لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

مولانا حماد احمد ترکؔ
نائب مدیر ماہنامہ مفاہیم، کراچی

شوکتِ سنجر و سلیم

قسط نمبر ۸

۱۴: احمد خان اوّل(۱۵۹۰ء۔۱۶۱۷ء)

احمد خان اوّل نے کم سنی میں ہی علومِ دینیہ میں مہارت پیدا کرلی اور خاص طور پر انھیں علمِ فقہ سے بہت مناسبت تھی۔ عربی اور فارسی پر خوب دست رس تھی۔ کبار علما ومشائخ نے ان کی تربیت کی۔ اپنے زمانے کے اچھے شعرا میں شمار کیے جاتے تھے۔بختی تخلص کرتے تھے۔ احمد خان صرف تعلیم وتعلّم میں ہی نمایاں نہیں تھے بلکہ تیر اندازی، نیزہ بازی اور گھڑ سواری میں بھی غیر معمولی ملکہ رکھتےتھے۔ کم ہی لوگ انھیں شکست دے پاتے تھے۔ ۱۶۰۳ء میں تخت پر جلوہ افروز ہوئے۔ اس وقت ان کی عمر صرف ۱۴ سال تھی اور بظاہر لگتا تھا کہ ایک کم سن سلطان اپنی ناتجربہ کاری سے اس زوال پزیر ریاست کی تباہی میں اہم کردار ادا کرے گا، لیکن معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوا۔ سلطان بنتے ہی احمد خان اوّل نے دو کام ایسے کیے جو بدعنوان افسروں کے لیے نہایت حوصلہ شکن ثابت ہوئے۔ اوّل یہ کہ امورِ سلطنت میں خواتین کی مداخلت کو یکسر ختم کر دیا اور دوم فوجی افسران کے ناجائز مطالبات تسلیم کرنے کے بجائےانھیں حکم عدولی پر موت کی دھمکی کا پیغام ارسال کیا۔ احمد خان کی کم سنی پر حرم کی خواتین کو یہ گمان تھا کہ اب تو زمام انھیں کے ہاتھ میں ہے اور وہ ریاست میں جو چاہے کر سکتی ہیں۔ احمد خان کا یہ فیصلہ ان کے لیے قطعی طور پر غیر متوقع تھا۔ احمد خان اوّل ذاتی طور پر ایک نیک انسان تھے۔ سپاہیانہ شوق اور عالمانہ ذوق انھیں ’حرم کا طواف‘ کرنے سے باز رکھتا تھا۔ سابقہ سلاطین کے برعکس، ان کا وقت عمومًا لوگوں کے ساتھ میل جول اور ملاقات میں گزرتا، بہت کم دورانیے کے لیے حرم جاتے تھے۔ سلطان احمد اوّل کے دو کارنامے انھیں امتیازی مقام پر فائز کرتے ہیں: پہلا کارنامہ یہ کہ سلطان احمد اوّل نے قانونِ اکبریت متعارف کروایا۔ تفصیل اس کی یوں ہے کہ ان سے قبل سلاطین میں ایک خوف ناک رسم چل نکلی تھی کہ جو شہزادہ تخت پر بیٹھتا تھا وہ سب سے پہلے اپنے بھائیوں کو موت کے گھاٹ اتارتا تھا اس خوف سے کہ کہیں بغاوت نہ کر دیں۔ کتنے ہی معصوم اور بے گناہ شہزادے اس ناجائز رسم کی بھینٹ چڑھ چکے تھے اور اس کام کو شیخ الاسلام کی تائید بھی مل جاتی تھی (شیخ الاسلام عثمانیوں کا ایک سرکاری منصب تھا، یہاں شیخ الاسلام سے وہی سرکاری عہدے دار مراد ہیں، علومِ دینیہ کی اصطلاح میں شیخ الاسلام سے وہ جلیل القدر علماے کرام مراد ہوتے ہیں جن کی وسعتِ علمی کے سبب انھیں دیگر علما ’’شیخ الاسلام‘‘ کا لقب دیتے ہیں جیسےشیخ الاسلام عزالدین بن عبدالسلام یا شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہما اللہ)۔ احمد خان نے اپنے چھوٹے بھائی کو قتل نہ کر کے اس بُری رسم کا خاتمہ کر دیا اور یہ ضابطہ مقرر کیا کہ خاندان کا سب سے بڑا مرد سلطان بنے گا۔ دوسرا اہم کام سلطان احمد مسجد کی تعمیر ہے جسے انگریزی میں Blue mosque کہتے ہیں۔ یہ مسجد آج بھی استنبول کی شناخت قرار دی جاتی ہے۔بحرِمرمرہ کے کنارے واقع یہ مسجد خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ خوب صورت مسجد کے حسن کی بڑی وجہ اس کی سبز اور نیلی ٹائلیں ہیں جن پر سورج کی کرنیں طرح طرح کے رنگ سجاتی ہیں۔ اسی سبب سے اسے نیلی مسجد کہا جاتا ہے۔ سلطان احمد اول کے عہد میں ۱۶۱۷ء میں اس مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی۔ اسے معمار سنان کی تعمیرکردہ شہزادہ مسجد کی طرز پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کے چھے مینار ہیں اور یہ اپنے عہد میں مسجدِحرام کے بعد دوسری مسجد تھی جس کے چھے مینار تھے۔ اس کی تعمیر کے بعد مسجدِحرام میں ایک اور مینار کا اضافہ کر دیا گیا۔

 سلطان احمد اوّل کے عہدِ حکومت کے آغاز میں ہی ایران کے ساتھ زبر دست جنگ ہوئی، اس جنگ میں عثمانی لشکر کو شکست ہوگئی۔ اس کے کچھ عرصے بعد ہنگری کے ساتھ معرکہ آرائی ہوئی جس میں ابتدائی طور عثمانی لشکر کا نقصان ہوا لیکن فتح نصیب ہوئی اور گرانؔ عثمانی مقبوضات میں شامل ہو گیا۔ ۱۶۰۶ء میں سلطنتِ عثمانیہ اور آسٹریا کے درمیان صلح ہوگئی جسے ’’ صلح نامۂ ستوا توروک‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس صلح نامے میں پہلی مرتبہ عثمانیوں نےعیسائیوں کو اپنے برابر کا حریف قرار دے کر مساوی شرائط پر صلح کی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب اس سلطنت میں پہلے جیسا دم خم نہیں رہا تھا۔ یورپ کی وہ ریاستیں جو عثمانیوں کو کچلنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی تھیں، یہ دور اُن کے لیے بہت ساز گار تھا اور عثمانیوں کو صفحۂ ہستی سے مٹادینے کا خواب پورا کیا جاسکتا تھا، لیکن یورپ کی اکثر ریاستوں کو اندرونی جنگوں نے اس خواب کی تکمیل کا موقع نہیں دیا۔ آسٹریا اور اسپین بھی باہمی خانہ جنگی کا شکار رہے اور فرانس، جرمنی اور برطانیہ میں حملے کی سکت نہیں تھی۔ سلطان احمد خان اوّل سلطنتِ عثمانیہ کے چودھویں سلطان تھے جو چودہ سال کی عمر میں سلطنت کے وارث ہوئے اور محض اٹھائیس سال کی عمر میں ایک زخم لگنے سے انتقال کر گئے۔آپ کو سلطان احمد مسجد کے احاطے میں دفن کیا گیا۔

۱۵: مصطفیٰ خان اوّل (۱۵۹۲ء۔۱۶۳۹ء)

سلطان احمد خان اوّل کی وفات پر ۱۶۱۷ء میں مصطفیٰ خان اوّل تخت نشین ہوئے۔ عثمانیوں کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ سلطان کا بیٹا تخت نشین نہیں ہوا بلکہ اکبریت کے قانون کے تحت سلطان احمد کے چھوٹے بھائی مصطفیٰ  کو سلطان منتخب کیا گیا۔ مصطفیٰ  خان یہ منصب قبول نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ زہد پسند اور درویش انسان تھے۔ انھیں زبردستی حاکم بنایا گیا لیکن جلد ہی سلطنت کے زعما کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ مصطفیٰ  کے غیر دانش مندانہ فیصلوں نے سلطنت کے ضعف کو مزید بڑھا دیا۔ ینی چری اور دیگر عہدے داروں نے من مانی شروع کر دی اور سلطنت میں انتشار پھیل گیا۔ چنانچہ تین ماہ بعد ہی ۱۶۱۸ء میں مصطفیٰ خان کو معزول کر کے سلطان احمد کے بیٹے عثمان کو تخت پر بٹھا دیا۔ عثمان نے محض چار سال حکومت کی جس کا ذکر آگے آئےگا۔ ۱۶۲۲ءمیں عثمان کی نااہلی کے سبب اسےمعزول کر کے دوبارہ مصطفیٰ خان کو تخت نشین کر دیا گیا، لیکن اب کی بار بھی یہ فیصلہ غلط ثابت ہوا اور مصطفیٰ کی نا اہلی کی وجہ سے اگلے ہی سال ۱۶۲۳ء میں مصطفیٰ کو دوبارہ معزول کیا گیا۔۱۶۳۹ء میں سلطان مصطفیٰ اول کا انتقال ہوا۔

۱۶:عثمان ثانی (۱۶۰۴ء۔ ۱۶۲۲ء)

عثمان ثانی کو کم سنی سے علوم و فنون سے گہری مناسبت تھی چنانچہ آپ نے ادب، جغرافیہ، تاریخ، ریاضی اور دیگر فنون کی تحصیل میں بہت جد وجہد کی۔ بیک وقت ترکی، عربی، فارسی، لاطینی، یونانی اور اطالوی زبانوں سے واقف تھے۔ شعر بھی کہتے تھے اور ’’فارسی‘‘ تخلص کرتے تھے۔ عثمان ثانی کی شاعری ان کے ایک دیوان میں جمع کی گئی ہے۔ اپنے چچا مصطفیٰ کی نااہلی نے محض چودہ سال کی عمر میں عثمان ثانی کو عثمانی تخت کا وارث بنا دیا لیکن عثمان ثانی امورِ سلطنت سے بالکلیہ ناواقف تھے۔ چنانچہ سلطنت کا انتشار اور بڑھتا رہا، بالخصوص ینی چری کی مداخلت نے نظام کو معطل کر کے رکھ دیا۔عثمان ثانی کے عہد کے آغاز میں ہی ایرانیوں سے پے درپے شکستیں کھانے کے بعد عثمانیوں کو ایرانیوں سے صلح کرنی پڑی اور بہت سے خِطوں سے دست بردار ہونا پڑا۔ یہ صلح ۱۶۱۸ء میں ہوئی۔ اس کے بعد کے تین سال سلطنت کے لیے بہت نامبارک تھے۔ ہر طرف انتشار اور بد امنی تھی اور ینی چری اس فتنے کا مرکزی کردار نبھا رہی تھی۔ اس فتنے سے چھٹکارے کے لیے عثمان نے پولینڈ سے جنگ چھیڑ دی تاکہ ینی چری اس طرف متوجہ ہو اور ان کی طاقت کچھ کمزور ہو۔ عثمان کو یہ مقصد تو حاصل ہوا لیکن پولینڈ سے شکست اور بھاری نقصان کی اطلاع پر عوام اور عہدے دار عثمان کے مخالف ہوگئے۔ ہر طرف عثمان کے اس فیصلے پر غم وغصہ دکھائی دیا۔ اس موقعے پر بجائے اس کے کہ عثمان لوگوں کو منانے کی کوشش کرتا، اس نے سخت قوانین نافذ کر کے زعماے سلطنت کو مزید برگشتہ کر دیا۔ اتنا ہی کافی نہیں تھا، اس زوال اور اضمحلال کے عالم میں ایک دن سلطان عثمان نے اعلان کیا کہ وہ حج کے لیے جا رہے ہیں جس پر شیخ الاسلام، وزیراعظم اور دیگر وُزَرا سمیت ینی چری نے سلطان کے اس فعل کو غلط قرار دے دیا۔ ینی چری نے سلطان کو اس ارادے سے باز رکھنے کے لیے احتجاج شروع کر دیا۔ ایک خبر یہ بھی پھیلائی گئی کہ سلطان حج کے سفر کی آڑ میں ایک نئی فوجی طاقت کی تیاری کرنا چاہتا ہے جسے ینی چری کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ ناتجربہ کار سلطان نے اس شدید ردِّ عمل کی کوئی پروا نہیں کی اور سفر کا ارادہ برقرار رکھا۔ اس پر فوج نے قصر ِسلطنت کا محاصرہ کر لیا اور کچھ شرائط پیش کی گئیں، سلطان نے شرائط قبول کرنے سے انکار کیا۔ فوج نے دیوان منعقد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انکار پر ینی چری نے سلطان کی معزولی اور سابق سلطان مصطفیٰ کی دوبارہ تخت نشینی پر اصرار شروع کر دیا۔ چنانچہ ۱۶۲۲ء میں عثمان کو معزول کر کے قید کر دیا گیا جنھیں ایک وزیر داؤد پاشا نے قتل کرا دیا۔ نئے سلطان کے لیے پہلے ہی مسائل بے شمار تھے، اب عثمان کے قتل پر ریاست کے مختلف گورنروں کی طرف سے قاتلوں کی گرفتاری کے مطالبے ہونے لگے اور ریاست کی بربادی میں کوئی کسر نہیں رہ گئی۔ بالآخر عثمان کے قاتلین کو قتل کر دیا گیا اور ۱۶۲۳ء میں مصطفیٰ کو دوبارہ معزول کر دیا گیا۔ اس زمانے میں یورپ کی ریاستیں بھی بہت انتشار کا شکار رہیں اس لیے عثمان کا عہد ان کی دست درازی سے محفوظ رہا۔ ۱۶۲۲ء میں پہلی مرتبہ برطانوی سفیر استنبول آیا اور بہت عرصے یہاں مقیم رہا۔ اس سفیر نے بھی سلطنتِ عثمانیہ کی زبوں حالی کے بہت سے واقعات تحریر کیے ہیں۔ عثمان ثانی مسجد سلطان احمد میں مدفون ہیں۔

۱۷: مراد خان رابع(۱۶۱۲۔۱۶۴۰ء)

سلطان مراد خان رابع عثمانی سلاطین میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ علوم و فنون میں دلچسپی کے ساتھ ساتھ تیر اندازی اور گھڑ سواری میں بھی ماہر تھے۔ شاعر بھی تھے اور ’’مرادیؔ‘‘ تخلص کرتے تھے۔طویل قامت اور نہایت قوی الجثہ تھے۔جسامت کے اعتبار سے شاہی خاندان اور فوج میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ ان کی یہی قوت ایک جنگ میں عثمانی لشکر کی فتح کا سبب بنی۔ یوں ہوا کہ ایک موقعے پر جنگ سے ذرا قبل دشمن فوج کے سپہ سالار نے اعلان کیا کہ پہلے ہمارے ایک پہلوان سے مقابلہ کرو، اس کے بعد جنگ شروع ہوگی۔ وہ پہلوان جب میدان میں آیا تو سب کے منھ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ یہ لحیم شحیم اور بھاری جسامت، اس کا تلوار چلانے کا انداز ہی اس کی دہشت بٹھانے کے لیے کافی تھا۔ کس میں ہمت تھی کہ اس کا سامنا کرتا۔ عثمانی لشکر کی قیادت مراد رابع کے ہاتھ میں تھی، چنانچہ سلطان مراد خود اس کے مقابلے کے لیے نکلے اور کچھ ہی دیر میں اس پہلوان کی کھوپڑی دو ٹکڑے کردی۔ ان کی تربیت میں ان کی والدہ کوسم سلطان نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ ۱۶۲۳ء میں اپنے چچا مصطفیٰ خان کی معزولی کے بعد محض بارہ سال کی عمر میں تخت نشین ہوئے۔ان کے عہدِ حکومت کے ابتدائی سال بہت تشویش ناک تھے۔ سرحد پر ایرانی فوج کو برتری حاصل تھی اور عثمانی لشکر پے در پے شکست کھا رہا تھا۔ارضِ روم کے گورنر باظا پاشا نے بغاوت کر کے ایشیاے کوچک میں خود مختار حکومت قائم کر لی تھی۔ لبنان میں علانیہ بغاوت ہو گئی تھی اور مصر میں بھی بغاوت کی آوازیں اٹھنے لگی تھیں۔ الجزائر، تیونس اور طرابلس کے حاکم عثمانی سلطان کی اطاعت سے منحرف ہو کر یورپی ریاستوں سے معاہدے کر رہے تھے۔ ان سب مسائل کے ساتھ ساتھ ایک اور مصیبت یورپ اور یورپ سے ملحق عثمانی مقبوضات پر یہ آن پڑی تھی کہ روسی قذاق بڑی تعداد میں بحرِ اسود میں داخل ہو گئے تھے اورسمندر اور اس سے متصل شہروں میں لوٹ مار کر رہے تھے، حتیٰ کہ ان کی لوٹ مارسے قسطنطنیہ بھی محفوظ نہیں تھا۔ ان سب مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت جس ادارے میں تھی یعنی فوج اور ینی چری کے دستے، وہ خود اس فتنے اور انتشارمیں پیش پیش تھے۔قومی خزانہ بالکل خالی ہو چکا تھا اور محصولات کی وصولی منقطع تھی۔ اسلحہ خانہ ہتھیاروں سے خالی تھا اور فوجی افسران کا اکثر وقت لہو و لعب میں گزرتا تھا۔ فوجی افسر دن بھر قہوہ خانوں میں بیٹھ کر تمباکو نوشی کرتے اور ریاست مخالف منصوبے تشکیل دیتے۔ حتیٰ کہ ایک موقعے پر کسی سبب سے آگ بھڑک اٹھی اور تمباکو کے ذخیرے نے آگ پکڑ لی۔ آگ اتنی زیادہ پھیلی کہ ہزاروں گھر خاک ہو گئے۔ بلاشبہہ یہ زمانہ سلطنتِ عثمانیہ کے مشکل ترین ادوار میں سے ایک تھا اور اس پر طرّہ یہ کہ سلطنت کا حاکم بارہ سال کا ایک کم سن لڑکا تھا جسے ان سب مسائل کا سامنا کرنا تھا۔ ان حالات میں مراد خان رابع کی والدہ کوسم سلطان (جنھیں محل میں والدہ سلطان کہا جاتا تھا) مراد خان کی معاونت کے لیے میدانِ عمل میں اتر آئیں۔ انھوں نے جس حکمت اور تدبر سے امورِ سلطنت کو انجام دیا قابلِ تعریف ہے۔ انھوں نے کچھ معتمد وزرا کو حکومتی معاملات کی اصلاح کے لیے تیار کیا اور فوج کے کچھ عہدے دار بھی ان کے ہم نوا ہوگئے،اس طرح آہستہ آہستہ انھوں نے مل کر فوج کو قابو کر لیا۔

 نو سال تک ریاستی معاملات والدہ سلطان کے زیرِ انتظام رہے۔ اس دوران شاہِ ایران نے عثمانی افواج کو بہت نقصان پہنچایا۔ والیٔ بغداد کو ایک غدار کوتوال بکیر آغا نے قتل کر کے بغداد پر قبضہ کیا اور پھر اسے شاہِ ایران کے حوالے کردیا۔ لیکن جب ایرانی افواج بغداد میں داخل ہوئیں تو شاہِ ایران عباس صفوی نے فوراً ہی بکیر آغا کو قتل کرا دیا۔ ۱۶۲۸ء میں عباس صفوی کی موت پراس کا لڑکا ایران کا حاکم ہوا، اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر خسرو پاشا نے ایران پر حملہ کر دیا اور بہت سے شہر فتح کرتے ہوئے بغداد پہنچ کر محاصرہ کرلیا، لیکن یہاں بھی ینی چری نے معمول کے مطابق ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور محاصرہ اٹھانا پڑا۔ ۱۶۳۲ء کے اوائل میں ینی چری کا ظلم اس قدر بڑھ گیاکہ ہر تھوڑے عرصے میں کوئی وزیر یا عہدے دار قتل ہونے لگا۔ وہ جسے چاہتے اسے قتل کروا دیتے، مطالبات تسلیم نہ کرنے پرسنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے اور قصرِ خلافت کا محاصرہ کر لیتے۔جب ان کی یہ سرکشی اتنی بڑھ گئی کہ انھوں نے سلطان کے ایک مخلص وزیر حافظ پاشا کوبے بنیاد الزامات لگا کر سفاکی سے قتل کر دیا تو سلطان نے ایک بڑا فیصلہ کیا۔ سلطان کی جان کو بھی خطرات لاحق تھے اور سپاہی بارہا سلطان کے خلاف نعرے بازی کر چکے تھے۔ اب سلطان کے پاس دو راستے تھے: یا تو ینی چری کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کر اپنے ساتھیوں کو مرتا ہوا دیکھے اور اپنی باری کا انتظار کرےیا باغیوں کو کچلنے کے لیے ایک زبردست مہم کا آغاز کردے اور جو نتائج بھی ہوں ان کا سامنا کرے۔ بہادر سلطان نے اپنے اجداد کی پیروی کرتے ہوئے دوسرا راستہ اختیار کیا اور ان سپاہیوں کو جمع کیا جو اپنے ساتھی سپاہیوں کی بغاوت سے تنگ تھے۔ خفیہ طور پر راتوں رات باغیوں کے سربراہ اور سہولت کاروں کو قتل کرا دیا۔ پھر تو باغیوں کی لاشیں ملنا معمول بن گیا اور بڑے پیمانے پر خونریزی ہوئی۔ جس شخص کا باغیوں سے ادنیٰ سا تعلق بھی ثابت ہوجاتا اسے اگلی صبح نصیب نہ ہوتی۔ والدہ سلطان اب تک فوجیوں کو وعدے اور دلاسے دے کر اپنے اختیار میں کیے ہوئے تھیں، جب اس قتل و غارت کا حال انھیں معلوم ہوا تو سخت پریشان ہو گئیں اور مراد خان کو بلا کر اس منصوبے سے باز رہنے کی تلقین کرنے لگیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سلطان کا یہ فعل برسوں کی محنت پر پانی پھیر دے گا اور فوج کا ردِ عمل پہلے سے زیادہ سخت ہوگا، لیکن سلطان نے والدہ کا مشورہ قبول نہیں کیا اور والدہ کو امورِ سلطنت سے دور رہنے کی تلقین کی۔ سلطنت میں والدہ سلطان کو نائب السلطان کا درجہ حاصل تھا، مراد خان نے یہ عہدہ ختم کر کے والدہ سے تمام اختیارات واپس لے لیے۔مراد خان کے لیے کسی قاضی، گورنر یا فوجی افسر کو قتل کردینا ایک چیونٹی کو مار دینے کے مترادف تھا۔ ذرا سی بات ہوتی اور قتل کا حکم صادر ہوجاتا، معمولی شبہے پر سر قلم کر دیا جاتا، یقیناً اس فعل سے بہت سے بے گناہ لوگ قتل ہوئے لیکن سلطنت میں ایک دم امن و امان اور استحکام نظر آنے لگا۔ ہر شعبہ صحیح خطوط پر کام کرنے لگا۔ مراد خان نے ۱۶۳۳ء میں ایشاے کوچک کے سفر کے دوران ایک قاضی کو قتل کرا دیا جس پر قسطنطنیہ میں علما نے سخت احتجاج کیا۔ مراد خان سفر مکمل کیے بغیر قسطنطنیہ پہنچا اور آتے ہی مفتیٔ اعظم کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ آلِ عثمان میں مفتیٔ اعظم کے قتل کا یہ پہلا اور آخری واقعہ تھا۔ اس کے بعد کسی میں مراد خان کے خلاف احتجاج کی سکت باقی نہ رہی۔

مراد خان نے خود مجاہدین کی قیادت کرتے ہوئے ۱۶۳۵ء میں اریوان اور ۱۶۳۸ء میں بغداد فتح کیا۔ ۱۶۳۹ء میں سلطان قسطنطنیہ میں فاتحانہ داخل ہوئے اور ان کا زبردست استقبال کیا گیا۔ سابقہ سلاطین بارہا اس طرح فاتحانہ طور پر قسطنطنیہ آتے رہے لیکن مراد خان کے بعد قسطنطنیہ کو یہ منظر دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ سلطان کے سخت فیصلوں نے صرف اندرونی مشکلات ہی نہیں، بہت سی بیرونی مشکلات کو بھی حل کر دیا اور بہت سی یورپی ریاستیں پھر سے عثمانی سلطان کے تابع ہو گئیں۔ محض اٹھائیس سال کی عمر میں ۱۶۴۰ء میں مراد انتقال کر گئے اور اپنے والد سلطان احمد کے پہلو میں دفن ہوئے۔

۱۸: ابراہیم خان (۱۶۱۵۔۱۶۴۸ء)

 ابراہیم خان اپنے بھائی کی وفات پر ۱۶۴۰ء میں تخت نشین ہوئے۔ انھوں نے محض آٹھ سال حکومت کی۔ان کے دور میں ریاست کو بہت سے سرداروں کی طرف سےبغاوتوں اور سازشوں کا سامنا رہا اور مالی طور پر بھی بہت سی مشکلات حائل رہیں اور ان مشکلات کا ایک بڑا سبب سلطان ابراہیم خان کی ناتجربہ کاری تھا۔ اس کے باوجود دو معرکے ایسے ہوئے جن کی فتح سے دیگر ریاستوں پر عثمانی سلطان کا رعب اور بڑھ گیا۔

ازف شہر محلِ وقوع اور تجارت کے لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل تھا اور روسی اسے عثمانیوں سے چھین کر قبضے میں لے چکے تھے، ۱۶۴۲ء میں عثمانی لشکر نے اسے فتح کر لیا۔ دوسرا محاذ کریٹ کا تھا۔ مالٹا کے بحری قذاقوں نے عثمانیوں کے ایک تجارتی جہاز کو لوٹ کر کریٹ کی بندر گاہ پر لنگر انداز کرا دیا، چنانچہ سلطان ابراہیم نے ایک لشکر کریٹ کی طرف روانہ کیا۔ عثمانیوں نے بہ آسانی ’کانیا‘ شہر فتح کر لیا اور اگلے سال ہی ایک اور شہر ریٹیوبھی ان کے قبضے میں آ گیا۔ ان محاذوں پر کامیابی سے عثمانی سلطان کی سیاسی قوت میں بہت اضافہ ہوا۔ ریٹیو فتح ہونے کے بعد کریٹ کا محاصرہ شروع ہو گیا، لیکن اسی زمانے میں سلطنت کی مالی و عسکری صورتِ حال کی ابتری کے سبب سلطان ابراہیم کے خلاف ایک زبردست مہم شروع ہو گئی جس کے نتیجےسلطان کو معزول کر کے قتل کر دیا گیا۔۱۶۴۸ء میں سلطان کی شہادت ہوئی اور آیا صوفیہ میں تدفین ہوئی۔

جاری ہے

کتابیات

السلاطین العثمانیون، راشد کوندوغدو،الناشر:دار الرموز للنشر،إسطنبول،۲۰۱۸ء

آلبوم پادشاہانِ عثمانی،مترجم:میلاد سلمانی،ناشر:انتشاراتِ قَقْ نُوس،استنبول،۲۰۱۵ء

تاریخِ سلطنتِ عثمانیہ، ڈاکٹر محمد عزیر، ناشر: کتاب میلہ، ۲۰۱۸ء

سلطنتِ عثمانیہ، ڈاکٹر علی محمد الصلابی،مترجم: علامہ محمد ظفر اقبال، ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور، جون ۲۰۲۰ء

لرننگ پورٹل