صوفی جمیل الرحمٰن عباسی
ناظمِ شعبۂ تحقیق و تصنیف، فقہ اکیڈمی، مدیرِ ماہ نامہ مفاہیم، کراچی
قسط نمبر۲۵
۱۹۳۵ء میں طولکرم کے علاقے وادی الحوارث کے مسئلے نے طول پکڑا۔ موسوعة القری الفلسطینیة کے مطابق یہ تیس ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل فلسطین کا زرخیز ترین علاقہ تھا جو یمنی قحطانی نسل کے ایک قبیلے بنو حویرث کے نام سے مشہور تھا۔ یہ بڑا خطہ ایک عیسائی اِنطوان بشار التیان کی ملکیت تھا اور مسلمان یہاں پر بطورِ کاشت کار کام کرتے تھے۔اس شخص نے عثمانی دور کے آخر میں ایک فرانسیسی کے پاس یہ علاقہ گروی رکھوایا تھا لیکن قرض ادا نہ کرسکا تھا۔ جب یہ بات یہودیوں کے علم میں آئی تو انھوں نے سنہ ۱۹۲۸ء میں اس علاقے کی مالیت سے کم از کم تین گنا زیادہ رقم ادا کر کے انطوان کے وارثوں سے یہ علاقہ خرید لیا۔ یہودیوں نے حکومتی مدد سے اس خطے کے کچھ حصوں میں ہزاروں کی تعداد میں درخت لگائے اور مسلمان مزارعین اور کسانوں کو الٹی میٹم دیا گیا کہ وہ یہ علاقہ خالی کر دیں۔ چند سال پس و پیش میں گزر گئے۔ حکومت کی طرف سے علاقہ خالی کرنے کے حکم آتے رہے اور مسلمان اس سے انکار کرتے رہے۔ اب حالات ساز گار پا کر یہودیوں اور فلسطین میں قائم برطانوی استعماری حکومت نے قوت کے استعمال کا فیصلہ کیا۔ ایک طرف مسلح یہودی اور برطانوی فوجی تھے جبکہ دوسری طرف جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے نہتے دہقان۔ چنانچہ بہت سارے مسلمان کسانوں کو شہید کیا گیا۔ اگرچہ پورے خطے سے مسلمانوں کو بے دخل نہ کیا جا سکا پھر بھی دو ہزار سے زائد کسان یہاں سے بے دخل کیے گئے۔ ان کے پاس مال مویشی تو تھے لیکن نہ سر چھپانے کو چھت تھی اور نہ جانوروں کے لیے چھپر، نہ کھیت نہ کھلیان !!
جبر و اکراہ کے یہ وہ حالات تھے جن میں شیخ محمد عز الدین القسّام کی تحریک شروع ہوئی۔ آپ اس سے پہلے ۱۹۲۰ء میں شام کے محاذ پر فرانس کے خلاف جہاد کر چکے تھے۔ اس کے بعد آپ فلسطین کے شہر حیفا منتقل ہو گئے اور یہاں کی ایک قدیم مسجد و مدرسے میں درس و تدریس اور خطابت و امامت شروع کر دی۔ ۱۹۳۵ء میں مسلمانوں کی حالتِ زار سے متاثر ہو کر انھوں نے اپنے شاگردوں اور مریدوں کی ایک مختصر جماعت کو جہاد کے لیے تیار کرنا شروع کیا۔ نومبر ۱۹۳۵ء میں جب وہ مسلمان کسانوں کو جہاد کی ترغیب دے رہے تھے، سیکیورٹی اداروں کی نظر میں آ گئے۔ آپ کو گرفتار کرنے کے لیے علاقے بھر کا محاصرہ کر لیا گیا لیکن آپ نے گرفتار ہونے کے بجائے شہادت و عزیمت کا راستہ اختیار کیا اور انیس نومبر کو آپ نے اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ جام ِ شہادت نوش کیا جب کہ دو برطانوی فوجی واصلِ جہنم ہوئے۔ آپ کے چند ساتھی گرفتار ہوئے اور بقیہ پہاڑوں میں روپوش ہو گئے۔ جب آپ کا جسدِ مبارک تدفین کے لیے حیفا لے جایا گیا تو یہودی ریاست اور برطانوی حکومت کے خلاف عظیم الشان مظاہرے کیے گئے اور سیکیورٹی اداروں پر پتھراؤ کیا گیا۔
محمد عز الدین القسام رحمہ اللہ کی شہادت نے ملک کےطول و عرض میں مقاومت و مزاحمت کی روح پھونک دی۔ کمشنر واکہوب نے اس انقلابی لہر کو محسوس کرتے ہوئے استبدادی حکومت میں کچھ ’’ جمہوری ملاوٹ‘‘ کرنے کے لیے عرب اور یہود پر مشتمل ’’ مجلسِ تشریعی ‘‘ (قانون ساز مجلس) کی تشکیل کا ارادہ کیا۔ اس نے فلسطینی قائدین کو اس فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے لکھا کہ دسمبر میں حکومتِ برطانیہ فلسطین کے لیے ایک نئے دستور کا اجرا کرے گی جو جمہوری حکومت کی طرف پہلا قدم ہو گا۔ اور اس میں زمین کی فروخت اور یہودی ہجرت کی تحدید کے حوالے سے بھی مناسب قانون سازی کا ذکر کیا گیا۔ مجلس تشریعی پر کچھ پابندیاں بھی عائد کی گئی تھیں مثلا وہ استعماری حکومت کے جواز و عدم جواز پر کوئی رائے نہیں دے سکتی تھی اور کمشنر مجلسِ تشریعی کی قراردادوں کا پابند نہیں ہو گا بلکہ اسے ان کے فسخ و نسخ کا اختیار بھی حاصل تھا۔ مجلس کو یہ حق بھی نہیں دیا گیا کہ وہ اپنے حق میں خود مختاری کا دعوی کرے۔ یہ طے کیا گیا کہ اس مجلس کے تیس ارکان ہوں گے۔ ان میں سے اٹھارہ برطانوی کمشنر کی طرف سے نامزد کیے جائیں گے۔ ان اٹھارہ میں سے سات برطانوی ادارہ انتداب کے ملازمین ہوں گے جب کہ چار یہودی، تین مسلمان، اور دو عیسائی ہوں گے۔ تجویز کیا گیا کہ بارہ اراکین ایسے ہوں گے جنھیں عوام منتخب کریں گے۔ ان میں سے آٹھ مسلمان، تین یہودی اور ایک مسیحی ہو گا۔ اس مجلس کا رئیس فلسطین سے باہر کا کوئی شخص ہو گا جس کا تعین کمشنر کی ذمے داری ہوگی لیکن یہ رئیس غیر جانب دار ہو گا اور فیصلہ سازی اور رائے دینے میں اس کا کوئی حصہ نہ ہو گا۔مسلمانوں نے اگرچہ مجلس کے امتیازی اصولوں پر تنقید کی لیکن مصلحت اور خاص طور پر پچھلے سالوں میں یہودیوں کی بڑھتی ہوئی ہجرت کے سبب اس منصوبے کو قبول کر لیا۔انھی دنوں یہودیوں کی عالمی کانفرنس کا انعقاد سوئز لینڈ میں کیا گیا جس نے اس مجلس کو قانونِ انتداب کے خلاف قرار دیا۔ اس کے بعد برطانیہ میں یہودی لابی بھی اس منصوبے کے خلاف متحرک ہو گئی یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں بحث و تمحیص کے بعد اس منصوبے کو غیر معینہ مدت تک کے لیے موخر کر دیا گیا۔
اس فیصلے سے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ فروری ۱۹۳۶ء میں ایک چھوٹے سے واقعے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ یہودیوں نے یافا میں تین اسکول قائم کرنے کا منصوبہ تیار کیا۔یہاں عرب مزدوروں اور یہودی مزدوروں کی لڑائی ہوئی جس میں ایک یہودی قتل جب کہ ایک زخمی ہوا۔ یہودیوں نے چند عربوں کو قید کر لیا۔ شہر شہر مظاہرے اور جھڑپیں ہونے لگیں۔یافا ہی میں ایک واقعے میں پولیس کے ہاتھوں دو مسلمان شہید جب کہ تیس کے قریب زخمی ہو گئے، جب کہ مسلمانوں کے ہاتھوں پانچ یہودی قتل ہوئے۔اپریل ۱۹۳۶ءمیں مسلمانوں نے یہود پر حملے شروع کیے جن میں ساٹھ کے قریب یہودی زخمی ہوئے۔
مسلمانوں کی مختلف جمعیتیں قائم تھیں۔ مفتی امین الحسینی نے ان جماعتوں کے سربراہان کو جمع کیا اور ان سربراہان پر مشتمل ایک کونسل لجنة العربیة العلیا کے نام سے قائم کی۔ مفتی امین الحسینی اس کے صدر جب کہ جمال الحسینی، راغب النشاشیبی، احمد حلمی عبد الباقی، ڈاکٹر حسین فخری الخالدی، یعقوب الفراج، عونی عبد الہادی وغیرہ اس کونسل کے ارکان تھے۔کونسل نے طے کیا کہ تحریکِ مزاحمت جاری رکھی جائے گی یہاں تک کہ ایک ایسی سیاسی حکومت قائم ہو جائے جو زمین کی خرید و فروخت اور یہودیوں کی ہجرت پر پابندی لگا سکے اور جو کمشنر کے بجائے عوامی نمائندوں کو جواب دہ ہو۔چنانچہ احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ان مظاہروں میں مرد و خواتین، طلبہ و علما، صحافی و انجینیر غرض ہر طبقے کے لوگ شامل تھے، فلسطینیوں نے یہ قرار دیا کہ ہمارے مسائل کی اصل جڑ برطانیہ ہے اسی نے ہم پر یہود کو مسلط کیا اور یہی ان کی محافظ ہے۔ حکومت نے اس تحریک کو نقضِ امن کا بہانہ بنا کر سختی شروع کر دی۔اس کے جواب میں مسلمانوں نے بھی پر تشدد مظاہروں اور دیگر سرگرمیوں کا آغاز کر دیا اور اردن، شام اور عراق سے لوگ آکر شامل ہونے لگے۔ ان کی کار روائیوں میں مواصلات کا نظام درہم برہم کرنا، فوجی قافلوں پر حملہ کرنا، ریل کی پٹریاں اکھاڑنا، ٹرین کو جلا دینا، پل اڑانا اور تیل اور پٹرول کے ٹینکرجلاناہوا کرتی تھیں۔ اس پر برطانوی فوج کا ردِّعمل کبھی توپ خانے اور کبھی جہازوں کی بمباری کی صورت میں سامنے آتا جب کہ مجاہدین کارروائی کے بعد پہاڑوں میں روپوش ہو جاتے۔کئی بار دو بدو مقابلوں کی نوبت بھی آئی۔ان معرکوں میں معرکۂ نورِ شمس نزد طولکرم، عینِ جارود نزد بیسان، معرکۂ وادیٔ عزون (طولکرم)، باب الواد(القدس)،معرکۂ حب یوسف،معرکۂ دیر اسد،معرکۂ یرقا،معرکۂ نہاریا، معرکۂ اللیات الکبری، معرکۂ طر شیحا،معرکۂ قضاء عکا وغیرہ مشہور ہوئے۔ برطانوی راج نے اپنی فوجی طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا لیکن اسے کامیابی نہ ہوئی۔ بعض اوقات پورا پورا دن مقابلہ جاری رہتا جس کے بعد مجاہدین پہاڑوں میں روپوش ہو جاتے۔ برطانوی حکومت، اس کا بدلہ عوام سے لیتی چنانچہ ہزاروں عرب قید کر لیے جاتے اور ان کے گھروں،باغوں اور کھیتوں کو جلا دیا جاتا۔ان کے مویشی ہلاک کر دیے جاتے۔
اسی دوران برطانوی حکومت نے یافا کی قدیم بستیوں کو خالی کرنے کا حکم دیا اور تاثر یہ دیا گیا کہ ان بستیوں کی تعمیر ِنو ہمارے پیشِ نظر ہے۔خاصے پس و پیش کے بعد کچھ محلے مسلمانوں نے خالی کر دیے لیکن انگریزوں نے حسبِ عادت دھوکا دہی سے کام لیتے ہوئے ۱۹ جون ۱۹۳۶ء کو بستیاں بارودی دھماکوں سے اڑا دیں جس کے نتیجے میں ۲۲۰ مکانات منہدم ہو گئے۔ بعد میں کمشنر نے اعتراف کیا کہ یہ قدیم بستی ایک قلعے کی شکل اختیار کر چکی تھی جس میں پولیس کا داخلہ ممکن نہ ہوتا تھا اور مجاہدین یہاں پناہ لیا کرتے تھے جس کی وجہ سے ہم نے اسے تباہ کیا۔یہ ایک شاندار تحریک تھی کہ استبدادی حکومت اپنے موجودہ وسائل کے ساتھ اس پر قابو نہ پا سکتی تھی چنانچہ مزید برطانوی فوج یہاں بلانا پڑی لیکن اس کے ساتھ برطانیہ نے تحریک کو ناکام کرنے کے لیے سیاسی رابطے شروع کیے۔لیکن فلسطینی تحریک روکنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ پھر انگریزوں نے اپنے قدیم دوستوں شاہ عبد اللہ اول شاہِ اردن اور ملک عبد العزیز آلِ سعود ، شاہِ سعودیہ سے رابطہ کیا۔ چنانچہ شاہ عبد اللہ نے فلسطینی قیادت کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دی چنانچہ عمان میں ان کی شاہ کے ساتھ ملاقات ہوئی جب کہ بعض قائدین کو سعودیہ آنے کی دعوت دی گئی۔ چنانچہ ریاض میں ان کی ملاقات ہوئی۔ بادشاہوں کی باتوں میں آکر مجاہدین نے اپنی تحریک روکنے کا اعلان کر دیا ۔ دس اکتوبر کو ملک عبد العزیز آلِ سعود نے عرب کونسل کے رئیس کو خط لکھا جس میں انھوں نے امن و امان کے قیام اور خون خرابہ روکنے کی خاطر مظاہرات اور احتجاج روکنے کی اپیل کی اور لکھا کہ ہم ’’اپنی دوست حکومت برطانیہ ‘‘ کی حسنِ نیت سے امید رکھتے ہیں کہ وہ عدل و انصاف قائم کر کے فلسطینی مشکلات کو دور کریں گے‘‘۔لجنة العربیة الکبری نے اس سعودی مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے احتجاجی تحریک روکنے کا اعلان کر دیا۔
اس تحریک میں سینکڑوں فرنگی اور یہود واصلِ جہنم ہوئےجب کہ اندازے کے مطابق ایک ہزار مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔عربوں کے مالی نقصانات کی تو کوئی حد ہی نہ تھی۔ تحریک کے خاتمے کے ساتھ مجاہدین کے کمانڈر فوزی القاوقجی شامی اور دیگر مجاہدین اپنے اپنے علاقوں کو واپس ہوئے۔برطانیہ نے تحقیق و بہتری کے لیے ایک کمیٹی قائم کی جس کا سربراہ لارڈ بیل تھا۔ نومبر کے مہینے میں برطانوی وزیرِ برائے نوآبادیات نے اپنے بیان میں اعتراف کیا کہ برطانیہ کا یہودی ہجرت پر پابندی لگانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اس پر مسلمانوں کو اس دھوکے کا احساس ہوا جو وہ کھا چکے تھے۔ بہرحال مسلمانوں نے اس ردِّ عمل میں آ کر لارڈ بیل کمیٹی کا بائیکاٹ کر دیا۔ جون ۱۹۳۷ء میں لارڈ بیل کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی، حکومتِ برطانیہ نے اس رپورٹ کی موافقت کی اور اسے شائع کیا۔ رپورٹ میں فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ پیش کیا گیا۔ فلسطین کے شمال مغربی حصے میں یہودی ریاست کے قیام کی تجویز پیش کی گئی جس کی حدود لبنان کے ساحل سے لے کر جنوبی یافا تک ہوگی۔یہ ریاست عکا، حیفا، صفد، طبریہ، ناصرہ اور تل ابیب کے علاقوں پر مشتمل ہو گی اور یہ ریاست حکومتِ برطانیہ کی حلیف ہو گی۔مقدس مقامات، قدس اور بیتِ لحم، یافا، لد، رملہ یہ حکومتِ برطانیہ کے تابع رہیں گے۔ طبریہ اور ناصرہ کے مقدس مقامات کی نگرانی بھی حکومتِ برطانیہ کے ذمے ہو گی۔
فلسطینی ریاست جنوب مشرقی حصے پر مشتمل ہو گی اور اس میں یافا سے لے کر اردن تک کا علاقہ شامل ہو گا اور یہ بھی برطانیہ کی ایک حلیف ریاست ہو گی۔ ایک حصے سے دوسرے حصے کی طرف نقل مکانی کے اصول بھی وضع کیے گئے اور یہودی ریاست اور برطانوی حکومت کی طرف سے فلسطینی ریاست کو مالی مدد فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا۔ یہ ایک بھونڈی تقسیم تھی کہ یہودی اقلیت کو زیادہ زمین دی گئی اور ان کے حصے میں زرعی زمینیں بھی زیادہ تھیں اور سنگترے کے اکثر باغات جو مسلمانوں کی ملکیت تھے وہ بھی یہودی حصے میں تھے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کی بہت سی عبادت گاہیں بھی یہودی علاقے میں تھیں۔ یہ وجوہ تھیں جن کے سبب مسلمانوں نے تقسیم کے اس ظالمانہ منصوبے کو ماننے سے انکار کر دیا۔
یہودوں کی ہجرت روز بروز بڑھتی جا رہی تھی اور ان میں بڑی تعداد جرمنی سے آ رہی تھی۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ ۱۹۳۳ء میں صیہونی تحریک اور جرمن حکومت کے درمیان یہودی ہجرت تیز کرنے کے لیے ایک معاہدہ ہوا۔ جرمنی نے عالمی صیہونی تنظیم کو یہودیوں کی آزادی کے لیے کوشاں واحد نمائندہ تنظیم تسلیم کیا اور اس کے مطالبے پر وہ یہودیوں کو ہجرت کی اجازت دیتی تھی اور دوسری طرف جرمن حکومت غیر صیہونی یہود پر سختی کرتی تاکہ وہ ہجرت پر آمادہ ہوں۔ جرمنی کے پیشِ نظر یہودیوں سے جرمنی کو پاک کرنا تھا جب کہ اس سے صیہونیوں کو فلسطین میں اپنی عددی برتری ظاہر کرنے کا موقع ملا اور یہودیوں کے نجات دہندہ کے طور پر سامنے آئے۔ دوسری طرف یہودیوں نے ایک نئی دہشت گرد یہودی تنظیم ارگون کی بنیاد رکھی۔ جس نے ۱۹۳۶ء لے کر ۱۹۴۸ء تک بے شمار دہشت گرد کارروائیوں میں فلسطینیوں کو شہید کیا۔ ۱۹۴۸ء میں یہ جماعت یہودی فوج میں شامل کر دی گئی۔اس کے قیام کی وجہ یہ تھی کہ پہلی تنظیم ہاناغاہ قانونی پابندیوں کی وجہ سے ایک حد سے آگے نہ جا سکتی تھی لیکن نئی تنظیم ایک مکمل دہشت گرد تنظیم تھی۔ جو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ برطانوی فوجوں کے خلاف بھی کار روائیاں کر تی تھی، اسی وجہ سے اسے متعدد بار دہشت گرد بھی قرار دیا جاتا رہا۔یہ وہ اسباب تھے جنھوں نے مسلمانوں کو ایک بار پھر احتجاج اور تحریک کی طرف راغب کیا۔
کتابیات
القدس و المسجد الأقصی عبر التاریخ، دکتور محمد علي البار، دارالقلم، دمشق
واقدساه، دکتود سید حسین العفانی مکتبة دار البیان الحدیثیة، السعودیة، الطائف
فلسطین في عهد الانتداب، دکتور أحمد طربین،shorturl.at/druNO
الثورة الکبریٰ العربیة في فلسطین، صبحي محمد یاسین،noor-book.com/wgper0