ابنِ عباس
معاون قلم کار
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ:«إِنَّ هَذِهِ الْقُلُوبَ تَصْدَأُ كَمَا يَصْدَأُ الْحَدِيدُ إِذَا أَصَابَهُ الْمَاءُ قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا جِلَاؤُهَا؟ قَالَ: كَثْرَةُ ذِكْرِ الْمَوْتِ وَتِلَاوَةُ الْقُرْآنِ».(مشکاۃ المصابیح بحوالہ شعب الایمان)
’’سیدنا عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک یہ دل بھی زنگ آلود ہو جاتے ہیں جیسا کہ لوہا پانی لگنے سے زنگ آلود ہو جاتا ہے‘‘۔ پوچھا گیا: ’’یا رسول اللہ! اس زنگ کو دور کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ فرمایا:’’موت کی کثرت سے یاد اور تلاوتِ قرآن‘‘۔
تشریح
قلب وہ آئینہ ہے جس میں معرفتِ الہٰی کا نور پوشیدہ ہے۔ جب یہ دل صاف اور چمک دار ہوتو پھر سارے جسم میں نورِ ایمان کی تجلی یا بجلی دوڑتی ہے اور خدائی تقاضوں کے مطابق زندگی بسر کرنا انسان کے لیے آسان ہو جاتا ہے۔ یہی بات ایک دوسری حدیث میں یوں فرمائی گئی کہ جب دل صالح ہو جائے تو پورا جسم صالح ہو جاتا ہے اور اگر دل میں فساد آجائے تو پورا جسم مفسد ہو جاتا ہے۔ اسی لیے بعض حکما نے فرمایا کہ دل جسم کے لیے بادشاہ کی مانند ہے اور بقیہ جسم رعایا کی مانند ہے جو اپنے صلاح و فساد میں دل کے تابع ہے۔
زنگ سے مراد گناہوں اور غفلت کا میل کچیل ہےجو قساوتِ قلبی کا ذریعہ بنتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہےتو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے اور اگر وہ توبہ و استغفار کر لے تو دل صاف ہو جاتا ہے ورنہ وہ نقطہ پھیلتا جاتا ہے۔اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے یہ آیتِ مبارکہ تلاوت کی تھی:﴿كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يكسِبونَ﴾’’نہیں بلکہ ان کے دلوں پر زنگ آ گیا ہے بہ سبب ان اعمالِ بد کے،جو وہ کرتے تھے‘‘۔(سنن ترمذی)
دلوں کے زنگ کو دور کرنے کا نسخہ
اوپر ہم نے ترمذی شریف کی جس روایت کا ترجمہ نقل کیا ہے اس میں آتا ہے:«فَإِذَا هُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُهُ».’’پس جب بندے نے گناہوں سے ہاتھ کھینچا اور توبہ و استغفار کیا تو اس کا دل صاف ہو گیا‘‘۔ (لغت عرب میں صقالت، سین سے بھی آتا ہے ) پس معلوم ہوا کہ دل کے زنگ کو دور کرنے کے لیے پہلے تو اس کام سے الگ ہونا ضروری ہے جو اس زنگ کا سبب بنا تھا اور وہ ہے گناہوں کا ارتکاب، اس کے بعد توبہ و استغفار کرنا بھی دل کی صفائی میں معاون ہے جیسا کہ نبی کریمﷺ نے مختلف قسم کے کلماتِ استغفار سکھائے اور یہ بھی فرمایا کہ میں دن میں ستر ستر بار استغفار کرتا ہوں یا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ کہنا کہ آپ ﷺ ایک مجلس میں سو سو بار استغفار کیا کرتے تھے تو یہ سب ہماری تعلیم کے لیےہے کہ ہم گناہ کے بعد تو بالخصوص لیکن گناہوں کے بغیر بھی روزانہ استغفار کرتے رہیں جیسا کہ نبی کریمﷺ کی سنت سے معلوم ہوتا ہے تاکہ ہمارا دل صاف ہو جائے اور اس میں ایمان اور محبتِ الہٰی کا نور جگمگانے لگے۔
مذکورہ حدیث میں جب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے دل کو صیقل کرنے کا نسخہ معلوم کیا تو آپﷺ نے فرمایا:«كَثْرَةُ ذِكْرِ الْمَوْتِ».’’موت کی بکثرت یاد‘‘۔ جاننا چاہیے کہ دنیا کی لذت و زینت گناہوں کا سبب بنتی ہے۔ شیطان بھی انھی جذبات کو ابھار کر ہمیں گناہو ں پر آمادہ کرتا ہے پس جب ہم موت کو یاد کریں گے تو اس سے دنیا کی لذت و زینت کے عارضی ہونے کا یقین ہمارے دل میں آ جائے گا اور یہ یقین جتنا مضبوط ہو گا اسی قدر انسان گناہوں سے بچ کر اپنے دل کو بچا پائے گا۔ یہی بات ترمذی کی اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:«أَكْثِرُوا ذِكْرَ هَادِمِ اللَّذَّاتِ»’’لذتوں کو توڑنے والی چیز کو زیادہ یاد کیا کرو‘‘۔ راوی نے کہا کہ اس سے مراد موت ہے۔ تو موت کی یاد انسان کے دل کو نرم کرتی ہے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی انگوٹھی پر لکھوا رکھا تھا:كَفَى بِالْمَوْتِ وَاعِظًا ’’موت بطورِ واعظ کافی ہے‘‘۔ موت کی یاد کے طریقے بہت سارے ہیں۔ ایسا لٹریچر بھی دستیاب ہے جس میں موت کے بعد کے حالات بیان ہوئے ہیں۔ کتبِ حدیث سے بھی متعلقہ ابواب کا مطالعہ مفید ہے۔ موت اور اس کے بعد کی زندگی پر مبنی وعظ و بیانات سے بھی استفادہ کرناچاہیے۔ اسی طرح موت کا مراقبہ بھی اہم چیز ہے۔
تلاوتِ قرآنِ پاک
حدیثِ زیرِ مطالعہ کے مطابق دلوں کے زنگ کو دور کرنے کے دوسرا ذریعہ تلاوتِ قرآنِ پاک ہے۔ قرآن پاک کی تلاوت کی تاثیر دوسرے تمام کلاموں سے زیادہ ہے۔ اس میں موت اور آخرت کی یاد بھی ہے اور دنیاو آخرت کا تقابل بھی، اس میں دنیا کی بے ثباتی اور فنا کا ذکر بھی ہے اور آخرت کی بقا کا بیان بھی ہے۔ اس میں انذار بھی ہے اور بشارت بھی، اس میں ترغیب بھی ہے اور ترہیب بھی۔ اس میں حکمت بھی ہے اور اس میں نصیحت بھی ہے۔ اس میں شیطان کی چالیں اور اس کی پیروی کرنے والوں کے عبرت انگیز انجام کا ذکر بھی ہے اور شیطانی راستوں کی مخالفت کرنے والوں کے انعام کا ذکر بھی ہے۔ اس میں اللہ و رسول کی محبت کا بیان بھی ہے اور غیر اللہ کی محبت کی نفی بھی، غرض انسان کو جس جس اعتبار سے نصیحت کی ضرورت ہے وہ تمام نصائح اس میں جمع کر دی گئی ہیں۔اگرچہ قرآنِ کریم کی تاثیر ذاتی ہے یعنی مجرد تلاوت ِ قرآن بھی نفعے سے خالی نہیں ہے لیکن ترجمہ و تفسیر سے پڑھنا نہ صرف یہ کہ اس کی تاثیر میں اضافہ کرتا ہے بلکہ نزولِ قرآن کا تکمیلی مقصود ہدایت بھی ترجمہ و تفسیر ہی سے پورا ہوتا ہے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ روزانہ کم از کم دو بار تلاوتِ قرآن کی جائے۔ ایک وہ تلاوت جس کے ساتھ ترجمہ و تفسیر پڑھی جائے اور دوسری ترجمہ و تفسیر کے بغیر رواں تلاوت جو روحانی تازگی کا اہم ذریعہ ہے۔ دو وقت کی تلاوت کا اشارہ مختلف احادیث سے ملتا ہے مثلاً:«رَجُلٌ عَلَّمَهُ اللَّهُ القُرْآنَ فَهُوَ يَتْلُوهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ».(صحیح بخاري) ’’وہ بندہ جسے اللہ نے قرآن سکھایا پھر وہ رات اور دن کی گھڑیوں میں اس کی تلاوت کرتا ہے‘‘۔ مشہور دعاے ختمِ قرآن میں آتا ہے: «وارزقني تِلَاوَته آنَاء اللَّيْل وأطراف النَّهَار».(تخریج أحادیث الإحیاء) ’’اے اللہ مجھے قرآن کی تلاوت کی توفیق دے رات کی گھڑیوں میں بھی اور دن کے دونوں سِروں میں بھی‘‘۔
دورِ حاضر میں قرآنِ کریم سے دوری عام ہے۔ لہذا، اس ضمن میں بہت کوشش کر کے قرآنِ کریم سے تعلق بنانا چاہیے۔ یہ وہ نسخۂ کیمیا ہے کہ جس کے بغیر دلوں کی زندگی اور ان کے اُجلاپے کا تصور محال ہے۔ ایک حدیثِ مبارکہ سے اس جانب اشارت ہوتی ہے:«إِنَّ الَّذِي لَيْسَ فِي جَوْفِهِ شَيْءٌ مِنَ القُرْآنِ كَالبَيْتِ الخَرِبِ».(سنن ترمذي) ’’بے شک جس شخص کے باطن میں کچھ بھی قرآن جمع نہیں ہے وہ ویران گھر کی مانند ہے‘‘۔
ذکر اللہ
دلوں کے زنگ کو دور کرنے والا ایک خاص کام، جو اگرچہ حدیثِ زیرِ مطالعہ میں مذکور نہیں ہے لیکن اس کے مفہوم میں شامل ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔امام ابن القیم رحمہ اللہ نے الوابل الصيب من الكلم الطيب میں اس پر تفصیلی کلام کیا ہے، چنانچہ آپ لکھتے ہیں : وصدأ القلب بأمرين بالغفلة والذنب وجلاؤه بشيئين بالاستغفار والذكر’’دل پر زنگ دو چیزوں سے لگتا ہے ایک تو غفلت اور دوسرے گناہ اور اس کا ازالہ بھی دو چیزوں سے ہے ایک استغفار اور دوسرا، ذکرِ باری تعالیٰ‘‘۔ آگے چل کر امام نے لکھا ہے کہ جس کا دل جتنا غافل ہو گا اس پر اتنا ہی زیادہ زنگ چڑھے گا اور زنگ آلود قلب کی سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ علم حقائق سے محروم ہو جاتا ہے۔ حق اسے باطل نظر آتا ہے اور باطل اسے حق نظر آتا ہے، اس طرح وہ نہ تو حق کو اختیار کر سکتا ہے اور نہ ہی باطل کا انکار کرسکتا ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے :«إِنَّ لِكُلِّ شَيْءٍ صِقَالَةً وَإِنَّ صِقَالَةَ الْقُلُوبِ ذِكْرُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ». (الترغيب والترهيب للمنذري، شعب الإيمان)’’ہرچیز کی صقالت کا کوئی آلہ ہوتا ہے اور دل کو چمکانے والی چیز اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر ہے‘‘۔حضرت ابو الدرداء رضی الله عنہ فرماتے ہیں:«إِنَّ لِكُلِّ شَيْءٍ جِلَاءً وَإِنَّ جِلَاءَ الْقُلُوبِ ذِكْرُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ».(شعب الایمان) ’’ہر چیز کو اُ جلانے کا کوئی نہ کوئی ذریعہ ہوتا ہے اور دلوں کا اُجالا اللہ تعالیٰ کے ذکر میں ہے‘‘۔ ذکر میں صبح و شام کے اذکار ،معمولاتِ زندگی اور مخصوص مواقع کی دعائیں شامل ہیں ۔ جاننا چاہیے کہ دوسرے امورِ دین کی طرح ذکر بھی ایک سیکھنے کی چیز ہے جو اہلِ ذکر کی صحبت میں رہ کر سیکھا جاتا ہے ۔ خاص طور وہ لوگ جو تصوف کے سلسلوں سے منسلک ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اپنے شیخ کے سکھائے ہوئے معمولاتِ ذکر کا خاص اہتمام رکھیں ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دلوں کو چمکانے اور اس کے لیے محنت کی توفیق عطا فرمائے۔