مدیر
ماہنامہ مفاہیم، کراچی
سانحہ جڑانوالہ شرعی اعتبار سے تو قابلِ مذمت ہے ہی لیکن مسلمان اکثریتی علاقے میں عددی و مالی ہر اعتبار سے اقلیت پر تشدد کیا جانا اسلامی و انسانی ہر دو قسم کی شرافت و مروت کے منافی ہے ۔ اس بزدلانہ کار روائی پر بیان بازی سے آگے بڑھ کر حقیقی طور پر شرمسار ہونا فطرت کا تقاضا ہے ۔ اگر توہینِ قرآن کے واقعے کو سچ تسلیم کر بھی لیا جائے تو بھی قرآن سے محبت اور اس پر ایمان کے کسی دعوے دار کے لیے جائز نہ تھا کہ وہ عیسائیوں کے عبادت خانے پر حملہ آور ہوتا۔ کیا اسے معلوم نہیں کہ اس کے قرآن پاک میں یہ آیت مبارکہ موجود ہے: ﴿وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا﴾ (الحج:۴۰) ’’ اور اللہ اگر آدمیوں کے ایک طبقے کو دوسرے سے دفع نہ فرماتا تو خانقاہیں ، گرجا ، کلیسا اور مسجدیں کہ جن میں اللہ کا بکثرت نام لیا جاتا ہے سب ڈھا دیے جاتے ‘‘ امام قرطبی نے ابن خُوَیزمَنداد کا یہ قول نقل کیا ہے: تَضَمَّنَتْ هَذِهِ الْآيَةُ الْمَنْعَ مِنْ هَدْمِ كَنَائِسِ أَهْلِ الذِّمَّةِ وَبِيَعِهِمْ وَبُيُوتِ نِيرَانِهِمْ’’ یہ آیتِ مبارکہ اہل ذمہ کے گرجا و کلیسا اور آتش کدے ڈھانے کی ممانعت کو بھی لیے ہوئے ہے ‘‘۔
کسی بھی عشقِ رسولﷺ کے دعوے دار کےلیے جائز نہ تھا کہ وہ نصرانی عبادت گاہوں کو ڈھانے کی جسارت کرتا جب کہ رسولِ خدا ﷺ کا یہ فرمان موجود ہے:«أَنْ لَا تُهْدَمَ لَهُمْ بَيْعَةٌ، وَلَا يُخْرَجَ لَهُمْ قَسٌّ، وَلَا يُفْتَنُوا عَنْ دِينِهِمْ».(سنن ابی داؤد ) ’’یہ کہ ان کے عبادت خانے نہیں گرائے جائیں گے اور ان کے پادریوں کو نہیں نکالا جائے گا اور نہ ہی انھیں ان کے دین کی طرف سے زبردستی روکا جائے گا‘‘۔ لیکن ان نصوص کی موجودگی کے باوجود ایمان کے دعوے دار نہ صرف یہ کہ ان کے عبادت خانوں کو آگ لگاتے ہیں بلکہ ان کا قیمتی سازو سامان تک لوٹنے سے نہیں شرماتے۔
مختلف طبقات کی طرف سے اس سانحے کی خوش آئند اور قابلِ تعریف مذمت ہمارے سامنے ہے اور امدادی چیکوں کی تقسیم کی تقریب میں کی گئی نگران وزیر اعظم کی تقریر اور ان کا یہ جملہ ہمارے پیشِ نظر ہے کہ ’’سانحہ جڑانوالہ ہمارے معاشرے میں ایک مرض کی نشاندہی کرتا ہے‘‘ بیماری کا نام اگرچہ نہ لیا گیا لیکن مرض کی موجودگی کا اعتراف بھی بڑی بات ہے۔وزیرِ اعظم نے عجیب بات یہ فرمائی کہ ’’ کوئی بھی معاشرہ عدل وانصاف کے اصول کی پابندی کرتے ہوئے قائم رہ سکتا ہے۔ مادی وسائل اور علمی جدو جہد معاشرے کے بقا کی ضمانت نہیں دے سکتے بلکہ عدل وانصاف ہی ہے جو کسی معاشرے کی بقا کا ضامن ہے‘‘ یہ سچ ہے لیکن آدھا۔ اگرچہ مادی وسائل کی بہتری امن و امان کے لیے ضروری ہے لیکن علمی جدو جہد تو ایسی چیز ہے جس کے بغیر عدل وانصاف کا قیام مشکل ہی نہیں بلکہ محال ہے۔ یہی ہمارا مرض ہے یہی ہماری بیماری ہے جس کا نام لینا تو درکنار آں جناب نے اس کا انکار ہی کر دیا ۔
