جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024
اس کتاب کے بنیادی طور پر تین حصے کیے جا سکتے ہیں
پہلا حصہ اس بات کی تفصیل پر مشتمل ہے کہ فتنہ کسے کہتے ہیں؟
احادیثِ فتن کی اہمیت کیا ہے اور محدثین نے ان احادیث کے بیان و تفہیم میں کن اصولوں کو پیشِ نظر رکھا،
نیز ان احادیث پر کلام کے لیے کس قدر استعداد کی ضرورت ہے۔
کتاب کا دوسرا حصہ ان افراد کے تذکرے پر مشتمل ہے جنھوں نے احادیثِ فتن پر گفتگو کی۔
مزید برآں، ان احادیث پر گفتگو کے محرِکات کیا تھے۔
چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے اُن اصحابِ علم کی خدمات بھی بیان کیں جنھوں نے اعتدال کے ساتھ ان احادیث کی تشریح کی مثلاً شیخ ابو بکر الجزائری، ڈاکٹر سفر بن عبد الرحمن الحوالی وغیرہ۔
اور ڈاکٹر صاحب نے ان مفکرین کی تصنیفات کا بھی جائزہ پیش کیا جنھوں نے عدم استعداد کے باوجود احادیثِ فتن کو موضوع بنایا اور اس باب میں طرح طرح کی غلط تاویلات اور لغو تشریحات کا ایک سلسلہ شروع کر …
مغربی تہذیب کے اثرات ”جدیدیت“ کے نام سے اہلِ مذہب پر کیا پڑے،
پیشِ نظر تحریر میں واضح الفاظ میں ان کی نشان دہی کی گئی ہے:
حدیثِ جبریل میں وارد ہونے والے دین کے تین بڑے شعبوں:
علم الکلام، علم الفقہ، اور علم التصوف کا انکار کردیا گیا،
چند کتابیں پڑھنے کے بعد امت کے سلف پر بد اعتمادی اور ان کی خدمات کا بڑی جراٴت سے انکار کیا گیا، سلف کی تعبیرات کو دین کی غلط تعبیرات قرار دیا گیا،
پھر اپنی سمجھ اور فہم کو بنیاد بنا کر تواترِ امت کا انکار کردیا گیا۔
اس کے نتائج کہیں تو بے عملی اورکہیں بدعملی کی صورت میں ظاہر ہوئے اور کہیں تو بات تشکیک تک جا پہنچی۔ خود بینی اور خود نمائی کے مرَض پر ٹیکنالوجی نے خوب اضافہ کیا۔
خلاصہ یہ کہ مغربی تہذیب کے مخفی اثرات تین طرح کے ہیں:
جدیدیت، ظاہریت، اور خارجیت۔