تحریر و تخریج: ڈاکٹر مبشر حسین رحمانی
استاذ کمپیوٹر سائنس، ایم ٹی یو، آئر لینڈ
دینِ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور ہمیں چوبیس گھنٹے کی زندگی میں آنے والے ہرمعاملے کے اندر قیامت تک آنے والے مسائل کی مکمل رہنمائی فرماتا ہے۔ اللہ پاک جزاے خیر عطا فرمائے علماے کرام کو کہ جنھوں نے صدیوں پہلے اپنی زندگیاں وقف کردیں اورمستقبل میں پیش آنے والے مسائل کا حل امت کو بتلایا۔ نیز اس وقت بھی علماے کرام اپنی زندگیاں وقف کرکے امت کو درپیش نئےمسائل میں مکمل شرعی رہنمائی فرمارہے ہیں۔ اور اسی کا نام اسلامی فقہ ہے یعنی ”فقہ ظاہری اعمال کے متعلق تمام احکامِ شرعیہ کا علم ہے جو ان کے تفصیلی دلائل سے حاصل کیا جائے“ (حوالہ: نوادر الفقہ، ج:اول، ص: ۳۳)۔احکامِ شرعیہ کا مطلب یہ ہے کہ ہر اچھےبرے کام سے متعلق یہ جاننا کہ اس پر شریعت نے کون سا حکم لگایا ہے۔ نیز احکامِ شرعیہ کے چار دلائل ہیں یعنی قرآن، سنت، اجماع، اور قیاس۔ آسان الفاظ میں کسی بھی عمل کے متعلق یہ بات کہ وہ فرض ہے یا واجب، یا مندوب (یعنی مستحب) ہے یا مباح (یعنی جائز)، یا حرام ہے یا مکروہ ثابت کرنے کا ذریعہ یا تو قرآن پاک ہے یا سنت یا اجماع ہے یا قیاس۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی حدیث میں بھی اس کی صراحت ہے ۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ قیاس بھی قرآن، سنت اور اجماع کا تابع ہوتا ہے (حوالہ: فقہ میں اجماع کا مقام)۔ نیز فقہِ اسلامی کے کچھ ذیلی مآخذ بھی ہیں مثلاً استحسان، استصحابِ حال، مصالحِ مرسلہ، عرف وعادت، قولِ صحابی، سد ذرائع، شرائع من قبلنا اور تعامل اخیار یعنی تعاملِ اہلِ مدینہ اور اہلِ مکہ (حوالہ: فقہِ اسلامی کے ذیلی مآخذ، فقہ اور اصولِ فقہ کی تدریس-ماہنامہ بینات اپریل ۲۰۱۹ء)۔ ائمہ اربعہ یعنی فقہِ حنفیہ ، شافعیہ ، مالکیہ اور حنبلیہ کے یہاں بنیادی اجتہادی اصول و مآخذ تو چار ہیں البتہ ذیلی مآخذ کی ترتیب ، اُصول اور منہجِ استنباط میں اختلاف ہے(حوالہ: فقہ اور اصولِ فقہ کی تدریس-ماہنامہ بینات اپریل ۲۰۱۹ء، فقہِ حنفی اور اُس کا منہجِ استنباط – ماہنامہ بینات اپریل ۲۰۲۱ء)۔ اہم بات یہ ہے کہ عوام خود قطعاً ان مسائل کا استنباط نہیں کرسکتے اور اگر عوام میں سے کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرے گا تو اسی سے گمراہی کا راستہ کھلتا ہے۔دوسری اہم چیز یہ ہے کہ کسی حکم کی علت اور حکمت بھی علماے کرام ہی بتائیں گے۔
جب کسی چیز کے بارے میں علماے کرام شریعت کا اس مسئلے سے متعلق حکم بتاتے ہیں تو سب سے پہلے نصوص کو دیکھتے ہیں یعنی قرآن پاک، پھر سنت، پھر اجماعِ امت اور پھر اس مسئلے سے متعلق انھی تینوں چیزوں کےدائرۂ کار میں رہتے ہوئے قیاسِ شرعی کیا جاتا ہے ۔یعنی اگر شراب سے متعلق حکم جاننا ہے کہ وہ حلال ہےیا حرام تو پہلے قرآن پاک میں دیکھا جائے گا کہ اس سے متعلق کیا حکم آیاہے، پھر سنت، پھر اجماع اور اگر ان تینوں میں کوئی بات صراحت سے نہ ملے تو قیاسِ شرعی کیا جائے گا۔اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ دیکھیے شراب کا چونکہ عرف ہے لہذا اس بنا پر اس کو جائز قرار دیا جائے تو اس نے نصوص کو نہیں دیکھا، اس کو چاہیے تھا کہ پہلے وہ نصوص میں شراب کا حکم تلاش کرے۔ اگر کوئی یہ دلیل دے کہ چونکہ شراب کا عمومِ بلویٰ ہوچکا ہے یعنی کہ عام اور خاص میں شراب اس حد تک عام ہوچکی ہے کہ اس سے حفاظت اور کنارہ کشی اختیار کرنا بہت مشکل ہے لہذا اس بنا پر اس کو جائز قرار دیا جائے تو اس نے بھی پہلے نصوص کو نہیں دیکھا۔ علماے کرام یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ کسی بھی چیز سے متعلق ہم پہلے بنیاد کودیکھیں گے کہ نصوص میں اس سے متعلق کیاحکم آیا ہے اور اگر ضرورت پڑی تو پھر فقہِ اسلامی کے ذیلی مآخذ کی طرف جایا جائے گا۔
اسی طریقے سے کرپٹو کرنسی سے متعلق حکم جاننے کے لیے بھی علماے کرام پہلے نصوصِ شرعی کو دیکھیں گے اور یہ دیکھیں گے کہ کرپٹو کرنسی میں بنیادی طور پر کیا خصوصیات اور خامیاں ہیں اور پھران کو دیکھتے ہوئے کرپٹو کرنسی سے متعلق جواز یا عدمِ جواز کی کوئی رائے قائم کریں گے۔ یعنی سب سے پہلے کرپٹو کرنسی میں جو بنیادی خامیاں ہیں علماے کرام اُن کا جائزہ لیں گے۔ اگر وہ خامیاں ایسی ہیں کہ جن کے احکام نصوص میں موجود ہیں جن کی بنیاد پر مفتیانِ کرام اس کے عدمِ جواز کا فتویٰ دیتے ہیں تو فقہِ اسلامی کے ذیلی مآخذ یعنی سد ذرائع، عرف اور عمومِ بلویٰ کی طرف جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ اب ہم سب سے پہلے انھی تین دلائل کی بات کرتے ہیں۔
عُر ف کے ذیل میں کرپٹو کرنسی کے بارے میں کچھ حضرات یہ کہتے ہیں کہ چونکہ کرپٹو کرنسی رائج ہوجائے گی یا کچھ ممالک میں ہوچکی ہے، اس کا عرف قائم ہونے جارہا ہے یا ہوچکا ہے اور اس سلسلے میں کئی ممالک میں اس پر قانون سازی کا عمل کیا جاچکا ہے اور کئی میں اس پر کام جاری ہے اور عرف میں کرپٹو کرنسی کو ”زر“ سمجھا جاتا ہے لہذا اس کا استعمال اور اس میں سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے۔ اور اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ چونکہ شریعت میں عرف معتبر ہوتا ہے لہذا کرپٹو کرنسی کااستعمال جائز ہے۔
پہلے بنیادی طور پر سمجھ لیجیے کہ عرف دو طرح کا ہوتا ہے یعنی عرف صحیح اور عرف فاسد۔ اور عرف کو علاقوں میں رائج ہونے کے اعتبار سے عرف عام اور عرف خاص میں بھی تقسیم کیا جاتاہے۔ عرف صحیح وہ ہے جو کہ نصوصِ شارع کے معارض نہ ہو۔ اسی طرح کے عرف کو لینا اور اختیار کرنا معتبر ہوگا۔ چونکہ یہ اصولِ شرعی میں ایک اصل ہے (حوالہ: فقہِ اسلامی کے ذیلی مآخذ، ص:۲۵۵)۔عرف فاسد یہ ہے کہ جس سے لوگ متعارف ہوں لیکن وہ شریعت مخالف ہو اور قواعدِ شرع سے متصادم ہو۔ اب عرف عام ہو یا عرف خاص، بات یہ دیکھی جائے گی کہ وہ عرف فاسد تو نہیں۔
ہم اس بات کو بنیاد بنا کر کہ کوئی چیز رائج ہے یا رائج ہو کر رہے گی، عمومی طور پراس کی حلت و حرمت کا فیصلہ نہیں کرسکتے جب تک کہ وہ اسلامی اصول و ضوابط کے مطابق نہ ہو۔اصولی طور پر یہ بات ذہن نشین رہے کہ ”نصوص کی موجودگی میں عرف و عادت کی وجہ سے احکام میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی یعنی جو عرف نصِ شرعی کے خلاف ہو اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا“۔ (حوالہ: آپ فتویٰ کیسے دیں؟ شرح عقود رسم المفتی)
دیکھیے جب فقہاے کرام یہ کہتے ہیں کہ عرف کی تبدیلی سے احکام بدل جاتے ہیں تو ذہن میں رہے کہ ہر طرح کے احکام نہیں بدلتے بلکہ ایسے احکام ہی بدلیں گے جن کی بنیاد عرف پر ہو۔مثلاً اس وقت پوری دنیا خاص طور پر مغرب میں شراب عام ہے اور بیش تر ممالک میں اس کا استعمال باقاعدہ قانون کے تحت جائزہے اور یہ عوام الناس میں رائج بھی ہے تو کیا اس کے وسیع استعمال سے علماے کرام نے اس کی حلت کا فتویٰ دے دیا ہے؟ نیز جوا، قمار اور سود اسلامی شریعت میں جائز نہیں۔ تو کیا اس کے وسیع اور عام استعمال سے سود، جوا ، سٹےبازی حلال ہوگئی؟عالمی معاشی نظام میں اس وقت بینکوں کا قبضہ ہے تو کیا اس وجہ سے کہ چونکہ اب پورا معاشی نظام باطل کے قبضے میں ہے اور حتیٰ کہ اسلامی ممالک بھی ان بینکوں کو استعمال کررہے ہیں ، کیا سودی بینک کے نظام کو حلال قرار دے دیا گیا؟ اسی طریقے سے جن علماے کرام نے سود کو اور بینکنگ سسٹم کو سو سال پہلے ناجائز قرار دیا وہ آج بھی یہی خیال کرتے ہیں اور ابھی حال ہی میں تیسری دفعہ وفاقی شرعی عدالت نے ربا سے متعلق جو فیصلہ دیا وہ بھی ہمیں یاد رکھنا چاہیے۔ بِعَینہٖ اگر کرپٹو کرنسی عوام میں مقبول ہے، اس کو لوگ ”زر“ سمجھیں، اور اس کا عرف ہے تو اس دلیل سے اس کے جواز کو قبول نہیں کیا جائے گا جب تک کہ وہ شریعت کے تمام اصولوں کے مطابق نہ ہوجائے۔
اگر یہ دلیل دی جائے کہ دیکھیں چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی ہم نے بینکنگ کے نظام کو اپنایا ہوا ہے تو کرپٹو کرنسی کو بھی اپنا لیا جائے تاکہ دیر نہ ہوجائے۔ تو اس میں یہ بات ملحوظِ خاطر رہے کہ اگرچہ مملکتِ پاکستان نے قانون کے تحت بینکنگ کے نظام کو اپنایا مگر چونکہ یہ نظام سود پر مبنی تھا اور چونکہ سود کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں اور آئینِ پاکستان بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔ لہذا، الحمدللہ تیسری مرتبہ وفاقی شرعی عدالت نے پھر یہ فیصلہ سنایا کہ ہمیں اس نظام کو چھوڑ کر اسلام کے معاشی نظام کو اپنانا ہوگا۔ لہذاکرپٹو کرنسی کو اگر پوری دنیا اپنا بھی لے اور پاکستان میں اس کو قانونی حیثیت بھی دے دی جائے تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کہیں یہ شریعت کےاصولوں کے متصادم تو نہیں؟ اگر متصادم ہوگی تو چاہے پوری دنیا اس کو اپنا لے اور حکومتِ پاکستان اس کو قانونی حیثیت بھی دے دے مگر اسلامی رو سے اس کے جائز ہونے کے بارے میں ہم مفتیانِ کرام ہی کی رائے پر عمل کریں گے اور اس سے احتراز کریں گے۔
اب سد ذرائع یعنی Blocking the means کی طرف آتے ہیں۔ سد ذرائع سے مراد وہ مُباح اور جائزامور ہیں جو ہ کسی حرام اور ناجائز فعل کا وسیلہ بنیں یا بننے کا قوی اندیشہ ہو (حوالہ: فقہِ اسلامی کے ذیلی مآخذ)۔ آسان الفاظ میں سد ذرائع کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اس ذریعے سے روکا جائے جو کسی حرام چیز تک پہنچانے کا سبب بنے اگرچہ وہ ذریعہ فی نفسہ جائز اور مُباح ہو لیکن اس کے مفضی الی الحرام (یعنی حرام کی طرف لے جانے والا) ہونے کی وجہ سے اس میں حُرمت آجائے گی۔ یعنی سد ذرائع میں ایک مُباح اور جائز عمل سے روکا گیا ہے کیونکہ یہ عمل ایک حرام فعل کو مستلزم تھا اور یہی سَدِّ ذَریعہ ہے۔
سد ذرائع کو لے کر کرپٹو کرنسی سے متعلق بعض حضرات یہ دلائل دیتے ہیں کہ کرپٹو کرنسی میں فی نفسہ تو شرعی مفاسد نہیں، اس کا استعمال صحیح ہے اور وہ اس کے جواز کے قائل ہیں۔ان حضرات کا یہ دعویٰ ہے کہ کرپٹو کرنسی میں شرعی اشکالات تو سرے سے ہیں ہی نہیں البتہ کچھ انتظامی اور عملی پیچیدگیاں ہیں، اگر قانون سازی ہوجائے تو کرپٹو کرنسی کے استعمال میں ساری رکاوٹیں ختم ہوجائیں گی۔ نیز چونکہ ابھی کرپٹو کرنسی کے صارفین کو کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں اور اس سے اندیشہ ہے کہ کرپٹوکرنسی کا استعمال کرنے سے عوام کا سرمایہ ڈوب جائے گا۔ لہذا سد ذرائع کی دلیل کو استعمال کرتے ہوئے وہ صرف اس وجہ سے فی الحال عوامی سطح پرکرپٹو کرنسی کے استعمال پر توقف کی رائے دےرہے ہیں تاکہ مسلمانوں کے حفظِ مال کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے جو کہ مقاصدِ شرعیہ Maqasid Al-Shari’ah میں سے ہے۔یعنی اگر قانون سازی ہوجائے اور حکومتِ پاکستان کرپٹوکرنسی کے استعمال کو قانونی طور پر جائز قرار دے دے تو کرپٹو کرنسی کا استعمال ہر اعتراض سے پاک ہوجائے گا۔ قارئینِ کرام!صرف کرپٹو کرنسی کا قانون بنانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں قانون تو سودی بینکاری نظام کا بھی ہے ، تو کیا سود جائز ہوگیا؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ دیکھیے اگر باالفرض پاکستان میں کرپٹو کرنسی پر قانون سازی ہوجائے اور کرپٹو کرنسی کے استعمال، خریدوفروخت اور لین دین کو جائز قرار دے دیا جائے تو پھر بھی کرپٹو کرنسی کے اندر بہت سارےبنیادی نقائص ہیں جن کی وجہ سے مفتیانِ کرام ان شرعی قباحتوں کی موجودگی میں کرپٹو کرنسی کے جواز کےفتویٰ میں احتیاط سے کام لیں گے اور اس وقت تک جواز کا فتویٰ نہ دیں گے جب تک مکمل شرعی طور پر کرپٹو کرنسی کسی شرعی اصول وحکم کی مخالفت میں نہ ہو۔
اب ہم عمومِ بلویٰ کی طرف آتے ہیں۔ عمومِ بلویٰ سے مراد یہ ہے کہ تمام لوگ جس کام کو کرتے ہوں اور قیاس سے ناجائز ہو، اس کا ترک کرنا دشوار ہو تو اس حکم پر عمل نہ کریں گے۔ مثال: بارش کے موسم میں راستے کے پانی اور کیچڑ سے بچنا دشوار ہے لہذا وہ اگر کپڑے وغیرہ پر لگ جائے تو (عام حالات میں کپڑوں کو ناپاک قرار دیا جائے گا لیکن یہاں)معاف ہے۔(حوالہ: علم الفقہ، ص:۵۱) بعض حضرات عمومِ بلویٰ کی دلیل دیتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ کرپٹو کرنسی عمومِ بلویٰ کے تحت جائز ہے۔ جبکہ علماے کرام یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ کرپٹو کرنسی کا ابھی اتنا رواج نہیں ہے کہ اس کے جواز کا فتویٰ عمومِ بلویٰ کے تحت دیا جائے۔ نیز عمومِ بلویٰ ہر امرِ محظور (ممنوع) میں معتبر نہیں بلکہ مختلف فیہ مسائل میں معتبر ہے اور وہ بھی حلت و حرمت میں معتبر نہیں بلکہ نجاست و طہارت میں معتبر ہے۔ (حوالہ: فقہِ حنفی کے اصول و ضوابط، ص:۱۵۷)
ایک اشکال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چونکہ کرپٹو کرنسی کے بارے میں کمپیوٹر سائنسدانوں اور ماہرین ہی کی رائے ہی میں اختلاف ہے لہذا مفتیانِ کرام اس کے جواز اور عدمِ جواز سے متعلق سکوت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ دیکھیے اصولی بات تو یہ ہے کہ کمپیوٹر سائنسدانوں کا کرپٹو کرنسی سے متعلق کوئی اختلاف نہیں۔ہاں البتہ اگر کچھ مفتیانِ کرام کو مغالطہ اس وجہ سے ہوا کہ کہ کچھ کمپیوٹر سائنس جاننے والے سوشل میڈیا پر کرپٹو کرنسی کی بہت زیادہ تشہیر کرتے ہیں اور اس کے جواز کے حق میں دلائل دیتے ہیں اور اس تشہیری مہم سے متاثر ہو کر کچھ مفتیانِ کرام سمجھ بیٹھے ہیں کہ گویا کمپیوٹر سائنسدانوں ہی میں کرپٹو کرنسی کے طریقہ کار کو لے کر اختلاف ہے تو اُن کی خدمت میں مکرر گزارش ہے کہ یہ لوگ کرپٹو کرنسی کی منظم طریقے سے تشہیر کرنے والے ہیں۔ اورانھی تشہیر کرنے والے لوگوں کے متعلق یورپین سپروائزری اتھارٹی یہ کہتی ہے کہ ” آپ کو سوشل میڈیا کے ’اثراندازوں‘ سے بھی ہوشیار رہنا چاہیے جن کے پاس عام طور پر مخصوص کرپٹو اثاثوں اور متعلقہ مصنوعات اور خدمات کی مارکیٹنگ کے لیے مالی ترغیب ہوتی ہے اور وہ اپنی جاری کردہ معلومات میں متعصب بھی ہو سکتے ہیں“۔ لہذا مفتیانِ کرام کو ایسے سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے والوں سے محتاط رہنا چاہیے اور اس بنیاد پر یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ کرپٹو کرنسی سے متعلق کمپیوٹر سائنسدانوں کی رائے میں اختلاف ہے۔ نیز جمہور علماے کرام کرپٹو کرنسی سے متعلق کسی پروپیگنڈے کے اثر میں نہیں آئے ہیں اور انھوں نے کرپٹو کرنسی کی بنیاد پر غور کیا ہے لہذا ان جمہور مفتیانِ کرام کی رائے کرپٹو کرنسی کے عدمِ جواز سے متعلق ہی ہے۔
ذیل میں جو ہم کرپٹوکرنسی کی بنیادی خامیاں ذکر کررہے ہیں وہ سائنسی طور پر ثابت شدہ ہیں، یہ سائنسی حقائق ہیں اور قارئین سائنسی تحقیق کو خود ملاحظہ فرماسکتے ہیں لہذا اگر کوئی اس کے برعکس یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ خامیاں کرپٹوکرنسیوں میں موجود نہیں تو اس کو سائنسی طور پر دلائل کے ذریعے ثابت کرنا چاہیے نا کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر موجود غیر سائنسی مواد کی بنیاد پر اپنی رائے قائم کرنی چاہیے۔اب آئیے غور کرتے ہیں کہ کرپٹو کرنسی میں وہ چند کون کون سی خرابیاں ہیں یا شرعی محظور ہیں جن کی بنیاد پر جمہور مفتیانِ کرام اس کے عدمِ جواز کے قائل ہیں: (۱) کرپٹو کرنسی کھاتے میں محض فرضی نمبروں کا اندراج ہے اور وہ حسّی طور پر تودرکنار ڈیجیٹل طور پر بھی موجودنہیں ہوتیں ۔ (۲) کرپٹو کرنسیوں سے سافٹ وئیر کی طرح ذاتی انتفاع حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ (۳) کرپٹوکرنسی کی کوئی ذاتی قدر نہیں اور قیمتِ اسمیہ بھی نہیں لہذا اس کا مالِ مُتَقَوَّم ہونا مشکوک ہے۔(۴) کرپٹو کرنسی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل نہیں کیا جاتا بلکہ ٹرانزیکشن کا لیجر میں اندراج کیا جاتا ہے جو کہ کرپٹو کرنسی کی ملکیت کے ثبوت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ (۵) ہر کوئی اپنی کرپٹو کرنسی بنا سکتا ہے۔ (۶) اس میں بیع قبل القبض کا معاملہ ہے۔ (۷) اس کا زیادہ استعمال سٹے بازی میں ہے۔ (۸) یہ زر (کرنسی) کے طور پراستعمال نہیں کی جاسکتی۔(۹) اس کی قیمت میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ ہےجس کے سبب اس کا استعمال سٹے بازی میں بہت ہورہا ہے۔(۱۰) اس پر کچھ لوگوں اور اداروں کی اجارہ داری ہے ۔ (۱۱) اس میں کئی جگہوں پر غررِ کثیر ہے جس میں مائننگ کا عمل سرِفہرست ہے۔ (۱۲) کرپٹو کرنسی بجلی اور گیس کی طرح عمدہ اموال میں شامل نہیں ۔(۱۳) یورپین سپروائزری اتھارٹی اسے سٹے بازی قرار دیتی ہے اور اس کے استعمال کو منع کرتی ہے۔(۱۴) اس کو انتظامی طور پر کچھ ادارے اور لوگ کنٹرول کرتے ہیں اور یہ مروجہ سودی بینک نظام سے بھی بدتر ہے۔(۱۵) اس کی قیمت میں کمی اور زیادتی پر چند لوگ اور اداروں کا قبضہ ہے۔(۱۶) کرپٹو کرنسی کے پیچھے کوئی حکومت نہیں۔
نصوص میں واضح طور پر بیع و شرا یعنی خریدوفروخت کے احکام موجود ہیں۔ بیع درست ہونے کے لیے مجموعی طور پرسات شرائط ہیں جو بیع کے منعقد اور صحیح ہونے کیے ضروری ہیں۔ پہلی شرط: مبیع یعنی بیچی جانے والی چیز مال ہو، دوسری شرط: مبیع متقوم ہو،تیسری شرط: مبیع موجود ہو، چوتھی شرط:مبیع مملوک ہو،پانچویں شرط: مبیع مقدور التسلیم ہو، چھٹی شرط: مبیع معلوم ہو، ساتویں شرط: مبیع بائع کے قبضے میں ہو۔ (حوالہ: فقہ البیوع–اسلام کا نظامِ خرید وفروخت، ج:۱)پہلی شرط یہ ہے کہ جس چیز کی خریدوفروخت کی جائے اس کا مال ہونا ضروری ہے۔ اب اگرخامی نمبر ۱ اور ۲ پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کرپٹو کرنسی کا شرعی طور پرمال ہونا واضح نہیں کیونکہ ”مال ایسی متقوم (قیمت والی) چیز ہے جس سے نفع اٹھایا جاسکے اور وقتِ ضرورت کے لیے اس کو جمع کیا جاسکے، اور مالیت کا ثبوت تمام یا بعض لوگوں کے اس کو مال قرار دینے سے ہوتا ہے، اور تقوم کا ثبوت ایک تو مالیت سے ہوتا ہے دوسرا اس چیز سے شرعاً نفع کے مباح ہونے سے“۔ (حوالہ: فقہ البیوع – اسلام کا نظامِ خریدوفروخت، ج:۲، ص:۶۱۷)۔ خامی نمبر ۲ پر اگر غور کیا جائے تو چونکہ کرپٹو کرنسی سےذاتی انتفاع حاصل نہیں کیا جاسکتا اور اس میں ذاتی قدر بھی نہیں تھی لہذا ان فرضی ہندسوں میں فرضی طور پر تقوم پیدا کیاگیا جس سے یہ پتا چلتاہے کہ ان میں تقوم قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔خلاصۂ کلام یہ کہ چونکہ کرپٹو کرنسی مالِ متقوم نہیں لہذا اس کی خریدوفروخت جائز نہیں۔ نیز اگر خامی نمبر ۲ پر مزید غور کیا جائے تو یہ اصول لاگو ہوگا کہ ” وہ چیز جس سےنفع نہ اٹھایا جاسکتا ہو تو وہ مال نہیں کہلائے گی اور اس کی بیع و شرا بھی جائز نہ ہوگی“۔(حوالہ: فقہ البیوع – اسلام کا نظامِ خریدوفروخت، ج:۱، ص: ۷۸)
یہ احکام بھی نصوص میں واضح طور پر موجود ہیں کہ ”بیع کے منعقد ہونے کے لیے مبیع کا عقد کے وقت موجود ہونا ضروری ہے، لہذا معدوم کی بیع منعقد نہیں ہوگی“۔ (حوالہ:فقہ البیوع – اسلام کا نظامِ خریدوفروخت، ج:۲، ص: ۶۳۳)۔ اب اگر ہم کرپٹو کرنسی کی ماہیت پر غور کریں تو یہ بات سائنسی طور پر مُسَلَّم ہے کہ کرپٹوکرنسی معدوم ہوتی ہے یعنی یہ محض لیجر میں فرضی نمبروں کا اندراج ہے اور یہ خامی نمبر۱ میں نشاندہی کی گئی ہے لہذا مبیع یعنی کرپٹو کرنسی عقد کے وقت موجود نہیں تو اس دلیل کے تحت بیع منعقد نہیں ہوگی۔اسی طریقے سے ”بیع کے منعقد ہونے کے لئے مبیع کا بائع کی ملکیت میں ہونا شرط ہے، لہذا جس چیز کا بائع مالک نہ ہو اس کی بیع باطل ہوگی“۔(حوالہ: فقہ البیوع – اسلام کا نظامِ خریدوفروخت، ج:۲، ص:۶۳۳)اگر ہم خامی نمبر ۴ پر غور کریں تو واضح طور پر پتاچلتا ہے کہ بائع یعنی کرپٹو کرنسی کسی کی ملکیت میں نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی منتقل ہوتی ہے لہذا بیع منعقد نہیں ہوگی۔
اسی طریقے سے دیگر نمبروں یعنی ۵-۱۵ پر بھی غور کرلیا جائے تو پتا چلے گا کہ کرپٹو کرنسی کی ان خامیوں سے متعلق نصوص میں واضح احکامات موجودہیں جن کی وجہ سے مفتیانِ کرام کرپٹو کرنسی کے عدمِ جواز کے قائل ہیں۔ لہذا جمہور علماے کرام کے مطابق نصوص کو چھوڑ کر فقہِ اسلامی کے ذیلی مآخذ یعنی سد ذرائع، عرف اور عمومِ بلویٰ کی اصطلاح کو استعمال کرتے ہوئے کرپٹو کرنسی کےجواز کے احکام نکالنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔
راقم بحیثیتِ کمپیوٹر سائنسدان اور اس موضوع کے ماہر ہونے کے ناتے قارئین کی خدمت میں یہ عرض کرے گا کہ سائنسی طور پر ان مفتیانِ کرام کی رائے میں وزن ہے جو کہ کرپٹو کرنسی کے عدمِ جواز کے قائل ہیں۔ نیز جو حضرات کرپٹو کرنسی کے جواز کےقائل ہیں یا اس کے شرعی حکم سے متعلق سکوت اختیار فرمائے ہوئے ہیں ،راقم کی رائے میں اُن کو کرپٹو کرنسی سے متعلق کمپیوٹر سائنس کے ماہرین نے مکمل بات نہیں پہنچائی۔ ہم امید کرتے ہیں جب ایسے مفتیانِ کرام کے سامنے کرپٹو کرنسی کے کام کرنے کی پوری تکنیکی تفصیلات سامنے آجائیں گی تو وہ بھی نصوص کودیکھنے کے بعد اپنےجواز اور سکوت کی رائے سے رجوع فرمائیں گے ان شاءاللہ ۔