وہی منصفوں کی روایتیں وہی فیصلوں کی عبارتیں |
مرا جرم تو کوئی اور تھا پہ مری سزا کوئی اور ہے |
نگران وزیر اعظم نے اسلام اور اسلامی تاریخ کی روشنی میں حالیہ واقعے پر ’’دھندلی سی روشنی‘‘ ڈالتے ہوئے کہا: ’’ابتدائی اسلامی تاریخ میں جب مسلم کمیونٹی نسبتاً بے مال و متاع اور بے آسرا تھی ، ان کو جو پہلی مدد و نصرت حاصل ہوئی ہے وہ نجاشی عیسائی بادشاہ کی طرف سے ہوئی ہے اور آپ ﷺ نے ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی‘‘۔ بلاشبہہ نجاشی نے عیسائیت پر رہتے ہوئے مسلمانوں کی مدد کی لیکن یہ بھی یقینی بات ہے کہ ان کی نمازِ جنازہ قبولِ اسلام کے بعد پڑھی گئی۔ اب وزیرِ اعظم اس موٹی بات سے بے خبر ہیں تو مصیبت ہے اور اگر جان بوجھ کر اسلام کا ذکر گول کیا تو یہ ایک بڑی مصیبت ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ’’ امتِ محمدی پر نماز اور زکاۃ کی طرح فرض ہے کہ وہ اقلیتوں کی حفاظت کرے‘‘۔سوال یہ ہے کہ امت محمدی کے راہنما اور امیر ہونے کے ناتے خود وزیرِ اعظم پر کیا فرض ہے ۔ کیا اسلام کا نفاذ ان کی ذمے داری نہیں ہے ۔ کیا انھوں نے معلوم نہیں کیا کہ جو احادیث اہلِ کتاب ذِمیوں کے حقوق بیان کرتی ہیں ان میں یہ بھی مذکور ہے کہ انھیں سود خوری ہر حال میں ترک کرنا ہو گی ورنہ ان کی سرپرستی جاری نہیں رکھی جا سکے گی ( البتہ ان پر ظلم و زیادتی پھر بھی جائز نہ ہو گی)۔ حدیث شریف کے الفاظ ہیں:«مَا لَمْ يُحْدِثُوا حَدَثًا، أَوْ يَأْكُلُوا الرِّبَا».’’ جب تک وہ معاہدوں کی خلاف ورزی نہ کریں یا سود نہ کھائیں ‘‘ عیسائیوں کو تو رہنے دیں، ستم ظریفی دیکھیے کہ ملکِ عزیز میں مسلمان سود خوری کر رہے ہیں ، بینکاری اور مہاجنی دونوں قسم کے سود عروج پر ہیں اور نجی ادارے موبائل ایپلی کیشنز کے ذریعے سودی قرضے دیے جا رہی ہیں اور ان کے شکنجے میں پھنس کر مسلمان عوام خود کشی پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں۔ تو اس سود خوری کو ختم کرنا ، کیا وزیرِ اعظم پر نماز اور روزے کی طرح فرض نہیں ہے ۔ یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ یہاں سود کو ہم نے بطورِ مثال ذکر کیا ہے، ہماری مراد اس سے اسلامی قوانین اور ضابطوں کا نفاذ ہے۔ یہی وہ بیماری ہے جس کی وجہ سے ہم گوناگوں مسائل کا شکار ہیں ۔ وہ صبر و تحمل و برداشت جس کی کمی کا رونا سارے رو رہے ہیں اور جس کے فقدان نے ہمیں یہ دن دکھائےکیا اسلامی تعلیم و تربیت کے بغیر ممکن ہے؟ اور اگر ممکن نہیں تو اس اسلامی تعلیم و تربیت کی ذمے داری کیا ریاست پر عائد ہوتی ہے یا نہیں ۔اصل میں اسلام ایک وحدت ہے، آپ یہ کہیں کہ معاشرے میں رواداری اور تحمل اسلام سے لے لیں اور سود خوری اور رقص و سرود اور دیگر غیر اسلامی طر ز ہاے عمل کو جاری رہنے دیں تو یہ نہیں ہو سکتا۔ جب آپ اعمال سے اسلام کو نکالیں گے یا نکلنے دیں گے تو اخلاق اور رویوں سے یہ از خود نکلتا جائے گا ۔
عدم برداشت کا غیر اسلامی رویہ سیاست و مذہب دونوں میں موجود ہے۔ ایک معصوم اور کمسن بچی پر ایک جج کا تشدد ، ایک کم سن ملازمہ پر ایک جعلی پیر کا تشدد ، نور مقدم کیس میں ایک لبرل کا تشدد، باچا خان یونی ورسٹی میں مشعال خان کا قتل اور پھر ۹ مئی کے واقعات ، یہ چند مثالیں ہمارے معاشرے کی مجموعی شکست و ریخت کی عکاسی کرتی ہیں۔ تو ایک بڑی تعمیری تحریک کی ضرورت ہے جس کی ابتدا علمی جدو جہد کے بغیر ممکن نہیں جس کی نفی وزیر اعظم کر رہے ہیں۔ بلکہ ہم اس میں اضافہ کریں گے کہ ٹھوس اسلامی علمی جدو جہد کی ضرورت ہے کہ جس کا نام لیتے ہوئے ہم شرماتے ہیں۔
تو جناب ! آپ صاحبِ اقتدار ہیں۔ آپ تو برائی کو ہاتھ سے روکنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ آپ وعظ نہ فرمائیں بلکہ عمل کی دنیا میں آگے بڑھیں ۔ پنجاب کابینہ کو جڑانوالہ کا دورہ کرنے کی ضرورت نہ پیش آتی اگر حکومتی مشینری بروقت حرکت میں آ کر مساجد کے لاوڈ اسپیکر ز سے مسلمانوں کو اکسانے اور ورغلانے والے لوگوں کو حراست میں لے لیتی اور قریبی اضلاع سے مزید فورس بلا کر بلوائیوں کو قابو کر لیتی ۔ جب ایسا نہیں ہوا بلکہ پولیس ، انٹیلی جنس ادارے اور جڑانوالہ کے عیسائی اسسٹنٹ کمشنر تک خواب غفلت میں ڈوبے رہے تو اس کوتاہی کے مرتکب حضرات کو کیا انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا کہ تقریریں ہی کی جاتی رہیں گی ۔ جن دو عیسائیوں پر توہینِ قرآن کا الزام تھا ان کے نام کی ایف آئی آر کاٹنے پر اکتفا نہ کیا جاتا بلکہ انھیں فی الفور گرفتار کر کے قانون کے مطابق اگلے چوبیس گھنٹوں کے اندر ان کا چالان عدالت میں پیش کیا جاتا اور جج صاحبان شفاف تحقیق کر کے یا تو انھیں عدالتی و حکومتی تحفظ کے سائے میں باعزت بری کرتے یا جرم ثابت ہونے پر جرم کے بقدر انھیں سزا سناتے تو بات تھی اور اب بلوائیوں کو گرفتار کیا ہے تو ان کا شفاف ٹرائل کر کے انھیں قرار واقعی سزا دی جائے تو نہ صرف آئندہ یہ واقعات کم ہو سکتے ہیں بلکہ عدل وانصاف کی عالمی رینکنگ میں پاکستان ایک سو تیسویں نمبر سے کچھ اوپر آ سکتا ہے ۔ صاحبو! کام کرنے کی ضرورت ہے اور ٹھوس کام کرنے کی ضرورت ہے علمی بھی اور عملی بھی:
یہ گھڑی محشر کی ہے، تو عرصۂ محشر میں ہے |
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے |