لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

صوفی جمیل الرحمٰن عباسی

مدیر ماہنامہ مفاہیم

بیت المقدس کا تاریخی خاکہ

قسط نمبر۲۷

۱۹۳۵ءتحریکِ آزادیِ فلسطین (یعنی سیاسی جد و جہد) کا آغاز برطانوی قبضے (۱۹۱۷ء) کے بعد جلد ہی ہو گیا تھا، جس کی ابتدا کرنے والوں میں موسیٰ کاظم الحسینی سرِ فہرست تھے۔ جبکہ تحریکِ جہادِ فلسطین کی بنیاد شیخ عز الدین القسّام شہید نے ۱۹۲۹ء میں رکھی اور عملی جدوجہد کا آغاز ۱۹۳۵ء میں کیا۔ جہادی راہنما عز الدین القسام نے اس وقت کے سیاسی راہنما مفتی امین الحسینی سے رابطہ کیا اور انھیں جہادی تحریک میں شمولیت یا سرپرستی کی دعوت دی، لیکن ان کے مابین اتفاق نہ ہو سکا۔ مفتی صاحب سمجھتے تھے کہ سیاسی جدو جہد ہی انھیں اپنے مقاصد سے ہم کنار کر دے گی۔ شیخ قسام کی شہادت (۱۹۳۵ء) کے بعد یہود و افرنگ کی بڑھتی سختیوں کے ساتھ مسلمانوں کی سیاسی و جہادی سرگرمیاں بھی بڑھتی گئیں۔ اور دونوں قسم کی تحریکیں متوازی لیکن اپنے اپنے طور طریقے سے کام کرتی رہیں۔ بقولِ افرنگ ’’فلسطینی عرب بغاوت‘‘یا ثورة العربیة في الفلسطین کا اطلاق ان دونوں قسم کی سرگرمیوں پر ہوتا ہے۔ اسے ہم تحریکِ انقلابِ فلسطین کہتے ہیں۔ تنظیمی اعتبار سے الگ ہونے کے باوجود یہ دونوں تحریکیں کبھی تو علانیہ اور کبھی پوشیدہ، کبھی شعوری تو کبھی غیر شعوری ایک دوسرے کو سپورٹ کرتی رہیں۔ اس کی ایک نمایاں مثال اس وقت سامنے آئی تھی جب ۱۹۳۷ء میں سیاسی تحریک کے بانی جناب موسیٰ کاظم الحسینی کے صاحب زادے عبد القادر الحسینی شہید، شیخ قسام کی جہادی تحریک میں عملاً شریک ہوئے۔

تحریک کا آغاز

تحریکِ انقلاب ِ فلسطین کا آغاز، فروری ۱۹۳۶ء میں ہوا، جبکہ اپریل ۱۹۳۶ء سے اکتوبر ۱۹۳۶ء تک کی ششماہی کو اس کا دورِ عروج قرار دیا جاتا ہے۔ اس عرصے میں تحریک ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی۔ ایک طرف تو جگہ جگہ جلسے جلوس ہونے لگے اور دوسری طرف قابض قوتوں کو جا بہ جا نشانہ بنایا جانے لگا۔ برطانوی پولیس، برطانوی فوجی دستوں اور چھاؤنیوں اور کہیں کہیں یہودی بستیوں پر حملے ہونے لگے۔ بعض شہر مثلاً الخلیل اور بئر سبع تو مجاہدین نے اپنے اختیار میں لے لیے۔ اگرچہ فلسطین کے پڑوسی ممالک کے سربراہوں کا رویہ سرد مَہری کا رہا لیکن ان کے عوام فلسطینیوں کے ساتھ تھے۔ کہیں تو فلسطین کے حق میں جلسے جلوس کیے جاتے اور کہیں انگریزوں کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے ان کے قافلوں خصوصاً پٹرول کی گاڑیوں پر حملے کیے جاتے۔ بعض لوگ مجاہدینِ فلسطین کو سازو سامان فراہم کرتے اور بعض لوگ ہتھیار سنبھال کر جہاد کی نیت سے فلسطین میں داخل ہو جاتے۔ مسلمان عوام میں مجاہدین پر اعتماد بڑھ گیا اور کئی لوگ اپنے معاملات حل کرانے کے لیے شہری حکومت کے بجائے انقلابیوں کے پاس جانا پسند کرتے۔ قسام شہید کے بعد تحریک کی قیادت عبد الرحیم الحاج محمد، شیخ فرحان السعدی اور خلیل عیسیٰ ابو ابراہیم الکبیر وغیرہ نے سنبھالی۔ ان کے علاوہ سلیمان عبد القادر ابو علی، شیخ عطیہ احمد، امیرِ جہاد ابو کمال، یوسف ابو درہ، عارف عبد الرزاق، احمد محمد الحسن، شیخ حسن سلامہ، عبد الرحیم الجیلانی تحریکِ جہاد کے اہم قائدین میں شمار ہوتے ہیں۔ مجاہدین ایک خاص طرح کا رومال اور عُقال اوڑھتے تھے۔ انھوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ بھی اظہارِ یکجہتی کے لیے یہ حلیہ اختیار کریں، اس طرح یہ لباس ہر طرف مشہور ہو گیا۔ مجاہدین کے لیے اس لباس میں یہ فائدہ تھا کہ ان کے لیے چھپنا آسان ہوتا تھا۔

تحریک بندی

فلسطین پر انگریزی قبضے کا یہ کمزور ترین دور تھا۔ اگر تحریک جاری رہتی تو ہر آنے والے دن کے ساتھ اس میں تیزی آتی اور آزادیِ فلسطین کی منزل نزدیک آ جاتی۔ خاص طور پر جنگِ عظیم دوم کے سالوں میں عرب انگریزوں کا بہت نقصان کر سکتے تھے۔ جنگوں یا تحریکوں میں یہ اہم ہوتا ہے کہ کب صلح کرنی ہے اور کب نہیں کرنی۔ تحریکی و جہادی میدانوں میں ابتدائی کامیابیوں کے باوجود مسلمانوں کو سیاسی میدان میں شکست ہوئی۔ اس لیے کہ انگریزوں نے اپنی کمزوری محسوس کرتے ہوئےکو اپنے ’’مسلمان دوستوں‘‘ سے کام لیتے ہوئے صلح کی کوششیں شروع کر دیں۔ عراقی وزیر خارجہ نوری سعید، شاہ اردن عبد اللہ اوّل بن ملک الفیصل، الملک الغازی بن ملک الفیصل اور سعودی بادشاہ اوّل ملک عبد العزیز کی کوششوں اور یقین دہانیوں کے نتیجے میں فلسطینی زعما تحریک روکنے پر آمادہ ہوئے اور ۱۲، اکتوبر ۱۹۳۶ء کو اس کا اعلان کیا گیا۔ اس تحریکِ صلح میں زیادہ تر رابطےفلسطینی سیاسی جماعت حزب الاستقلال کے قائد اور سیکرٹری جنرل مجلس العربیہ العلیا عونی عبد الہادی کے ساتھ ہوئے۔ عونی عبد الہادی کی خط کتابت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی طرف سے تحریک بندی کی دو اہم شرطیں پیش کی گئی تھیں: پہلی یہ کہ یہودیوں کی ہجرت پر پابندی لگائی جائے اور دوسرے تحریک میں حصہ لینے والے حضرات کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جائے۔ لیکن ہائی کمشنر مسٹر آرتھر گرین فل واکہوب کی طرف سے ان شرطوں کی پابندی نہیں کی گئی اور جب عونی عبد الہادی کی طرف سے کمشنر کو خط لکھ کر اس طرف متوجہ کیا گیا تو اس نے جواب میں صاف کہہ دیا کہ مجھے اس کا اختیار حاصل نہیں، بلکہ وزیرِ نو آبادیات ہی اس کا فیصلہ کر سکتےہیں۔ اس پر مجلس العربیہ نے اپنے تحریک بندی کے فیصلے سے رجوع کرنے کا ارادہ کیا لیکن شاہانِ عرب کے مجبور کرنے سے وہ تحریک دوبارہ شروع نہ کر سکے۔

