صوفی جمیل الرحمٰن عباسی
ناظمِ شعبۂ تحقیق و تصنیف، فقہ اکیڈمی، مدیرِ ماہ نامہ مفاہیم، کراچی
قسط نمبر۲۳
جولائی ۱۹۲۰ء میں فلسطین میں فوجی حکومت کا خاتمہ کر کے برطانوی حکومت کے ماتحت ایک شہری حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ہربرٹ صیموئل کو برطانوی ہائی کمشنر بنایا گیا جو ایک متعصب صیہونی تھا۔ استعماری نظام میں ہائی کمشنر، برطانوی وزیرِ استعماریات کو جواب دہ اور اس کا نمائندہ شمار ہوتا تھا۔ گویا اس طرح یہاں یہود کو حکومت دے دی گئی۔صیموئل نے یہاں کے مختلف اداروں اور محکموں میں یہودیوں کو منصب عطا کیے۔ اس نے نارمن بینٹ وچ یہودی کو اپنا نائب مقرر کیا۔ جو ایک یہودی دہشت گرد تھا۔اسی طرح اس نے ادارہ انتدابِ فلسطین کا سیکرٹیری وندھام ہنری صیہونی کو مقرر کیا۔دیگر حکومتی مناصب پر بھی اس نے یہودیوں کو مسلط کیا۔ فلسطین کی شہری حکومت کی معاونت برطانیہ سے آیا ہوا یہودی وفد کرتا تھا۔ سول حکومت اور یہودی وفد دونوں کا کام یہ تھا کہ وہ اعلانِ بالفور کی تکمیل کے لیے ماحول ساز گار بنائیں اور یہودیوں کے مفادات کا تحفظ کریں۔صیموئل نے ایک مجلسِ مشاورت و تنفیذ بھی قائم کی جس کا سربراہ وہ خود تھا جب کہ دیگر اراکین میں سات یہودی، سات برطانوی، جب کہ سات عرب شامل تھے جن میں چار مسلمان اور تین عیسائی تھے۔ ظاہر ہے اس کونسل میں یہود کا پلڑا بھاری تھا اور وہ من ما نی سے فیصلے کرتے تھے۔
جولائی ۱۹۲۰ء میں ہی شام پر سے، امیر فیصل بن حسین کی قیادت میں قائم عربی حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا جو اہلِ فلسطین کے لیے ایک ناگوار واقعہ تھا۔ چنانچہ فلسطینی کانفرنس کا انعقاد عمل میں لایا گیا جس میں مسلمانوں کے علاوہ عیسائی بھی شامل ہوئے۔ اس کانفرنس نے اپنے مشترکہ اعلامیے میں صیموئیل کی حکومت کو یہودی حکومت قرار دیا۔ نیز فلسطین کو یہود کا قومی وطن بنانے اور فلسطین کی طرف یہود کی ہجرت کی شدید مخالفت کی گئی۔ صیموئیل حکومت میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو بھی شامل کرنے پر زور دیا گیا۔یہ جاننا چاہیے کہ فلسطین پر برطانوی قبضہ تو ۱۹۱۸ء میں عثمانی شکست سے ہی قائم تھا لیکن ترکوں اور اتحادیوں کے درمیان امن معاہدہ ۱۹۲۳ء میں لکھا گیا اور لیگ آف نیشنز نے بھی قانونِ انتداب اسی سال منظور کیا۔ اس طرح ۱۹۲۰ء سے ۱۹۲۳ءتک، فلسطین پر برطانوی حکومت غیر قانونی و غیر آئینی اور فوجی حکومت ہی کا ایک ذیلی شعبہ کہلائی جا سکتی ہے۔۱۹۲۱ میں مسلمانوں نے المجلس الإسلامي الأعلی للأشراف علی شؤون الإسلامیة قائم کی، مفتیٔ اعظم فلسطین الحاج امین الحسینی اس کے رئیس مقرر ہوئے۔ مفتیٔ اعظم نے مختلف اوقات میں قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن مسلمانوں کے موقف کی ترجمانی کرتے رہے۔ان کا یہ نظریہ بھی تھا کہ فلسطین کو الگ ملک کی شناخت دینے کے بجائے اسے شام کے ساتھ ملحق کیا جائے اور اسے داخلی بیرونی مداخلت سے بچایا جائے۔مارچ ۱۹۲۱ء میں برطانیہ کے ’’ وزیرِ استعمار ‘‘ ونسٹن چرچل کی سربراہی میں ’’قاہرہ کانفرنس ‘‘ کا انعقاد ہوا۔ اس کانفرنس میں یہودی کاز کو پذیرائی بخشی گئی۔اس کے بعد چرچل فلسطین کے دورے پر آیا۔ مسلمانوں کے وفد نے اس سے ملاقات میں اپنا نقطۂ نظر اس کے سامنے رکھا لیکن اس نے یہ کہہ کر مسلمانوں کی مدد سے انکار کیا کہ بالفور ڈیکلریشن ایک حقیقت ہے جسے بدلنا ممکن نہیں اور اس کی رو سے یہودیوں کی فلسطین کی طرف ہجرت اور یہودی ریاست کا قیام ضروری ہے۔ مسلمانوں میں اس پر سخت بے چینی پائی گئی اور جلوس نکالے گئے۔ حیفا میں مسلمانوں کی پولیس اور یہودیوں کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں جن میں دو مسلمان شہید جب کہ بارہ یہودی زخمی ہوئے۔مئی ۱۹۲۱ء میں یافا شہر میں یہودیوں کے خلاف جھڑپوں کا آغاز ہوا۔ جن میں عیسائی مسلمانوں کی طرف اور یہود کے خلاف تھے۔ برطانوی فوج نے یہودیوں کی پشت پناہی کی اور ان کے مخالفین پر حملے شروع کیے جس پر مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔۵ مئی ۱۹۲۱ء کو مسلمانوں کے ایک بڑے گروہ نے تل ابیب کے نزدیک ایک یہودی بستی پر حملہ کیا اور اگر برطانوی فوج مقابلے میں نہ آ گئی ہوتی تو یہود کا بہت نقصان ہوتا۔ برطانوی مداخلت سے بہت سارے مسلمان شہید ہوئے۔
ملک کے طول وعرض میں جاری انتشار کے اسباب کی تحقیق کے لیے، اکتوبر ۱۹۲۱ء میں فلسطین کے چیف جسٹس کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے قرار دیا کہ فسادات کی وجہ، یہودیوں کی قومی ریاست کے قیام کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں مسلمانوں میں پایا جانے والا غم و غصہ ہے اور امن و امان کے لیے عربوں بالخصوص مسلمانوں کے تحفظات کو دور کرنا ضروری ہے۔ لیکن حکومت نے اس صائب رائے پر کان نہ دھرے۔اسی دوران برطانوی فوج کے زیرِ اثر بلکہ زیرِ تربیت یہودی مسلح ملیشیا ’’ہاغاناہ‘‘ (ہاجاناہ ) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اسی طرح انھوں نے جاسوسی کا ایک مضبوط شعبہ بھی قائم کیا۔ہر طرف یہودیوں کو مسلح کیا جانے لگا اور انھیں اسلحہ رکھنے کی قانونی اجازت دی گئی لیکن مسلمانوں پر اسلحہ رکھنے یہاں تک کہ خنجر رکھنے پر بھی پابندی لگا دی گئی۔
جون ۱۹۲۲ء میں حکومتِ برطانیہ نے ایک وائٹ پیپر شائع کیا جس میں بالفور ڈیکلریشن کی وضاحت اس انداز میں کی گئی کہ اگرچہ یہود کا قومی وطن بنانا ہمارے پیش نظرہے لیکن ایک تو یہ کل فلسطین میں نہیں ہو گا بلکہ اس کے ایک حصے میں ہو گا دوسرے یہ کہ اس سے غیر یہودی باشندوں کے مذہبی، سیاسی اور معاشی حقوق کو متاثر نہیں کیا جا سکے گا۔اس میں یہود کو یقین دہانی کرائی کہ فلسطین میں ان کا موجود ہونا ان پر کسی قسم کا احسان نہیں بلکہ ان کا حق ہے۔
۲۴ جولائی ۱۹۲۲ء کو لیگ آف نیشنز نے برطانوی اعلانِ انتداب فلسطین کو منظور کیا۔ برطانیہ نے اعلان بالفور اور اس کی توضیحات ( وائٹ پیپر ) کے مطابق ’’ قانونِ انتداب ‘‘ مرتب کرنے کا اعلان کیا۔ اس قانون میں ۲۸ دفعات تھیں۔ جن کے مطابق برطانیہ نے یہود کے قومی وطن کی تشکیل کو اپنی ذمے داری قرار دیا۔ فلسطین کی حکومت کے لیے ایک یہودی مشاورتی کونسل مقرر کی گئی تاکہ وہ یہود ی ریاست کے قیام میں برطانوی حکومت کی مدد کر سکے اس کونسل کو مشاورت سے آگے بڑھ کر محدود سطح پر تنفیذی اختیارات بھی دئے گئے۔ عبرانی کو ایک باقاعدہ زبان قرار دیا گیا۔ یہودی آباد کاری میں تعاون و سہولت اور یہودی مہاجرین کو فلسطینی شہریت دینے کا اعلان کیا گیا۔ کچھ ایسی شقیں بھی قانون میں شامل تھیں جن میں غیر یہود قوموں کے حقوق کے تحفظ کا اعلان کیا گیا تھا لیکن یہود کی آباد کاری اور مشاورتی کونسل کے قیام اور اس کے اختیارات سمیت کچھ دوسری شقیں تھیں جن کی وجہ سے غیر یہود کے حقوق کا ذکر محض رسمی رہ گیا تھا۔
لیگ آف نیشنز سے قانون انتداب کی منظوری کے بعد، اگست ۱۹۲۲ء کو فلسطین کا دستور ترتیب دیا گیا جو اعلان بالفور کے مطابق ہی تھا۔یہ دستور ۱۱/ستمبر ۱۹۲۲ء کو نافذ کیا گیا۔ دستور سازی کے اس عمل میں انھوں نے مسلم مسیحی کونسل یا مسلمانوں کی مجلسِ اسلامی سے کسی مشاورت کا اہتمام نہیں کیا۔ بلکہ مشاورت کے بغیر یہاں وہ قانون سازیاں اور ضابطہ بندیاں کیں جو اہلِ فلسطین خصوصاً مسلمانوں کے استیصال اور صیہونیت کے فروغ و غلبے میں معاون تھیں۔ سول حکومت نے یہا ں قائم عثمانی زرعی بنک جو فلسطینی کسانوں کی بطورِ خاص مدد کرتا تھا بند کر دیا۔ فلسطینی کسانوں پر بھاری ٹیکس عائد کیے گئے۔ ان پر دباؤ بڑھایا گیا تاکہ وہ زمینیں فروخت کرنے پر تیار ہوں۔ دیگر کئی ظالمانہ اقدامات سے انھوں نے فلسطینیوں کو شام وغیرہ کی طرف ہجرت پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔ عثمانی دور میں یہاں یہودی آباد کاری اور زمینوں کی خرید و فروخت پر قانونی پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ صیموئیل نے ان پابندیوں کو ختم کر کے یہودیوں کے لیے زمینوں کی خرید کا راستہ آسان کیا۔ نیز اس نے ایسی قانون سازی کی کہ جس سے زمینوں کی ملکیت کا انتقال و ثبوت بہت آسان ہو گیا جس کا فائدہ یہودیو ں ہی کو ہونا تھا۔ صیموئیل نے فلسطین کی طرف یہودی ہجرت کا راستہ بھی آسان کیا۔ فوجی حکومت کے دوران صرف چار ہزار یہودی ہجرت کر پائے تھے لیکن صیموئیل کی شہری حکومت کے پہلے ہی سال، ہجرت کر کے فلسطین میں آباد ہونے والے یہودیوں کی تعد اد آٹھ ہزار اور اگلے سال سولہ ہزار تک پہنچ گئی۔ اسی دوران مَردم شماری کی گئی تو بعض دھاندلیوں کے باوجود مسلمانوں کی تعداد چھے لاکھ سے متجاوز تھی جب کہ یہودیوں کی تعداد ایک لاکھ سے کچھ کم نکلی۔ یہودی قومی ریاست کی تکمیل کے سوا، برطانوی استعماری حکومت کا کوئی مشن نہ تھا۔ فلسطین کے لوگوں کی شکایات کے ازالے کی کوئی صورت ان کے منصوبے میں شامل نہ تھی۔زیادہ سے زیادہ وہ کوئی تحقیقاتی کمیشن بھیج دیتے جو مدت لگا کر اپنی رپورٹ پیش کرتا لیکن اس پر عمل در آمد یا اس کی روشنی میں اپنے طرزِ عمل کی اصلاح سرے سے پیشِ نظر ہی نہ تھی بلکہ یہ وقت گزاری کا ایک طریقہ سمجھا جاتا تھا۔
لیگ آف نیشنز کے ۱۹۲۴ء اور ۱۹۲۵ء کے سالانہ جلسوں میں برطانیہ نے صاف طور پر اعلان کیا کہ وہ فلسطین میں کوئی ایسی قانون ساز مجلس تشکیل نہیں دے سکتا جس میں اہلِ عرب کو ان کی تعداد کے مطابق نمائندگی حاصل ہو اس لیے کہ اس طرح یہودی قومی ریاست کے قیام کے نصب العین کے حصول میں رکاوٹ آنے کا خطرہ ہے۔ ۱۹۲۴ء تک فلسطین، شام وغیرہ میں مصری کرنسی رائج تھی جو دیگر قریبی علاقوں میں بھی قبول کی جاتی تھی۔ ۱۹۲۴ء میں ہربرٹ صیموئیل نے فلسطینی کرنسی بنانے کا اعلان کیا۔مسلمانوں نے اس پر احتجاج کیا جس پر حسبِ معمول کان نہیں دھرا گیا۔ نئی کرنسی پر عربی، انگریزی اور عبرانی تینوں زبانیں لکھی گئیں۔ مختلف مراحل سے گزر کر آخر کار نومبر ۱۹۲۸ء کو یہ کرنسی رائج ہو گئی۔
۱۹۲۵ء میں چھٹی فلسطینی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اسی سال جبلِ زیتون پر یہودی یونیورسٹی الجامعة العبریة کا افتتاح کیا گیا۔ اکابرِ یہود، لارڈ بالفور، حائیم وائزمین نے اس کے افتتاحی جلسے میں شرکت کی۔ اس موقعے پر فلسطین کے طول و عرض میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔اسی عرصے میں لیو پولڈ ایمری کو وزیرِاستعمار بنایا گیا۔ اس کا خیال تھا کہ فلسطین کی قابلِ زراعت زمین پر، یہودیوں کا حق فلسطینیوں سے بڑھ کر ہے۔ چنانچہ اس نے اپنے دور میں نئے ہائی کمشنر مسٹربلومر کے تعاون سے اہم زرعی زمینیں یہودیوں کو دینے میں بہت سرگرمی دکھائی بلکہ حفاظت کے نام پر بہت سارے فارمز ہاؤس مسلح بھی کردیے گئے۔اس دوران یہودیوں کی ہجرت جاری رہی اور ان کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کرنے کا بھی بہت اہتمام کیا جاتا رہا۔بحر ِمردار میں سے فاسفیٹ نکالنے کا ٹھیکا ایک یہودی کمپنی کو دیا گیا۔یہاں بھی اور دوسرے مواقعِ روزگار پر بھی یہودی کارکنوں کو عرب مزدوروں پر ترجیح دی جاتی۔ جس سے عرب لوگوں میں بیروزگاری کی شرح میں بہت اضافہ ہوا۔
ستمبر ۱۹۲۸ء میں دیوارِ براق(یہود کے نزدیک دیوارِ گریہ) کا حادثہ ہوا۔ جس پر نومبر ۱۹۲۸ء میں الحاج مفتی امین الحسینی کی زیرِ قیادت اسلامی کانفرنس کا انعقاد ہوا، جنھوں نے نئے ہائی کمشنر سر جوہن چانسلرسے مطالبہ کیا کہ وہ مقامی لوگوں کی مجلسِ مشاورت قائم کرے اور ان کے بغیر کوئی قانون سازی نہ کرے۔ انھوں نے یہودیوں کو دیے گئے امتیازات ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ خیال عام ہو چکا تھا کہ یہودی محض وطن کی تلاش میں نہیں ہیں بلکہ وہ مقدسات پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور مسجد الاقصیٰ کی دیوارِ براق گرا کر ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں نے مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے جمعية حراسة الأقصى والأماكن الإسلامية المقدسة قائم کی۔
۱۴/اگست ۱۹۲۹ء کو تل ابیب میں یہودیوں نے مظاہرہ کیا جس میں چھے ہزار یہودی شامل تھے، وہ الحائط حائطنا’’ دیوار ہماری ہے‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ حکومت نے دیوارِ براق پر پہرہ سخت کر دیا۔اگلا دن عیدِ غفران کا تھا (ہاكيپ بوريم، یہودی عقائد میں یہ وہ دن تھا جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام وادیٔ سینا سے الواح اور مغفرت کا وعدہ لے کر لوٹے تھے) فلسطین کی استعماری حکومت نے یہود سے کہا کہ وہ بڑے گروہوں کے بجائے چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں مسجد میں آئیں تاکہ کسی حادثے سے بچا جا سکے ۱۵/اگست کو یہودی دیوارِ براق کی طرف آئے۔ انھوں نے یہودی پر چم اٹھا ئے ہوئے تھے اور وہ مذہبی گیت گا رہے تھے اور ساتھ ہی مسلمانوں کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔اگلے دن ۱۶/اگست کو بارہ ربیع الاول ( مولود شریف ) تھا اور یہ یومِ جمعہ بھی تھا۔ مسلمان نمازِ جمعہ کے بعد دیوارِ براق کی جانب گئے تو یہاں موجود یہودیوں سے تلخ کلامی ہوئی۔ اگلے جمعے یعنی ۲۳/اگست ۱۹۲۹ء کو یہود کی حرکتوں سے مشتعل ہو کر مسلمانوں نے یہود پر پتھروں، ڈنڈوں اور تلواروں سے حملہ کر دیا۔ اس کے ساتھ الخلیل، نابلس،عکا، جنین،اور طولکرم وغیرہ میں بھی فسادات پھوٹ پڑے۔انگریزی فوج نے یہودیوں کی طرف سے دفاع کرتے ہوئے مسلمانوں پر وحشیانہ حملے کیے اور بہت سی جگہوں پر فضائی بمباری بھی کی گئی۔ایک ہزار افراد پر مقدمے قائم کیے گئے جن میں نوے فیصد عرب تھے۔ جب کہ چھبیس افراد کو سزائے موت سنائی گئی جن میں پچیس مسلمان اور صرف ایک یہودی تھا۔ ان جھڑپوں میں ایک سو تینتیس یہودی قتل ہوئے جب کہ ایک سو سولہ مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ زخمیوں میں تقریباً ساڑھے تین سو یہودی جب کہ مسلمانوں کی تعداد تقریباً اڑھائی سو تھی۔ برطانوی فوج کے ہاتھوں مظالم کا شکار ہونے والے مسلمانوں کی تعداد اس کے علاوہ تھی۔
جوہن چانسلرکمشنر نے ان تمام فسادات کا موجب مسلمانوں کو قرار دیا۔ مسلمانوں کے احتجاج پر برطانوی حکومت نے سر والٹر شا کی قیادت میں ایک تحقیقاتی کمیشن متعین کیا جس میں تین برطانوی پارلمنٹیرین بھی تھے۔ اس تحقیق کے نتیجے میں آخر کار ہائی کمشنر جوہن چانسلر نے تسلیم کیا کہ برطانوی حکومت کی مسلم کش پالیسیاں، امتیازی سلوک اور یہودی منصوبے مسلمانوں میں اضطراب و ہیجان کی وجہ بنے جو آخر کار فسادات کا باعث بنے۔کمیشن نے پچاس کے قریب اجلاس کیے اور ایک سو سے زیادہ یہود و عرب کے بیانات سنے اور اپنی رپورٹ میں کہا کہ یہود کا دیوارِ گریہ پر مظاہرہ، یہودی پرچم بلند کرنا نیز مسلمانوں کو اپنے مستقبل کے حوالے سے لاحق سیاسی و معاشی خوف، یہودیوں کی ہجرت اور زمین پر قبضہ وغیرہ تصادم کی وجہ بنے۔
کمیشن نے تجویز کیا کہ فلسطین میں ایک داخلی دستوری حکومت بنائی جائے جس میں مسلمانوں کی شرکت ہو اور ان کی زمینوں کو تحفظ دیا جائے۔ کمیشن نے قرار دیا کہ ابتداے ہجرت میں وہ جو برطانیہ اور یہودیوں نے کہا تھا کہ وہ علاقے کی وسعت اور معیشت کے مطابق ہی مہاجرین کو فلسطین میں آنے کی اجازت دیں گے اور یہ بھی کہ فلسطین کی حکومت میں یہود کو شریک نہیں کیا جائے گا ان شرائط کی سخت خلاف ورزی کی گئی ہے۔ کمیشن نے کہا کہ جب تک ان شکایات کا ازالہ نہیں کیا جاتا فلسطین میں امن و امان قائم ہونے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ کمیشن نے سفارش کی کہ دیوارِ گریہ کے معاملے پر الگ سے کمیشن مقرر کیا جائے۔ کمیشن کی اکثر سفارشات کو قبول نہیں کیا گیا۔ البتہ ۱۹۳۰ء میں دیوارِ براق کا معاملہ لیگ آف نیشنز میں لے جایا گیا۔ جہاں سہ ملکی کمیٹی ( ہالینڈ، سوئزر لینڈ اور سویڈن )کے حوالے یہ معاملہ کیا گیا۔ اس کمیٹی کے اراکین نے فلسطین کا دورہ کیا۔کمیٹی نے سفارشات میں لکھا کہ دیوار ِ براق مسلمانوں کی املاک وقف میں ہے اور اس کی حیثیت میں تبدیلی کرنا درست نہیں ہے بلکہ چاہیے کہ اسے اس کی سابقہ حیثیت پر برقرار رکھا جائے۔کمیشن کی سفارشات فلسطینوں کے موقف کی ترجمان تھیں چنانچہ فی الفور ایک وفد برطانیہ روانہ کیا گیا جس نے وہاں کی حکومت سے یہودیوں کی ہجرت اور فلسطینی زمینوں پر قبضے روکنے اور عثمانی دور کے زرعی بنک کی بحالی اور فلسطین کی پارلیمینٹ اور داخلی حکومت کی تشکیل کے مطالبے کیے گئے۔وزیرِ اعظم رمزی میکڈونلڈ نے ان کے مطالبات کو رد کیا اور اسمبلی میں تقریر میں کہا کہ حکومتِ برطانیہ یہودیوں کے منصوبوں میں رکاوٹیں ڈالنے اور فلسطین کی دستوری حکومت کو بالفور ڈیکلریشن کے متضاد سمجھتی ہےالبتہ فلسطینی کسانوں اور عوام کی معاشی بہتری کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ لیکن جو اقدامات کیے گئے وہ بھی فلسطینوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کے بجائے نقصان میں اضافے کا باعث بنے۔
اکتوبر ۱۹۲۹ء میں فلسطین میں عرب خواتین کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس کانفرنس میں مختلف علاقوں سے دوسو کے لگ بھگ خواتین جمع ہوئیں۔ کانفرنس میں اعلان کیا گیا کہ فلسطینی عورت مردوں کے شانہ بہ شانہ آزادیٔ وطن کی تحریک میں حصہ لے گی۔اسی سال عرب عوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں یہودی مصنوعات اور ان کی کمپنیوں کے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا یہاں تک کہ بعض شہروں میں بجلی کے قمقمے تک استعمال کرنے ترک کیے گئے اور ان کی جگہ لالٹین کا استعمال شروع کیا گیا۔ان تمام کوششوں کا کوئی اثر یہودیوں کی پیش رفت پر نہیں پڑا بلکہ برطانوی ہائی کمشنر جوہن چانسلرکے زیرِ سایہ اور برطانوی آشیر باد سے وہ اپنے گھناؤنے منصوبوں کی تکمیل میں لگے رہے۔
کتابیات
القدس و المسجد الأقصی عبر التاریخ، دکتور محمد علي البار
فلسطین في عهد الانتداب، دکتور أحمد طربین
تذکیر النفس بحدیث القدس، دکتور سید حسین العفاني