مولانا حماد احمد ترکؔ
نائب مدیر ماہنامہ مفاہیم، کراچی
۲۷:عبدالحمید خان اول(۱۷۲۵۔۱۷۸۹ء)
سلطان عبد الحمید خان اول ۱۷۷۴ء میں تخت نشین ہوئے۔ آپ کی تربیت کبار علما نے کی۔ انتہائی نیک اور عبادت گزار انسان تھے۔ آپ کی کثرتِ عبادت اور خشیت و للہیت کے سبب آپ کا لقب ’ولی‘ پڑ گیا تھا۔ دیگر فنون سے تو واقف تھے ہی، خطاطی میں بھی بہت ماہر تھے اور شعر بھی کہتے تھے۔ آپ نے اپنے عہدِ حکومت میں اہلِ حجاز کی بہت خدمت کی اور حجاز کی تعمیر و ترقی میں خاص دلچسپی لی۔ نبی اکرمﷺ کے مبارک حجروں اور مسجدِ نبوی کی پر نور دیواروں پر جو اشعار لکھے ہوئے ہیں وہ سلطان عبد الحمید خان اول سے منسوب ہیں۔ یہ اشعار در اصل ایک نعتیہ قصیدے القصیدة الحجریة کے ہیں جو سولہ اشعار پر مشتمل ہے۔ بطورِ مثال صرف دو شعر ملاحظہ کیجیے:
يَا سَيِّدِي يَا رَسُولَ اللهِ خُذْ بِيَدِي مَالِـي سِوَاكَ وَلَا أَلْوِي عَلَى أَحَدِ
فَمَدْحُهُ لَـمْ يَزَلْ دَأبِـي مَدَى عُمُرِي وَحُبُّهُ عِنْدَ رَبِّ الْعَرْشِ مُسْتَنَدِي
’’اے میرے آقا! اے اللہ کے رسول! میرا ہاتھ تھام لیجیے، میرا تو کوئی ہے ہی نہیں آپ کے سوا، اور نہ ہی میں کسی اور کی طرف متوجہ ہوا۔بس میرا کام تو تادمِ عمر آپﷺ ہی کی مدح کرنا ہے، اور آپﷺ کی محبت ہی خدا کے حضور میرا کل اثاثہ ہے‘‘۔
سلطان کو فنِ تعمیر سے خاص شغف تھا، آپ نے متعدد مدارس، مساجد اور تربیتی ادارے بہت اہتمام کے ساتھ تعمیر کروائے۔ افادۂ عام کے لیے پانی کی متعدد سبیلوں کا اجرا کیا۔ سلطان نے طلبہ کے لیے ایک عسکری تربیتی ادارہ بھی قائم کیا جہاں جنگی جہازوں کی تیاری کی تعلیم دی جاتی تھی۔ دورانِ جنگ عثمانی بحریہ کو اس ادارے سے بہت تقویت ملی۔ جب سلطان تخت پر جلوہ افروز ہوئے تو روس اور سلطنتِ عثمانیہ کے درمیان جنگ جاری تھی۔ ایک سازش کے تحت زارِ روس کو قتل کر کے فوجی سردار ملکہ کیتھرائن کو تاج و تخت سونپ چکے تھے۔ کیتھرائن ایک سفاک عورت اور ماہر حکمران تھی۔ اسے چند ریاستوں کی فتح اور مال و اسباب سے کچھ دلچسپی نہیں تھی۔ عثمانیوں کو یورپ سے بے دخل کرنا اور قسطنطنیہ فتح کرنا اس کا دیرینہ خواب تھا۔ اسے قسطنطنیہ کے حصول کی آرزو اس شدت کی تھی کہ جب ایامِ جنگ میں اسے اپنے دوسرے پوتے کی ولادت کی اطلاع ملی تو اس نے بچے کا نام ہی قسطنطین رکھ دیا اور یونانی عورتوں کو اس کی پرورش اور تعلیم و تربیت پر مامور کیا۔ اسے یونانی زبان سکھائی گئی اور قسطنطنیہ پر حکومت کے لیے تیار کیا گیا۔ لیکن جب اس جنگ نے طول پکڑ لیا اور دونوں ممالک کو بھاری نقصان کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا تو دونوں ملک صلح پر آمادہ ہو گئے۔ چنانچہ ۱۷۷۴ء میں کینار جی کے مقام پر صلح نامہ مرتب کیا گیا۔ یہ صلح نامہ عثمانیوں نے مجبورًا منظور کیا، ورنہ اس صلح میں اکثر شرائط عثمانیوں کے لیے مضر تھیں۔ اس صلح نامے کو روس کی نمایاں کامیابی قرار دیا گیا۔ لیکن یہ صلح زیادہ عرصے تک بر قرار نہ رہی اور بے قرار ملکہ کیتھرائن نے دوبارہ عثمانی مقبوضات پر لشکرکشی کر دی۔ روسی افواج کا ہدف قسطنطنیہ تھا، اس لیے سلطنت پرمختلف محاذوں سے یلغار کی گئی۔ عثمانی بیڑے پر اتنی شدید گولہ باری کی گئی کہ عثمانی بحریہ کے تار و پود بکھر کر رہ گئے۔ اس صورتِ حال سے آسٹریا بھی شیر ہو گیا اور روس کے ساتھ مل کر عثمانی خطوں کو تاراج کرنے لگا۔ اسے زعم تھا کہ شکست خوردہ فوج میں اب کوئی دم خم نہیں رہا، لیکن خود کو روس پر قیاس کرناشاہِ آسٹریا کی سنگین غلطی تھی۔ وہ روس کے بھروسے پر عثمانیوں سے اُلجھ بیٹھا حالانکہ روس خود اپنی ریاست کے باغیوں کی شورش سے پریشان تھا، مزید برآں وبا اور دیگرمسائل کے سبب روسی افواج کسی نئے محاذ پر صف آرا ہونے سے قاصر تھیں۔ آسٹریا کو سبق سکھانے کے لیے سلطان نے ایک لشکرِ جرار روانہ کیا، ترک سپاہیوں نے جرات کےساتھ لڑتے ہوئے دشمنوں کو شکست دی۔ آسٹریا کےشکست خوردہ لشکر کی مدد کے لیے شاہ جوزف خود اسی ہزار کے لشکر کے ساتھ پہنچا اور ترکی لشکر کے قریب مقیم ہوا۔ لیکن اچانک ہی اس پر عثمانیوں کا ایسا رعب پڑا کہ حملہ کرنے سے ذرا قبل جنگ کا ارادہ ملتوی کر کے لشکر کو کوچ کا حکم دے دیا۔ یہ حکم رات کو دیا گیا تھااور اتنی عجلت میں دیا گیا تھاکہ مؤرخین اس کا سبب جاننے سے قاصر ہیں۔ آسٹریا کے سپاہی اس اچانک روانگی سے حواس باختہ ہوگئے۔ایسے میں کسی نے یہ نعرہ لگادیا کہ عثمانی سپاہی تعاقب کر رہے ہیں۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ آسٹریا کا توپ خانہ پیچھے رہ گیا تھا جسے رفتار سے دوڑانے کے سبب جو شور پیدا ہوا، اُسے دشمن کی آواز سمجھ کر آسٹریا کے سپاہیوں نے فائر کھول دیا۔ عثمانی لشکر صبح اس مقام پر پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ شاہِ آسٹریا کے بہادر سپاہی اپنے ہی لشکر کے ہزاروں سپاہیوں کو ابدی نیند سلا چکے ہیں۔ اسی میدان سے مالِ غنیمت سمیت زبردست توپ خانہ بھی عثمانیوں کے قابو میں آیا۔ اس معرکے کے بعد آسٹریا اور سلطنتِ عثمانیہ کے مابین صلح ہو گئی۔
۱۷۸۸ء کے وسط میں روس نے ایک بار پھر جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اوکزاکوف پر لشکر کشی کر دی۔ یہاں واقع اوزی قلعہ عثمانیوں کا بہت مضبوط قلعہ تھا، چنانچہ عثمانیوں نے بے سر و سامانی کے عالم میں بھی طویل عرصے تک روسیوں کو روکے رکھا۔ اگست ۱۷۸۸ء میں یہ محاصرہ شروع ہوا تھا اور ۱۶ دسمبر ۱۷۸۸ء کو پہلا روسی دستہ قلعے میں داخل ہوا۔ عثمانی سپاہیوں نے اس محاذ پر ایسی جاں بازی کا مظاہرہ کیا کہ دشمن بھی تعریف پر مجبور ہو گیا۔ اس جنگ میں مشہور مؤرخ اٹین بذاتِ خود شامل تھا۔تاریخ کی کتابوں میں عثمانیوں کی دلیری سے متعلق اس کا بیان؛ ترکوں کی بلند ہمتی کی واضح تصویر پیش کرتا ہے۔ داخل ہونے کے بعد روسی فوج نے صرف لوٹ مار کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ بدترین قتلِ عام کیا۔ تین روز تک بچے، بوڑھے، عورتیں اور مرد ذبح ہوتے رہے۔ اس قتلِ عام کے نتیجے میں تقریبًا پچیس ہزار مسلمان شہید ہوئے۔ اس الم ناک سانحے کی اطلاع جب سلطان کوملی تو سلطان غم سے نڈھال ہوگئے اور اس بہیمانہ قتلِ عام کی خبر نے سلطان کے ذہن پر ایسا اثر کیا کہ سلطان کے اعصاب شل ہو گئے۔ اس غم اور مرض میں ہی ۸،اپریل،۱۷۸۹ء کو سلطان عبد الحمید خان اول خالقِ حقیقی سے جاملے۔ روسی سپاہیوں کی سفاکیت سے قبل، جبکہ اوکزاکوف میں عثمانی شہری محصور تھے اور ڈٹ کر دشمنوں کا مقابلہ کر رہے تھے۔ سلطان نے اس صورت حال سے نکلنے کے لیے اپنی وفات سے قبل ایک لشکر ترتیب دیا تھا جسے اوّلاً آسٹریا کو سبق سکھا کر روس اور آسٹریا کا اتحاد ختم کرنا تھا، کیونکہ جب تک روس اور آسٹریا کا اتحاد تھا، کسی ایک کا بھی پیچھے ہٹنا ممکن نہ تھا۔ سلطان کو مشکل یہ در پیش تھی کہ عثمانی فوج بیک وقت دومحاذوں پر لڑنے کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی،اس لیے روس اور آسٹریا کا اتحاد توڑنا بہت ضروری تھا۔ چنانچہ مارچ ۱۷۸۹ء میں سلطان کے حکم پر صدرِ اعظم یوسف پاشا نوے ہزار کے لشکر کے ساتھ دریاے ڈینوب عبور کر کے ٹرانسلوینیا میں مقیم ہوئے۔ ابھی آسٹریا پر حملے کا منصوبہ تیار ہوا ہی تھا کہ سلطان عبدالحمید خان اوّل انتقال کر گئے۔ نتیجتًا عثمانی افواج کو واپس بلالیا گیا۔ سلطان کے عہد میں کریمیا اور اوکزاکوف کا سقوط بلاشبہہ بہت بڑا سانحہ تھا۔ ان دونوں خِطوں کے حصول میں بھی ہزاروں قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا گیا اور ان خطوں کو بچاتے ہوئے بھی ہزاروں مجاہدین نے اپنے خون سے اس سرزمین کی ہتھیلی پر منہدی سجائی۔
۲۸:سلیم خان ثالث(۱۷۶۱۔۱۸۰۸ء)
سلطان سلیم خان ثالث نے کم سنی میں ہی بہت سے علوم و فنون پر دست رس حاصل کر لی تھی۔ خطاطی اور موسیقی میں خاصی مہارت رکھتے تھے۔ عربی اور فارسی پر گرفت بہت مضبوط تھی۔ شعری ذوق رکھتے تھے اور خود بھی شعر کہتے تھے۔ الہامیؔ ان کا تخلص تھا۔ ذرا بڑے ہوئے تو اپنے چچا سلطان عبد الحمید خان اوّل کے زیرِ تربیت رہے اور سیاسی وریاستی امور میں دلچسپی لینے لگے۔ سلطان عبد الحمید کے ساتھ ریاست کی بہتری اور اصلاح کے منصوبوں پر غور کرتے۔ عالمی سیاست بالخصوص یورپ کی سیاسی چالوں پر گفتگو کرتے۔ سلطان بننے سے قبل سلیم خان ثالث کئی عالمی سیاسی شخصیات سے بذریعہ خط کتابت رابطے میں تھے۔ چچا کی وفات پر ۱۷۸۹ء میں تختِ عثمانی کے وارث ہوئے۔ جن حالات میں سلطان نے تخت سنبھالا، بلاشبہہ وہ بہت مشکل دور تھا۔ ایک طرف روس اور آسٹریا نے ریاست کے وجود کو عدم میں بدلنے کا عزم کر رکھا تھا، اور دوسری طرف ریاست کی سب سے اہم فوجی قوت ینی چری اپنی سر کشی میں حد سے بڑھ چکی تھی۔ سلیم خان ثالث کی دیرینہ خواہش تھی کہ وہ ینی چری کی قوت کوکسی طرح سے کمزور کرے۔ کیونکہ کتنی ہی جنگیں ینی چری کی ضد اور سرکشی کے سبب عثمانیوں کے ہاتھ سے نکل چکی تھیں اور کتنے ہی سابق سلاطین اس فوجی دستے کے مظالم سہتے رہے تھے۔ سلیم خان ثالث نے ایک نیا نظام متعارف کر وایا جسے ’’نظامِ جدید‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس نظام سے دیگر شعبوں کی اصلاح کے ساتھ ساتھ ینی چری کی قوت کو کمزور کرنا مقصود تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے سلطان نے ینی چری کے بالمقابل ایک اور فوج بنانے کا ارادہ کیا، لیکن اس ارادے پر خاطر خواہ عمل نہ ہو سکا۔ ینی چری نے اس نظام کو ماننے سے انکار کر دیا۔
دوسری طرف شہنشاہ جوزف جو عثمانی لشکر سے ہزیمت اٹھا کر واپس اپنے ملک آسٹریا پہنچ چکا تھا، اس نے انتقام کے لیے آسٹرین فوج کی کمان مارشل لوڈن کی سپرد کی۔ یہ شخص جنگی امور میں بہت ماہر تھا۔ اس نے فوراً ہی سرویا اور بوسنیا پر حملہ کر دیا جہاں احسا ن فراموش عیسائی رعایا نے عثمانیوں سے غداری کی اور مارشل لوڈن کا پر تپاک استقبال کیا۔ مسلمانوں نے دفاع کی اپنی سی کوشش کی لیکن آسٹرین فوج کے سامنے ان کی پیش نہ گئی اور مارشل لوڈن نے بوسنیا اور سرویا پر قبضہ کر لیا۔ مزید یہ کہ روسی اور آسٹرین فوج کے دو لشکر متحد ہو کر مولڈیویا پر حملہ آور ہوئے اور عثمانیوں کے دو لشکروں کو یکے بعد دیگرے شکست دے کر ان کے توپ خانے اور دیگر جنگی سامان پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد آسٹریا کی افواج نے میدان خالی پاکر بلغراد اور سمندریا بھی ترکوں سے چھین لیا۔ اس کے بعد اتحادی فوج کے لیے قسطنطنیہ کا راستہ صاف ہو گیا۔ ۱۷۹۰ء میں روسی و آسٹریائی فوجیں قسطنطنیہ کی طرف کوچ کرنے ہی والی تھیں کہ دونوں ممالک میں اندرونی طور پر مسائل کھڑے ہو گئے۔ آسٹریا میں شاہ جوزف نے کچھ اصطلاحات جاری کیں جن کے سبب مختلف خطوں میں باغی سڑکوں پر نکل آئے اور آسٹریا کو بغاوت فرو کرنے کے لیےاپنی فوجیں واپس بلانی پڑیں۔ اس کے کچھ عرصے بعد جوزف کا انتقال ہو گیا۔ اب تخت پر جوزف کا بھائی لیوپولڈ بیٹھا جو روس کا مخالف تھا۔ اس نے عثمانیوں کو صلح کی پیش کش کی اور ترکوں سے چھینے ہوئے بہت سے خطے واپس کر دیے۔ ان میں بوسنیا، ولاچیا اور سرویا کے متعدد خطے شامل تھے۔ حتیٰ کے بلغراد اور سمندریا کے اہم قلعے بھی عثمانیوں کو دے دیے۔
روس کو قسطنطنیہ کی طرف بڑھتا دیکھ کر یورپ کی بڑی بڑی طاقتیں روس کی مخالف ہو گئیں۔ وہ روس کو یورپ کے قریب بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھیں۔ خاص طور پر برطانیہ نے روس کی شدید مخالفت کی، برطانیہ یورپ میں طاقت کا توازن برقرار رکھنا چاہتا تھا، چنانچہ نہ چاہتے ہوئے بھی ملکۂ روس کیتھرائنکو عثمانیوں سے صلح کرنی پڑی۔ یہ صلح ۱۷۹۲ء میں ہوئی۔ چار سال اسی طرح صلح میں گزر گئے اور ۱۷۹۶ء میں کیتھرائن کا انتقال ہو گیا۔اسی سال ۱۷۹۶ء میں فرانسیسی سفیر جنرل ڈوبائے قسطنطنیہ آیا اور بطورِتحفہ چند فرانسیسی توپیں اور انجینیر اپنے ساتھ لایا۔ ان انجینیروں سے عثمانی فوج کو بہت تقویت ملی۔ انھی دنوں انقلابِ فرانس کا ہنگامہبھی گرم تھا۔ چنانچہ فرانس نے سلطنتِ عثمانیہ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور دو سال تک دونوں ریاستیں اچھے تعلقات میں رہیں۔ فرانسیسی جنرل نپولین بوناپارٹاپنی مہمات کا آغاز کر چکا تھا۔ اس کا اصل ہدف ہندوستان پر قبضہ تھا، جس کے لیے مصر پر قبضہ ضروری تھا۔ نپولین نے پہلے وینس اورپھر مالٹا پر قبضہ کر لیا۔ ۱۷۹۸ء میں اسکندریہ اور قاہرہ کو بھی نپولین نے فتح کر لیا۔ مصر میں نپولین نے اپنا اثرورسوخ بڑھانا شروع کیا اور یہاں کاشتکاری وباغبانی کے ساتھ ساتھ مختلف کار خانوں کے قیام پرتوجہ دی۔ بڑے پیمانے پر علمی سرگرمیاں بھی شروع کر دی گئیں۔ سپاہی مصری خواتین سے شادیاں کرنے لگے۔ اس ساری صورتِ حال سے عثمانیوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ برطانیہ اور روس بھی نپولین سے خائف نظر آنے لگے۔ چناچہ برطانیہ اور روس نے سلطنتِ عثمانیہ سے اتحاد کر کے بڑی مقدار میں جنگی سامان فراہم کیا اور سلطان سلیم ثالث نے فرانس کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔ عثمانیوں اور فرانسیسوں کے درمیان جنگ جاری رہی حتیٰ کہ ۱۸۰۱ء میں مصر پر دوبارہ عثمانیوں کا قبضہ ہو گیا۔ ۱۸۰۲ء میں وہابی تحریک مصر میں زور پکڑ گئی اور بہت سے خطے اس کے قبضے میں چلے گئے۔ اس دوران روس اور برطانیہ نے متحد ہو کر فرانس کے خلاف جنگ شروع کر دی۔ اس جنگ میں دونوں فریق سلطان سلیم سے اتحاد کی کوشش کرتے رہے۔ سلطان سلیم کو اس عرصے میں کچھ فرصت میسر آئی تو ’’نظامِ جدید‘‘ کی اصلاحات دوبارہ نافذ ہونے لگیں۔ اس پر ینی چری نے سلطان کے خلاف بغاوت کر دی اور ۱۸۰۷ء میں سلطان سلیم کو معزول کر دیا گیا۔ معزولی کے ایک سال بعد ۱۸۰۸ء میں سلطان کو شہید کر دیا گیا۔
۲۹:مصطفیٰ خان رابع(۱۷۷۹۔۱۸۰۸ء)
سلطان مصطفیٰ خان رابع اپنے چچا زاد بھائی سلیم کی معزولی پر سلطنتِ عثمانیہ کے حاکم ہوئے۔ آپ ۱۸۰۷ء میں تخت پر بیٹھے اور محض ایک سال چند مہینوں میں ہی انھیں معزول کر دیا گیا۔ امورِ ریاست میں سلطان کا اختیار برائے نام تھا۔ اصلاً وہ باغی جو انھیں تخت پر لائے تھے، تمام اختیارات کے مالک تھے۔ ان کے ظالمانہ رویے سے سلطان سلیم کے حامیوں میں اضافہ ہوتا گیا اور وہ اتنے طاقت ور ہو گئے کہ مصطفیٰ خان رابع کے حامیوں کو شکست دے کر قصرِ خلافت تک پہنچ گئے۔ یہ خبر مصطفیٰ کو پہنچی تو اس نے سابق سلطان سلیم اور اپنے بھائی شہزادہ محمود کے قتل کا حکم دے دیا تاکہ کوئی بھی تخت کا وارث نہ رہے اور مصطفیٰ کی جان محفوظ رہے۔ اس کے حکم پر سلطان سلیم کو تو شہید کر دیا گیا لیکن شہزادہ محمود کو ان کے ایک خادم نے چھپا دیا۔ اسی روز سلطان مصطفیٰ کی معزولی اور شہزادہ محمود کی تخت نشینی کا اعلان کیا گیا۔ چند روز بعد مصطفیٰ رابع کو بھی قتل کر دیا گیا۔
۳۰:محمود خان ثانی(۱۷۸۶۔۱۸۳۹ء)
سلطان محمود خان ثانی نے جید علما اور ماہر اساتذہ سے علوم کی تحصیل کی۔ سلطان سلیم خان ثالث کی معزولی کے بعد سلطان سلیم کی وفات تک محل میں نظر بند تھے۔ اس عرصے میں محمود خان نے ان سے ریاستی امور کی تربیت حاصل کی۔ ریاست کو در پیش مسائل، مستقبل کے خطرات اور ان سے بچنے کی تجاویز مرتب کیں۔ عسکری و تکنیکی مہارتوں کے حصول میں منہمک رہتے تھے۔ محمود خان تعلیم و تعلم سے شغف رکھتے تھے اور ادبیات میں خاص دلچسپی لیتے تھے۔ شاعر بھی تھے اور عدؔلی تخلص کرتے تھے۔ ۱۸۰۸ء میں ان کے بھائی مصطفیٰ خان رابع معزول ہوئے تو محمود خان ثانی کی تخت نشینی کا اعلان کیا گیا۔ محمود خان ثانی سابق سلطان سلیم کے ساتھ رہ کر ریاستی امور میں بہت مہارت حاصل کر چکے تھے۔ سلطان محمود کی تخت نشینی کے کچھ عرصے بعد ہی حسبِ معمول ینی چری نے بغاوت شروع کر دی اور شہر میں قتل وغارت کا بازار گرم ہو گیا۔ سلطان نے سابقہ تجربات کی روشنی میں حکمت سے کام لیتے ہوئے کسی قسم کا ردِّ عمل ظاہر نہیں کیا اور ینی چری کے تمام مطالبات مان لیے، اس طرح وقتی طور پر امن قائم ہو گیا۔ سلطان نے ینی چری کے مظالم اور سابقہ سلاطین کے ساتھ ان کے رویے کے سبب ینی چری کو مکمل ختم کرنے کا عزم کر رکھا تھا اور اس کے لیے مناسب وقت کے منتظر تھے۔ ینی چری دستے نے سلطنتِ عثمانیہ کو بے انتہا نقصان پہنچایا، متعدد معرکوں میں جب مجاہدین فتح کے قریب تھے، انھوں نے لڑنے سے انکار کیا، کئی سلاطین کے عزل وقتل میں ملوث رہے۔ سرکاری عہدے دار اور افسر بے شمار مرتبہ ان کے انتقام کا نشانہ بنے۔ اپنے ہی شہریوں کا مال لوٹ کر انھیں قتل کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا، چنانچہ سلطنت کو اس فتنے سے نجات دلانا بہت ضروری تھا۔ اس مشکل مہم کو بلا شبہہ سلطان محمود نے جس حکمت اور تدبیر سے مکمل کیا قابلِ تحسین ہے۔ سلطان نے ایک نئی فوج قائم کی جو توپچِیوں پر مشتمل تھی۔ اس کی ذمے داری سرحدوں پر اور میدانِ جنگ کی حد تک تھی، اور اس فوج سے بظاہر ینی چری کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔
۱۸۲۶ء میں سلطان نے علما، وزرا اور ینی چری کے بعض مخلص افسران کو اعتماد میں لیا اور ینی چری کا استیصال کرنے کے لیے اس دستے کو اشتعال دلایا تاکہ وہ بغاوت کر لے اور اس طرح اس کو ختم کر نے کا جواز مل سکے۔ چنانچہ ینی چری کے سپاہیوں کے لیے ایک حکم نامہ جاری کیا گیا جس کے مطابق انھیں فرانسیسی انجینیروں کے قائم کردہ تربیتی ادارے میں جدید فوجی قواعد سیکھنے کے لیے جانا لازم قرار دیا گیا۔ حسبِ توقع سپاہیوں نے انکار کیا اور علمِ بغاوت بلند کر کے محل کا محاصرہ کر لیا۔ سلطان نے اس حملے کی مکمل تیاری کی ہوئی تھی۔ ایک طرف تو سلطان نے عام مسلمانوں اور فوجی دستوں کو جمع کیا اور بذاتِ خود ان کی قیادت میں ینی چری سے مقابلے کے لیے نکلے۔ دوسری طرف توپچیوں کو جن کی تعداد تقریباً چودہ ہزار تک تھی توپیں چلانے کا حکم دیا۔ شدید گولہ باری کے باوجود ینی چری سپاہی مقابلہ کرتے رہے لیکن انھیں پسپا ہونا پڑا اور وہ اپنی بیرکوں میں محصور ہو گئے۔ بظاہر انھیں لگتا تھا کہ اس طرح گولہ باری روک دی جائے گی اور وہ مناسب موقع دیکھ کر پھر حملہ کریں گے، لیکن سلطان نے اس موقعے کو غنیمت جانا اور توپیں بیرکوں کے سامنے نصب کروا دیں۔ ایک بار پھر عثمانی توپیں شعلے اگلنے لگیں اور ینی چری کے سب باغی سپاہی راکھ بنا دیے گئے۔یہ سلطان کی بہت شاندار کامیابی تھی۔ مؤرخین اسے سلطان محمود کا بڑا کارنامہ قرار دیتے ہیں۔
سلطان محمود کی تخت نشینی کے اگلے سال ہی روس سے جنگ چھڑ گئی جس کا اختتام ۱۸۱۲ء میں صلح پر ہوا۔ ۱۸۱۳ء میں سرویا کی بغاوت زور پکڑ گئی۔ سلطان نے بغاوت کچلنے کے لیے ایک لشکر روانہ کیا جسے عارضی طور پر کامیابی حاصل ہوئی لیکن ۱۸۱۵ء میں دوبارہ باغی فوج غالب آ گئی اور ترک سپاہیوں کو سرویا سے نکال دیا گیا۔ سلطنتِ عثمانیہ میں مزید جنگ کی سکت باقی نہیں رہی تھی چنانچہ ۱۸۱۷ء میں سرویا سے صلح کر کے باغی لشکر کے سربراہ کی حاکمیت تسلیم کر لی گئی اور سرویا عثمانی سلطان کے قبضے سے نکل گیا، یہ شکست عثمانیوں کے ضعف کی ایک واضح مثال تھی۔
سلطان محمود خان ثانی کے عہد کا ایک اہم شخص محمد علی پاشا تھا۔ یہ آدمی ایک عام گھرانے سے تعلق رکھتا تھا لیکن نہایت ذہین، مدبر اور بہادر انسان تھا۔ ترقی کرتے کرتے عثمانی فوج میں اہم عہدے پر پہنچا۔ مصر میں مملوکوں کے خلاف شاندار فتح حاصل کی اور مصر میں عثمانی سلطان کا اقتدار بحال کیا۔ اسی علی پاشا نے وہابی تحریک کی شورشوں کو قابو کیا اور متعدد معرکوں کے بعد وہابی جنگجوؤں کو نیست ونابود کیا۔ مصر میں محمد علی پاشا کا سکہ چلنے لگا اور اس کی ذہانت سے مصری باشندے امن وامان اور خوش حالی کی زندگی گزارنے لگے۔ رفتہ رفتہ محمد علی پاشا مصر اور اس سے ملحق خطوں کا خودمختار حکمران بن گیا۔ حجاز میں وہابی تحریک نے شورش برپا کر رکھی تھی اور ترک حکومت کے لیے مستقل اذیت کا سامان بنی ہوئی تھی۔ محمد علی پاشا نے کئی معرکوں میں اس تحریک کے جنگجوؤں کو شکست دی اور وہابی تحریک کی فتنہ انگیزی اور عسکریت کو خاک میں ملا دیا۔
۱۸۲۰ءمیں یونان میں ایک زبردست بغاوت ہوئی اور یونان میں بے شمار ترک اذیت کے ساتھ قتل کر دیے گئے۔ سلطان محمود نے اس بغاوت کو فرو کرنے کے لیے کئی لشکر بھیجے لیکن کامیابی نہ ملی۔ تب سلطان نے علی پاشا کو پیغام بھیجا اور علی پاشا کے بیتے ابراہیم کی قیادت میں ایک بہت بڑے اور مہیب لشکر نے یونان کے باغیوں کو قابو کر لیا۔ علی پاشا کے پاس صرف بری فوج کی وافر مقدار ہی نہیں تھی بلکہ ایک زبردست بحری بیڑا بھی تھا۔ علی پاشا کی فوج یونان پر مکمل اقتدار پانے والی تھی کہ برطانیہ اور یورپ کی دیگر ریاستوں کی مداخلت سے انھیں ناکامی کا سامنا پڑا اور ایک معاہدے کے نتیجے میں علی پاشا نے اپنی افواج کو مصر واپس بلا لیا۔ اس معاہدے کو ‘معاہدۂ نوراینو‘ کہا جاتا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ جب ابراہیم پاشا کی فوج نے یونان کے باغیوں کو قابو کر لیا اور قریب تھا کہ یونان کو سلطان کے زیرِ نگیں کر دیا جاتا، یورپ کی اتحادی افواج نے ابراہیم پاشا کی افواج پر حملہ کر دیا اور پورا عثمانی بیڑا تباہ کر دیا۔ بےشمار مسلمان شہید کر دیے گئے، ابراہیم پاشا تک کمک پہنچنے کے تمام راستے مسدود کر دیے گئے اور یورپ کی اتحادی فوج نے یونانیوں کی حمایت میں عثمانیوں سے جبراً ایک معاہدہ کروایا جسے معاہدۂ نوارینو کہا گیا۔ یہ ایسا افسوس ناک واقعہ تھا کہ سلطان اس پر کئی دن غم زدہ رہے اور شدتِ غم سے کسی کے سامنے نہیں آ سکے۔
سلطان نے یونان میں فوج بھیجنے کے عوض محمد علی پاشا کو شام،دمشق،طرابلس اور کریٹ کا اختیار دینے کا وعدہ کیا تھاجسے شکست کے بعد پورا نہیں کیا گیا۔اس امر نے پاشا کو مزید مشتعل کردیا اور محمد علی پاشا نے۱۸۳۱ء میں شام پر حملہ کردیا اور عکا،یافا،دمشق،غزہ اور بیت المقدس پر قبضہ کرلیا۔اس کے بعد یہ لشکر ابراہیم پاشاکی قیادت میں حلب میں داخل ہوا۔سلطان نے محمد علی پاشا کی سرکوبی کے لیے ایک لشکر روانہ کیاجسے شکست ہوئی۔سلطان نے دوسرا لشکر روانہ کیا تو ابراہیم پاشا نے اکتوبر ۱۸۳۲ءمیں اسے قونیہ میں شکست دی۔قریب تھا کے ابرہیم کا لشکرِ جرار قسطنطنیہ پر حملہ آور ہوتا اور پایۂ تخت پر قبضہ کر لیتا، اس موقعے پر روس سلطنتِ عثمانیہ کی حمایت میں سامنے آگیا،کیونکہ سلطان محمود نے روس کے ساتھ متعدد معاہدے کر رکھے تھے، جن میں اہم ترین باسفورس سے روسی جہازوں کی بلا روک ٹوک آمد ورفت تھی۔ نیز روس ابراہیم پاشا کے قسطنطنیہ پر قبضے سے بھی خائف تھا۔اس لیے روس نے قسطنطنیہ کی حفاظت کے لیے اپنی فوج اور دو بیڑے بھیج دیے۔محمد علی پاشا اب بھی صلح پر آمادہ نہ ہوا۔تب برطانیہ اور فرانس بھی علی پاشا پر صلح کے لیے دباؤ ڈالنے لگے اور مئی ۱۸۳۳ءمیں سلطان اور علی پاشا کے درمیان صلح ہوگئی جسے ’معاہدۂ کوتاہیہ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس معاہدے کے مطابق سلطان نے مصر، کریٹ، بیت المقدس، طرابلس، دمشق غرض اکثر وہ خطے جنھیں یاووز سلیم سلطان نے فتح کیا تھا محمد علی پاشا کے اختیار میں دے دیے۔ عالمی دباؤ پر صلح تو ہو گئی لیکن دونوں فریق اس پر راضی نہیں تھے۔ ایک طرف سلطان علی پاشا کے خلاف تیاری کر رہے تھے اور دوسری طرف علی پاشا خود مختار ریاست کے خواب دیکھ رہا تھا۔ چنانچہ ۱۸۳۸ء میں پاشا نے سلطان کو خراج بھیجنے سے انکار کر دیا۔ یہ ایک طرح سے خود مختاری کا اعلان تھا۔۱۸۳۹ءمیں سلطان نے حکم عدولی پر محمد علی پاشا کے خلاف ایک لشکر روانہ کیا لیکن افسوس ناک واقعہ یہ ہوا کہ چند سپاہیوں کے سوا،پورا لشکر غداری کرکےعلی پاشا کے لشکر میں شامل ہو گیا۔ توپ خانہ اور وافر مقدار میں اسلحہ علی پاشا کے ہاتھ لگا۔ دوسری طرف سلطان کا بھیجا ہوا بیڑا بھی شام جانے کے بجائے اسکندریہ پر لنگر انداز ہوا اور بیڑے کے افسر نے پورا بیڑا علی پاشا کے حوالے کر دیا۔ یوں غداری کے اس بے مثال واقعے نے مصر پر علی پاشا کو خود مختار حاکم بنا دیا۔
یکم جولائی ۱۸۳۹ء کو سلطان محمود ثانی کا انتقال ہو گیا۔ سلطان کا سب سے نمایاں کارنامہ ینی چری کا استیصال تھا، لیکن یہی کارنامہ سلطنتِ عثمانیہ کے لیے اس دور میں بڑی مشکل کا سبب بن گیا۔ اس فوج کے ختم ہونے کے بعد سلطان ایک نئی فوج بنانا چاہتے تھے لیکن دشمن اس بات سے باخبر تھے، اس لیے انھوں نے سلطان کو مختلف محاذوں پر مصروف رکھا اور نئی فوج نہیں بنانے دی، خاص طور پر روس اور برطانیہ نے اس عرصے میں بہت سے فتنے کھڑے کیے جن میں ایک یعنی یونان کا ذکر ماقبل گزر چکا۔ منظم فوج نہ ہونے کے سبب عثمانی لشکر کو اکثر محاذوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
سلطان نے انتظامی اعتبار سے کئی ادارے قائم کر کے نظام کو مستحکم کیا، آگ بجھانے کے لیے منظم نظام ترتیب دیا، اہم خطوں کو ملانے کے پل بنائے، ڈاک کا باقاعدہ نظام مرتب کیا اور ڈاک خانے کا افتتاح ہوا، سرکاری سطح پر طبی ادارہ قائم ہوا اور وزارتِ صحت کا آغاز کیا گیا، ابتدائی تعلیم کے ادارے قائم کیے گئے اور بحریہ کی معاونت کے لیے ایک عسکری تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی گئی۔ وزارتِ اوقاف، وزارتِ شوریٰ برائے عسکری امور، و دیگر شعبوں کی توسیع کی گئی۔ سلطان محمود نے عمامہ ترک کرنے اور رومی ٹوپی پہننے کا حکم دیا اور سرکاری اور فوجی ملازمین و افسران کو یورپی طرز کا لباس پہننے کا پابند کیا گیا۔ سلطان نے حکماً لباس کی تجدید کی اور فرانسیسی طرز کے ملبوسات کا اجرا کیا۔ مختلف مساجد اور محلات تعمیر کیے۔ سلطان کے عہد میں جہاں وہابی تحریک کا خاتمہ ہوا، وہیں مصر و شام، کریٹ اور طرابلس جیسے اہم خطے بھی عثمانیوں کے ہاتھوں سے نکل گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ یونان، موریا اور سرویا بھی خود مختار ہو گئے۔
کتابیات
السلاطین العثمانیون، راشد کوندوغدو،الناشر:دار الرموز للنشر،إسطنبول،۲۰۱۸ء
آلبوم پادشاہانِ عثمانی،مترجم:میلاد سلمانی،ناشر:انتشاراتِ قَقْ نُوس،استنبول،۲۰۱۵ء
تاریخِ سلطنتِ عثمانیہ، ڈاکٹر محمد عزیر، ناشر: کتاب میلہ، ۲۰۱۸ء
سلطنتِ عثمانیہ، ڈاکٹر علی محمد الصلابی،مترجم: علامہ محمد ظفر اقبال، ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور، جون ۲۰۲۰ء