لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

احمد جاویدؔ

سرہانے میرؔ کے

پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تئیں
معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا

عربی کا مشہور مقولہ ہے:من عرف نفسه فقد عرف ربّه۔جس نے اپنے نفس کو پہچانا،اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔اس طرح کے اقوال ہر روایت میں ملتے ہیں،وہ روایت چاہے فلسفیانہ ہو یا ما بعد الطبیعی اور دینی۔اسی طرح روایتی شاعری میں اس قول کو طرح طرح سے استعمال کیا گیا ہے اور اس کے نئے نئے contextبنائے گئے ہیں۔میرؔ نے اس مضمون کو جس contextمیں صرف کیا ہےوہ بالکل نیا تو نہیں لیکن اس میں ایک تازگی سی ضرور محسوس ہوتی ہے۔پہلا مصرع تو عربی مقولے کا ترجمہ ہی ہے،یعنی ’پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تئیں‘۔جب میں نے اپنے نفس کی معرفت حاصل کرلی تو مجھے اپنی رب کی معرفت میسر آگئی۔اب اس میں تازگی کا پہلو یہ ہے کہ اپنے آپ تک پہنچ کر پتا چلا کہ میں اب تک بہت ہی دور تھا۔ خود سے بھی اور اپنے رب سے بھی۔یعنی خود سے دوری کاسبب رب سے دوری تھا اور اسی طرح رب سے دوری کی وجہ اپنے سے دوری تھی۔یہ اس شعر کا مضمون ہے۔اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس مضمون کو کہا کس طرح گیا ہے۔’پہنچا جو آپ کو‘ میں پہنچا رسائی کے معنی میں بھی ہے اور سمجھنے کے مفہوم میں بھی ہے۔یعنی پہنچنے میںpassivity بھی ہے اور activity بھی۔یہ پہنچنا ایک ہی منزل تک ہے۔اس منزل پر پہنچنے والا اگر کہےکہ میں اپنے تک پہنچا،تو بھی ٹھیک ہے اور اگر بتائے کہ میں خدا تک پہنچ گیا،تو بھی غلط نہیں۔’معلوم اب ہوا‘،یعنی پہنچنے کے بعد مجھے یہ معرفت میسر آئی کہ بہت میں بھی دور تھا۔یہاں’ بھی‘ کاکوئی قرینہ فہمِ عام کے عادی ذہن سے نہیں سمجھا جاسکتا۔ذرا سوچیے یہاں بھی کیوں آیا ہے؟ اگر اتنا کہہ دیتے تو کافی تھاکہ معلوم اب کہ بہت میں دور تھا۔تو سے وزن بھی پورا ہوجاتا اور بات بھی جلدی سمجھ میں آجاتی۔پھر یہاں بھی کیوں لائے ہیں بھائی،یہ میر کی کرامت ہے۔لوگ بڑے بڑے لفظ لاکر اپنی انفرادیت قائم کرتے ہیں،میر حروفِ جار اور نامکمل لفظوں سے قیامت برپا کردیتے ہیں۔’بھی‘ کی معنویت کو اس طرح سمجھیں کہ خدا تو مجھ سے دور تھاہی،میں بھی اس سے دور تھا۔دوسرا بلکہ اس سے زیادہ واضح مطلب یہ ہوگا کہ خدا تو مجھ سے دور تھا۔یعنی میرے لیے خدا بھی دور تھا اور میں بھی دور تھا۔

وجود کو اگر ایک بیان سمجھیں تو اس بیان کا مرکزی مضمون خدا ہے، اور خدا سے نزدیکی اور دوری اس بیان کے کلمات یعنی موجودات کے معنوی مراتب کا تعین کرتی ہے۔گویا موجود ایک لفظ ہے جس کا حقیقی معنی خدا ہے اور عارضی مطلب ’میں‘ ہے۔خدا حقیقت ہے اور میں تصور۔لیکن یہ تصور چونکہ موجودیت کی اصل ہے لہذا ’میں‘ نظامِ ہستی کی حرکیات(dynamism)میں اساس کی حیثیت رکھتا ہے اور ایک سانچے کی طرح ہے جس میں موجود ہونے کے احوال،حدود اور صورتوں کی ڈھلائی ہوتی ہے۔اسی لیے موجود ہونے کا مطلب ہی ’میں‘ ہونا ہے،کہیں شعور کے ساتھ اور کہیں شعور کے بغیر۔پورا کارخانۂ موجودات ’میں‘ کی processing اور reprocessingپر چل رہا ہے۔وہ ’میں‘ انسان کی نسبت سے اعتباری ہے اور خدا کی نسبت سے حقیقی۔یہاں اعتباری کا مطلب سمجھ لیجیے،یہ وہم اور مفروضہ نہیں ہے بلکہ علم کی ماہیت ہی اعتبار ہے اور ذہن کا سارا نظام اعتبار پر قائم ہے۔حقیقت ذہن میں آتے ہی اعتبار بن جاتی ہے۔تو اعتبار کا مطلب یہ ہے جسے حقیقی کہنا غلط ہوگا اور غیر حقیقی قرار دینا اس سے بھی زیادہ غلط۔کیونکہ اعتبار حقیقت کی ذہنی صورت کو کہتے ہیں۔یہ صورت حقیقت کے ساتھ ایجابی(affirmative) تعلق رکھتی ہے،سلبی (negative)نہیں۔یعنی اعتبار حقیقت کا validمظہر ہے اور حقیقت سے دوری یا نزدیکی کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ ہم اس مظہر سے دور ہیں یا نزدیک۔یعنی ’میں‘ وجود کی خود شعوری (self-consciousness) کا حاصل ہے اور خود وجود کا پہلا تعین ہے۔تو مطلب یہ ہوا کہ اصل دوری،اپنے آپ سے دوری ہے، لیکن بات یہاں پوری نہیں ہوئی۔پوری بات یہ ہے کہ اصل دوری اپنے آپ سے دوری ہے اور اصل نزدیکی خدا سے نزدیکی ہے۔خود کو کھودینے والا خدا کو نہیں پاتا اور خود کو پالینے والا خدا کو نہیں کھوتا۔یہ ہے اس شعر کا خلاصہ بلکہ پورا مطلب۔

 اس شعر سے ایک بہت باریک بات بھی اخذ کی جاسکتی ہے۔وجود کا نظامِ خودیpattern of selfhood تقسیم اور فاصلے سے بنا ہے۔یعنی ’میں‘ کی تعمیر غیریت سے ہوئی ہے،عینیت سے نہیں۔اس شعر میں خودی یعنی اعتباری خودی کو اسی سطح پر بیان کیا گیا ہے،’میں‘ میں وہ بھی شامل ہے جو آپ تک پہنچا،اور وہ آپ بھی شامل ہے جس تک پہنچا گیا۔یہ بات ذہن میں رہے تو شعر کا لطف بڑھ جائے گا۔

لرننگ پورٹل