لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

مدیر
ماہنامہ مفاہیم، کراچی

عسکریت پسندی اور بعض فکری مسائل

پاکستان ہمیشہ کی طرح نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ معاشی مسائل ہی کچھ کم تھے کہ ’’بدمعاشی کے مسائل‘‘ یعنی قتل و غارت گری کی ایک نئی لہر ہمارے امن کو خس و خاشاک کی طرح بہانے پر آمادہ ہے۔ کوئی مسجد، کوئی جلسہ گاہ، کوئی جلوس ان کی دست برد سے محفوظ نہیں ہے۔ امن و امان کے ذمے دار اداروں پر ان دہشت گردوں کے چوری چھپے حملوں کےعلاوہ دوبدو مقابلے اور ان میں اہلکاروں کی شہادت کی خبریں تواتر سے مل رہی ہیں۔ اداروں کی طرف سے اگرچہ یہ کہا گیا کہ پڑوسی دشمن ملک ان دہشت گرد کار روائیوں میں ملوث ہے لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ آمنے سامنے صف آرا مسلمان ہی ہیں نہ کہ ہندو۔ اس کا امکان البتہ بہت ہے کہ ہمارے کچھ گروہ دشمن کے آلۂ کار بن کر دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔اس فتنے و فساد کو دفع کرنے کے لیے بہت سے پہلوؤں سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔سب سے پہلے تو اس سوال پر سنجیدگی سے سوچا جائے کہ وہ کیا عوامل ہیں جن کی وجہ سے ہمارے جوان غیروں کے آلۂ کار بن رہے ہیں۔ اکبر بگٹی کا قتل اور سانحۂ لال مسجد دو ایسے ریاستی جرم ہیں جنھوں نے بلوچ اور پختون،دو بہادر ترین قوموں کو ہمارا دشمن بنا دیا ہے۔ بلوچوں کے باپ اور پختونوں کے بچوں کے ریاستی قتل اور جبری گمشدگیوں سمیت ان عوامل کو تلاشا جائے جو ہمارے اپنوں کی دشمنی کا باعث بنے ہیں۔اگرچہ پرویز مشرف اپنے ان جرائم کو لے کر اللہ کے حضور پہنچ چکا۔ لیکن جب اس کا عدالتی محاکمہ کیا گیا تو ’’ہم‘‘ ہی اس کی سزا کے آڑے آ گئے جس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔اس کے بعد بھی کوئی ازالہ، کوئی معذرت نامہ کوئی معافی تلافی چھوڑ، کوئی اعتراف تک ہم نے نہیں کیا۔ چنانچہ ریاست اور ’’دشمن کے بچوں‘‘ میں فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہمیں اسلامی رشتۂ اخوت اور اس بنیاد پر افغانوں کی مہمان نوازی پر کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن اب افغانستان کی آزمائش کا دور گزر چکا۔ اب وہاں امن و امان ہے اور ان مہمانوں کو پورے اعزاز کے ساتھ واپس بھیجنا بھی ایک جائز امر ہے لیکن جب یہ الزام لگایا گیا کہ بہت سارے افغان دہشت گرد کار روائیوں میں ملوث ہیں تو ان کی گرفتاری اور سزا بھی بہت ضروری ہے۔ مزید یہ کہ ماضی قریب یا بعید میں علماے کرام کے قاتلوں کو بھی گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے۔ یہ وہ اقدامات ہیں جن سے ریاست کو عوام کا اعتماد حاصل ہو گا۔

یہ تو کچھ انتظامی قسم کی چیزیں تھیں۔ اس سارے مسئلے میں ہماری تعبیرات کی کوتاہیوں کو بھی دخل ہے۔ چنانچہ رسول اللہﷺنے جہاں آخری دور میں مسلمانوں کے باہمی قتل و غارت گری کی خبر دی ہے، وہیں علم کے زوال اور سمجھ و فقاہت کے فقدان کا ذکر بھی کیا ہے۔ ظاہر ہے مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل دین میں ناسمجھی یا تاویل باطل کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ اس سلسلے کی ایک روایت میں آتا ہے:«هَبَاءٌ مِنَ النَّاسِ لَا عُقُولَ لَهُمْ»’’لوگوں میں سے ہلکے لوگ جن کی عقلیں نہیں ہیں‘‘۔(سنن ابن ماجہ) ایک روایت میں آتا ہے:«هَبَاءً مِنَ النَّاسِ يَحْسَبُ أَكْثَرُهُمْ أَنَّهُمْ عَلَى شَيْءٍ وَلَيْسُوا عَلَى شَيْءٍ» ’’لوگوں میں سے ہلکے لوگ(با اعتبار عقل و سمجھ) ان سے اکثر سمجھتے ہوں گے کہ وہ کسی چیز پر ہیں حالانکہ وہ کسی چیز پر نہ ہوں گے‘‘۔ (مستدرک حاکم)

تعبیر کی ان کوتاہیوں کی وجہ، صدیوں سے نسل در نسل یعنی ہر نسل کے عادل لوگوں کا پچھلی نسل کے عادل لوگوں سے ورثے میں آنے والی علمی روایت کی جگہ ’’جدید علمِ کلام‘‘ کی تشکیل ہے۔ اصلاح کی ضرورت کے ہم منکر نہیں لیکن جس حدیثِ مبارکہ میں علم کی منتقلی کے اس سلسلے کا ذکر آتا ہے اسی میں اصلاح کا اصول بھی بیان کیا گیا ہے: «يَحْمِلُ هَذَا الْعِلْمَ مِنْ كُلِّ خَلَفٍ عُدُولُهُ يَنْفُونَ عَنْهُ تَحْرِيفَ الْغَالِينَ وَانْتِحَالَ الْمُبْطِلِينَ وَتَأْوِيلَ الْجَاهِلين».(السنن الكبرى للبيهقي)’’اس علم کو اٹھائیں گے ہر پچھلی نسل کے عادل لوگ (اپنے ہی جیسے سلف سے) اور وہ عادل لوگ، اس علم میں سے جاہل لوگوں کی تاویلات، جھوٹوں کی غلط دعوے داریوں اور غالیوں کی تحریفات کی نفی کریں گے‘‘۔ذرا سا غور کرنے سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ اصلاح کا عمل اس علمی روایت کے اندر ہی سے جاری رہے گا نہ کہ اس کے باہر سے، چنانچہ عملی طور پر ایسا ہی ہوا کہ فقہ و تصوف اور علومِ تفسیر و حدیث میں در آنے والے مغالطوں کی اصلاح انھی میدانوں کے جلیل القدر ماہرین نے کی۔ لیکن اس آخری دور میں یہ ہوا کہ اصلاح کا کام ان لوگوں نے سنبھال لیا جو ان میدانوں کے ماہر نہ تھے:

میں نہ عارف، نہ مجدّد، نہ محدث، نہ فقیہ
مجھ کو معلوم نہیں، کیا ہے نبوت کا مقام

لیکن اس اعتراف کے باوجود کارِ تجدید جاری رکھا گیا۔ نئے علمِ کلام میں سب سے بڑا کام یہ دکھایا گیا کہ نئی اصطلاحات وضع کرنے کے بجائے روایتی اصطلاحات کو اس معنی سے ہٹ کر استعمال کیا گیا، جس کے لیے اہلِ فن نے اسے وضع کیا تھا یا کہیں اصطلاحی معنی اور لغوی معنی کو گڈ مڈ کر دیا گیا۔ یہ کام انجانے میں نہیں بلکہ ’’علی وجه البصیرة‘‘ اس دعوے کے ساتھ کیا گیا کہ دورِ زوال میں ہماری اصطلاحات کے مفاہیم محدود بھی ہو گئے ہیں اور مسخ بھی اور اب ہم ان کی اصلاح کرنے والے ہیں۔حالانکہ اصطلاح بنتی ہی تب ہے جب کسی لفظ کو ماہرینِ فن کسی خاص مفہوم میں استعمال کریں تو اب اصطلاح میں بگاڑ کے کیا معنی، حقیقت تو یہ ہے کہ باوجود زوال کے ہمارے اہل علم کا ایک طبقہ از روئے حدیث حق پر قائم و دائم رہا۔ لیکن اگر مان بھی لیں کہ ان میں بھی زوال آیا تو وہ زوال ان کے کردار و اخلاق یا علمی صلاحیت و اجتہاد میں آیا ہو گا نہ کہ ان کی یادواشت چلی گئی ہو گی کہ صبح و شام پڑھے پڑھائے جانے والی اصطلاحات کے معنی وہ بھول گئے ہوں اور ان اصطلاحات سے وہ معنی مراد لینے لگے ہوں جو ان کے استاد نے ان کو نہ پڑھائے تھے۔ اصطلاحات کی اس بحث کا تعلق دہشت گردی کے موضوع سے سمجھنے کے لیے ہم ’’کفر‘‘ کو دیکھتے ہیں جو ایک شرعی اصطلاح ہے۔ لیکن قرآن و حدیث میں یہ لفظ کبھی اصطلاحِ شرعی سے ہٹ کر بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال سورہ ٔمائدہ کی آیت ۴۴ ہے جہاں فرمایا :﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ﴾’’جو لوگ اللہ کی نازل کردہ شریعت و کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو کافر ہیں‘‘۔ زیادہ تیز لوگوں نے تو اس آیت کی رو سے قانونِ اسلام نافذ نہ کرنے والی مسلمان ریاستوں، حکومَتوں، عدالتوں اور ان کی محافظ فوجوں کی باقاعدہ تکفیر کر کے انھیں واجب القتل قرار دے دیا۔ لیکن کچھ محتاط لوگوں نے باقاعدہ تکفیر تو نہیں کی لیکن انھوں نے ان آیات کے ذیل میں کفر و شرک کا اصطلاحی معنی ایسے لہجے میں بیان کیا کہ سامعین یا تو بغیر فتوے کے سامنے والے کو کافر ماننے پر آمادہ ہوگئے ورنہ یہ تو بالکل ہوا کہ جب اس اندازِ تخاطب کے متاثرین کے سامنے متشدد لوگوں کے فتوے آ ئے تو ان گمراہ کن فتووں کو ماننا ان کے لیے آسان ہو گیا۔چنانچہ ان جدید مفکرین سے متاثر کچھ لوگوں کا دہشت گردانہ سرگرمیوں سے ہمدردی یا بعض کا ان کے ساتھ تعاون اسی علمی کوتاہی کا شاخسانہ ہے۔ہم لوگوں کو سنتے رہتے ہیں چاہے سورۃ المائدہ کی آیت نمبر ۴۴ کے الکافرون پر تو وہ’’مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے‘‘ پڑھ کر گزر جائیں لیکن آیتِ مبارکہ ﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾میں وارد لفظ ظالم کی تفسیر إن الشرک لظلم عظیم سے کرتے ہوئے، حکم بغیر ما انزل اللہ کے مرتکبین کو صاف مشرک قرار دیا جاتا ہے۔ اس میں امام بخاری کی تنبیہات ظُلْمٌ دُونَ ظُلْمٍ اوركُفْرٌ دُونَ كُفْرٍ سے صرفِ نظر تو کیا ہی جاتا ہے۔لیکن ان آیات کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے صحیح سند سے مروی قول کو بھی نظر انداز کر دیا جاتا ہے جس میں آپ فرماتے ہیں: لَيْسَ بِالْكُفْرِ الَّذِي يَذْهَبُونَ إِلَيْهِ إِنَّهُ لَيْسَ كُفْرًا يَنْقِلُ عَنِ الْمِلَّةِ…كُفْرٌ دُونَ كُفْرٍ.’’یہ وہ کفر نہیں ہے جس کی طرف خاطی لوگ گئے ہیں بلکہ یہ وہ کفر ہے جو ملت سے خارج نہیں کرتا اور یہ کفر سے کم تر ایک کفر ہے‘‘۔اسی طرح کی ایک ’’مظلوم اصطلاح‘‘ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ ہماری روایت میں مسلمانوں کے خلاف ’’جہاد‘‘ کا کوئی تصور پایا جاتا ہے اور نہ جواز، اس لیے کہ جہاد کا غالب استعمال کفار کے خلاف ہے نہ کہ مسلمانوں کے خلاف، چنانچہ مولانا محمد بن علی تھانوی رحمہ اللہ نے کشاف اصطلاحات الفنون میں جامع الرموز اور فتح القدیر وغیرہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ :الجهاد غلب في عرف الشرع على جهاد الكفار وهو دعوتهم إلى الدين الحق وقتالهم إن لم يقبلوا، وهو في اللغة أعمّ من هذا’’شریعت میں جہاد کا غالب استعمال کفار کے خلاف ہے، انھیں دینِ حق (یا قبول جزیہ) کی طرف دعوت دینا اور نہ قبول کرنے کی صورت میں ان کے خلاف قتال کرنا یہ جہاد کہلاتا ہے، اگرچہ لغت میں اس سے عام تر معنی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے‘‘۔مسلمانوں کے مابین کرنے والے کاموں کے لیے دعوت و تزکیہ،امر بالمعروف و نہی عن المنکر وغیرہ کی اصطلاحات موجود تھیں لیکن انھی کاموں کے لیے اب جہاد کی اصطلاح اس کی فرضیت کے اعلان کے ساتھ استعمال ہونے لگی۔ 

جب جہاد و قتال میں عام و خاص کے فرق کو بالکل’’مبرہن‘‘ کر دیا گیا اور ساتھ ہی قتال کو کافروں کے بجائے باطل قوتوں اور اقامتِ دین کی راہ میں رکاوٹ بننے والے مراعات یافتہ طبقے کے خلاف ’’تصادم‘‘ کے آخری مرحلے کے طور پر بیان کیا گیا تو اب اس میں مسلم و غیر مسلم کی تمیز بھی جاتی رہی۔ جو جس ملک یا خطے میں تھا اس نے بغیر ایمان و عقیدے کے فرق کے جس کو بھی اقامتِ دین میں رکاوٹ پایا، اسے اپنے قتال کا سب سے بڑھ کر مستحق سمجھ لیا۔ یہی نہیں بلکہ قوت کے ساتھ نہی عن المنکر کی ایک اجتہادی صورت جلسے جلوس و احتجاج کو یک طرفہ قتال کا نام دیا گیا اور اس سرخ خاکے میں مزید رنگ کا اضافہ تب ہوا جب خروج کو بھی داخلِ بحث کیا گیا۔ جمہور علماے اسلام کے ہاں خروج کے عدمِ جواز کے باوجود فقہِ حنفی کا خروج کے جواز کا قول اس وضاحت کے ساتھ عام کیا جاتا رہا کہ یہ جواز شرائط کے ساتھ مشروط ہے۔ اس اعتراف کے ساتھ کہ خروج کی شرائط پوری کرنا اب ناممکن ہے، خروج کے جواز کا ذکر بھی کیا جاتا رہا حالانکہ اصول إذا فقد الشرط فقد المشروط کے مطابق جب تک شرائط پوری نہیں ہوئیں اور آپ کے خیال میں شرائط مہیا کرنا ناممکن بھی ہے تو خروج جائز تو نہ ہوا۔اب ہوا یہ کہ جن لوگوں نے خروج کی کوئی صورت نکال کر اسے ممکن العمل سمجھ لیا تو انھوں نے اپنے لیے خروج کو جائز سمجھ لیا۔ یہ ایک باریک سا فرق ہے لیکن سیمابی طبیعتوں کے لیے یہ رائی کا دانہ پہاڑ ثابت ہوا اور دیگر ابحاث کے ساتھ مل کر تصورِ خروج نے انھیں آمادۂ پیکار کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔

گزارشات کا حاصل یہ ہے کہ اگرچہ ہماری تحریکات براہِ راست تکفیر اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کی قائل نہ تھیں لیکن روایتی اندازِ تعبیر پر بد اعتمادی اور جدید تعبیرات نے وہ ذہن بنا دیا جس کے لیے خارجی اور تکفیری تعبیرات کو تسلیم کرنا آسان ہو گیا۔ درحقیقت دعوت و اصلاح کے لیے اصطلاحات سازی کی کوئی حقیقی ضرورت نہ پہلے تھی نہ اب ہے۔ اگر کسی نے لوگوں کو نہی عن المنکر کی ذمے داری ادا کرنے پر قائل کرنا ہے تو اسی عنوان سے آیات واحادیث موجود ہیں۔ ان کے ذریعے سے یہ کام کیا جا سکتا ہے۔ خواہ مخواہ ’’زیاستی‘‘ کرنے کی اس سرگرمی پر جہاد کا لیبل لگانے سے گریز کیا جائے۔ جنھوں نے کام کرنا ہے وہ نہی عن المنکر کے تحت ہی کر لیں گے اور جنھوں نے نہیں کرنا ان کے لیے جہاد سے بھی کوئی اونچی اصطلاح لے آئیں وہ کرنے کے نہیں۔ پس ضروری ہے کہ دعوت و اصلاح کے باب میں روایتی اصطلاحات کی پابندی کے ساتھ آگے بڑھا جائے۔ اس لیے کہ صدیوں کے تعامل اور سرد گرم چشیدہ روایت نے ہر مسئلے کو اس کی جگہ پر رکھ کر مخاطب کیا اور ان کے ہاں افراط و تفریط نہیں پائی جاتی۔ امت کی روایت اور اس کی اصطلاحات کی پابندی ہی وہ راہِ اعتدال ہے جو ہمیں جدیدیت و خارجیت ہر دو سے بچا سکتی ہے۔

لرننگ پورٹل