حضرت مولانا مجد القدوس خبیب رومی دامت برکاتہم العالیہ
گزشتہ دنوں مدرسہ عربیہ مظاہرِ علوم، سہارنپور کے صدر مفتی حضرت مولانا مفتی مجد القدوس خبیب رومی صاحب دامت برکاتہم العالیہ تشریف لائے ہوئے تھے، اس سفر کے دوران آپ نے فقہ اکیڈمی کا دورہ بھی کیا۔ اکیڈمی کے جملہ اراکین و احباب کے لیے باعثِ سعادت ہے کہ حضرت نے فقہ اکیڈمی کو رونق بخشی اور قیمتی نصائح سے نوازا، حضرت کی گفتگو ٹرانسکرپشن اور ضبط و ترتیب کے بعد پیشِ خدمت ہے
حضرت مولانا ابرار الحق صاحب نے فرمایا کہ ایک دفعہ میں حضرت خواجہ مجذوب الحسن صاحب کے ساتھ آیا تھا، حضرت چونکہ شکار کا بھی شوق رکھتے تھے، بڑے چست مزاج کے آدمی تھے، تو فرمایا کہ دہرہ دون سے مسوری پہاڑ پر سواری سے نہیں چلیں گے، پہاڑوں میں سے چلیں گے۔ اور راستے میں حضرت نے پہاڑ پر چڑھتے ہوئے فرمایا: مولوی ابرار الحق! مسوری آنا کس کے لیے جائز ہے؟ یہ عجیب مسئلہ ہے، مسوری آنا کس کے لیے جائز ہے؟ میں سمجھ گیا کہ حضرت کچھ بتلانا چاہتے ہیں۔ میں نے خواجہ صاحب سے عرض کیا کہ حضرت ہی فرمائیں! فرمایا: جس کو مشق ہو نظر بر قدم بر شجر بر حجر کی، وہ ایسی جگہ جائے۔ جس کو اِدھر اُدھر بد نظری کا خطرہ ہو، یہاں اُس کے لیے آنا جائز نہیں ہے، کیونکہ وہاں طرح طرح کے لوگ پہنچتے ہیں۔ تو حضرت نے اس تفریحی مقام کا ادب بتایا کہ جس کو مشق ہو، وہ ایسی جگہ جائے، نظر بر قدم بر شجر بر حجر، ورنہ اگر اِدھر اُدھر دیکھنے بھالنے کی عادت ہے اُس کے لیے آنا جائز نہیں۔ بتائیے یہ سب آداب کون بتلا رہا ہے؟ عارف، کیونکہ یہ عارف تھے۔ عارف اور عالم میں فرق ہوتا ہے۔ جیسے کہ علامہ اقبالؔ مرحوم ہمارے حضرت اکبرؔ الٰہ آبادی مرحوم کو عارف کہتے تھے۔ حضرت تھانوی بھی اُن کو عارف فرماتے ہیں۔ عارفِ زمانہ، متدین شاعر، ایک زمانے میں علامہ نے لکھا:
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرّہ دیوتا ہے |
تو حضرت اکبر نے پسند نہیں کیا، یہ کیا مشرکانہ تصور ہے؟ پھر اِنھوں نے لکھا کہ:
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا |
کہا: نہیں، ابھی نہیں پہنچے حقیقت تک، پھر اِنھوں نے تیسرے دور میں لکھا:
چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا |
مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا |
کہا: حضرت اب تو خوش ہو جائیں گے؟ حضرتِ اکبر نے جواب لکھا: نہیں بھئی، اور فرمایا:
رقبے کو کم سمجھ کر اقبال بول اٹھے ہیں |
ہندوستان کیسا، سارا جہاں ہمارا |
لیکن یہ سب غلط ہے، کہنا یہی ہے لازم |
جو کچھ ہے سب خدا کا، وہم و گماں ہمارا |
تو علامہ اقبال نے لکھا کہ حضرت میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں، آپ عارِف، میں شاعر۔ تو حضرت تھانوی بھی اُن کو عارف فرما رہے ہیں، علامہ نے بھی اُن کو عارف مانا اور جب اکبرکا انتقال ہوا تو اُن کے بیٹے کو علامہ اقبال نے جب تار دیا ہے، تعزیتی خط بھی لکھا۔ اُس میں لکھا کہ ’’آپ کے والدِ بزرگ وار، ہمارے زمانے کے سب سے سمجھ دار اور دانش مند آدمی تھے‘‘۔ میرا بھی خیال یہی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اِن کو عقل و دانش اور شعور سے بڑا حصہ عطا فرمایا تھا، ورنہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ ہرکس و ناکس کے معترِف ہو جائیں؟ میں نے اپنے والد صاحب سے سنا، اُنھوں نے اپنے والد صاحب سے سنا کہ حضرت اکبر الٰہ آبادی مرحوم کی عیادت کو حضرت تھانوی رحمہ اللہ الٰہ آباد تشریف لائے تو اُس وقت وہ مرض الوفات میں تھے۔ حضرت سے عمر میں کافی بڑے تھے۔ وہ چونکہ جج تھے، جو اُن کا بنگلہ تھا، اُس کا نام عشرت منزل تھا، میں نے دیکھا ہے۔ تو وہاں حضرت تشریف لے گئے اور غالباً نمازِ مغرب کا وقت ہو گیا۔ تو اُنھوں نے درخواست کی کہ حضرت آپ نماز پڑھا دیں، تو حضرت نے نماز پڑھا دی۔ نماز کے بعد اُنھوں نے حضرت سے عرض کیا کہ حضرت میں نے آپ کی اقتدا میں جو نماز پڑھی ہے، اس سے مجھے اپنی مغفرت کی امید ہو گئی ہے۔ وہ حضرت کے بڑے معتقد تھے اور حضرت اُن کے معترف تھے کہ بات کہنے کا بڑا سلیقہ رکھتے ہیں۔
میں نے حضرت مولانا ابرار الحق صاحب سے ایک واقعہ یہ بھی سنا کہ ہمارے حضرت خواجہ مجذوب الحسن صاحب جس مجلس میں ہوتے تھے تو باوجودیکہ بڑے بڑے علماے اعلام، بڑے اصحابِ علم و فضل موجود ہوتے تھے مگر متکلم اُس مجلس میں حضرت خواجہ صاحب ہوتے تھے۔ مولانا ابرار الحق صاحب نےفرمایا کہ میں دیوبند میں حضرت خواجہ صاحب کے ساتھ گیا تو حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب اور حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب اُن کے ساتھ بیٹھے تھے۔ فرمایا کہ حضرت کو محویت ہو جاتی تھی، شاعر بھی تھے، علامہ سید سلیمان ندوی سے کسی نے پوچھا کہ آپ میں اور مجذوب صاحب میں کیا فرق ہے؟ فرمایا کہ میں خطیب ہوں، وہ شاعر ہیں، خطیب کی نظر مجمعے پر ہوتی ہے، شاعر کی اپنے اوپر ہوتی ہے، مجمع سن رہا ہے یا سو رہا ہے اِس سے کوئی بحث نہیں۔ فرمایا کہ دوستی تو ہے ہماری اُن کی لیکن فرق یہ ہے۔ بہر حال، فرمایا کہ خواجہ صاحب اور دیگر حضرات دار الاہتمام میں بیٹھے اور حضرت مہتمم صاحب نے ادباً اُن سے نہیں فرمایا کہ چھٹی ہو گئی ہے۔ جب ایک گھنٹا زائد ہو گیا تو گھڑی دیکھ کے فرمایا اچھا، دیر ہو گئی؟ اُنھوں نے فرمایا کہ حضرت کچھ حرج نہیں، کہا: کتنی دیر ہوئی؟ کہا: ایک گھنٹا۔ حضرت خواجہ صاحب نے جیب سے پیسے نکالے اور فرمایا:یہاں پنکھا چل رہا تھا،یہ رقم مالیات میں داخل کر دیجیے گا۔ تو اُس محویت میں حقوق العباد اور حقوق اللہ وہ سبق نہیں بھولے جو حضرت کے ہاں پڑھا تھا۔
ہم نے آغاز میں سورۃ العصر کی تلاوت کی جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے زمانے کی قسم کھائی ہے، زمانے سے کیا مراد ہے؟ مفسرین نے مختلف اقوال نقل کیے ہیں، بہترین، مختصر اور جامع تفسیر ہمارے شیخ الاسلامِ والمسلمین حضرت مولانا علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی رحمہ اللہ کی ہے۔ جن کے بارے میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا یہ ارشاد میں نے پڑھا کہ جماعتِ دیوبند میں مولوی شبیر احمد عثمانی گو عمر میں مجھ سے چھوٹے مگر علم و فضل میں بڑے ہیں۔ تو علامہ شبیر احمد صاحب کی ایک جلد میں بڑی جامع تفسیر، دریا بکوزہ، جو تعریف علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے لکھی ہے،یادِ رفتگاں میں اُنھی کا تذکرہ کرتے کرتے اچانک حضرت کا وصال ہو گیا اور وہ تذکرہ پورا نہیں ہوا ہے۔اُس میں اُنھوں نے اُس تفسیر کی جو تعریف کی ہے، بعینہ بلفظہ وہی تعریف میں نے حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ سے سنی۔ علامہ عثمانی رحمہ اللہ نےاُن سے پوچھا تھا کہ آپ دار العلوم ندوۃ العلماء میں کیا پڑھاتے ہیں؟ تو انھوں نے کہا کہ حضرت کچھ ادب کی کتابیں ہیں اور کچھ قرآنِ پاک کا ترجمہ اور تفسیر ہے۔ علامہ نے پوچھا: اچھا، اور آپ نے ہمارا موضح الفرقان جو حاشیۂ تفسیر ہے، شیخ الہند رحمہ اللہ کے ترجمے پر، وہ دیکھا ہے؟ علی میاں رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: حضرت میں مستقل دیکھتا ہوں، مستفید ہوتا ہوں۔ فرمایا: آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟ کہا کہ حضرت اُس میں قولِ فیصل مل جاتا ہے، اگراٹھارہ، بیس تفسیروں میں تردد ہو کہ قولِ فیصل کیا ہے، تو وہ اُس میں مل جاتا ہے۔ تو حضرت نے فرمایا: ماشاء اللہ، آپ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ایسا ہی ہے، میں نےاٹھارہ بیس،تفسیروں کے بعد، جس پر مجھے شرحِ صدر ہوا کہ یہ ہونا چاہیے، وہ تعبیر میں نے اختیار کی، اُس میں قولِ فیصل ہی لکھنے کی کوشش کی ہے۔ آپ ماشاء اللہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
بہرحال، بات ہو رہی تھی کہ تفسیرِ عثمانی میں علامہ نے لکھا:’’مقرر انسان ٹوٹے میں ہے‘‘۔ یعنی سارے انسان خسارے میں ہیں، نقصان میں پڑے ہوئے ہیں مگر کون سے انسان مستثنیٰ کیے گئے؟ چار طبقے: مومنین صالحین،یعنی عقائد اُن کے بالکل درست ہوں۔ ایمانیات سے مراد سارے عقائد درست ہونا، اگر آدمی کا ایمان اورسارے عقائد درست نہیں ہیں تو وہ مومن نہیں ہے، سارے عقائد درست ہوں تو ایمانیات کی تکمیل ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ عمل بھی نیک ہو، ایسے لوگ خسارے میں نہیں ہیں۔ تیسرا طبقہ ان کا ہے جو حق کی ایک دوسرے کو تلقین کرتے ہیں اور حق پر استقامت کے نتیجے میں جومشکلات پیش آتی ہیں، ان پر صبر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ﴾ کہ کیا تم نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ بس تم آمَنّا کہہ دو گے؟ بس آمنَّا و صَدَّقنا کہنے کے بعد چھٹی، راستہ صاف؟ تم کو آزمایا نہیں جائے گا اور فتنے میں نہیں ڈالا جائے گا؟ فرمایا:جو جتنا اللہ سے قریب ہے، انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین، اُن کےقرب کے بقدر اُن کی آزمائش ہوتی ہے۔اور صبر کرنےکا مطلب پٹنا نہیں ہے۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں کہ جان دے دیں گے، شہید ہو جائیں گے، نہیں بھئی: ﴿يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ﴾ فرمایا: وہ تو نتیجتاً شہید ہونا ہے، پہلے کسی کو قتل کرو پھر تم جانا۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا ظفر احمدعثمانی رحمہ اللہ نے حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ کو لکھا ہے کہ اس وقت لوگوں میں جذبۂ جہاد اور جذبۂ جنگ میں خلط ہو رہا ہے، جذبۂ جہاد مومنانہ جذبہ ہے اور جذبۂ جنگ کافرانہ جذبہ ہے، اُس میں فقط قوم و وطن کا تحفظ مقصود ہوتا ہے، اعلاے کلمۃ اللہ مقصود نہیں ہوتا۔ اسی کو ہمارے حضرت خواجہ مجذوب رحمہ اللہ نظم میں فرماتے ہیں:
رقبے کو کم سمجھ کر اقبال بول اٹھے ہیں |
ہندوستان کیسا، سارا جہاں ہمارا |
لیکن یہ سب غلط ہے، کہنا یہی ہے لازم |
جو کچھ ہے سب خدا کا، وہم و گماں ہمارا |
جب ۱۹۸۰ء میں دار العلوم دیوبند کا اجلاس صد سالہ ہوا تو حضرت مہتمم صاحب کے اوپر فکر اور بوجھ تھا، اُس دن حضرت نے حضرت مولانا علی میاں رحمہ اللہ سے فرمایا کہ آج بیان آپ فرما دیں۔ تو حضرت مولانا علی میاں نے تقریباً پون گھنٹا اردو میں خطاب فرمایا، پھر اُس کو فضلاے عرب کے واسطے عربی میں بھی دہرایا۔ تو اُس میں جو خلاصتاً حضرت نے بات فرمائی تھی کہ بھئی یہ دیو بندی کہا جاتا ہے، فرمایا: دیوبندی کسے کہتے ہیں؟ دیوبندی تو دیوبند کے رہنے والے کو کہتے ہیں، یہ کسی دین و مذہب، مسلک و مشرب کا ترجمان نہیں ہے۔ فرمایا: لیکن جو یہ لفظ ہے، جس کے لیے عرفِ عام میں اس کو بولا جاتا ہے یعنی دیوبندی، اُس کے لیے چار شرطیں ہیں، چار اوصاف ہیں، چار صفات ہیں۔ اگر وہ نہیں ہیں تو اُس کو دیوبندی کہنے کا، قاسمی لکھنے کہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ وہ چار اوصاف ہیں: تعلق مع اللہ، یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ اُس کا تعلق، ذکر اللہ، یعنی اللہ تعالیٰ کی یاد اُس کے دل و دماغ میں رچی بسی ہوئی ہو، اتباعِ سنتِ رسول اللہ اور اِعلاے کلمۃاللہ۔ فرمایا: یہ چار چیزیں اگر وہ رکھتا ہے، تب اُس کو کہا جائے گا کہ یہ ہے قاسمی، یہ ہے دیوبندی۔اسی لیے حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے تین افراد معیاری ہیں: امام الاصول حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی، امام الفروع حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی اور جامع الاصولِ والفروع حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہم۔ اللہ تعالیٰ نے اسی طرح اہلِ صراط مستقیم ہر زمانے میں بھیجے ہیں۔ یہ بالکل غلط فہمی ہے کہ کوئی معیارِ حق نہیں، درپردہ کیا کہنا مراد ہوتا ہے کہ ہم ہی ہیں معیارِ حق، ہم ہی کو مان لو سب کچھ، یہ تو ادّعا ہے، دعویٰ ہے، اسی لیے میں نے حضرت مولانا ابرار الحق رحمہ اللہ کو کبھی وجد کی کیفیت میں نہیں دیکھا۔ حضرت، غالب علی الاحوال تھے، حضرت کی مغلوب الحال کیفیت نہیں تھی۔ والد صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا کہ فلاں نے لکھا ہے کہ کوئی معیارِ حق نہیں، عجیب بے ڈھنگی بات لکھی ہے۔ فرمایا کہ ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ نے انبیا اور صدیقین، شہدا اور صالحین کی شکل میں معیارِ حق، اہلِ حق پیدا فرمائےہیں۔ اور ہمارے لیے حکیم الامت، مجدد الملت، محی السنۃِ الظاہرہ والباطنہ حضرت مولانا تھانوی نور اللہ مرقدہٗ کو معیارِ حق بنایا۔ یہ سن کرحضرت مولانا ابرار الحق صاحب کے اوپر ایک کیفیت طاری ہو گئی۔ فرمایا: بے شک، بے شک، بے شک، بار بار تکرار فرمایا بے شک۔
تو یہ میں عرض کر رہا تھا کہ حضرت مولانا قاری محمد طیب رحمہ اللہ نے فرمایا کہ حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاوی رحمہ اللہ فرماتے تھے: ’’ہمارے لیے امام الاصول حضرت نانوتوی رحمہ اللہ ہیں، امام الفروع حضرت گنگوہی رحمہ اللہ ہیں اور جامع الاصول والفروع حضرت تھانوی رحمہ اللہ ہیں۔ اسی طرح شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ نے حضرت مولانا مفتی محمود گنگوہی رحمہ اللہ کے قلم سے حضرت مولانا حکیم محمد ایوب سہارنپوری رحمہ اللہ کو مدرسے کے مذہب و مسلک و مشرب کے سلسلے میں لکھوایا تھا کہ اکابرِ مظاہرِ علوم کا ارشاد ہے کہ مدرسے کا مذہب و مسلک و مشرب سنّیت، حنفیت اور چشتیت ہے۔ اور اس کی تشریح و توضیح بھی کر دینی چاہیے، کیونکہ ہر کس و ناکس اپنے آپ کو سنیُ المذہب، حنفیُ المسلک اور چشتیُ المشرب قرار دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس لیے یہ کیسے پتا چلے گا کہ یہ سنیت، حنفیت اور چشتیت کیا ہے، اس کی تعبیر کیا ہونی چاہیے۔ پس جو تعبیر فقیہُ النفس حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حجۃُ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہم اللہ کی کتابوں سے معلوم ہوتی ہے وہ سنیت، حنفیت اور چشتیت کے بارے میں معتبر و معتمد اور مستند ہوگی۔
حضرت نانوتوی رحمہ اللہ اورحضرت گنگوہی رحمہ اللہ کے درمیان فرق حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جب حضرت نانوتوی بات کرتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ کوزے سے دریا بہا رہے ہیں، جب حضرت گنگوہی بولتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ یہ دریا کو کوزے میں بند کر رہے ہیں۔ تو وہ ایک بات سے دوسری بات، تیسری بات، چوتھی بات فرماتے تھے۔ حضرت حکیم الاسلام رحمہ اللہ نے متن لکھا اور تیس سال میں باقاعدہ اس کی شرح’’علماے دیوبند کا دینی رخ اور مسلکی مزاج‘‘ لکھی ہے۔ اس میں وہ فرماتے ہیں کہ ہم دیناً مسلم، مذہباً سنی، مسلکاً حنفی، مشرباً صوفی اور قوسین میں لکھا جامعِ سلاسلِ صوفیا، چشتیہ، قادریہ، نقشبندیہ، سہروردیہ اور اعتقاداً و کلاماً اشعری اور ماتریدی، فکراً ولیُ اللہی، اصولاً قاسمی، فروعاً رشیدی، بیاناً یعقوبی اور نسبتاً دیوبندی ہیں۔ گویا ﴿تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ﴾ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان نسبتوں سے ہم سب کو وابستہ رکھیں۔ ﴿نَطْمَعُ أَن يُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِينَ﴾﴿تَوَفَّنَا مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنَا بِالصَّالِحِينَ﴾غیر خزایا ولا ندامىٰ ولا مفتونین.
والد محترم ترجمانِ حق حضرت مولانا مفتی عبدالقدوس رومی فرماتے تھے کہ فقہاے دیوبند کا مصداق تین ہیں: نمبر ایک فقیہ النفس حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، نمبر دو محدثِ فقیہ حضرت مولانا خلیل احمد انبہٹوی، نمبر تین حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔احقر کا ایک مختصر سا تجزیہ ہے جو بنیادی حیثیت سے تربیتِ والدین، تعلیمِ معلمین، اصلاحِ مصلحین اور مرشدین سے متعلق ہے۔ یہ سلسلہ، یہ وابستگی اِسی ترتیب سے جہاں رہے گی، وہاں گھر بھی بن جائے گا بلکہ نسل بن جائے گی۔ جہاں صرف والد، شوہر دین دار ہوتا ہے، وہاں گھر دین دار ہوتا ہے اور جہاں عورت دین دار ہوتی ہے، وہاں نسل دین دار ہو جاتی ہے، اِتنا فرق ہے۔ اور اگر دونوں دین دار ہوں تو نورٌ علی نور، گھر اور نسل دونوں دین دار ہو جائیں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو اتباعِ سنت، اہتمامِ شریعت اور التزامِ طریقت نصیب فرمائیں، اُسی پر گامزن رکھیں۔ جب تک ہم سب جییں، اسلام پر جییں، جب خاتمہ ہو تو کمالِ ایمان پر ہو۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ ہدایت پر قائم رکھیں، آخرت میں بلا حساب و کتاب نجات عطا فرمائیں۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين