لاگ ان

ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

لاگ ان

ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

مولانا حماد احمد ترکؔ
نائب مدیر ماہنامہ مفاہیم، کراچی

شوکتِ سنجر و سلیم
قسط نمبر ۶

اس سلسلے کا عنوان پہلے’’ جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے ‘‘ رکھا گیا تھا۔ اب بوجوہ تبدیل کر دیا گیا ہے۔ پہلے بھی علامہ اقبال کا مصرع بطورِ عنوان لیا گیا تھااور اب بھی علامہ کی نعت کا مصرع بطور عنوان درج کیا ہے،

شوکتِ سنجر و سلیم، تیرے جلال کی نمود
فقرِ جنید و بایزید، تیرا جمالِ بے نقاب

۱۰:سلیمان القانونی ۱۴۹۵۔۱۵۶۶ء

سلطان سلیم اوّل کی وفات پر ۱۵۲۰ء میں ان کا بیٹا سلیمان تخت نشین ہوا۔اس وقت سلیمان کی عمر تقریباً ۲۶سال تھی۔ سلیمان کم سنی میں ہی دینی ودنیاوی علوم سے بہرور ہو چکا تھا اور امورِ سلطنت میں دلچسپی کے ساتھ ساتھ شعر وشاعری سے بھی شغف رکھتا تھا۔ سلیمان خود بھی ایک عمدہ شاعرتھا اور ’’مُحِبّی‘‘ تخلص کرتا تھا۔ اس کے روزنامچوں میں اس کے بے شمار اشعار درج تھے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ تمام عمر جنگوں میں گزارنے کے باوجود سلیمان نے اپنے ہم عصر شعرا سے زیادہ شعر کہے۔ سلیمان کا دیوان مرتب کیا گیا تو اس میں تقریباً ایک ہزار اشعار جمع کیے گئے۔ جب سلیمان کے والد سلطان سلیم نے ایران پر حملہ کیا تو سلیمان نائب السلطنت کی حیثیت سے قصرِ خلافت میں مقیم رہا،نیز مصر کے سفر میں سلطان سلیم نے شہزادہ سلیمان کو ادرنہ کا حاکم بنا دیا۔ اس کے علاوہ دیگر خطوں میں بھی سلیمان نے حاکم کی ذمے داری بخوبی ادا کی۔

 سلیمان القانونی جب تخت پر جلوہ افروز ہواتو پوری سلطنت میں ایک مدبر اور ذہین فرماں روا کی حیثیت سے مشہور ہوچکا تھا۔ اس کی رحم دلی اور سخاوت کے بہت چرچے تھے۔ بہت سے امور جن میں سلطان سلیمان کے والد سلطان سلیم اول نے بہت سختی برتی، سلطان سلیمان نے ان میں نرمی کا حکم دیا، مثلاً وہ بے شمار مصری جنھیں جبراً قسطنطنیہ لایا گیا تھا، انھیں اپنے وطن جانے کی اجازت دے دی،جن ایرانی تاجروں کا مال ضبط کیا گیا تھا، انھیں نقد روپے دے کر تلافی کی گئی، وغیرہ۔ اسے سلیمانِ اعظم اور سلیمان القانونی کہا جاتا ہے کیونکہ اس نے پہلی مرتبہ سلطنتِ عثمانیہ کا باقاعدہ آئین مرتب کیااور امورِ سلطنت کے لیے نظم ونسق طے کیے۔

تمام عثمانی سلاطین میں  سلیمان القانونی  کا عہدطویل ترین عہدِ حکومت ہے۔ سلیمان نے تقریباً چھیالیس سال حکومت کی۔ اس کے دور سے قبل ہی عثمانی حدود میں بے پناہ اضافہ ہوچکا تھا۔ایک طرف مصر وشام اور حجاز اور دوسری طرف ایران تک عثمانی سلطان سکہ چلتا تھا، چنانچہ سلیمان کا پورا دور عثمانیوں کے عروج کا دورہے اورسب سے زیادہ سنہری دور قرار دیا جاتا ہے۔ سلطان سلیمان کا اکثر وقت جنگوں میں گزرتاتھا۔ تخت نشینی کے بعد پہلی جنگ ہنگری کے بادشاہ سے ہوئی جب اس نے خراج  کی وصولی کرنے والے عثمانی سفیروں کو قتل کرا دیا۔ انتقاماً سلطان سلیمان نے اپنے بھاری توپ خانے کے ساتھ بلغراد کا محاصرہ کر لیا۔ یہ وہی قلعہ تھا جہاں سے سلطان محمد فاتح کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سلطان سلیمان القانونی نے محض سات روز کی گولہ باری سے اسے فتح کرلیا، یہ رمضان المبارک کا مہینا اور سن ۱۵۲۱ء تھا۔ سلطان نے یہاں عام معافی کا اعلان کیا، عیسائی عبادت خانوں کو مسجد میں تبدیل کیا اور ایک دستہ یہاں چھوڑ کر اس دوسرے محاذ کی طرف قدم بڑھائے جہاں سے سلطان فاتح کو ناکام لوٹنا پڑا تھا، یہ روڈس کا محاذتھا۔ سلطان محمد خان فاتح کو دو محاذوں پر ناکامی ہوئی تھی: ایک بلغراد اور دوسرا روڈس۔ اور سلطان سلیمان نے تخت نشینی کے دوسرے سال ہی دونوں محاذوں پر حملہ کیا، بلغراد کی شکست سےعبرت پکڑتے ہوئے وینس کی ریاست نے از سرِنو اطاعت کا اقرار کیااور دگنا خراج دینا منظور کیا۔ یوں تو ہنگری کے بہت سے قلعے فتح ہوگئے تھے، مگر دار الحکومت ابھی تک فتح نہیں ہو اتھا۔ سلیمان نے اس سے قبل روڈس پر لشکرکشی کی، سابقہ تجربات کی روشنی میں سلطان سلیمان کو بخوبی اندازہ تھا کہ یہ محاذکتنا مشکل تھا، لیکن روڈس کی فتح ناگزیر تھی کیونکہ روڈس کے بحری جہاز مسلسل عثمانی تجارتی جہازوں کو لوٹتے رہتے تھے اور عثمانیوں اور مصریوں کے باہمی ربط میں رخنہ ڈالنے کے درپے تھے۔ سلطان نے اس جزیرے پر حملے کے لیے تین سو جہازوں پر مشتمل بیڑا تیار کیا اور بحری راستے سے اسے روانہ کیا اور خود ایک لاکھ فوج کے ساتھ روڈس پہنچا۔ اگست ۱۵۲۲ء میں یہ محاصرہ شروع ہوا۔ عثمانیوں نے قلعے میں شگاف ڈالنے کی سر توڑ کوشش کی لیکن روڈس کا لشکر ان کے لیے لوہے کا چناثابت ہوا۔ پانچ مہینے تک جاری رہنے والے اس شدید محاصرے کے بعد کہیں جاکر روڈس کے جانباز سپاہی ہتھیار ڈالنے کے لیے رضامند ہوئے۔ ان کی بہادری اور عزم کی قدر کرتے ہوئے سلطان نے ان کے ساتھ بہت رعایت برتی، ان کے عبادت خانے سابقہ حال پر چھوڑ دیے۔ ان کے جنگجوؤں کو اجازت دے دی کہ بارہ دن کے اندر اندر جزیرہ چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہوجائیں اور اپنا ساز وسامان بھی ساتھ لے جائیں۔ سلطان کی فراخ دلی کا عالم دیکھیے کہ اس مہلت کے عرصے میں عثمانی لشکر کو پیچھے ہٹا لیا کہ سپاہی بہ آسانی منتقل ہو سکیں، اور انھیں یہ سہولت بھی دی کہ اگر ان کے جہاز کم پڑجائیں تو عثمانی جہاز استعمال کر کے جلد از جلد یہاں سے روانہ ہو جائیں۔ چنانچہ یہ سپاہی کریٹ اور مالٹا منتقل ہوگئے۔سلطان نے کمالِ مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اہلِ روڈس کو یہ پروانہ عطا کیا کہ اگلے پانچ سال تک ان پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔ یہ دسمبر ۱۵۲۲ء کا واقعہ ہے۔ 

