مولانا محمد شفیع قاسمی بھٹکلی
نوٹ:یہ مضمون جنوری ۲۰۱۵ءمیں ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند میں شائع ہوا، اور یہاں اسے معمولی تبدیلی کے بعد دوبارہ شائع کیا گیاہے
قدیم زمانے سےیہ بات مشہور و معروف ہےکہ آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰﷺکی پیدائش پیر کے دن بارہ ربیع الاول کوہوئی۔ اور بارہ ربیع الاوّل کو برصغیر میں حکومت کی طرف سے چھٹیاں بھی ہوتی ہیں، مگر افسوس کہ کچھ لوگ تاریخِ ولادت کے بارے میں ایک مہم چلائے ہوئے ہیں کہ رسول اللہﷺکی پیدائش بارہ( ۱۲) ربیع الاول کو نہیں ہوئی ؛ بلکہ آٹھ (۸) یا نو(۹) کوہوئی،اور کچھ مصنفین کے اقوال دلیل میں پیش کرتے ہیں، مگر سچ بات یہ ہے کہ جمہور علماےاہل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک رسول اللہﷺکی تاریخِ پیدائش بارہ ربیع الاول ہی ہے، سیکڑوں علما کے اقوال کتابوں میں موجود ہیں۔لہٰذا صحیح تاریخِ ولادت کے متعلق علماے امت کے اقوال کا نقل کرنا ہم ضروری سمجھتے ہیں:
حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت جابر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آپﷺکی پیدائش بارہ ربیع الاول کوہوئی۔مشہور مؤرخ امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وُلِدَ رسولُ اللهﷺیومَ الإثْنَیْنِ لِاثْنَتَيْ عَشَرَةَ لیلةَ خَلَتْ مِنْ شَهْرِ رَبِیْعِ الْأَوّلِ عَامَ الْفیلِ.(السیرة النبویة لابْنِ هشام: ۱/۲۸۴)’’رسول اللہﷺکی پیدائش ربیع الاول کی بار ھویں رات عامِ فیل (۵۷۱ عیسوی) میں ہوئی‘‘۔ مشہور مؤرخ ومحدث امام ابوحاتم بن حبان رحمہ اللہ (متوفیٰ۳۵۴ ھ) لکھتے ہیں:وُلِدَ النّبيُﷺعامَ الْفِیلِ یَوْمَ الْإثنین لاِثْنَتَيْ عَشَرَةَ لیلةَ مَضَتْ مِنْ شَهْرِ رَبِیْعِ الْأَوّلِ.(السیرة لابن حبان: ۱/۳۳)’’رسول اللہﷺکی پیدائش ربیع الاول کی بار ھویں رات عامِ فیل (۵۷۱عیسوی) میں ہوئی‘‘۔امام ابوالحسن ماوردی شافعی رحمہ اللہ (متوفیٰ۴۵۰ ھ) لکھتے ہیں :وُلِدَ بَعْدَ خَمْسِیْنَ یَوماً مِنَ الْفیلِ وبَعْدَ مَوتِ أبیهِ في یَومِ الإثنَیْنِ عَشَرَ مِنْ شَهْرِ رَبِیْعِ الْأَوّلِ (أعلام النبوة:۱/۲۳۰)’’رسول اللہﷺکی پیدائش اپنے والد کے انتقال کے بعد اور واقعۂفیل کے پچاس دن بعد پیر کے دن بارہ ربیع الاول کو ہوئی‘‘۔علامہ قسطلانی رحمہ اللہ (متوفیٰ۹۲۳ ھ) لکھتے ہیں: والمشهورُ أنّه وُلِدَ یومَ الإثنینِ ثانيَ عَشَرَ شَهْرِ رَبِیْعِ الْأَوّلِ، وهُوَ قولُ ابْنِ إسْحَاقَ وغیره.(المواهِبُ اللَّدُنِّیة بِالْمَنْحِ الْمُحَمَّدِیَّة:۱/۸۰)’’مشہور قول کے مطابق رسول اللہﷺکی ولادت بارہ ربیع الاول پیر کے دن ہوئی۔ اور یہی قول حضرت ابنِ اسحاق (تابعی) وغیرہ کا ہے۔شیخ محمدبن عمر بحرقی حضر می شافعی رحمہ اللہ (متوفیٰ۹۳۰ ھ) لکھتے ہیں :قال علماءُ السِّیَر:وُلِدَ النّبيُﷺفي رَبِیْعِ الْأَوّلِ یومَ الإثنینِ بِلا خِلافٍ ثُمَّ قالَ الأَکْثَرُوْنَ: لیلةَ الثّاني عَشَرَ منه.(حدائق الأ نوار و مطالع الأسرار: ۱/۱۰۵)’’علماے سیرت کا اس با ت پر اتفاق ہےکہ رسول اللہﷺکی پیدائش ربیع الاول کے مہینےمیں پیر کے دن ہوئی، اور جمہور علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بارہ ربیع الاول کی تاریخ تھی‘‘۔علامہ مناوی رحمہ اللہ (متوفیٰ۱۰۳۱ ھ) لکھتے ہیں:الأَصَحُّ أَنّهُ وُلِدَ بِمَکَّةَ بِالشِّعْبِ بَعْدَ فَجْرِ الْإثنینِ ثانيَ عَشَرَ رَبِیْعِ الْأَوّلِ عَامَ الْفِیْلِ.(فیض القدیر:۳/۵۷۳) ’’صحیح بات یہ ہے کہ رسول اللہﷺبارہ ربیع الاول کی صبح شعبِ مکہ میں واقعۂفیل کے سال پیر کے دن پیدا ہوئے‘‘۔علامہ ابو عبد اللہ محمد زرقانی مالکی رحمہ اللہ (متوفیٰ۱۱۲۲ ھ) المواهب اللدنیة کی شرح میں لکھتے ہیں: والمشهورُ أنّه وُلِدَ یومَ الإثنینِ ثانيَ عَشَرَ رَبِیْعِ الْأَوّلِ، وهُوَ قولُ محمدِ بْنِ إسْحَاقَ بن یسار إمام المغازي، وقول (وغیره) قال ابنُ کثیرٍ: وَهُوَ الْمَشْهُورُ عِنْدَ الْجَمْهُورِ، وبالغَ ابنُ الجوزي وابن الْجَزّار فنقلَا فیه الْإجْماعَ.(شرح الزرقاني علی المو اهب اللد نیة بالمنح المحمدیة۱/۲۴۸)’’مشہور قول کے مطابق رسول اللہﷺکی ولادت بارہ ربیع الاول پیر کے دن ہوئی۔ اور یہی قول مغازی اور سیرت کے امام حضرت محمد بن اسحاق بن یسار (تابعی) اور دیگر اہلِ علم کا ہے۔ علامہ ابنِ کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جمہور کا یہی قول ہے، علامہ ابنِ جوزی اور ابنِ جزار نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ (متوفیٰ۱۳۶۲ ھ) لکھتے ہیں:’’جمہور کے قول کے موافق بارہ ربیع الاول تاریخِ ولادتِ شریفہ ہے‘‘۔(إرشاد العباد في عید المیلاد،ص:۵)حضرت مولانا سیدسلیمان ندوی رحمہ اللہ (متوفیٰ۱۳۷۳ ھ) لکھتے ہیں:’’پیدائش بارہ تاریخ، ربیع الاو ل کے مہینے میں پیر کے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پانچ سو اکہتر برس بعد ہوئی۔ سب گھر والوں کو اس بچے کے پیدا ہونے سے بڑی خوشی ہوئی‘‘۔(رحمتِ عالم، ص:۱۵)حضرت مفتی محمد شفیع دیوبندی رحمہ اللہ صدرمفتی دارالعلوم دیوبندو مفتیٔاعظم پاکستان (متوفیٰ۱۳۹۶ھ) لکھتے ہیں:’’الغرض جس سال اصحابِ فیل کا حملہ ہوا، اس کے ماہ ربیع الاول کی بارھویں تاریخ روزِ دوشنبہ دنیا کی عمر میں ایک نرالا دن ہےکہ آج پیدائشِ عالَم کا مقصد، لیل ونہار کے انقلاب کی اصل غرض، آدم علیہ السلام اور اولاد ِآدم کا فخر، کشتیٔ نوح علیہ السلام کی حفاظت کا راز، ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور موسیٰ علیہ السلام کی پیشین گوئی کا مصداق یعنی ہمارے آقاے نامدار محمدﷺرونق افروزِ عالم ہوتے ہیں‘‘۔ (سیرتِ خاتم الانبیاء،ص:۱۱) مولانا سید ابوالا علی مودودی رحمہ اللہ (متوفیٰ۱۳۹۹ھ) لکھتے ہیں:’’رسول اللہﷺکی پیدائش ربیع الاول میں ہوئی، ولادت پیر کے روز ہوئی، یہ بات خود رسول اللہﷺنے ایک اعرابی کے سوال پر بیان فرمائی، (صحیح مسلم بروایتِ قتادہ)، ربیع الاول کی تاریخ کون سی تھی ؟ اس میں اختلاف ہے، لیکن ابن ابی شیبہ نے حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کایہ قول نقل کیا ہے کہ آپ بارہ ربیع الاول کو پیدا ہوئے تھے، اسی کی تصریح محمد بن اسحاق نےکی ہے، اور جمہورِ اہلِ علم میں یہی تاریخ مشہور ہے‘‘۔(سیرتِ سرورِ عالمﷺ، ج:دوم، ص: ۹۳،۹۴)حضرت مفتی محمود حسن گنگو ہی رحمہ اللہ صدرمفتی دارالعلوم دیوبند (متوفیٰ۱۴۱۷ھ) لکھتے ہیں:’’حضرت عبداللہ کی شادی حضرت آمنہ بنت وہب سے ہوئی،جو بنی زہرہ کے خاند ان سے تھیں، اس مبارک و مسعودشادی کے بعد شہرِ مکہ میں حضرت آمنہ کے بطن سے دوشنبہ بارہ ربیع الاول مطابق ۲۰ اپریل ۵۷۱ عیسوی کی صبح وقت حضرت محمد مصطفیٰﷺکی ولادتِ باسعادت ظہور پذیر ہوئی ‘‘۔(گلد ستۂ سلام، ص:۱۸)حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ (متوفی۱۴۲۰ ھ) لکھتے ہیں: وَوُلِدَ رسولُ اللهﷺیومَ الإثنینِ الیومَ الثّاني عَشَرَ مِنْ شَهْرِ ربیعِ الأولِ، عامَ الْفِیلِ أَسْعَدَ یَومٍ طَلَعَتْ فیهِ الشَّمْسُ. (السیرةُ النبویة،ص:۱۱۱)’’بارہ ربیع الاول پیر کے دن، عام الفیل میں نبی اکرمﷺکی ولادت ہوئی، سب سے مبارک دن تھاجس پر سورج طلوع ہوا‘‘۔فتاویٰ لجنہ دائمہ میں ہے:وُلِدَ النّبيُﷺیومَ الإثنین لاثنتي عشرةَ لیلةَ مَضَتْ مِنْ شَهْرِ ربیعِ الأولِ، عامَ الْفِیلِ.(فتاویٰ اللجنةِ الدائمةِ، فتویٰ رقم۳۴۷۴)’’رسول اللہﷺکی پیدائش ربیع الاول کی بارھویں رات عامِ فیل (۵۴۱عیسوی)میں ہوئی‘‘۔
طوالت کے خوف سے صرف پندر ہ علما کے اقوال پر اکتفا کیا گیا ہے۔ نو ربیع الاول کے قول کی تردید میں مفتیٔاعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ کی کتاب سیرتِ خاتم الانبیاء کے حاشیے میں اس طرح لکھا ہے: مشہور قول بارھویں (۱۲) تاریخ کا ہے۔ یہاں تک کہ ابن الجز ار نے اس پر اجماع نقل کردیا ہے، اور اسی کو کامل ابنِ اثیر میں اختیار کیا گیا ہے، اور محمود پاشا علی مصری نے جونویں تاریخ کو بذریعہ حساب اختیار کیاہے، یہ جمہور کےخلاف بے سند قول ہے اور حسابات پر بوجہِ اختلافِ مطابع ایسا اعتماد نہیں ہو سکتا ہے کہ جمہور کی مخالفت اس بنا پر کی جائے۔ (حاشیۂ سیرتِ خاتم الا نبیاء، ص:۱۱)
