ڈاکٹر محمد رشید ارشد
مدیر غزالی فورم
ہمارے عقائد پر جدید تعلیم کے اثرات
قسط نمبر ۲
تعلیم کی روایتی تعریف
تعلیم وہ عمل ہے جو آپ کو اپنے بڑوں سے ورثے اور ترکے میں ملا ہے، اس ترکے کو اپنی اگلی نسلوں تک پہنچانے کا جو عمل ہوتا ہے اسے عام طور پر تعلیم کہا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ استناد کے ساتھ چلتا ہے، یعنی لوگوں نے اپنے وقت کے بڑوں سے سیکھا، پھر اسے آگے سکھایا اور یوں یہ سلسلہ آگے چلتا چلا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافے بھی ہوتے چلے گئے اور یہ طریق اب تک جاری ہے، اسے تعلیم کہتے ہیں۔ ہمارے یہاں تعلیم کا تصور یہ ہے کہ یہ ایک اخلاقی عمل ہے، اور اس کا انسان کی تشکیل میں بہت بڑا کردار ہے۔ اِتحاف السادة المتقين میں حضرت حسنِ بصریرحمۃ اللہ علیہ کاقول نقل ہوا ہے: لَوْلَا الْعُلَمَاءُ لَصَارَ النَّاسُ مِثْلَ الْبَهَائِمِ. ’’ اگر علما نہ ہوتے تو لوگ چوپایوں کی طرح ہوتے‘‘۔اقبال نے کہا تھا کہ:
گمان آباد ہستی میں یقیں مردِ مسلماں کا
بیاباں کی شبِ تاریک میں قِندیلِ رہبانی
پہلے زمانوں میں یہ جملہ کہا جاتا تھا: Everything is moral an education is basically a moral, ethical activity ’’ہر چیز اخلاقی ہے اور تعلیم بنیادی طور پر ایک اخلاقی سرگرمی ہے‘‘۔
ماڈرن تصورِ تعلیم
تعلیم کا جدید تصور یہ ہے کہ: Everything is political ’’سب کچھ سیاسی ہے‘‘۔ حالانکہ سیاست اخلاق کا ایک جزو تھا۔ اگر آپ تہذیب الاخلاق پر ابنِ حزم، ابنِ مسکویہ یا شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہم کی کتابیں پڑھیں، تو سب سے پہلے نفس، پھر تدبیرِ منزل، پھر سماج اور اس کے بعد سیاستِ مدن کا موضوع آتا ہے۔ یعنی تہذیب الاخلاق کا ایک ہی محل ہے جس سے ہوتے ہوتے آپ ادھر تک پہنچ گئے۔ چنانچہ ہر چیز پہلے اخلاقی تھی اب ہر چیز سیاسی ہے اور جدید معنوں میں سیاسی ہے۔ یعنی سقراط، سینٹ آگسٹائن اور امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے معنوں میں نہیں بلکہ مکیا ولی کے معنوں میں۔ مکیاولی نے کہا تھا: The politics is basically amoral یعنی سیاست پر اخلاقیات کے ضوابط عائد نہیں ہوتے۔ مثلاً لیڈر بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں کہ یہ کریں گے وہ کریں گے، پھر وہ اپنے وعدوں سے پھر جاتے ہیں۔ جب آپ ان سے پوچھیں کہ آپ نے اپنے وعدوں پر عمل کیوں نہیں کیا؟ آپ نے جھوٹ بولا تھا؟ وہ کہیں گے کہ نہیں نہیں، اس چیز پر جھوٹ سچ کا اطلاق نہیں ہوتا، وہ ایک سیاسی بیان تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اے مورل ہے یعنی وہاں پر موریلٹی کا اطلاق نہیں ہوتا۔
روایتی تصورِ تعلیم اور جدید تصورِ تعلیم میں فرق
روایتی تعلیم ایک اخلاقی عمل تھا ،جدید تعلیم ایک سیاسی فیصلہ ہے۔اگردونوں کا تقابل کیا جائے تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ روایتی علم اور تعلیم اقداری تھا اور جدید علم و تعلیم اقتداری ہے۔ پہلےاخلاقی تھا اور اب طاقت کی بنیاد پر ہے۔ ہمارے علم اور تعلیم کا مقصود بندگی تھا، اگر کسی کو جوتا گانٹھنے یا کپڑے بُننے کا علم سکھایا جا رہا ہے تو وہ بھی بندگی کے پیراڈائم میں ہے۔ ابنِ عربی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف ایک بات منسوب ہے، وہ کہتے ہیں: ’’ہمارے علوم متعدد ہیں اور ہمارا معلوم واحد ہے‘‘۔ یعنی ہم تفسیر پڑھیں، حدیث پڑھیں، فقہ پڑھیں اور ہم چارپائی بننے کا علم سیکھیں تو اس میں بھی ہمارا مقصود اللہ ہے۔ ا ب جدید تعلیم خدا سے باغی کرنے کا ایک مکینزم ہے، آپ کو معاذ اللہ! خدا سے آزادی حاصل کرنی ہے۔ اکبر نے کہا تھا:
اک علم تو ہے بت بننے کا، اک علم ہے حق پر مٹنے کا
اُس علم کی سب دیتے ہیں سند، اِس علم میں ماہر کون کرے؟
جدید تعلیم اپنی ساخت میں بت بنانے کا عمل ہے، بےشک آپ اس میں دینیات وغیرہ داخل کر دیں اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، کیونکہ یہ اپنے جوہر میں بت بنانے کا عمل ہے۔
جدید تعلیم کے نتائج
پچھلے چند سالوں میں کھمبیوں کی طرح موٹیویشنل اسپیکر ابھرے اور جگہ جگہ انھوں نےنوٹنکی لگائی۔ ان سب نے صبح شام تحریر و تقریر میں یہی جگالی کی کہ جناب آپ ہی سب کچھ ہیں،آپ سب کچھ کر سکتے ہیں، آپ کے راستے میں سوائے آپ کی ذات کے، کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ جب طلبہ اس تصور کے ساتھ عملی میدان میں اترتے ہیں اور مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرپاتے تو مایوسی اور احساسِ کمتری کا شکارہو جاتے ہیں، انھیں لگتا ہے کہ شاید وہ بالکل ناکارہ ہیں، پھر اس طرح کے جملے تو انھیں بالکل معطل کردیتے ہیں مثلاً’’ اگر آپ غریب پیدا ہوئے تو آپ کا قصور نہیں لیکن آپ غریب مر جاتے ہیں تو آپ ہی قصور وار ہیں‘‘۔ان موٹیویشنل اسپیکرز سے ہٹ کر فلسفے کی دنیا میں آپ غور کریں تو ہر دور میں کوئی نہ کوئی ایک ایسا آدمی ہوتا ہے جو فیشن میں ہوتا ہے اور ہمارے ہاں جو لوگ دین سے بھاگنا چاہتے ہیں وہ اس کی کتابیں لے کر گھوم رہے ہوتے ہیں۔ ایک زمانے میں کارل مارکس تھا، پھر Bertrand Russell تھا، پھر اس کے بعد اکیسویں صدی کے شروع میں نیو ایتھیزم میں Richard Dawkins تھا، اور گذَشتہ کچھ عرصے سے Yuval Noah Harari ہے۔ اس نے Sapiens: A Brief History of Humankind کے نام سے پوری انسانیت کی تاریخ لکھ دی ہے۔ اس نے یہ بتایا کہ مستقبل کا انسان کون ہوگا اور اس نے یہ بھی بتایا کہ انسان خدا بننے جا رہا ہے، یعنی اس نے تصور دیا ہے کہ ہم نے خدا کو معاذاللہ! ذبح کر دیا ہے، اب ہم سب کو چھوٹا موٹا خدا بننا ہے۔ اور اس نے کہا کہ سارے انسان تو خدا نہیں بنیں گے، البتہ ایک ماسٹر کلاس بنے گی۔Adam Smith نےاپنی کتاب میں ایک Masters of Mankind (بنی نوع انسان کے ماسٹرز) استعمال کی اصطلاح تھی۔ انھوں نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں سب کچھ ہمارا ہو، ہمارے علاوہ کسی کا کچھ نہ ہو۔
غور کریں تو یہ سب باتیں خوفناک ہیں، لیکن ایک مسلمان کے لیے ایک بات بہر کیف اطمینان بخش ہے، وہ یہ کہ الحمدللہ وہ ایک پورے اعتماد کی جگہ یعنی وحی کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ یہ ایسی جگہ ہے کہ انسان کہیں نہیں جا رہا، ان معنوں میں کہ انسان مسجودِ ملائک ہے، اللہ کا بندہ ہے، زمین کا دولہا ہے، یہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح ان انسانوں میں اللہ کی کتاب کے وارث بھی ہیں، تو گویا جیسے ہمارے لیے ایک سہولت ہو گئی ہے کہ اگر ہم اپنے دین سے جڑے رہیں گے، بچ جائیں گے۔ John Taylor Gatto کی بہت مشہور کتاب ہے Weapons of Mass Instruction ، اس کے شروع میں وہ ایک مفکر Alexander Inglis جن کے نام پر ہاورڈ میں ایک لیکچر سیریز بھی ہے، ان کے حوالے سے بتاتا ہے کہ انھوں نے ۱۹۱۸ء میں کتاب Principles Of Secondary Education لکھی۔ اس میں انھوں نے چھے نکات بتائے کہ ماڈرن ایجوکیشن کے مقاصد کیا ہیں۔ اس میں ایک اہم نکتہ یہ ہے:Adjustive or adaptive function یعنی ایجوکیشن کا ایک فنکشن ہے کہ آپ کو خاص طرح کے لوگ پیدا کرنے ہیں، جو خاص طرح سے اتھارٹی کے تابعِ فرمان بن جائیں۔ ۱۹۲۰ء میں شیخ الہندرحمۃ اللہ علیہ جب مالٹا سے آزاد ہوئے تھے، تو اس وقت جامعہ ملیہ کی بنیاد رکھی گئی تھی، اس موقعے پر انھوں نے جو خطبہ دیا اس کا ایک جملہ ملاحظہ کیجیے: ’’ہماری عظیم الشان قومیت کا اب یہ فیصلہ نہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنےکالجوں سے بہت سستے داموں پر غلام پیدا کرتے رہیں‘‘۔ یعنی جدید تعلیم کا مقصد ہے کہ کیپٹل ازم کے امپائر کے لیے سستے مستری پیدا کرنا۔ آپ کا وہ بچہ جو سرکاری اسکولوں سے پڑھتا ہے، وہ کیپٹل ازم کا کل پرزہ بنے گا۔ جو برائٹ بچہ ہے وہ یہاں کی ملٹی نیشنلز کا نوکر بنےگا، زیادہ ترقی کرے گا تو گوگل یا مائیکروسافٹ کے ہیڈ آفس میں پہنچ جائےگا، یہ اس کی معراج ہے۔ اور کرے گا کیا؟ دجل اور ظلم پر مبنی عالمی نظام کا ایک انتہائی ادنیٰ کل پرزہ بن جائےگا۔ یہ جو آپ کہتے ہیں کہ بڑے تعلیمی اداروں لمز اور آئی بی اے وغیرہ کے بچے بڑے برائٹ بچے ہوتے ہیں، وہ کیا کرتے ہیں؟ ان بے چاروں کے متعلق اکبر نے کہا تھا:
سند مجھ کو ملی تو جل کے کہنے لگے واعظ
خری کی ہو گئی تکمیل باقی صرف لدنا ہے
یعنی آپ کو جو سند ملی ہے یہ درحقیقت آپ کا کھوتا پن مکمل ہو گیا ہے، یہ خری ہے اور خری اسی کو کہتے ہیں، لہذا خری کی تکمیل ہو گئی باقی صرف لدنا ہے۔ لدنا کیا ہے، آپ کو جاب ہینڈلنگ کرنی ہے اور اس سسٹم میں لدو اونٹ کی طرح ضم ہونا ہے، بس یہ جدید تعلیم ہے۔ ہمارے ہاں یہ تبدیلی استعمار کے ذریعے آئی، اور اگر ہم استعمار کے تحت نہ بھی آتے تب بھی بچنا ممکن نہ تھا، سو ڈیڑھ سو سال بعد ہمیں یہ سب کرنا پڑتا۔ ایسا نہیں ہے کہ استعمار نہ آتا تو ہم اپنی جگہ پر قائم رہتے۔ اگرچہ زیادہ تر عالمِ اسلام جبراًتبدیل ہوا اور جدیدیت کی راہ پر لگا، لیکن کچھ جگہوں پر یہ جدیدیت در آمد بھی کی گئی، مثلاً سلطنتِ عثمانیہ تو استعمار کے قبضے میں نہیں گئی، پھر بھی وہاں تبدیلی آئی۔ لہذا اس تبدیلی میں مغرب کے نظامِ تعلیم کا بڑا ہاتھ تھا، اور اب تک مغرب کا تصورِ علم ہم پر مسلط ہے، اور اس کے نتائجِ بد کا ہم سامنا کر رہے ہیں۔
سوال وجواب
سوال:جدید تعلیم نے ہمارے عقائد کو کیسے متاثر کیا؟
جوال:جدید تعلیم کا ہمارے عقائد پر جو اثر پڑا ہے اُس کا بنیادی سبب جدید علم کی ساخت ہے۔ جدید علم حواس مرکز ہے، شہود مرکز ہے، اُس میں غیب کے لیے گنجائش نہیں ہے، اسی لیے ہمارے ہاں عام طور پر جب بھی اسلامک ایجوکیشن کی یااسلامک اسکولنگ کی بات ہوتی ہے تو زیادہ تر گفتگو نصاب پر ہوتی ہے کہ نصاب میں کچھ بہتری لائی جائے اور اُس میں دینیات کا پہلو بڑھا دیا جائے۔مثلاً سائنسز چاہے وہ فزیکل ہوں یاسوشل، عمومی خیال یہ ہوتا ہے کہ وہ تو واقعاتی ہیں اور matter of fact ہیں اور اُس میں کچھ چیزیں شامل کر دی جائیں توکام بن سکتا ہے۔لیکن جس کو آپ matter of fact کہہ رہے ہیں، اُس میں بہت سے مسئلے ہیں،پھر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ religion and science میں کوئی conflict نہیں ہو سکتا، مولانا عبد الباری ندوی صاحب نے بہت پہلے ایک کتاب لکھی تھی ’’مذہب اور سائنس‘‘،اُنھوں نے ایک تشبیہ بیان کی تھی کہ مذہب اور سائنس میں تصادم کا مطلب ایسے ہی ہے جیسے بحری جہاز اور ٹرین میں ٹکر ہو جائے یا مثال کے طور پہ ہوائی جہاز اور سائیکل میں ٹکر ہو جائے۔گویا دونوں کے دائرے بالکل الگ الگ ہیں۔لیکن میری ناقص رائے میں content سے زیادہ اہم جدید تعلیمی اسٹرکچر ہے۔ وہ اسٹرکچر آپ کو گائیڈ کرتا ہے۔ ہم ایک جملہ طالبِ علموں سے کہتے ہیں اور وہ جملہ اگر ہماری سمجھ میں آ جائے تو جدید دنیا کی بہت سی چیزیں ہم پر کھل جائیں گی، وہ جملہ مارشل مکلوہن کا ہے اور بڑا سادہ سا لیکن گہرا جملہ ہے، اُس نے کہا تھا: The medium is the message۔ جس ذریعے سے آپ کوئی چیز ڈیلیور کر رہے ہیں یا حاصل کر رہے ہیں،وہ ذریعہ بہت اہم ہے۔مثلاً آپ کہیں کہ جدید دور میں دورۂ حدیث شریف منعقد ہونا ہے تو ہمارے علما جدید کیوں نہیں ہو رہے؟ وہاں یہ جدید ٹیکنالوجی کیوں نہیں استعمال ہو رہی؟ پروجیکٹر کیوں نہیں استعمال کرتے؟ پاور پوائنٹ پر حدیثوں کا تجزیہ آنا چاہیے ،علی ہذا القیاس۔تو بات یہ ہے کہ آپ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ حدیث کا علم اِس اسٹرکچر کے ساتھ کنڈیوسو نہیں ہے، اُس علم میں تو میز کرسی بھی مسئلہ بنے گی۔ہر علم کو حاصل کرنے کا ایک پروٹوکول ہے، ایک طریقہ ہے، ہر میڈیم ہر علم کے لیے کنڈیوسو نہیں ہے۔اسی طرح اسلامک اسکولز کا تصور ہے،ا سکولز ہیں، کالجز ہیں، پھر یونی ورسٹیز ہیں، آپ اس میں زیادہ سے زیادہ یہ کریں گےکہ کچھ دعائیں ڈال دیں، تھوڑے بہت اذکار اور کلمے یاد کرا دیے، آداب رٹوا دیے، ویلنٹائنز ڈےنہیں منایا جائے گا،ہیلو وین نہیں منائی جائی گی، خواتین اساتذہ ڈھنگ کا لباس پہنیں گی، کیا اچھی بات ہے۔ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ آپ نے لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو تعلیم دینی ہے، اِس بات پر کیوں سوال نہیں اٹھتے کہ لڑکیوں اور لڑکوں کا نصاب ایک کیوں ہے؟
سوال:بظاہر روایتی تعلیمی نظام میں عورت کو دنیوی تعلیم حاصل کرنے کے مواقع نہیں تھے لیکن اب جیسے عورتوں کو آگے بڑھنے کے مواقع دیے جاتے ہیں، اِس معاملے میں ہمارا کیا نقطۂ نظر ہونا چاہیے؟
جواب:آپ مجھ سے پوچھیں تو میں کہوں گا کہ بچیوں کو تو رہنے دیں،ہمارے بچوں کو بھی یہ تعلیم حاصل نہیں کرنی چاہیے، یہاں بھی ہمیں اکبر یاد آتے ہیں، اُنھوں نے کہا تھا:
دو اسے شوہر و اطفال کی خاطر تعلیم
قوم کے واسطے تعلیم نہ دو عورت کو
تعلیمِ دختراں سے یہ امید ہے ضرور
کہ ناچے دلھن خود ہی اپنی برات میں
اور یہ بات تو ہمارے مشاہدے کی ہے، ہم نے کچھ ایسے اداروں میں پڑھایا ہے جو بہت ٹیڑھے میڑھے ہیں، اللہ تعالیٰ رحم فرمائیں،وہاں جو بچیاں پڑھتی ہیں، اُن کو دیکھ کر ہی یہ یقین ہو جاتا ہے کہ یہ بیوی بننے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ اِن میں تسلیم کی صفت ہےہی نہیں،انھیں تو قدم سے قدم ملا کر چلنا ہے، آپ دیکھ نہیں رہے کہ لاکھوں کروڑوں لگا کر شادیاں ہوتی ہیں، کوئی ہفتے چل رہی ہے، کوئی مہینے چل رہی ہے، وجہ یہ ہے کہ ازدواجی رشتہ ایسے مزاج کے ساتھ نہیں چلتا۔
سوال: آپ نے سائنس کے حوالے سے بات کی، میں خود سائنس کا استادہوں، عموما ً فلسفے کے اساتذہ سائنس سے ناواقف ہوتے ہیں اس لیے وہ یہ بات ضرور کرتے ہیں کہ سائنس مذہب سے دور کرتی ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ سائنس تو مذہب سے قریب کرتی ہے۔ یعنی جتنی سائنس قرآن میں بیان کی گئی ہے دوسری جگہ نہیں ہے،صرف ریلیٹ کرنے کی ضرورت ہے اور ہمارے دینی اساتذۂ کرام نا واقفیت کی وجہ سے اُس کو ریلیٹ نہیں کر پاتے۔
جواب: دیکھیے بات یہ ہے کہ ایک ہے پاپولر سائنس جو ہمارے ہاں بیان ہوتی ہے، اور ایک ہے سائنس کی تھیوری، سائنس کی ایک تعریف جو عرصے سے چلی آ رہی ہے وہ ویریفیکیشن ہے، تجربے کے ذریعے جس چیز کیویریفیکیشن ہو جائے وہ سائنس سے ثابت ہے۔ کارل پوپر وغیرہ کے بعد اب تعریف یہ ہو گئی کہ فالسیفیکیشن سائنس کی بنیاد ہے،جو چیز فالسیفائی ہو سکے وہ سائنس ہونا کوالیفائی کرتی ہے۔ چنانچہ خدا، آخرت، فرشتے،روح،جنت ،جہنم یہ نان فالسیفائی ایبل ہیں، اِس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سائنٹفک نہیں ہیں تو ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ آج ایک تھیوری آئی ہے، وہ کسی مذہبی چیز کا اثبات کر رہی ہے، ہو سکتا ہے کل وہ بدل جائے۔ نیوٹن کی فزکس اور تھی، آئن سٹائن کی اور ہے، آئزن برگ کی اور ہے، اب ہم اگر اِس میں پڑ جائیں کہ سائنس کی جو نئی تحقیقات سامنے آئیں، ہم اُن کو کہیں کہ دیکھیں قرآنِ مجید میں اِس کا بیان ہے اور تیس چالیس سال بعد وہ تھیوری فالسیفائی ہو جائے، پھر ہم خالی ہاتھ بیٹھے رہیں،یہ بہت سلپری سلوپ ہے۔ religion and science یا Quran and scienceبہت حساس موضوع ہے، ہم بہت سی چیزوں کو بہت جلدی قبول کر کے اُس کی مرعوبیت میں آ کر اللہ کی کتاب سے اُس کو ریلیٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اِس سے ہمارا مذاق اڑتا ہے اور لوگ یہ کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں سائنسدان محنتیں کر کر کے، سر مار مار کے کوئی چیز دریافت کرتے ہیں، یہ مولوی آرام سے بیٹھ کر کہتے ہیں کہ یہ تو قرآن میں پہلے سے ہی تھا۔اگر پہلے سے ہی تھا تو آپ کس خوابِ غفلت میں تھے؟آپ کیوں نہیں بر آمد کر سکے؟ قرآن تو آپ کے پاس تھا۔لہذا اِس میں تھوڑی سی احتیاط کرنی چاہیے۔