تحریر و تخریج: ڈاکٹر مبشر حسین رحمانی
استاذ کمپیوٹر سائنس، ایم ٹی یو، آئر لینڈ
عالمی سطح پر کرپٹو کرنسی کی تحریک چلانے والے معاشی آزادی پر بہت زور دیتے ہیں اور کرپٹو کرنسی پر مبنی معیشت کو معاشی آزادی میں ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ نیز یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ کرپٹو کرنسی ہمیں آزاد تجارت جوکہ حکومتوں کی اجارہ داری سے آزاد ہو کی بنیاد فراہم کرتی ہےجسے Free Market Fundamentalism Doctrineکے نام سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان میں سب سے اہم دعویٰ جو کیا جاتا رہا ہے وہ یہ کہ کرپٹو کرنسی کے اندر دولت کی مساویانہ تقسیم ہوگی یعنی کرپٹو کرنسی محض چند لوگوں کے پاس مرتکز نہیں ہوگی اور عوام اور ترقی پذیر ممالک سرمایہ دارانہ نظام کے دست نگر نہ ہوں گے۔
آسان الفاظ میں اگر ہم اصلی دنیا کی معیشت Real world economy کی بات کریں تو سن ۲۰۱۸ء کے اعداد وشمار کے مطابق مجموعی طور پر تین سو اٹھاسی افراد کے پاس آدھی دنیا سے زیادہ دولت تھی (حوالہ: Global World Databook 2018)۔ اور اگرہم اصلی دنیا کی معیشت میں دولت کی تقسیم کے تازہ اعداد وشمار دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک میں دولت کی غیر مساویانہ تقسیم ہے اوران ممالک میں دولت کا بڑا حصہ صرف چند فیصد لوگوں کے پاس ہی مرتکزہے (حوالہ: Global World Databook 2022)۔لہذا اس معاشی عدم مساوات کو دیکھتے ہوئےیہ دعویٰ کیا گیا کہ اصلی دنیا کی اس دولت کی غیر مساویانہ تقسیم کو ختم کرنے کے لیے کرپٹو کرنسی ایک نیا متبادل عالمی معاشی نظام وجود میں لائی ہے جس کے اندر دولت صرف چند افراد کے پاس مرتکز نہیں ہوگی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دعووں اور نعروں میں معاشی ماہرین کی نظر میں کتنی جان ہے؟ کیا یہ نعرے واقعی حقائق پر مبنی ہیں؟ نیز عالمی معاشی ماہرین ان دعوں کو سائنسی طور پر کیسے پرکھتے ہیں؟ سب سے اہم اور بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا کرپٹوکرنسی اپنی موجودہ حالت میں ایک متبادل معیشت کا نظام دے سکتی ہے جس کے اندر دولت کی مساویانہ تقسیم ہو ؟ جب ہم عالمی معاشی ماہرین اور محققین کی موجودہ سائنسی تحقیقات دیکھتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ سائنسی تحقیقات اور حقائق ان نعروں اور دعووں سے بالکل مختلف اور برعکس تصویرپیش کرتےہیں۔
اگر ہم تاریخی طور پر دیکھیں تو معاشیات یا اقتصادیات Economics کا ۱۹۶۹ء، ۱۹۷۱ء، اور ۱۹۸۰ء کا نوبل پرائز جن ماہرین اقتصادیات کو ملا وہ اُن کی مجموعی طور پر ایکونومیٹریکس Econometrics کے شعبے میں خدمات کی وجہ سے دیا گیا۔انھی تینوں نوبل پرائز یافتہ اقتصادی ماہرین میں Ragnar Frisch وہ ماہرِ اقتصادیات ہیں جنھوں نے اکیونومیٹریکس کی اصطلاح پہلی مرتبہ استعمال کی جو کہ اب باقاعدہ معاشیات کا علیحدہ شعبہ بن چکا ہے۔ ایکونومیٹریکس اکنامک تھیوری Economic Theory، ریاضیاتی معاشیات Mathematical Economics، شماریاتی اقتصادیاتStatistical Economic اور ریاضیاتی شماریات Mathematical Statistics کے شعبوں کا انضمام ہے یعنی اس کے اندر ریاضیات اور شماریات کو استعمال کرتے ہوئے معاشی قوانین و تھیوریز، اقتصادی تعلقات اور معاشی اعداد و شمار کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔
ایکونومیٹریکس کی مدد سے دولت کی غیر مساویانہ تقسیم بھی معلوم کی جاسکتی ہے اور اس کے متعدد طریقے سائنسی دنیا میں رائج ہیں جن میں سے مشہور Lorenz Curve اور Gini Coefficient ہے۔ Gini Coefficient کی ویلیو صفر اور ایک کے درمیان ہوتی ہے۔ Gini کی ویلیو ”ایک“ کا مطلب یہ ہے کہ ایک گھرانہ پورے ملک کی معیشت کو کنٹرول کرتا ہے یا ایک ہی گھرانے کے پاس ساری دولت ہے۔ اور ”صفر“ کا عدد دولت کی کامل مساویانہ تقسیم کو ظاہر کرتا ہے یا آسان الفاظ میں پورے ملک میں دولت ہر ایک پر مساویانہ طور پر تقسیم ہےیا تمام افراد کے پاس برابر مقدار کی دولت ہے۔
مضمون کے آغاز میں ہم نے جن دعووں اور نعروں کا ذکر کیا، ان کی اہمیت اور کرپٹو کرنسی کے وسیع عالمی پروپیگنڈا مہم کی سنگینی کے پیشِ نظر ماہرینِ معاشیات نے ایکونومیٹریکس کی مدد سے کرپٹو کرنسی سے متعلق ان حقائق اور دعووں کی صداقت کو بھی جانچا ہے اور ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔اسی تناظر میں ایک موقّر سائنسی جریدے میں چھپنی والی تحقیق کے اندردنیا کی آٹھ بڑی کرپٹو کرنسیوں یعنی کرپٹو معیشت Crypto Economy کا اصلی دنیا کی معیشت Real World Economy کے ساتھ موازنہ کیا گیا ہے جس کا خلاصہ ہم ذیل میں پیش کرتے ہیں:ان کرپٹو کرنسیوں میں بٹ کوائن Bitcoin، ڈوج کوائن Dogecoin، لائٹ کوائن Litecoin، زیڈ کیش ZCash، ڈیش Dash، بٹ کوائن کیش Bitcoin Cash، ایتھریم Ethereum اور ایتھریم کلاسک Ethereum Classic شامل ہیں۔ اس تحقیق کے لیے ان محققین نے ان آٹھ کرپٹوکرنسیوں کےجنوری ۲۰۲۱ء تک کہ 1.2 Tera Bytes ڈیٹا کو جس میں تقریباً 1.84 Billion ٹرانزیکشنز تھیں کو استعمال کرتے ہوئے تجزیہ کیا ہے۔حوالہ: Sai et al., Characterizing Wealth Inequality in Cryptocurrencies, Frontiers in Blockchain, 2021)یہ محققین لکھتے ہیں کہ اگر کرپٹو اثاثوں کی مدد سے ہم نے دولت کی غیر مساویانہ تقسیم کو معلوم کرنا ہے تو سب سے پہلے ہمیں کرپٹو اثاثوں کی ذاتی قدر Intrinsic valueاور خارجی قدر Extrinsic value کو دیکھنا ہوگا۔چونکہ کرپٹو اثاثوں کی ذاتی قدر تو ہوتی نہیں لہذا ہم کرپٹو کرنسی کے تجزئیے کے لیے خارجی قدر پر انحصار کریں گے اور وہ امریکی ڈالر کا ایکسچینج ریٹ ہے۔پھر معاشی عدم مساوات Economic inequality کو دو طرح سے تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک دولت کی عدم مساویانہ تقسیم Wealth inequality اور دوسری آمدنی کی عدم مساویانہ تقسیمIncome inequality۔ چونکہ آمدنی کی تقسیم کرپٹو معیشت سے براہ راست تعلق نہیں رکھتی لہذا ان محققین نےصرف دولت کی غیر مساویانہ تقسیم کا تجزیہ کیا ہے۔
کرپٹو کرنسی کے اندر آزاد تجارت اور پرائیوسی کی بات کی جاتی ہے لہذا کسی انفرادی شخص کی کرپٹو کرنسی کی ملکیت معلوم کرنا آسان نہیں ہوتا۔دراصل کرپٹو کرنسیاں صارفین کو پرائیوسی مہیا کرنے کے لیےPseudo anonymity مہیا کرتیں ہیں اور یہ کرپٹو کرنسیاں صارفین کو اتنی سہولت مہیا کرتی ہیں کہ وہ ہر ٹرانزیکشن کو کسی نئے ایڈریس سے کرسکیں۔ جب ایسا ہوتا ہے تو اس طرح سے ایک ہی صارف کی کئی ٹرانزیکشن مختلف ایڈریس سےہوتی ہیں۔ لہذا یہ مشکل ہوتا ہے کہ ہم ایک ہی صارف کی مع اس کی شناخت کے تمام کرپٹو اثاثوں کی ملکیت معلوم کرسکیں۔ مگر کرپٹو کرنسی چونکہ عوامی کھاتے میں محفوظ ہوتی ہے لہذا ہم آسانی سے کم از کم ایڈریس کی حد تک تو معلوم کرسکتے ہیں کہ کس ایڈریس کے پاس کتنی کرپٹو کرنسی ہے، یہ تمام ایڈریس آپس میں کیسے لنک ہیں اور اس طرح کا تجزیہ کمپیوٹر محققین کرتے رہتے ہیں اور یہی طریقہ کار ان محققین نے بھی اختیار کیا ہے۔
اس سائنسی تحقیق کے اندر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ کرپٹو کرنسی کے اندر دولت کی مساویانہ تقسیم اور ڈی سینٹرلائزیشن کی بات تو بہت کی جاتی ہے مگر کرپٹو کرنسی کے اندر جو دولت کی تقسیم ہے وہ اصلی دنیا کی معیشت کی طرح ہی ہے بلکہ اس سے بھی بری ہے۔ یعنی کہ مجموعی طور پر تقریباً ایک فیصد سے بھی کم ایڈریس کے پاس بٹ کوائن کی اٹھاون فیصد، ڈوج کوائن کی چوالیس فیصد، لائٹ کوائن کی سینتیس فیصد، زیڈ کیش کی پینتیس فیصد، ڈیش کی چھے فیصد، بٹ کوائن کیش کی پچیس فیصد، ایتھریم کی چھہتر فیصد، اور ایتھریم کلاسک کی تینتالیس فیصد کرپٹو کرنسیوں کی ملکیت ہے۔ انھوں نے اس بات کو بھی ثابت کیا ہے کہ تین کرپٹو کرنسیوں یعنی ڈوج کوائن Dogecoin، زیڈ کیش ZCash، اور ایتھریم کلاسک Ethereum Classic میں اکیاون فیصد سے زیادہ دولت سو سے کم لوگوں (ایڈریس) کے پاس مرتکز ہے۔لہذا مجموعی طور کرپٹو کرنسی میں دولت کی تقسیم سائنسی اعداد وشمار کے مطابق اصلی دنیا کی معیشت میں دولت کی تقسیم سے بھی بری ہے۔ایک اورحالیہ سائنسی تحقیق کے مطابق بٹ کوائن لانچ ہونے سے لے کر بٹ کوائن کی قیمت ایک امریکی ڈالر تک، یعنی تقریباً دو سال کا عرصہ، چونسٹھ لوگ وہ ہیں جنھوں نے زیادہ تر بٹ کوائن کو مائن کیا (حوالہ: A. Blackburn, et al., Cooperation among an anonymous group protected Bitcoin during failures of decentralization, 2022)۔ یعنی شروع کے دو سالوں میں بٹ کوائن کی تمام دولت پر محض ان چونسٹھ لوگوں کا قبضہ تھا۔ یہ بھی بٹ کوائن کے اس دعوے اور سوچ کے برعکس ہے جس کے اندر معاشی آزادی اور دولت کی مساویانہ تقسیم کی بات کی گئی ہے۔
سائنسی دنیا کے اندر آپ کو عالمی معاشی ماہرین اور کمپیوٹر سائنسدانوں کی ان گنت تحقیقات مل جائیں گی جن میں کرپٹو کرنسی سے جڑے دعووں کی حقیقت طشت ازبام کی گئی ہے۔خلاصہ یہ کہ اگرچہ اس وقت عالمی مارکیٹ میں بٹ کوائن چار سو بلین امریکی ڈالر سے زیادہ کا مارکیٹ کیپیٹل ہے اور بٹ کوائن اور ایتھریم دنیا کی دو بڑی کرپٹو کرنسیوں میں شمار ہوتے ہیں مگر کرپٹوکرنسیاں اپنے دعوے کے برعکس معاشی آزادی اور دولت کی مساویانہ تقسیم صحیح طور پر حاصل نہیں کرسکیں اور کرپٹوکرنسیوں میں دولت کی غیر مساویانہ تقسیم ہے اور دولت محض چند لوگوں کےپاس مرتکز ہے۔ لہذا کرپٹو کرنسی سے متعلق جو دولت کی مساویانہ تقسیم کے دعوے کیے جاتے ہیں وہ سائنسی اور معاشی ماہرین کی نظر میں درست نہیں ہیں۔