لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

سفرنامہ: مفتی اویس پاشا قرنی
ضبط و ترتیب: مولانا محمد اقبال

زلزلہ زدہ بھائیوں کی امداد کے سلسلے میں سفر ِترکیہ وشام

مسلمانوں کی تابناک تاریخ کا ذکر ترکیہ کے تذکرے کے بغیر نامکمل ہے۔ مسلمانوں کی کئی صدیوں پر مشتمل تاریخ میں، ریاستِ ترکیہ اسلامی عہدِ زرّیں کی ایک روشن مثال ہے۔ وطنِ عزیز پاکستان اور ترکیہ کے عوام کے درمیان تعلق کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ۱۹۱۹ء میں پہلی جنگِ عظیم کے موقعے پر جب استعماری طاقتوں نے خلافت کو ٹکڑوں میں بانٹ کر اس کے حصے بخرے کیے تو مسلمانانِ برِّ صغیر نے خلافت کی بحالی کے لیے انگریز کے خلاف ایک عظیم تحریک چلائی اور اس تحریک میں یہاں کی خواتین، بچوں اور بزرگوں نے بھی حصہ لیا۔ تحریکِ خلافت برِّصغیر کے عوام کی جہاں انگریز سے نفرت کی علامت ہے وہاں ترک قوم سے محبت کی دلیل بھی ہے۔ اسی تحریکِ خلافت کے اہم کرداروں میں سے مولانا محمد علی جوہر اور ان کے بھائی مولانا شوکت علی بھی ہیں، ان کی والدہ بی اماں کے خلافت کے متعلق جذبات کا اندازہ حسبِ ذیل اشعار سے لگایا جا سکتا ہے:

بولیں اماں محمد علی کی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
ساتھ تیرے ہے شوکت علی بھی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
ہو تمہی میرے گھر کا اجالا
اسی واسطے تم کو ہے پالا
کام کوئی نہیں اس سے اعلیٰ
جان بیٹا خلافت پہ دے دو

ترکی خلافت کے متعلق یہی جذبات یہاں تقریباً تمام ماؤں کے تھے۔اور اب بھی پاک وترک میں بسنے والے لوگوں کے درمیان اخوت اور بھائی چارے کا رشتہ قائم ہے۔ اور یہ رشتہ در حقیقت دونوں ممالک کے عوام کے درمیان محبت اور اسلامی اخوت کی اعلیٰ مثال ہے۔ چونکہ خلافت کی تحریک میں دی گئی قربانیاں ترک قوم کو اب تک یاد ہیں، اس لیے جب ۲۰۰۵ء میں وطنِ عزیز پاکستان میں ہولناک زلزلہ آیا تھا اور اس نے راتوں رات بے شمار آبادیوں کو کھنڈرات میں بدل دیا تھا، تو مصیبت کی اس گھڑی میں جو ملک سب سے پہلے پاکستان کی مدد کو پہنچا وہ ترکیہ ہی تھا۔ اس موقعے پر ترک عوام نے دل کھول کر اپنے پاکستانی بھائیوں کی نہ صرف مدد کی بلکہ تحریکِ خلافت میں دی گئی قربانیوں کے عملی اعتراف کے ساتھ ان قربانیوں کا بدلہ بھی چکا دیا۔ مذکورہ زلزلے میں برادر ملک ترکیہ نے پاکستان کی امداد کے لیے ہر ممکن خدمات سر انجام دیں، اس نے متاثرہ علاقوں میں اسپتال قائم کیے، یہاں کے لوگوں کو ہر قسم کی سہولتیں بہم پہنچائیں۔ اسی طرح حال ہی میں جب پاکستان میں تباہ کن سیلاب آیا تو ترکیہ تعاون کرنے میں پیش پیش تھا۔لہذا واضح ہوا کہ پاکستان اور برادر ملک ترکیہ کے عوام کے درمیان اخوّت کا لازوال رشتہ پایا جاتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان درینہ تعلقات کی ایک تاریخ ہے۔ ۶ فروری ۲۰۲۳ء کو ترکیہ کے جنوب اور شام کے شمال مغربی سرحدی علاقوں میں قیامت خیز زلزلہ آیا۔ اس تباہ کن زلزلے کی ریکٹر اسکیل پر شدت ۷.۸ ریکارڈ کی گئی۔ یہ ترکیہ کی تاریخ کا بدترین زلزلہ تھا، اس قیامت خیز زلزلے میں ہزاروں افراد لقمۂ اجل بن گئے اور لاکھوں کی تعداد میں زخمی اور اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور ہوئے۔ اس تباہ کن زلزلے کی اطلاعات حسبِ توقع وطنِ عزیز پاکستان میں ایک اندوہناک خبر کے طور پر محسوس کی گئیں۔ مختلف میڈیا چینلز کے مطابق اس موقعے پر ترک سفیر سے گفتگو کے دوران وزیر اعظم پاکستان نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کا کہا کہ پاکستانی قوم اپنے ترک بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ اس غمگین موقعے پر شانہ بشانہ ساتھ کھڑی ہے اور ہم برادر ملک ترکیہ اور شام کی ہر ممکن امداد کر یں گے۔ اور حقیقت بھی یہ ہے کہ مصیبت کی اس گھڑی میں ترک عوام کی ہر ممکن مدد پاکستان کا فرض ہونے کے ساتھ اس پر قرض بھی ہے۔ پاکستان آج کل جس تاریخی معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہے، اس کے باوجود الحمد للہ حکومت اوریہاں کی سماجی فلاحی تنظیمیں اپنی استطاعت سے بڑھ کر تعاون کے لیے آگے آئیں۔ کئی فلاحی تنظیمیں چند دنوں کے اندر متاثرہ علاقوں میں اپنے کارکنوں کے ساتھ پہنچیں۔ ان فلاحی تنظیموں میں فاتح فاؤنڈیشن نے بھی اپنی استطاعت کے مطابق حصہ ڈالا، ماضی میں بھی فاتح فاؤنڈیشن نے ترکی کے راستے سے شامی مہاجرین کی امداد میں حصہ لیا ہے۔ نیز ترکیہ کے ساتھ ہماری فاؤنڈیشن کے قریبی اور گہرے تعلقات عرصۂ درازسے قائم ہیں۔ حالیہ زلزلے میں متاثرہ علاقوں اور ارد گرد کے شہروں کا ہمارا ایک مہینے کا سفر رہا اور متأثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور مختلف لوگوں سے ملے۔ اس موقعے پر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ دنیا دار الامتحان ہے، اللہ تعالیٰ نے زندگی اور موت کا یہ جو سلسلہ قائم کیا ہے، یہ اس لیے ہے کہ آزمایا جائے، ارشاد ربانی ہے: ﴿الَّذِي خَلَقَ المَوتَ وَالحَیٰوةَ لِیَبلُوَکُم أَیُّکُم أَحسَنُ عَمَلًا﴾ ( الملک: ۲) ’’جس نے موت اور زندگی اس لیے پیدا کی تاکہ وہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ بہتر ہے‘‘۔ یہاں مختلف آزمائشیں آتی ہیں، اگر کسی شخص یا قوم پر مصیبت آجائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا نخواستہ یہ اللہ کی نگاہ میں ناپسندیدہ ہے اور جو بچ گئے وہ اچھے ہیں۔ اس طرح کے عمومی حادثات کے بارے میں یہ سمجھنا کہ یہ گناہ گاروں پر ہی آتے ہیں، غلط تصور ہے۔ اس امدادی مہم کے دوران بہت سارے لوگوں کا سوال تھا کہ زلزلے تو گناہ گاروں پر آتے ہیں، جبکہ مذکورہ علاقوں میں تو پہلے ہی سے شامی مہاجرین آباد تھے، جو نہایت کس مپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے، ان پر ایک اور مصیبت کیوں آئی۔ تو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم اور کوئی کام حکمت سے خالی نہیں، ہمارا خیال، ہمارا تجزیہ اور سوچنے کا انداز ناقص ہے، اللہ تعالیٰ کی حکمتوں اور مصلحتوں کو بتمام وکمال ہم میں سے کوئی نہیں جانتا۔ اس لیے یہاں ہم بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ جو اللہ کے ہاں مقدر تھا وہی ہوا، اور یہ امت پر ایک آزمائش تھی، جو اللہ تعالیٰ کی منشا ہی سے ہے۔ اور آزمائش میں سرخرو بھی وہی ہو سکتے ہیں جن کے اندر صبر اور قوّتِ برداشت زیادہ ہوتی ہے، چنانچہ ہم نے اس پورے سفر میں یہاں کے رہنے والوں میں سے کسی کو گلہ شکوہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ 

 چونکہ ہماری فاؤنڈیشن کا ترکیہ دفتر استنبول کے ایک قدیم علاقے میں قسطنطنیہ کی دیوار کے ساتھ واقع ہے، تو یہاں سے بذریعہ جہاز ہم متاثرہ علاقوں میں آتے جاتے رہے۔ متاثرہ علاقوں کے قریب قیصری کا ہوائی اڈہ زلزلے سے متاثر نہیں ہوا تھا، اس لیے ہم پہلے یہاں پہنچے اور یہاں سے پھر متاثرہ علاقوں کا دورہ شروع کیا۔ ترکیہ میں زلزلے سے متاثرہ مشہور شہروں؛ قہرمان مرعش، مالاتیہ، الازغ، دیار بکر، آدی امان، شان لی عرفہ، غازی انتب، کلس، عثمانیہ، عدنہ اور انطاکیہ شامل ہیں، یہ وہ شہر ہیں جہاں زلزلے سے مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ جو شہر متاثر ہوا ہے اسے قہرمان مرعش کہتے ہیں، یہ شہر زلزلے کا مرکز ہے۔ اگر ہم نقشے پر دیکھیں تو یہ ترکیہ کا وہ علاقہ ہے جو شام کے ساتھ ملتا ہے، یہ علاقہ اور شام کا سرحدی علاقہ زلزلے کی زد میں آیا ہے۔ شام میں ادلب اور حلب کے ارد گرد کے علاقے زلزلے سے متاثر ہوئے ہیں۔ ترکیہ کے سرحدی علاقے ریحانیہ سے ہم مَعْبر (وہاں سرحدی دروازے کو معبر کہتے ہیں) بابُ الہوا نامی دروازے سے شام میں داخل ہوئے، شام کے اندر بہت آگے تو نہیں جا سکے مگر ترکیہ کی سرحد کے قریب شام کے علاقے میں امدادی سر گرمیاں انجام دی گئیں۔ جس دروازے سے ہم شام میں داخل ہوئے اسے باب الہوا کہتے ہیں، اس کی وجہِ تسمیہ یہ ہے کہ دو پہاڑوں کے بیچ میں ایک درہ ہے جہاں ہوا بہت تیزی سے گزرتی ہے، اس لیے اسے باب الہوا یعنی ہوا کا دروازہ قرار دیا گیا ہے۔ تاریخ میں اس راستے کو طریق الحجاج اور طریق الغزاۃ بھی کہا جاتا رہا ہے، کیونکہ ماضی میں ترکیہ اور آگے کے دیگر علاقوں کے حاجی حجازِ مقدس کی طرف سفر کرتے ہوئے یہاں سے گزرتے تھے، اسی طرح حجاز، شام اور دیگر علاقوں کے غازی یورپ کے اندر جا کر جہاد کرنے کے لیے بھی یہاں سے گزرتےتھے۔ باب الہوا کے علاوہ ترکیہ کے علاقے کلس میں شام کی طرف دو اور دروازے کھلتے ہیں جنھیں باب السلامۃ اور باب الرحمۃ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ میرا ان دو دروازوں سے بھی پہلی امدادی مہمات کے دوران شام کے اندر جانا ہوا ہے، مگر اس دفعہ چونکہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنا تھا، تو ہم باب الہوا سے شام کے اندر داخل ہوئے اور یہاں الحمدللہ امدادی سامان مستحقین میں تقسیم کیا۔

جاری ہے

لرننگ پورٹل