حکومتِ برطانیہ نے مسئلۂ فلسطین بلکہ درحقیقت فلسطین کو ’’حل‘‘ کرنے کے لیے نومبر ۱۹۳۶ء میں رائل فلسطین کمیشن (لارڈ پیل کمیشن) قائم کیا۔ جس نے آئندہ آٹھ ماہ مسئلے کو ’’حل‘‘ کرنے میں لگا دیے۔ جہادی عناصر تحریک روکنے کے اس عمل پر ناخوش تھے اور اِکّا دُکّا کارروائیوں میں بھی مصروف رہے، لیکن تحریک کا زور بہرحال ٹوٹ چکا تھا۔

انگریزوں کی صف بندی

تحریک میں وقفے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریز نے اپنی منتشر صفیں منظم کرنا شروع کر دیں۔ اس نے برطانیہ اور مصر سے مزید فوجیں منگوائیں۔ برطانوی فوج کی تعداد بیالیس ہزار جبکہ پولیس کی تعداد بیس ہزار تک جا پہنچی۔ ساتھ ہی انھوں نے یہودی دہشت گرد تنظیموں کے ارکان کو ہنگامی طور پر مسلح کر کے انھیں فوجی تربیت دینا شروع کی اور انھیں نیوتریم کا نام دیا گیا۔ ابتدا میں انھیں یہودی بستیوں کی حفاظت پر مامور کیا گیا پھر کچھ عرصے بعد انھیں اپنی بستیوں سے باہر بھی کارروئیاں کرنے کی اجازت دی گئی اور انھیں پولیس برائے یہود بستی کا نام دے کر گویا قانونی درجہ دیا گیا۔ نومبر ۱۹۳۶ء میں قائم کردہ لارڈ پیل کمیشن کی رپورٹ آٹھ ماہ بعد ۸ جون ۱۹۳۷ء میں سامنے آئی۔ جس میں فلسطین کو تین حصوں یعنی برطانوی، یہودی اور مسلم ریاستوں میں تقسیم کرنے کی تجویز دی گئی تھی، مسلمانوں نے اس منصوبے کو بالکل رد کیا اور مفتی امین الحسینی وغیرہم نے اس پر سخت تنقید کیں۔

انتقامی کارروائیاں

انگریزوں کو منظم ہونے کے لیے جتنی فرصت درکار تھی وہ پیل کمیشن کے ہشت ماہی دور میں مل چکی تھی۔ اب جب پیل کمیشن کی رپورٹ کا انکار کیا گیا تو انھوں نے انتقامی کارروائیاں شروع کر دیں۔ چنانچہ جولائی ۱۹۳۷ء میں مفتی امین الحسینی صاحب کو تمام مناصب سے معزول کر دیا گیا اور ان پر پابندی لگا دی گئی کہ وہ فلسطین کی حمایت اور برطانیہ و یہود کی مخالفت میں بولنا اور داخلی اور خارجی ذرائع سے ملنے والی رقوم، جہادی سرگرمیوں اور اسلحے کی خریداری وغیرہ میں صرف کرنا چھوڑ دیں۔ اسی دوران مفتی صاحب کو گرفتار کرنے کا منصوبہ بھی تیار کیا گیا لیکن حضرت ان کے ارادے کو بھانپ کر مسجد اقصیٰ میں گوشہ نشین ہو گئے اور اکتوبر ۱۹۳۷ء میں آپ رازداری سے لبنان چلے گئے۔ کمشنر نے اوقاف اور محکمۂ شرعیہ کے اموال پر قبضہ کر لیا تاکہ مسلمانوں اور خصوصاً مفتی صاحب کی قوت کو توڑا جا سکے۔

گورنر کا قتل

انگریزوں کی وعدہ خلافی اور متنازع پیل کمیشن رپورٹ کی حمایت اور مسلمان قائدین پر سختی کے ردِعمل میں عز الدین القسام کے ایک پیروکار نے ۲۶، ستمبر ۱۹۳۷ء کو الجليل کے برطانوی گورنر لیوس اینڈریوز اور اس کے گارڈ کو ناصرہ شہر میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس دوران واکہوب کی جگہ ہیرلڈ میک مائیل کو نیا ہائی کمشنر مقرر کیا جا چکا تھا۔ باوجود یہ کہ سیاسی راہنماؤں نے گورنر کے قتل سے لاتعلقی کا اظہار کیا، لیکن میک مائیل نے اس قتل کا الزام لگا کر کئی سیاست دانوں کو گرفتار جبکہ کئی ایک کو جلا وطن کر دیا۔ اس کے علاوہ سینکڑوں افراد کو مشتبہ قرار دے کر قید کر دیا گیا۔ برطانوی حکومت نے ثبوتِ جرم کے لیے ایک گواہی کافی قرار دے دی۔ پس جس کے خلاف بھی ایک گواہی ہوتی اسے سزاے موت دی جاتی۔ مسلمانوں کو غیر مسلح کرنے کی پالیسی پر سختی سے عمل کرنا شروع کر دیا۔ کسی کے پاس ایک گولی بھی ملتی اسے سزاے موت دے دی جاتی، یہاں تک کہ ۱۴۸، افراد کو سزاے موت دے دی گئی۔ اور جنھیں بغیر کسی عدالتی کارروائی کے گولی مار کر شہید کر دیا گیا ان کی تعداد اس سے الگ تھی۔ اسی سالہ بزرگ مجاہد الشیخ فرحان السعدی کو نومبر ۱۹۳۷ء میں بحالتِ صیام سزاے موت دے دی گئی۔

بلودان کانفرنس

فلسطینیوں نے اپنے موقف کو منظم و مشتہر کرنے کے لیے شام کے علاقے بلودان میں ۸،ستمبر ۱۹۳۷ء کو ’’قومی عرب کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا جو بعد میں بلودان کانفرنس کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس میں مصر، عراق، لبنان، سوریا، اردن اور فلسطین سے ساڑھے چار سو مندوبین شامل ہوئے، جن میں محمد عزت دروَزَہ صاحبِ تفسیر الحدیث، ابراہیم ناجی السویدی، محمد علی علوبہ وزیرِ اوقاف مصر، کمال الدین الطائی، محمد بہجہ الاثری، مفتی جنین شیخ ادیب الخالدی، حمد بک صعب شہید وغیرہ شامل ہوئے، جبکہ مفتی امین الحسینی حکومتی پابندیوں کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے۔ کانفرنس کے اعلامیے میں تقسیمِ فلسطین اور یہودی ریاست کے قیام کی مخالفت کی گئی اور حکومتِ انتداب کے خاتمے، بالفور ڈیکلریشن کی منسوخی، عربی دستوری حکومت کے قیام، یہودی ہجرت کی بندش اور زمینوں کی خرید و فروخت اور انتقال پر پابندی کے مطالبات کیے گئے۔ لیکن یہ بے جان مطالبے تھے جن کی پشت پر کوئی طاقت نہ تھی۔ اس لیے مخالفین کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ اس کا ثبوت اسی ماہ (ستمبر ۱۹۳۷ء) میں منعقد ہونے والامجلسِ اقوامِ عالم کا اجلاس تھا جس میں قانونِ انتداب اور تقسیمِ فلسطین کی توثیق کی گئی۔

