامت پسند نہیں بلکہ روشن خیال قوم پرست ثابت کیا۔ ہندی کے مشہور نقاد راجندر کمار نے اپنے مضمون میں مہاتما گاندھی کی کتاب Hind Swarajمطبوعہ ۱۹۰۸ء کا ذکر کیا جس میں گاندھی جی نے ریل گاڑی اور تار وغیرہ کے بارے میں بہت سی باتیں ایسی کہی ہیں جو اکبر کہتے تھے۔ راجندر کمار نے مہاتما گاندھی کی کتاب کے پہلے کی ایک مراٹھی کتاب ’’دیشیر کتھا‘‘ مطبوعہ ۱۹۰۴ء کا بھی ذکر کیا جس کے مصنف گنیش سکھا رام دیوسکر (Ganesh Sakharam Devaskar) نے بھی تار، ریل، جدید ذرائعِ تجارت وغیرہ کو اصلاً انگریزی راج کے ہتھکنڈوں سے تعبیر کیا اور کہا کہ یہ وسائل دراصل نوآبادیاتی حاکم کی قوت کو پھیلاتے اور مضبوط کرتے ہیں۔ دیوسکر کا ترجمہ ہندی میں ہو چکا ہے اور میں اس کی رسمِ اجرا میں شریک تھا۔ افسوس کہ اردو والے ابھی بظاہر اس سے بے خبر ہیں۔ راجندر کمار کا کہنا یہ نہیں ہے کہ مہاتما گاندھی اور یا گنیش سکھا رام دیوسکر نے اکبر کو پڑھا ہوگا اور نہ ہی میں یہ کہتا ہوں۔ میں نے اپنے مضمون مطبوعہ 2002ء میں یہی کہا تھا کہ اکبر کو نوآبادیاتی اور سامراجی نظام کی تخریبی قوتوں کا احساس تھا، ورنہ وہ یوں ہی محض قدامت پرستی کی ضدم ضدا میں یہ نہیں کہتے تھے:
پانی پینا پڑا ہے پائپ کا
حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا
پیٹ چلتاہے آنکھ آئی ہے
شاہ ایڈورڈ کی دہائی ہے
اکبر کی پہلی عظمت اس بات میں ہے کہ مہاتما گاندھی اور اقبال دونوں نے مغرب اور اس کی تہذیب اور تعلیم کو براہِ راست اور بہت قریب سے دیکھا تھا، لیکن اکبر نے ملک کے باہر جائے بغیر اس تہذیب اور تعلیم کی علامتوں اور مضمرات کو سمجھ لیا۔ اکبر کے خلاف یہ الزام صحیح ہے کہ وہ عورتوں کی تعلیم اور آزادی کے خلاف تھے، بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ وہ عورتوں کی انگریزی تعلیم اور بےپردگی کے خلاف تھے، اصلاً تعلیم کے خلاف نہ تھے۔ لیکن یہ تو ان کے زمانے کے زیادہ تر ہندوستانی مسلمانوں کا موقف تھا، اکبر اکیلے اس کے مجرم نہیں: ایں گناہیست کہ در شہر شما نیز کنند۔ اقبال کا مشہور قطعہ آپ سب کے ذہن میں ہوگا:
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈلی قوم نے فلاح کی راہ
روشِ مغربی ہے مدِّ نظر
وضعِ مشرق کو جانتے ہیں گناہ
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
لہٰذا اگرچہ تعلیم وآزادیِ نسواں کے بارے میں اکبر کے خیالات سے میں اتفاق نہیں کرتا، لیکن یہ خیالات اس زمانے میں بہت متداول تھے۔ اکبر کی بڑائی ان باتوں میں ہے جو صرف اور صرف انھوں نے سب سے پہلے دیکھیں اور محسوس کیں۔ اکبر نے بقول محمد حسن عسکری مشرق اور مغرب کا تصادم صرف ہندوستان نہیں بلکہ پورے ایشیا (اور آج کی زبان میں کہیں تو تیسری دنیا) کے نقطۂ نظر سے دیکھا۔ مغربی تہذیب کے لیے اکبر نے بعض الفاظ وضع کیے، مثلاً برگڈ (Brigade)، کمپ (Camp)، توپ، انجن، وغیرہ جو علامت کا حکم رکھتے ہیں اور جن کی کارفرمائی ہم آج بھی دیکھ سکتے ہیں۔ برگڈ سے ان کی مراد وہ ہندوستانی تھے جو انگریزوں کے وفادار تھے اور کمپ سے ان کی مراد مغربی معاشرت تھی۔ توپ، استعماری قوت کے اظہار، اور انجن اس قوت کو پھیلانے والے ذرائع کا استعارہ ہیں۔ عسکری صاحب نے بہت درست کہا ہے کہ اکبر اس زمانے میں واحد شخص تھے جنھوں نے انگریزوں کی لائی ہوئی چیزوں میں استعارے اور علامتیں دیکھیں اور اکبر کے سوا کوئی ایسا نہ ہوا جو ’’نشان‘‘ کو ’’علامت‘‘ کا درجہ دینے میں کامیاب ہوا ہو۔ مغرب یا انگریز کی مخالفت اکبر کے یہاں ایک مکمل نظامِ فکر کے تحت ہے۔ یہ کوئی فیشن ایبل، چلتی ہوئی بات پر مبنی رویہ نہیں ہے۔ مغربی تعلیم کے بارے میں ان کی پہلی شکایت یہ تھی کہ یہ انسان کو ’’صاحبِ دل‘‘ نہیں بناتی، صرف نوکری کے کام کا رکھتی ہے۔ اکبر کو لارڈ میکالے (Macaulay Lord ) کے اس نوٹ کی خبر نہ رہی ہوگی جو اس نے ۱۸۳۵ء میں تحریر کیا تھا کہ ہم ہندوستانیوں کو انگریزی پڑھا کر ایسی نسل پیدا کریں گے جو رنگ میں کالی لیکن دل سے انگریز ہوگی، تاکہ ہم اس سے اپنی ضرورت کے مطابق کام لے سکیں اور ہمارا نقصان بھی نہ ہو۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اکبر کو مغربی تعلیم کی انگریزی پالیسی کے مضمرات کا پورا احساس تھا۔ نئی تعلیم کے بارے میں اکبر کے خیالات دیکھیے:
نئی تعلیم کو کیا واسطہ ہے آدمیّت سے
جناب ڈراون کو حضرتِ آدم سے کیا مطلب
یہاں اقبال کا شعر یاد آتا ہے:
آدمیّت احترامِ آدمی
با خبر شو از مقامِ آدمی
جدید تعلیمی نصاب انسانوں کو صاحب تو بنا دیتا ہے، آدمی نہیں بناتا ہے، اس کام کے لیے روحانی اور ذہنی تصرف کے ساتھ انسان دوست (Humane) تعلیم درکار ہے:
کورس تو لفظ ہی سکھاتے ہیں
آدمی آدمی بناتے ہیں
جستجو ہم کو آدمی کی ہے
وہ کتابیں عبث منگاتے ہیں
کتابوں سے آدمی نہیں بنتا، کیونکہ نوآبادیاتی تعلیم میں انسانیت کی روح اور امتیازِ حق وباطل کی صفت نہیں ہے۔ وہ ایک طرح سے بےذہن کی مشین Machine Mindless ہے جو ہم پر مسلط کر دی گئی ہے:
آگے انجن کے دین ہے کیا چیز
بھینس کے آگے بین ہے کیا چیز
یہاں انجن استعارہ ہے نوآبادیاتی سامراجی طاقت کی بے امتیاز قوت کا اور دین استعارہ ہے مشرقی روحانیت کا۔ ان دونوں میں وہی تعلق ہے جو بھینس اور بین میں ہے۔ آدمیّت کے موضوع پر اکبر کے مندرجہ ذیل دو شعر بھی یاد رکھنے کے قابل ہیں۔ وکٹوریائی تعلیم اور فلسفہ یہ سبق پڑھاتے تھے کہ مغربی تہذیب اور زندگی اور علم، سب ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ فطرت (Nature) چونکہ اسی کو جینے کا حق دیتی ہے جو سب سے قوی ہو، لہٰذا مغربی تہذیب کی ترقی ثابت کرتی ہے کہ مغرب سب سے زیادہ مرتقیٰ ہے۔ اس پر اکبر کہتے ہیں:
یا الٰہی یہ کیسے بندر ہیں
ارتقا پر بھی آدمی نہ ہوئے
اکبر کا شعر ہے:
کتابِ دل فقط کافی ہے اکبر درسِ حکمت کو
میں اِسپنسر سے مستغنی ہوں، مجھ سے مِل نہیں ملتا
اس بات سے قطعِ نظر نہ کیجیے کہ یہ دو نام یوں ہی نہیں لائے گئے ہیں۔ اسپنسر(Spencer Herbert ) مادیت کے فلسفے کا حامی تھا اور مل (John Stuart Mill) کی سب سے اہم کتاب On Liberty تھی۔ مادیت کے بھروسے پر سائنس اور تجارت نے ترقی کی اور آزادی کے تصورکے بہانے سے اقوام کو غلام بنایا گیا کہ وہ ابھی اس آزادی کے لائق نہیں ہوئے ہیں جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں اور ہم جسے قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح کے نظریوں نےWhite Man’s Burden جیسے فقروں کو جنم دیا۔ اہلِ یورپ اور اہلِ ایشیا دونوں سے مخاطب ہو کر اکبر کہتے ہیں:
عیسیٰ نے دلِ روشن کو لیا اور تم نے فقط انجن کو لیا
کہتے ہو کہ وہ تھے باپ سے خوش اور تم ہو خالی بھاپ سے خوش
لفظ ’’خالی‘‘ اور ’’بھاپ‘‘ پر غور کیا جائے۔ بھاپ دراصل گرم ہوا ہے اور انگریزی میں فضول باتوں کو Hot airکہتے ہیں۔ بھاپ کے معنیٰ Vapor بھی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ جدید ایٹمی بم جہاں گرےگا وہاں کی ہر چیز دور دور تک vaporize ہو جائےگی یعنی بھاپ بن جائےگی۔ ایٹم بم کے پہلے بھی ایسے بم ایجاد ہو گئے تھے جو کسی بڑے رقبے کو نہیں تو چھوٹے ہی رقبے کو خاکِ سیاہ کر کے بھاپ میں تبدیل کر دیتے تھے۔ خالی بھاپ کی معنویت اب واضح ہے کہ یہ دراصل بے حقیقت اور معنویت سے خالی ہے۔ ’’کتابِ دل‘‘، ’’دلِ روشن‘‘ کے بعد اب ’’روح کی رہِ مستقیم‘‘ کے بارے میں اکبر کو سنیے:
برق وبخارات کا زور اے حکیم
کب ہے پئے روحِ رہِ مستقیم
تار پہ جاتے نہیں اہلِ نظر
ریل سے کھنچتا نہیں قلبِ سلیم
’’روح کی رہِ مستقیم‘‘ کے بعد اکبر صرف روح اور اس کے ساتھ عقل کی بات کرتے ہیں کہ جدید تعلیم نے ان دونوں یعنی روح اور عقل کو مغربی اصولوں کا غلام بنا دیا ہے:
عقل سپردِ ماسٹر مال سپردِ آنجناب
جان سپردِ ڈاکٹر روح سپردِ ڈارون
