صوفی جمیل الرحمٰن عباسی
ناظمِ شعبۂ تحقیق و تصنیف، فقہ اکیڈمی، مدیرِ ماہ نامہ مفاہیم، کراچی
۱۳۲۷ ھ بمطابق ۱۹۰۹ء میں سلطان عبد الحمید رحمہ اللہ کو منصبِ خلافت سے معزول کیا گیا۔ان کے بعد محمد رشاد کو محمد الخامس کے لقب سے خلیفہ بنایا گیا۔اس وقت ان کی عمر اڑسٹھ سال تھی۔ خلیفہ کا یہ منصب برائے نام تھا اور تمام تر اختیار جمیعتِ اتحاد و ترقی کے ہاتھ میں تھا۔ ۱۹۱۱ء میں ترکی میں انتخابات کرائے گئے جس میں جمیعتِ اتحاد کو کامیابی ملی۔ اس سے حکومت پر ان کی گرفت مضبوط ہوتی گئی اور انھوں نے وطنی قومیت اور لبرل خیالات کا جھنڈا بلند کیا۔۱۹۱۱ ء ہی میں اٹلی نے لیبیا پر حملہ کر دیا۔ یہاں انور پاشا اور عزیز علی المصری نے بہت جواں مردی سے مقابلہ کیا۔ سنوسی تحریک نے بھی ترکوں کے شانہ بہ شانہ جہاد میں حصہ لیا۔ محمد علی سنوسی کبیر کے پوتے احمد شریف سنوسی اس جہاد میں ان کی قیادت کر رہے تھے۔ فاطمہ بنت عبد اللہ اسی سلسلے کی جنگِ طرابلس میں شہید ہو نے والی ایک نوجوان خاتون تھی جس پر علامہ اقبال نے نظم لکھی تھی۔ باوجود یہ کہ مسلمان لیبیا کا دفاع کر تے ہوئے اطالوی فوجوں کو پیچھے دھکیل رہے تھے، اس دوران استنبول کی اتحادی حکومت اٹلی سے صلح پر مجبور ہو گئی اور انور پاشا کو پسپائی کا حکم دیا تاہم مجاہدین پھر بھی برسرپیکار رہے لیکن کوئی نمایاں کامیابی نہ حاصل کر سکے۔۱۹۱۲ء میں ترکی کو جنگِ بلقان اول کا سامنا کرنا پڑا جب بلقانی اتحاد (سربیا، یونان، بلغاریہ، مونٹی نیگرو) نے ترکی کے خلاف جنگ برپا کر دی۔ اس جنگ میں ترکی کو اپنے کئی یورپی مقبوضات سے دست بردار ہونا پڑا۔اس جنگ کے نتیجے کے طور پر البانیہ نے بھی ترکی سے آزادی حاصل کی۔ اس جنگ میں شکست پر انور جمال پاشا نے کامل پاشا کی وزارت کو برطرف کر کے محمود شوکت پاشا کی سرکردگی میں نئی وزارت تشکیل دی جو چل نہ سکی اور چھے مہینے کے بعد محمود شوکت پاشا کو بر طرف کر کے تین پاشاؤں پر مشتمل کونسل تشکیل دی گئی۔ ۱۹۱۳ء میں بلقانی اتحاد کے درمیان ترکی سے حاصل ہونے والے مقبوضات کی تقسیم کے معاملے پر پھوٹ پڑ گئی اور وہ باہم لڑ بیٹھے۔ بلغاریہ ایک طرف تھا جب کہ دوسری طرف سربیا، یونان،رومانیہ اور مونٹی نیگرو تھے۔ ترقی نے اس جنگ میں بلغاریہ کے خلاف شامل ہو کر اپنے کئی علاقے واگزار کرا لیے جو پہلے اس سے چھن گئے تھے۔۱۹۱۴ ء میں جنگِ عظیم اول چھڑ گئی۔ اس میں ایک طرف جرمنی کا ملک تھا جب کہ دوسری طرف بہت سے ملکوں کا اتحاد تھا جن میں روس، برطانیہ اور فرانس سرِ فہرست تھے۔ عثمانی فوج کی تربیت و ترتیب میں جرمنی کا کافی عمل دخل تھا اور جرمنی ایک طویل عرصے سے ترکوں کا اتحادی تھا۔ جبکہ اتحادی ممالک میں اکثر وہ تھے جو عثمانیوں کے دشمن تھے۔ ان میں سے بعض کے ساتھ ترکوں کی باقاعدہ لڑائیاں ہو چکی تھیں اور ان میں سے اکثر ترکی علاقوں پر قبضے کے خواہش مند تھے۔
اگرچہ سلطان محمد الخامس کی رائے تھی کہ ہمیں اس جنگ میں غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری فوجی حالت کسی بڑی جنگ میں شرکت کے قابل نہیں ہے۔ ابتدا میں پاشا کونسل میں سے بعض ان کے حامی تھے لیکن بعد میں تینوں پاشا جنگ میں حصہ لینےپر آمادہ ہو گئے۔ اس کے ساتھ کچھ مزید واقعات ایسے پیش آئے کہ چار و ناچار ترکی کو جرمنی کی طرف سے اتحادیوں کے خلاف جنگ میں حصہ لینا پڑا۔جنگِ عظیم میں ترکی نے انور پاشا کی قیادت میں ایک لاکھ فوج کے ساتھ قفقاز کے علاقے میں روس پر حملہ کیا لیکن یہاں بری طرح شکست کا سامنا کرنا اور بمشکل بچی کھچی فوجیں ارضِ روم کی طرف پسپا ہوئیں۔
عثمانیوں کا ایک حملہ لیبیا اور صحراے سینا کی طرف سے نہر ِسویز کی طرف تھا تاکہ انگریزوں کا برصغیر سے رابطہ منقطع کیا جا سکے۔ کئی مہینوں کی اس جنگ میں بعض معرکوں میں چھوٹی کامیابیوں کے باوجود یہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوئے۔انھی محاذوں پر عثمانیوں اور برٹش انڈین آرمی کا آمنا سامنا ہوا۔ترکوں کے بعد جرمنوں نے بھی اس علاقے پر حملے کیے لیکن وہ بھی ناکام رہے۔سلطنت عثمانیہ کے اعتبار سے جنگی محاذوں میں سب سے اہم محاذ حجاز اور شام کا علاقہ تھا جہاں برطانیہ کی فوج حملہ آور ہوئی۔اس علاقے میں لارنس آف عربیا بھی سرگرم عمل تھا۔سلطان عبد الحمید کو شریفِ مکہ حسین بن علی الہاشمی کے عزائم اچھے نہ لگتے تھے۔ اس لیے انھوں نے اسے استنبول میں اپنا مہمان بنایا ہوا تھا۔ جمیعتِ اتحاد کی حکومت نے اسے حجاز روانہ کر دیا تھا۔ یہاں اس نے لارنس کے ذریعے انگریزوں سے ساز باز کر لی۔ اس نے سلطنتِ عثمانیہ کے ساتھ بغاوت کی اور اپنے تیسرے بیٹے فیصل ابنِ حسینِ بن علی کے زیرِ سرکردگی ایک فوج اتحادی کمان کے ماتحت عثمانیوں سے لڑنے کے لیے روانہ کر دی۔ اس کے علاوہ حجاز کی ایک قبائلی ریاست ادریسیہ کے بانی محمد بن احمد الادریسی نے بھی انگریزوں سے اتحاد کر لیا۔اس محاذ پر جرمن جنرل ساندرس متعین تھا۔ترکی کی طرف سے مصطفی کمال پاشا یہاں ساتویں بریگیڈ کی قیادت کرتا ہوا موجود تھا۔اس محاذ پر عثمانیوں اور جرمنوں کو شکست ہوئی۔ جنرل ساندرس قیدی بنا اور مصطفی کمال پاشا فرار ہونے میں کامیاب ہوا۔ حجاز پر ہاشمی اور دیگر قبائل کی آزاد ریاستیں وجود میں آئیں جو چند سال کی لڑائی بھڑائی کے بعد سعودی سلطنت میں مدغم ہوتی گئیں۔ پورا شام انگریزوں کے قبضے میں آگیا۔جنرل ایڈمنڈ ہنری ایلن بی قدس میں داخل ہوا اور بدنامِ زمانہ بیان دیا کہ آج صلیبی جنگیں اپنی کامیابی کو پہنچ گئیں۔یونان اور اٹلی نے بہت سے یورپی علاقے ترکی سے چھین لیے اور اتحادی افواج نے استنبول کی طرف بھی حملے کیے لیکن ترک اس کا دفاع کرنے میں کامیاب رہے۔
محمد الخامس الرشاد کے انتقال کے بعد وحید الدین محمد السادس خلیفہ بنائے گئے۔ جمیعتِ اتحاد و ترقی کی حکومت کے سرکردہ اراکین جرمنی کی ایک کشتی میں ملک سے فرار ہو گئے۔ ان میں طلعت پاشا، جمال پاشا، عزمی بک وغیرہ تھے۔ انور پاشا روس کی قید میں چلا گیا تھا، وہاں سے فرار ہو کر اپنے بھائی نوری پاشا کے پاس چلا گیا جو قفقاز وغیرہ کی طرف روس کے خلاف برسرپیکار تھا۔ انور پاشا روس کے خلاف لڑتا ہوا بخارا میں مقتول ہوا۔ ملک میں اتحادیوں کی درجۂ دوم کی قیادت باقی بچی تھی، مصطفی کمال پاشا بھی انھی میں شامل تھا۔ سلطان وحید الدین نے مصطفی کمال پاشا کو اپنے قریب کیا اور کثیر سرمایہ دے کر اسے اناطولولیہ میں فوجوں کی تنظیم پر مقرر کیا۔ ۱۳۳۸ ھ میں اتحادی ممالک کا ایک اجلاس پیرس میں منعقد ہوا جس میں طے کیا گیا کہ یونان ازمیر میں اپنی فوجیں داخل کرے گا اور ترکی کی طرف سے دفاع کو اعلانِ جنگ سمجھا جائے گا۔چنانچہ ازمیر پر یونان نے قبضہ کر لیا۔
مصطفی کمال پاشا نے مختلف نواب اور امرا کو ملا کر ایک مجلس کا قیام کیا۔ اس مجلس نے کمال پاشا کو اپنا رہبر تسلیم کیا۔ جلد ہی انقرہ اس مجلس کا مرکز بن گیا۔ یہ ایک طرح سے استنبول کے متوازی ایک حکومت تھی۔ کمال پاشا اور مجلسِ سردران نے مملکت کے دفاع و تحفظ کا عہد کیا۔ اس کے بعد سیواس شہر میں اس مجلس کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں مندرجہ بالا نِکات پر قول و اقرار کیے گئے۔ جنگِ عظیم ختم ہوئی اور اس کے خاتمے بعد کے چند سالوں میں مصطفی کمال کی جدوجہد کو عروج ملا۔اس دوران اُس نے مختلف سیاسی قائدین کے ساتھ رابطے کر کے ایک سیکیولر ریاست کے قیام کی راہ ہموار کی۔ ۱۹۱۹ء سے لے کر ۱۹۲۴ء کا عرصہ ترکی میں مختلف وزارتوں کے جوڑ توڑ پر مشتمل تھا۔ سلطان وحید الدین کے بعد سلطان عبد المجیدثانی خلافت کے منصب پر فائز ہوئے جو برائے نام عثمانی خلفا میں بھی آخری خلیفہ ہوئے۔ یہ دور ترکی کی جنگِ آزادی کا دور کہلاتا ہے جس میں مصطفی کمال پاشا نے جنگِ آزادی کی قیادت کی۔ ۱۹۲۱ء اور ۱۹۲۲ء میں ترکوں نے کمال پاشا کی فوجی قیادت میں یونانیوں کو کئی معرکوں میں شکست دی۔ اس کے علاوہ برطانیہ، اٹلی اور آرمینا وغیرہ سے کامیاب معرکوں کے ذریعے انھوں نے کئی ایک ترک علاقے آزاد کرائے۔ ۱۹۲۴ء میں ترکی اور اتحادیوں کے درمیان معاہدہ لوزان طے پایا جس کی رو سے خلافت کا خاتمہ کر کے جمہوریہ ترکی کی بنیاد رکھی گئی اور ترکی کی نئی حدود طے کر کے اس کی سالمیت کو تسلیم کیا گیا۔ اگرچہ اس معاہدے کی رو سے شرق و غرب کے ان تمام ممالک کو قانونی حیثیت مل گئی جو سلطنتِ عثمانیہ سے الگ کیے گئے تھے لیکن اس سے ’’ بچے کچھے ‘‘ ترکی کو تسلیم کر لیا گیا۔
کتابیات
تاریخ دولة عثمانیة،یلماز اوزتونا، مترجم:عدنان محمود سلمان
السلطان عبد الحمید و هرتزل، دکتور بها الأمیر
الدولة العُثمانية – عَوَاملُ النهُوض وأسباب السُّقوط، عَلي محمد محمد الصَّلاَّبي
القدس و المسجد الأقصی عبر التاریخ دکتور محمد علي البار
المفصل في تاريخ القدس عارف العارف
أسرار انقلاب عثماني، مصطفی طوران