فروری ۱۹۳۸ء میں ’’تقسیمِ فلسطین کمیشن‘‘ قائم کیا گیا تاکہ تقسیمِ فلسطین پر فنی و انتظامی حوالے سے تجاویز مرتب کی جا سکیں۔ یہ کمیشن اپنے سربراہ سر جوہن وڈہیڈ کے نام سے مشہور ہوا۔ کمیشن نے اگست ۱۹۳۸ء تک اپنی تحقیقات مکمل کر کے نومبر ۱۹۳۸ء میں اپنی رپورٹ شائع کی۔ کمیٹی نے فلسطین کو تین کے بجائے چار حصوں میں تقسیم کرنے کی سفارش کی۔ ایک حصہ مسلم ریاست، ایک حصہ یہودی ریاست، جبکہ بیت المقدس اور شمالی فلسطین کو دو الگ الگ لیکن حکومتِ برطانیہ کے ماتحت ریاستوں میں قائم کرنا تھا۔ البتہ اس کمیٹی نے قرار دیا کہ عرب کسی صورت تقسیم پر راضی نہ ہوں گے بلکہ پرتشدد کارروائیاں کریں گے۔ کمیشن کے ایک رکن تھامس ریڈ شدت سے تقسیم کے اس فارمولے کے خلاف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس تقسیم میں نہ تو عدل ہے اور نہ ہی اس سے امن آئے گا۔ حکومتِ برطانیہ نے اس کمیٹی کی رپورٹ پر یہ فیصلہ سنایا کہ فی الوقت تقسیم کی کوئی صورت نکلنا مشکل ہے اور آنے والے وقتوں میں حکومتِ برطانیہ اپنی ذمے داری ادا کرے گی۔ دسمبر ۱۹۳۸ء میں میکڈونلڈ نے برطانوی پارلیمنٹ میں بیان دیا کہ ہم یورپ میں بیٹھ کر عربوں کے ذہن کو نہیں سمجھ سکتے، پس مفاہمت کے لیے ضروری ہے کہ فلسطین اور پڑوسی ملکوں کے عرب نمائندوں اور یہودی وکالت اور تنظیموں کے نمائندوں کی ملاقاتوں کا اہتمام کیا جائے۔ چنانچہ لندن میں ایک کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا۔ میکڈونلڈ نے بہت سارے سیاسی قیدیوں کو بھی رہا کروایا تاکہ وہ مذاکرات میں مدد کریں۔ البتہ مفتی امین الحسینی کو اس کانفرنس میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ چنانچہ مسلمانوں کے وفد کی قیادت جمال الحسینی نے کی۔ اس کے علاوہ عونی عبد الہادی، حسین الخالدی، کیتھولک چرچ سے تعلق رکھنے والے الفریڈ راک اور جارج انطونیوس بھی شامل تھے۔ عراق کی طرف سے نوری سعید اور مملکت سعودی کی جانب سے ملک خالد شامل ہوئے۔ مصر، عراق، یمن اور اردن کے نمائندے بھی شریک ہوئے مگر سوریا اور لبنان سے کسی کو آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ برطانیہ کی طرف سے وزیر اعظم چیمر لین، ویزر خارجہ ایڈورڈ ہیلی فیکس اور وزیرِ استعماریات میکڈونلڈ شامل تھے۔ یہودی وفد کی قیادت وائزمین نے کی، وفد میں برطانیہ، امریکہ کے علاوہ دیگر یورپی ملکوں اور جنوبی افریقہ کے یہودی نمائندے شامل تھے۔ اس کانفرنس کی بہت ساری نشستیں منعقد ہوئیں اور یہ ۷، فروری ۱۹۳۹ء سے ۱۷، مارچ ۱۹۳۹ء تک چلتی رہیں۔ یہودیوں کے مطالبات یہودی ہجرت میں وسعت، فلسطین کی تقسیم اور بالفور ڈیکلریشن کے مطابق یہودی ریاست کا قیام تھا۔ جبکہ اہلِ عرب بھی اپنے دیرینہ مطالبوں مثلاً مکمل آزادی انتدابی حکومت کا خاتمہ اور یہودی ہجرت، زمین کی خریدو فروخت اور انتقال کی ممانعت پر ڈٹے ہوئے تھے۔ کانفرنس کے خاتمے کے کچھ عرصہ بعد ۱۷، مئی ۱۹۳۹ء کو وائٹ پیپر کے نام سے اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں مسئلۂ فلسطین کی بابت کچھ خود ساختہ اصول طے کرتے ہوئے اسے دس سال تک کے لیے موخر کر دیا گیا۔

جاری ہے

*****

کتابیات:

 دکتور محمد علي البار، دارالقلم، دمشق

واقدساه، دکتور سید حسین العفانی مکتبة دار البیان الحدیثیة، السعودیة الطائف

فلسطین في عهد الانتداب، دکتور أحمد طربین،shorturl.at/druNO

الثورة الکبریٰ العربیة في فلسطین، صبحي محمد یاسین، noor-book.com/wgper0

مذکرات عوني عبد الهادي، مرکز دراسات الوحدةالعربیة، بیروت لبنان، سبتمبر ۲۰۰۲ء

لرننگ پورٹل