جیساکہ ٹائٹس برک ہارٹ) (Titus Burckhardt نے کہا ہے، پہلے زمانے کی تعلیم وہ تھی جو انسان کو پہلے ’’حکمت‘‘ (Wisdom) سکھاتی تھی اور پھر اسے درجۂ کمال (Perfection) تک پہنچاتی تھی۔ اکبر کہتے ہیں کہ جدید تعلیم ہمیں صرف بازار کا مال (Merchandise) بنا دیتی ہے اور ہمیں سرکار کی گوں کا آدمی بناتی ہے۔ میکالے کا قول ذہن میں رکھیے اور یہ شعر سنیے:
تعلیم جو دی جاتی ہے ہمیں وہ کیا ہے فقط بازاری ہے
جو عقل سکھائی جاتی ہے وہ کیا ہے فقط سرکاری ہے
یہ علم بازاری اور یہ عقل سرکاری کیوں نہ ہوں، جب اصل حال یہ ہو کہ:
اس کا پسیجنا ہے اور اس کے ہیں بھپارے
یورپ نے ایشیا کو انجن پہ رکھ لیا ہے
محاورہ ہے ’’تلوار پر رکھ لینا‘‘۔ اکبر سارے مشرق کو مغربی انجن پر سوار دیکھتے ہیں، گویا یورپ نے مشرق کو اپنی صنعت وحرفت کی تلوار پر رکھ لیا ہے یا مال کی طرح لاد لیا ہے۔ سچ ہے:
مال گاڑی پہ بھروسا ہے جنھیں اے اکبر
ان کو کیا غم ہے گناہوں کی گراں باری کا
یعنی اصل چیز تو مال اور مال برداری ہے لیکن بات تعلیم کی ہو رہی تھی۔ یہ تعلیم ہندوستانی یا ایشیائی ذہن کو کیا دیتی ہے، اکبر سے سنیے:
پیری سے کمر خم ہے پہ فرماتے ہیں تن جا
قابو میں نہیں ہاتھ تو کیا ہو سکے پنجہ
وسعت ہے درِ علم میں، ہے راہِ عمل بند
ہے صاف سڑک، پاؤں پہ لیکن ہے شکنجہ
یعنی یہ تعلیم ذہن کو تیز تو کر سکتی ہے، لیکن عقل نہیں دیتی کہ اس علم کو استعمال کرنے کی توفیق ہو اور نو آبادیاتی حاکم تعلیم کے ساتھ ساتھ پاؤں میں بیڑیاں بھی ڈال دیتا ہے کہ قوتِ عمل ساقط ہو جائے۔ اس موضوع پر اکبر نے بعض حیرت انگیز طور پر جدید باتیں کہی ہیں۔ اوپر کے دو شعروں پر ذرا ٹھہریے اور پھر اکبر کا ایک شعر اور ایک رباعی سنیے:
دیا سلائی کی تیزی تو آ گئی ہم میں
کسر یہی ہے کہ ڈبیا انھی کی جیب میں ہے
لفظ ’’تیزی‘‘ کو دھیان میں رکھیے، اب رباعی ملاحظہ ہو:
اکبر مجھے شک نہیں تری تیزی میں
اور تیرے بیان کی دل آویزی میں
شیطاں عربی سے ہند میں ہے بے خوف
لاحول کا ترجمہ کر انگریزی میں
لاحول کا ترجمہ انگریزی میں کرنے کی تلقین میں دونوں طرف طنز ہے۔ ہندوستانی پر طنز، کہ وہ قدیم علوم کی خوبیوں کو انگریز کے سامنے بیان کرنا جانتا نہیں، اپنی قوتوں کو بھول چکا ہے اور انگریز پر طنز کہ وہ اپنے علاوہ کسی کی بات سمجھنے سے قاصر ہے۔ اکبر اس نکتے سے واقف تھے جسے آج کی زبان میں Syndrome Stockholm کہا جاتا ہے یعنی محبوسی اور مجبوری کی وہ صورتِ حال جس میں قیدی کو اپنے قید کرنے والے سے ایک لگاؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ حتی کہ اغوا، یا قید کیا ہوا شخص خود اپنے اغواکار، یا قید کرنے والے کو اور خود کو ایک ہی سمجھنے لگتاہے، یعنی اس کے ساتھ اپنے کو Identify کرنے لگتا ہے۔ یہ صورتِ حال آج اس طرح بھی موجود ہے کہ مغربی اقوام تیسری دنیا کا استحصال کر رہی ہیں اور تیسری دنیا کے لوگ انھی پر مرے جا رہے ہیں۔ اکبر کہتے ہیں:
مٹاتے ہیں جو وہ ہم کو تو اپنا کام کرتے ہیں
مجھے حیرت تو ان پر ہے جو اس مٹنے پہ مٹتے ہیں
اور یہ دل ہلا دینے والا شعر بھی ملاحظہ ہو:
کس رہے ہیں اپنی مِنقاروں سے حلقہ جال کا
طائروں پر سحر ہے صیاد کے اقبال کا
یہاں پھر اقبال کا شعر یاد آتا ہے جو ’’خضر ِراہ‘‘ میں ہے:
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری
یہ دو شعر بھی یاد رکھنے کے قابل ہیں:
قتل سے پہلے ہے کلورو فارم
شکر ہے ان کی مہربانی کا
ہزاروں ہی طریقوں سے ہم انگریزوں کو گھیرے ہیں
طواف ان کے گھروں کا ہے انھی سڑکوں کے پھیرے ہیں
اور اب قیدی کی مناجات سنیے:
اے خدا مجھ کو کر دے صاحب لوگ
دور ہو مجھ سے اس جنم کا روگ
میرا قالب ہو قالبِ غربی
بھول جاؤں زبان بھی اپنی
رنگ چہرے کا میرے جائے بدل
کروں ایجاد میں بھی توپ و رَفَل
سو کے اٹھوں جو آج صبح کو میں
لوگ سمجھیں کہ لاٹ صاحب ہیں
محکوم کی کوشش ہمیشہ یہی ہوتی ہے کہ وہ خود کو حاکم سے ہم آہنگ کر لے، لیکن اکبر اس سے آگے جاکر مناجاتی کی زبان سے یہ بھی کہلاتے ہیں کہ میں بھی اپنے حاکم کی طرح تباہ کاری کے اسلحے اور وسائل ایجاد کر سکوں اور فوج کے ذریعے دوسری اقوام کو اپنا غلام بنا سکوں۔ یعنی نوآبادیاتی حاکم اپنے محکوم کے جسم اور روح دونوں کو اپنے تخریبی رنگ میں رنگ لیتا ہے۔ حاکم اور محکوم کے اس اتحاد کی ایک صورت نوکر شاہی ہے کہ نوکر شاہی میں محکوم نوکر اپنے مالک کی طاقت کو مستحکم کرنے کا کام کرتا ہے اور اپنے سے کمتر لوگوں پر زور ظلم سے کام لیتا ہے۔ ہندوستانی نوکر شاہی، خاص کر آئی سی ایس کو برطانوی حکومت کا ’’فولادی ڈھانچا‘‘ (Structure (Steel یوں ہی تو نہیں کہا جاتا تھا۔ اس فولادی ڈھانچے کی پہلی خصوصیت تھی کہ تعمیلِ حکم میں کوئی کمی نہ کرنا، چاہے اس میں اپنی قوم کا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ اکبر کہتے ہیں:
باتیں ہرگز خلافِ عزت نہ کرو
دم بھر بھی شرارت و بغاوت نہ کرو
بدنام کرو نہ وضعِ انگریز کو
پتلون پہن کے ترکِ طاعت نہ کرو
نوکر شاہی بے روح بھی ہوتی ہے اور جتنا چھوٹا نوکر ہو اتنی ہی زیادہ اس میں صلاحیت ہوتی ہے کہ صاحبانِ غرض کو تنگ کرے اور ان کا کام نہ ہونے دے۔ ان نکات کو اکبر نے خوب واضح کیا ہے:
باقی نہیں وہ رنگ گلستانِ ہند میں
محنت کا اب ہے کام قُلستانِ ہند میں
کیوں گفتگو کسی کو ہو اس ٹھیک بات میں
شیخی زبان میں ہے حکومت ہے ہاتھ میں
’’قُلستان ہند‘‘ کی ترکیب میں جو درد اور غصہ پنہاں ہے وہ ہم پر آج بھی آشکار ہونا چاہیے، ورنہ یہ شعر سن لیجیے:
جب غور کیا تو مجھ پہ یہ بات کھلی
دقت میں تو وہ ہیں جو نہ صاحب نہ قُلی
اکبر غالباً پہلے ہندوستانی ہیں جن کو اس بات کا احساس تھا کہ سامراجی نوآبادیاتی نظام کی توسیع میں جنگ اور تشدد کے ساتھ تعلیم بھی مرکزی حیثیت رکھتی ہے:
توپ کھسکی پروفیسر پہنچے
جب بسولا ہٹا تو رندا ہے
بسولا یعنی لکڑی یا پتھر کو کاٹنے کی کلہاڑی، اور رندا یعنی لکڑی کو چھیل چھال کر اس کی ناہمواریاں نکال دینے کا اوزار۔ لہٰذا پہلے تو اہلِ ہند کی حکومتوں کو تاراج کرو، پھر وہاں انگریزی پڑھانے والے استاد بھیجو تاکہ ہندیوں کا ہندوستانی پن نکل جائے۔ اقبال کا شعر یاد کیجیے:
میاں نجار بھی چھیلے گئے ساتھ
نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے
ریل یعنی مغربی طاقت سے حکومت تو پھیلتی ہے لیکن قلبِ سلیم نہیں کھنچتا۔ یہ ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔ نوکر شاہی کس طرح انسان کا کردار مسخ کرتی ہے، اس کی کچھ جھلک ان شعروں میں دیکھیے:
بہر ِخدا جناب یہ دیں ہم کو اطلاع
صاحب کا کیا جواب تھا بابو نے کیا کہا
تیغ زباں کی دیکھو ہر سو برہنگی ہے
بابو کے حوصلے ہیں صاحب کی دل لگی ہے
ضعفِ مشرق نے تو رکھا پاؤں کو چھکڑا وہی
مغربی فقروں نے لیکن مجھ کو انجن کر دیا
اچھے اچھے پھنس گئے ہیں نوکری کے جال میں
سچ یہ ہے افزونیِ تنخواہ جو چاہے کرے
میری نصیحتوں کو سن کر وہ شوخ بولا
نیٹو کی کیا سند ہے صاحب کہیں تو مانوں
انگریزوں نے جب 1803ء میں مراٹھوں کو بے دخل کر کے شاہ عالم ثانی کو اپنی ’’حفاظت‘‘ میں لے لیا تو نوآبادیاتی فکر رکھنے والے مؤرخین نے بعد کے زمانے کو English peace سے تعبیر کیا کہ چور اچکے راستوں سے غائب ہو گئے، جاٹوں اور میواتیوں کی لوٹ مار بند ہو گئی، وغیرہ۔ ممکن ہے اس English peace میں انگریزی عمل داری کی برکت شامل ہو، ممکن ہے نہ ہو، لیکن ہندوستانی خصوصاً اہلِ دہلی کی ذلت اس میں بہت تھی۔ پھر بھی کچھ لوگ آج بھی انگریزی راج کو یاد کرتے ہیں کہ اس زمانے میں اس قدر نقضِ امن نہ تھا۔ اکبر نے کس خوبی سے اس English peace کی قلعی کھولی ہے:
ممنون تو میں ہوں ترا اے سایۂ شجر
سر پر مگر عذاب ہے چڑیوں کی بیٹ سے
چڑیوں کی بیٹ سے مراد وہ ذلت ہے جو نوآبادیاتی حاکم کے ہاتھوں محکوم قوم کو ہرلمحہ پہنچتی رہتی ہے۔ آج کل ہر طرف عالم کاری (Globalization) اور سرمائے کے پھیلاؤ کو مغربی قوتوں کی نئی استعماری حکمتِ عملی، اور صارفیت کی مقبولیت کو بھی سرمایہ دار طاقتوں کا ایک حربہ کہنے کا رواج ہے اور یہ باتیں صحیح بھی ہیں۔ لیکن اکبر کے وقت میں نہ صارفیت تھی نہ عالم کاری اور نہ وہ کارل مارکس کے اس قول سے واقف تھے کہ سرمایہ داری کا انتہائی مقصود یہ ہے کہ تمام دنیا ایک بازار میں تبدیل ہو جائے۔ اس کے باوجود اکبر کی چشم جہاں بیں نے یہ باتیں دیکھ لی تھیں:
یورپ میں گو ہے جنگ کی قوت بڑھی ہوئی
لیکن فزوں ہے اس سے تجارت بڑھی ہوئی
ممکن نہیں لگا سکیں وہ توپ ہر جگہ
دیکھو مگر پیئرس کا ہے سوپ ہر جگہ
مجھے بھی دیجیے اخبار کا ورق کوئی
مگر وہ جس میں دواؤں کا اشتہار نہ ہو
چیز وہ ہے بنے جو یورپ میں
بات وہ ہے جو پانیر میں چھپے
صارفیت اور عالم کاری کے ساتھ جو بات جدید انسان کو بہت پریشان کر رہی ہے وہ ماحول کی آلودگی ہے۔ اکبر کے زمانے میں ایسا کوئی تصور نہ تھا۔ ہرچند کہ 1851ء میں جب پہلی بار ریلوے انجن کا منظر انگلستان کے لوگوں نے دیکھا تو کسی نے اس کو ’’جہنم کا شرارہ‘‘ کہا، کسی نے اس کے شور اور گرج کی برائی کی، کسی نے اس کے دھوئیں کا برا مانا لیکن چند ہی برسوں میں صنعتی انقلاب کے دباؤ نے احتجاجی آوازوں کو خاموش کر دیا۔ اکبر کو بلکہ اس زمانے میں شاید کسی کو بھی ریل گاڑی کی تاریخ کے بارے میں کچھ معلوم نہ رہا ہوگا لیکن اکبر نے یہاں بھی دونوں باتیں دیکھ لیں۔ انجن یا ریل گاڑی محض سامراجی طاقت کی توسیع کا وسیلہ ہی نہیں بلکہ زمین کے ماحول کو بگاڑنے کا بھی ہتھیار ہے:
مشینوں نے کیا نیکوں کو رخصت
کبوتر اڑ گئے انجن کی پیں سے
تنہائی وطاعت کا یہ دور ہے اب دشمن
پیڑوں پہ نہ وہ طائر، صحرا پہ نہ وہ جوبن
جنگل کے جو تھے سائیں وہ ریل کے ہیں پائیں
املی کی جگہ سگنل، قمری کی جگہ انجن
پھر اس شاہ کار شعر (یا پیروڈی) سے آپ سب واقف ہی ہوں گے:
ابھی انجن گیا ہے اس طرف سے
کہے دیتی ہے تاریکی ہوا کی
شہروں کی نئی تنظیم سے ہم واقف ہیں۔ شہر کے کچھ علاقوں میں بڑے لوگ یا دولت مند طبقہ رہتا ہے۔ کچھ علاقوں میں ہم آپ جیسے غریب غربا رہتے ہیں۔ جھگی جھونپڑی والوں کی بستیاں بھی ہیں جنھیں عام طورپر دور سے دور تر رکھنے کی کوششیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ مغل شہر میں ایسی کوئی تفریق اور تنظیم نہ تھی اور اسی لیے طبقوں کے فرق کا وہ احساس بھی نہ تھا جو آج کی زندگی کی تکلیف دہ حقیقت ہے۔ حسبِ معمول اکبر نے سب سے پہلے شہروں کی اس تقسیم وتفریق کا احساس کیا، جو عہدِ انگریز کی دین ہے:
شیخ ہوں شہر میں اور کمپ میں سید ہوں یہ کیا
جس میں مل جل کے رہیں سب وہی بستی اچھی
کمپ میں پاتا ہوں یاروں کو جو دن کو بیشتر
یہ اثر ہے اصطبل کا ورنہ خر کوئی نہیں
کمپ/کیمپ سے مراد شہر کے وہ اعلیٰ علاقے ہیں جہاں طرزِ معاشرت انگریز ہے اور شہر سے مراد ہے جسے ہم اب ’’پرانا شہر‘‘ کہتے ہیں۔ اصطبل سے مراد ہندوستانی کردار کی پستی ہے جو انگریز کے راج نے پیدا کی تھی۔ قمرالدین احمد بدایونی ’’بزمِ اکبر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ایک دن ان سے اکبر نے کہا: ’’شہروں میں ترمیم دیکھو کہ حکمراں طبقہ اور امرا سول لائن میں ہیں، غربا کے لیے زیست کے دن گزارنے کے واسطے شہر کے گندے گوشے علیٰحدہ ہیں۔ مراد اس سے یہی ہے کہ امیر و غریب یک جا نہ ہوں گے، نہ ایک دوسرے کے دکھ درد سے ہمدردی ہوگی‘‘۔
ایسے شخص کے بارے میں یہ سمجھنا زیادتی اور ناانصافی کے سوا کچھ نہیں کہ وہ ترقی کا مخالف تھا، رجعت پرست تھا اور دیدۂ حق آگاہ سے محروم تھا اور اسے بدلتے ہوئے زمانے کی خبر تھی تو بس اتنی کہ وہ اس کے خلاف تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اکبر تعلیم کی ترقی اور سائنس اور صنعت کے مخالف نہیں تھے۔ وہ اس بات کے مخالف تھے یہ چیزیں نوآبادیاتی نظام کے استحکام کے لیے استعمال ہو رہی ہیں، یا نوآبادیاتی نظام کی علامتیں ہیں۔ جیسا کہ ہم اوپر دیکھ چکے ہیں، اکبر نے ’’توپ‘‘ کو جگہ جگہ استعاراتی، بلکہ تقریباً علامتی معنیٰ میں استعمال کیا ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ’’توپ‘‘ اگر لفظ ہے تو استعارہ ہے، اور اگر شے ہے تو علامت ہے۔ چند شعر اور ایک قطعہ سنا کر رخصت ہوتا ہوں۔ قطعے میں ’’توپ‘‘ استعارہ بھی ہے، علامت بھی ہے اور ظریفانہ فقرے کی خاطر آگ بھی اگلتی ہے:
بس کدورت سے دل اس تیرہ دروں کاہے بھرا
یہ تو بربادیِ اربابِ دغا چاہتی ہے
لگی لپٹی نہ لگا رکھتی تھی تلوار کی جنگ
توپ کیا چاہتی ہے صرف دغا چاہتی ہے
اوپر میں نے ایک شعر ’’گاندھی نامہ‘‘ سے نقل کیا تھا۔ اب خیال آتا ہے کہ کچھ اور شعر اسی جگہ سے پیش کر دیے جائیں۔ ان شعروں سے پوری طرح ثابت ہوتا ہے کہ اکبر کی نگاہ میں قدامت پرستی کی تنگی نہ تھی، بلکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ مغربی نوآبادیاتی نظام کو اگر روکا نہ جائے تو یہ عالم کاری میں تبدیل ہو جائےگا:
سواری ہے انھیں کی راہ ان کی اور ڈاک ان کی
انھیں کی فوج ہے ان کی پُلس ہے اور تاک ان کی
ہوا میں ایرشپ ان کے سمندر میں جہاز ان کے
عمل ہم میں کیا کرتے ہیں نامعلوم راز ان کے
علوم ان کے زباں ان کی پریس ان کے لغات ان کے
ہماری زندگی کے سارے اجزا پر ہیں ہاتھ ان کے
ذرا غور کیجیے، یہ عالم کاری (Globalization) کی تصویر نہیں تو کیا طلسمِ ہوش ربا کی ہے؟