مولانا محمد اقبال
رکنِ شعبۂ تحقیق و تصنیف
قرآنِ کریم بلاشبہہ پیغام رشد و ہدایت، آئینِ فلاح و سعادت اور سابقہ تمام آسمانی کتابوں اور الہامی علوم و معارف کا جامع ہے۔ یہ وہ سر چشمۂ ہدایت ہے کہ اس کی تعلیمات کی اثر انگیزی، اس کے کلام کی رعنائی، اس کے معانی و مفاہیم کی وسعت اور اس کے فیوض و برکات کا سلسلہ چودہ سو سال سے قائم ہے اور تا قیامِ قیامت جاری رہے گا۔ قرآنِ کریم چونکہ اصلاً ہدایت کی کتاب ہے اس لیے اس کا انداز عموماً وعظ و نصیحت اور فکرِ آخرت پر مشتمل ہوتا ہے، مگر اس کے بیچ میں کچھ نہ کچھ احکام اور واقعات کا بھی ذکر ہوتا رہتا ہے۔ یہ واقعات اگر چہ اجمالی نوعیت کے ہوتے ہیں، مگر ان میں انسانیت کے لیے سامانِ ہدایت و رہنمائی ہے۔ ان واقعات میں سے ایک واقعہ اصحابِ کہف کا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک کرشمہ ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی دینے والوں کے لیے ایک سبق ہے۔ چنانچہ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كانُوا مِنْ آياتِنا عَجَباً﴾ ’’کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ غار اور رقیم والے لوگ ہماری نشانیوں میں سے کچھ (زیادہ) عجیب چیز تھے؟‘‘ اس میں اصحابِ کہف یعنی ’’غار والوں‘‘ کا ذکر کیا گیا۔ قرآنِ کریم نے اس واقعے کا جو نقشہ کھینچا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی زمانے میں ایک بت پرست بادشاہ کی حکومت تھی اور اس کے زیرِ اثر اس کی رعایا بھی شرک میں مبتلا ہو گئی تھی۔ جبکہ اسی زمانے میں کچھ صالح نوجوانوں نے توحید کا علم بلند کیا ہوا تھا۔ چنانچہ بادشاہ اور شہر کے لوگوں کی نظر میں ان نوجوانوں کا توحید پر ایمان رکھنا جرم بن گیا۔ لہذا بادشاہ نے ان کو اس ’’مبینہ جرم‘‘ کی پاداش میں ستانا شروع کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں چونکہ خوب ایمانی ترقی عطا فرمائی تھی، اس لیے وہ ہر قسم کے ظلم و جبر کے باوجود توحید پر کار بند رہے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ قوم کے مظالم کی وجہ سے ان کے لیے اپنے ایمان کی حفاظت مشکل محسوس ہونے لگی، تو ان حضرات نے اپنی قوم سے علیٰحدگی اختیار کر لی۔ اور آپس میں مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ جب ہم نے دینِ حق اختیار کر لیا ہے اور اپنے شہر میں دین پر قائم رہنا انتہائی مشکل ہو رہا ہے، تو ہمیں شہر چھوڑ دینا چاہیے، اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ضرور ہمارے لیے کوئی راستہ نکالے گا۔ لہذا وہ اپنے ایمان و عقیدے کی حفاظت کے واسطے شہر سے نکل کر ایک غار میں چھپ گئے۔ ان کے ساتھ ایک کتا بھی تھا جو غار کے دہانے پر بیٹھ رہا۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر گہری نیند مسلط کر دی اور وہ تین سو سال یا مزید نو سال تک اسی غار میں پڑے سوتے رہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے انھیں تین صدیوں تک زندہ رکھا اور ان کے جسم بھی سلامت رہے۔ پھر جب ان کی آنکھ کھلی تو انھیں صحیح اندازہ نہیں تھا کہ وہ کتنی مدت سوتے رہے ہیں، لہذا وہ اس معاملے میں باہم مکالمہ کرنے لگے۔ جب انھیں بھوک لگی تو انھوں نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک کو کچھ سکے دے کر کھانا خرید کر لانے کے لیے شہر بھیجا اور ساتھ یہ ہدایت بھی کی کہ احتیاط سے جائیں تاکہ بادشاہ اور اس کے کارندوں کو ہمارا پتا نہ چلے۔ مگر وقت بدل چکا تھا اور اُس بت پرست بادشاہ کو مرے ہوئے عرصہ گزر چکا تھا اور اب ایک صاحبِ ایمان بادشاہ تخت نشین تھا ۔ بہرحال یہ جب کھانا لینے شہر میں پہنچے اور بطورِ قیمت وہی پرانی کرنسی پیش کی، جس کا چلن عرصہ ہوئے ختم ہو چکا تھا اور شہر میں نئی کرنسی رائج ہو چکی تھی۔ جس دکان دار سے وہ خریداری کر رہے تھے اس نے پرانے سکے پر تعجب کا اظہار کیا اور یوں پورے واقعے کی حقیقت کھل گئی۔ چنانچہ معاملہ موَحِد بادشاہ کی خدمت میں پیش ہوا، انھوں نے اصحابِ کہف کو بڑی عزت اور احترام سے نوازا۔ پھر اصحابِ کہف کی دنیا سے رحلت کے بعد ان کی یاد گار کے طور پر ایک مسجد تعمیر کی گئی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک کرشمہ ظاہر ہوا۔ یہاں تک اتنا ہی واقعہ قرآنِ کریم میں مذکور ہے جبکہ آگے تاریخی روایات کی روشنی میں اس واقعے کی تفصیل کا جائزہ لیا جائے گا۔
اصحابِ کہف کا زمانہ اور وطن
اصحابِ کہف کے زمانے اور مقام کے متعلق مسلمان اور مسیحی مؤرخین نے جو تفصیلات بیان کی ہیں ان میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔ چنانچہ بعض محققین کا خیال ہے کہ اصحابِ کہف کا غار اندلس میں ہے۔ امام قرطبی رحمہ اللہ ابنِ عطیہ رحمہا اللہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ اندلس میں غرناطہ کی طرف ایک گاؤں ہے، جس کا نام ’’لوشہ‘‘ ہے، اس میں ایک غار ہے جس میں مردہ لاشیں ہیں، ان کے ساتھ مردہ کتے کا ایک ڈھانچہ بھی ہے۔ ان میں سے اکثر پر تو گوشت باقی نہیں رہا البتہ بعض پر اب بھی گوشت باقی ہے۔ ایک لمبا عرصہ گزرنے کی وجہ سے ان کے حالات کا صحیح علم نہیں ہے، مگر لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ مردہ لاشیں اصحابِ کہف کی ہیں۔ (تفسیر قرطبی، ج:۱۰، ص:۳۵۸) حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ’’رقیم‘‘ فلسطین کے نیچے عسفان اور ایلہ(خلیج عقبہ) کے بیچ میں ہے جو نسبتاً ایلہ کے قریب ہے۔ (جامع البيان في تأويل القرآن، ج: ۱۷، ص: ۶۰۲) شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں کہ یہ اردن کا علاقہ ہے۔ اس بنا پر بعض محققین کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ اردن کے شہر عمان کے قریب پیش آیا تھا، جہاں ایک غار میں کچھ لاشیں اب تک موجود ہیں۔ حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمہ اللہ نے قصص القرآن میں، حضرت مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے ارض القرآن میں اور حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ نے معارف القرآن میں تاریخی و جغرافیائی شواہد کی بنیاد پر اسی طرف اپنا رجحان ظاہر کیا ہے کہ یہ واقعہ اردن میں پیش آیا تھا۔ حضرت مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ کی بھی یہی رائے تھی۔ ان تمام حضرات کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ اردن کے مشہور شہر پٹرا جس کا اصل نام رقیم تھا اور رومی حکومت نے بدل کر اسے پٹرا کر دیا، اصحابِ کہف کا غار اس کے قریب کہیں واقع تھا۔ چنانچہ حضرت شیخ الاسلام صاحب دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: ’’اتنے پرانے واقعے کے محلِ وقوع کے بارے میں حتمی طور پر سو فیصد یقین کے ساتھ کچھ کہنا تو مشکل ہے، لیکن اس میں شک نہیں ہے کہ اب تک جتنے مقامات کے بارے میں مقام اصحابِ کہف ہونے کی رائے ظاہر کی گئی ہے، ان سب میں جتنے زیادہ قرائن و شواہد اس غار کے حق میں ہیں، کسی اور غار کے حق میں اتنے قرائن موجود نہیں ہیں‘‘۔(جہانِ دیدہ، ص:۲۱۸تا ۲۲۲) جبکہ مسیحی مؤرخ اور کاہن یعقوب( یاجمیس) نے ۵۲۱ھ میں اپنے مقالے میں لکھا ہے کہ یہ واقعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد سن ۲۵۰ء میں ایشاے کوچک کے شہر افسس میں پیش آیا ہے اور ان نوجوانوں کی تعداد سات تھی۔ (انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا، بحوالۂ جہانِ دیدہ، ص:۲۱۷) چنانچہ عیسائی مؤرخین کے ہاں یہ واقعہ Seven Sleepers یعنی سات سونے والوں کے نام سے مشہور ہے۔ اسی طرح مشہور مؤرخ ایڈورڈ گبن نے ”زوال و سقوطِ سلطنتِ روم“ میں لکھا ہےکہ یہ واقعہ ترکی کے شہر افسس میں بادشاہ ڈوسیس کے زمانے میں پیش آیا تھا۔ اس کے مظالم سے تنگ آ کر یہ نوجوان غار میں چھپ گئے تھے، پھر جس بادشاہ کے زمانے میں یہ حضرات بیدار ہوئے، وہ تھیوڈوسیس تھا۔ (توضیح القرآن) جبکہ بعض مفسرین نے اس ظالم بادشاہ کا نام دقیانوس ذکر کیا ہے، جس کے دور میں اصحابِ کہف اس کے ظلم وستم سے تنگ آ کر غار میں چھپ گئے تھے۔ بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ جس بت پرست بادشاہ کے عہد میں یہ واقعہ پیش آیا تھا، اس کا نام ٹراجان تھا جوسن ۹۸ء تا ۱۱۷ء حکمران رہا۔ یہ بڑا ظالم بادشاہ تھا، بت پرستی سے انکار کرنے والوں پر اس کے مظالم مشہور ہیں۔ اس نے اصحابِ کہف پر ظلم کی حد کر دی تھا ۔ اس کے ظلم وستم سے تنگ آ کر اصحاب کہف غار میں چھپ گئے تھے۔ تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ اس بادشاہ نے ۱۰۶ء کو شرقِ اردن کا علاقہ فتح کر لیاتھا۔ (جہانِ دیدہ، ص:۲۲۰) ان کے عہد کے متعلق امام ابن کثیر رحمہ اللہ کا رجحان یہ ہے کہ اصحاب کہف کا واقعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت سے پہلے کا ہے۔ اس پر انھوں نے یہ قرینہ بیان فرمایا ہے کہ مشرکینِ قریش کو یہودی علما نے یہ سوال سکھایا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود کی کتابوں میں یہ واقعہ مذکور تھا، اگر یہ واقعہ ملتِ عیسوی میں پیش آتا تو یہودی اسے بیان نہ کرتے۔(تفسیر ابنِ کثیر، ج:۴، ص: ۱۴۰) بہر حال یہ سب تاریخی آرا ہیں، ان میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا ممکن نہیں ہے، یہاں جتنی باتیں ہیں، ان کی حیثیت محض ایک تخمین کی سی ہے۔
سورۃ الکہف کے مضامین کو موضوع بنانے والے محققین میں حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ کا نام بہت معروف ہے۔ انھوں نے پوری سورت کی تفسیر الگ سے لکھی مگر اصحابِ کہف کے واقعے کی تفصیلات بس اتنی ہی بیان فرمائیں جتنی قرآنِ کریم میں مذکور ہیں۔ اس کی وجہ وہ یہی بتاتے ہیں کہ قرآن کا مقصد تذکیر و نصیحت ہے، یہ کوئی تاریخ کی کتاب نہیں ہے، اس لیے قرآنِ کریم نے بھی اس واقعے کی اتنی تفصیل بیان کی گئی ہے جو مقصد میں معاون ہے۔ اصحابِ کہف کے واقعے کی کرید سے خصوصی طور پر منع فرمایا گیا ہے، مولانا گیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’یہی واقعہ جو کسی زمانے میں پیش آیا تھا، جیسا کہ قرآن کا دستور ہے اپنے مقصد کی حد تک اس سرگزشت کے خاص اجزا اور عناصر کا انتخاب کر کے صراحتاً اس کی ممانعت بھی کر دی گئی تھی۔ قرآن ہی میں اس کی ممانعت کر دی گئی تھی کہ جو کچھ سنا دیا گیا اس سے زیادہ خواہ مخواہ قصے کی دوسری تفصیلات کی جستجو اور تلاش میں مسلمانوں کو مبتلا نہ ہونا چاہیے۔ ﴿وَلَا تَسْتَفْتِ فِيهِمْ مِنْهُمْ أَحَدًا﴾ ’’اور نہ پوچھنا اس (یعنی اصحاب) کے متعلق ان سے (جو جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں) کسی سے بھی‘‘۔ جس کا حاصل یہی ہوا کہ قصے کے متعلق جتنی باتوں کا صراحتاً قرآن نے ذکر کیا ہے جس غرض کے لیے قصہ نقل کیا ہے اس کے لیے وہی باتیں کافی ہیں‘‘۔ (دجالی فتنے کے نمایاں خدو خال، ص:۱۰۵)