محمود پاشاصاحب نے حساب سے نو ربیع الاول، عامِ فیل کو پیر کا دن قرار دیاہے، یہ صحیح نہیں معلوم ہوتاہے، ہمارے حساب سے بارہ ربیع الاول، عامِ فیل مطابق ۲۳ اپریل ۵۷۱ عیسوی کو پیر کا دن پڑتا ہے۔ مولانا مودددی رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ بعض اہل ِ تحقیق نے اسے ۲۳ اپریل ۵۷۱ء کے مطابق قرار دیاہے۔(سیرتِ سرورِ عالَم، ج:دوم، ص:۹۴) بعضوں نے البد ایۃ والنہایۃ کے حوالے سے آٹھ ربیع الاول کو راجح لکھا ہے۔ شاید بدایۃ میں پوری بحث پڑھنے کی ان کو فرصت نہیں ملی، اسی بدایۃ میں:قیل لِثِنْتَي عشرةَ…وهذا هو المشهورُ عند الجمهورِلکھا ہوا ہے۔اس میں صاف طور پر لکھا ہے کہ بارہ ربیع الاول کا قول جمہور کا قول ہے۔ رہاروایت میں الثامن عشر کا لفظ، بارہ ربیع الاول کے مخالف لوگوں کی مہربانی یا کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے کہ مصنف بارہ ربیع الاول کے قول کی دلیل میں یہ روایت نقل کررہے ہیں،بارہ ربیع الاول کے قول میں اٹھارہ کی روایت نقل کرنامصنف کے مدعےکے خلاف ہے، نیز مصنف نے اپنی دوسری کتاب السیرة النبویة میں اسی روایت کو ان الفاظ کے ساتھ نقل کیاہے: عن جابرٍ وَابْنِ عباسٍ أنّهما قالا: وُلِدَ رسولُ اللهﷺعامَ الفیلِ یومَ الإثنینِ الثانيَ عَشَرَ مِنْ شَهْرِ رَبِیعِ الْأَوّلِ…نیز البدا یۃ والنہایۃ کے مکتبۃ المعارف بیروت سے شائع ہونے والے نسخے کے حا شیے میں اس طرح لکھا ہے: کذا رأَیْتُهُ الثّامنَ عشرَ، والصَّوابُهُ الثّانيَ عَشَرَ. ’’اس طرح میں نے اٹھارہ لکھا ہوا دیکھا ہے لیکن صحیح بارہ تاریخ ہے‘‘لہذااہلِ علم حضرات سے گزارش ہے کہ کسی ایک کتاب کو دیکھ کر فیصلہ نہ کریں بلکہ دوسری کتابوں سے بھی تحقیق کریں۔ آج کل حدیث کی کتابوں میں تحریف وتبدیل کا سلسلہ جاری ہے۔ شاملہ کے ایک نسخے میں حدیث کے الفاظ دوسرے شاملہ کے الفاظ سے مختلف یا حذف ہیں۔ ہمارے خیال میں جس وقت آپﷺمکہ میں پیدا ہوئے، اس وقت مکہ میں بارہ ربیع الاول کی تاریخ تھی، اور دوسرے علاقوں میں دوسری تاریخ تھی، کیونکہ قمری تاریخ، مختلف مما لک میں مختلف ہوتی ہے۔ غرض جس دن آپﷺپیدا ہوئے اس وقت مکہ میں بارہ ربیع الاول کی تاریخ تھی۔ لہٰذا صحیح مشہور اور راجع قول کے مطابق رسول اللہﷺکی پیدائش بارہ ربیع الاول ہی کوہوئی۔
رہا ۱۲ ربیع الاول کو تاریخِ وفات کہنا! کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ رسول اللہﷺکی وفات پیر کے دن ہوئی، اورصحیح بخاری ہی کی روایت میں منقول ہے کہ حجتہ الوداع کے موقعے پر عرفہ کادن جمعے کا دن تھا، اور ایک روایت سے معلوم ہوتاہے کہ عرفہ کے اکیاسی دن کے بعد آپﷺکی وفات ہوئی۔ اس حساب سے بارہ ربیع الاول کوپیر کا دن کسی طرح نہیں پڑتا ہے، لہٰذا علامہ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ ہی کی رائے کو ماننا پڑے گا کہ آپ کی وفات دو ربیع الاول بروز پیر کو ہوئی۔
علامہ سہیلی رحمہ اللہ(متوفیٰ۵۷۱ھ) نے روض الانف میں، علامہ تقی الدین ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ (متوفیٰ۷۲۸ھ) نےمنہا ج السنۃ میں، علامہ شبلی نعمانی نےسیرت النبیﷺ میں یکم ربیع الاول لکھا ہے۔ اور علامہ مغلطائی، علامہ ابنِ حجر عسقلانی نے فتح الباری میں، شیخ محمد بن عمر بحرقی حضرمی شافعی (متوفیٰ۹۳۰ ھ) نے حدائق الانوار میں، مفتی محمدشفیع دیوبندی (مفتیٔاعظم پاکستان) نے سیرتِ خاتم الا نبیاء میں، میاں عابد احمد نے شانِ محمدﷺمیں دو ربیع الاول لکھا ہے۔ سیرتِ خاتم الابنیاء کے حاشیے میں لکھا ہے: تاریخِ وفات میں مشہور یہ ہے کہ بارہ ربیع الاول کو واقع ہوئی اور یہی جمہور مورخین لکھتے چلے آئے ہیں، لیکن حساب سے کسی طرح بھی یہ تاریخِ وفات نہیں ہوسکتی ہے، کیوں کہ یہ بھی متفق علیہ اور یقینی امرہے کہ وفات دو شنبہ کو ہوئی اوریہ بھی یقینی ہے کہ آپ کا حج نوذو الحجہ بروز جمعے کو ہوا۔ ان دونوں باتوں کے ملانے سے بارہ ربیع الاول روزِ دوشنبہ میں نہیں پڑتی ۔ اسی لیے حافظ ابن حجر نے شرحِ صحیح بخاری میں طویل بحث کے بعد اس کو صحیح قرار دیاہے کہ تاریخِ وفات دوسری ربیع الاوّل ہے، کتابت کی غلطی سے’ ۲‘’ ۱۲‘ بن گیا۔ حافظ مغلطا ئی نے بھی دوسری تاریخ کو ترجیح دی ہے۔ واللہ اعلم
بارہ ربیع الاول گیارہ ہجری کو پیر کا دن کسی حساب سے نہیں پڑتا، اس لحاظ سے رسول اللہﷺکی وفات یکم یا دوم ربیع الاول بروزپیر کو صحیح معلوم ہوتی ہے۔ اور یہ تاریخ ۲۸ مئی ۶۳۲ عیسوی ہوتی ہے۔ جس وقت آپﷺکا وصال ہوا اس وقت مدینہ میں دو ربیع الاول، گیارہ ہجری مطابق ۲۸ مئی ۲۳۶ عیسوی پیر کادن تھا اور دوسرے علاقوں میں یکم ربیع الاول گیارہ ہجری، مطابق ۲۸ مئی ۶۳۲ عیسوی پیر کا دن ہو گا۔ اس حساب سے یکم اور دوم ربیع الاول کا اختلاف ختم ہو گا۔ غرض ہر جگہ پرپیر کا دن تھا اور ۲۸ مئی ۶۳۲ عیسوی کی تاریخ تھی، ہجری تاریخ مختلف ملک میں مختلف ہو سکتی ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب