محسن کاکوروی(۱۸۳۷۔۱۹۰۵ء)
محسن کاکوروی یوں تو نعت گو شاعر کی حیثیت سے معروف ہیں لیکن انھیں خاص شہرت ان کے قصیدۂ لامیہ سے ملی۔ اس قصیدے کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں نعتِ رسولﷺ کے لیے ہندوستانی ثقافت اور علامات کو بطورِ تشبیہ استعمال کیا گیا۔ اس اعتبار سے یہ قصیدہ منفرد حیثیت اختیار کر گیا۔ بعض ناقدین نے اس پر محسن کاکوروی کی گرفت بھی کی لیکن عمومی طور پر محسن کی اس کاوش کو سراہا گیا اور حسن عسکری جیسے ناقد بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے:’’ نعتِ رسول میں مناسبات کفر کا استعمال غیر مشروع ہے مگر محسن کا قصور معاف ہوگیا بلکہ عیب ہنر ٹھہرا ‘‘۔(کلامِ محسن کاکوروی ایک تنقیدی مطالعہ، نعت رنگ، شمارہ نمبر ۲۷، مقالہ نگار: سلیم شہزاد) اسی قصیدے کے بارے میں ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی لکھتے ہیں:’’ایسی نرالی تشبیب آپ کو اردو کے کسی شاعر کے ہاں نہیں ملے گی۔ ذوقؔ و سوداؔ قصیدے کے بادشاہ ہیں لیکن ان کی کسی تشبیب میں ایسی جدت اور زور نہیں۔‘‘ (لکھنؤ کا دبستانِ شاعری) اس طویل نعتیہ قصیدے کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں:
سب سے اعلیٰ تری سرکار ہے سب سے افضل |
میرے ایمانِ مفصّل کا یہی ہے مجمل |
نہ مرا شعر، نہ قِطعہ، نہ قصیدہ، نہ غزل |
دین و دنیا میں کسی کا نہ سہارا ہو مجھے |
ہو مرا ریشۂ امّید وہ نخلِ سر سبز |
جس کی ہر شاخ میں ہو پھول، ہر اک پھول میں پھل |
شکل تیری نظر آئے مجھے، جب آئے اجَل |
روح سے میری کہیں، پیار سے یوں عزرائیل |
دمِ مردن یہ اشارہ ہو شفاعت کا تری |
فکرِ فردا تُو نہ کر دیکھ لیا جائے گا کل |
گوشۂ قبر نظر آئے مجھے شیش محل |
میزباں بن کے نکیرین کہیں: گھر ہے ترا |
رُخِ انور کا ترے دھیان رہے بعدِ فنا |
میرے ہمراہ چلے راہِ عدم میں مشعل |
آئیں میزاں میں جب افعالِ صحیح و معتل |
مری شامت سے ہو آراستہ گیسوے سیاہ |
صفِ محشر میں ترے ساتھ ہو تیرا مدّاح |
ہاتھ میں ہو یہی مستانہ قصیدہ، یہ غزل |
سمتِ کاشی سے چلا جانبِ مَتھرا بادل |