مفتی نذیر احمد ہاشمی مدظلہ
ضبط و ترتیب: مولانا عابد علی
تشریح
شریعت میں ضررسے مراد قانونی ضرر ہے۔ جب کسی شخص کو کوئی حق حاصل ہو ا اور اس کا یہ حق ضائع ہورہاہو تو اسے ضرر پہنچ رہاہے ۔ قرآنِ کریم میں وصیت کے بارے میں ایک شرط یہ عائد کی گئی ہے کہ وہ غیر مضار ہو یعنی اس سے نقصان نہ ہو۔ رسولِ اکرم ﷺ کے ارشاد کی روشنی میں ایک تہائی جائداد سے زیادہ کی وصیت اور کسی وارث کے حق میں وصیت سے دیگر وارثوں کو ضررپہنچتاہے، اس لیے ایسی وصیت مضارہونے کی وجہ سے قرآنِ کریم کی روسے ناجائز ہے۔ ضررایک ظلم ہے۔ یہ جہاں کہیں بھی ہو اس کا ازالہ ضروری ہے لہذا ضررکو دورکرنا عین منشاے شریعت ہے ۔
شرائط
ضررکا ازالہ اس وقت کیا جائے گا جبکہ اس ازالے سے اس ضرر کے مثل دوسر اضرر پیدانہ ہوتاہو۔
ضررِ عام کے دفعیے کے لیے ضررِخاص کو برداشت کیاجائے گا ۔
تفریعات
۱۔اگرراہ گزرکی طرف اس طرح پر نالے کا رخ کیاگیا کہ اس کی وجہ سے گزرنے والوں کو نقصان ہوتاہوتو اس پرنالے کوزبردستی ہٹادیاجائےگا ۔
۲۔ کسی گھر کے درخت اس قدر بڑھ جائیں کہ اس کی شاخوں سے دوسرے گھر میں تکلیف ہونے لگے تو اس کی شاخیں کا ٹ دی جائیں گی ۔
۳۔باغیوں اورمجرموں کو اس لیے سزائیں دی جاتی ہیں کہ تاکہ وہ لوگوں کو ضررپہنچانے سے بازرہ سکیں اور لوگوں پر سے اس ضرر کا ازالہ ہو سکے۔
۴۔اگر کسی کے گھر سے متصل کسی نے لوہار کی دکان قائم کردی یا چکی لگالی تو لوہار کے ہتھوڑے کی دھمک سے یا چکی کی حرکت سے مکان کی دیواروں کو ضررِشدید کا اندیشہ ہے،چنانچہ اس کام کو روک دیا جائے گا۔
۵۔ جب مشتری بائع سے سامان خرید لے تو وہ مشتری کی ملکیت ہوجاتا ہے اور بائع اس سے بری ہوجاتا ہے، لیکن خریدی گئی چیز میں عیب نکل آیا تو بائع اسے واپس لینے کا پابند ہوگا کیونکہ اس میں مشتری کو ضرر کا اندیشہ ہے۔