اس کے بعد اگلے تین سال تک کوئی قابلِ ذکر معرکہ نہیں ہوا۔ سلطان ریاست کے اندرونی معاملات میں مشغول رہا، البتہ دو واقعات کا ذکر کرنا ضروری ہے: اوّل یہ کہ مصر کے حاکم احمد پاشا نے بغاوت کردی جس کو فرو کرنے کے لیے ایک لشکر روانہ کیا گیا۔ جنگ کے نتیجے میں احمد پاشا قتل ہوا، بغاوت کچل دی گئی۔ دوم، سلطان سلیمان  ۱۵۲۵ء کے اوائل میں شکار کی غرض سے ادرنہ روانہ ہوا تو ینی چری کے دستوں نے قسطنطنیہ میں لوٹ مار شروع کردی۔ینی چری فوج کا انتہائی خصوصی دستہ تھا جو براہِ راست سلطان کے ماتحت تھا اور ریاستی معاملات میں دخل اندازی ان کا مشغلہ تھا۔ یہ ایک طرح سے لاڈلے سپاہی تھے جو اپنی ناجائز فرمائشیں بھی پوری کروا لیتے تھے۔ البتہ جنگ میں جب بھی کوئی مشکل مرحلہ آتاتھا یا جان کی بازی لگا کر قلعے میں داخل ہونا پڑتا تو یہی ینی چری اس کام کو سرانجام دیتی تھی۔ یہ لوگ بس لڑنا اور مرنا جانتے تھے، شہر میں ان کا دم گھٹتا تھا، چنانچہ ان کی خاطر سلطان نے ہنگری پر حملے کا منصوبہ ترتیب دیااور ایک لاکھ سپاہ مع تین سو توپوں کے؛ بودا پر حملہ آور ہوا اور قلیل وقت میں ہی انھیں عبرت ناک شکست سے دوچار کیا۔ سردارانِ ہنگری سمیت چوبیس ہزار سپاہی قتل ہوئے،اہلِ شہر نے ہتھیار ڈال کر شہر کے دروازے کھول دیے۔ سلطان نے انھی میں سے ایک کو ہنگری کا حاکم بنا دیا۔ کچھ عرصے کے بعد ہنگری کے بعض امرا نے اپنے طور پر شاہ چارلس پنجم کے بھائی فرڈینینڈ کو ہنگری کا حاکم قرار دے دیا۔ فرڈینینڈ نے سلیمان القانونی کے مقرر کردہ حاکم کو شکست دے کر خود تخت پر قبضہ کرلیا اور عثمانی دربار میں اپنی حاکمیت کے اعلان کے ساتھ ساتھ بلغراد اور دیگر شہروں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ اس حماقت پر سلیمان القانونی سیخ پا ہو گیا اور تین سو توپوں اور ڈھائی لاکھ فوج کے ساتھ ایک مرتبہ پھر بودا پر حملہ کرکے فرڈینینڈ کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا اور سابقہ حاکم کو تخت نشین کیا۔

 ستمبر ۱۵۲۹ء میں عثمانی شیر پھر کچھار سے نکلا  اور ایک نئے شکار کی طرف روانہ ہوا۔ اب کی بار ہدف ویانا تھا۔ ویانہ کا محاصرہ شروع ہوا اور عثمانی سپاہیوں نے متعدد حملے کرکے قلعے میں داخلے کے لیے شگاف پیدا کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ ایک سبب یہ بھی تھا کہ موسم سخت تھا اور بارشوں کی وجہ سے توپیں ہنگری میں چھوڑ دی گئی تھیں۔ عثمانی انجینیر بارہا سرنگیں کھود کر بارود بچھاتے   اور  دیواروں میں شگاف ڈالتے لیکن جو دستہ بھی قلعے میں داخل ہونے کی کوشش کرتا، عیسائی سپاہیوں کی بہادری اسے ناکام لوٹا دیتی۔ ایک سبب یہ ہوا کہ مسلسل ناکامی کے بعد ینی چری نے نخرے شروع کیے اور حملہ کرنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ سلطان سلیمان نے مایوس ہو کر محاصرہ اٹھا لیا۔

 تین سال بعد سلیمان عثمانی لشکر کے ساتھ ایک مرتبہ پھر ویانا کی طرف بڑھا لیکن راستے میں آنے والے قلعے ’گنس‘ کو فتح کرنے میں بہت وقت صرف ہوگیا، چنانچہ اس مرتبہ بھی عثمانی لشکر ہنگری کے دیگر شہروں کو فتح کرتا ہوا ویانا سے نظریں چرا کر واپس آگیا۔ ہنگری میں خانہ جنگی بدستور جاری رہی حتی کہ ۱۵۳۸ء میں ہنگری کو دو حصوں میں تقسیم کر کے دونوں دعوے داروں کو ایک ایک حصہ دےدیا گیا۔ کچھ ہی عرصے میں سلطان کے مقر کردہ حاکمِ ہنگری کا انتقال ہوگیا تو فرڈینینڈ نے پورے ہنگری پر قبضہ کر لیا۔ اس پر ۱۵۴۱ء میں سلطان سلیمان نے ایک بار پھر بودا پر حملہ کیا اور وہاں سے فرڈینینڈ کو شکست دے کر عثمانی گورنروں کو مقرر کر دیا۔سلیمان القانونی نے ہنگری میں یلغار جاری رکھی، اس اُفتاد سے تنگ آ کر بالآخر ۱۵۴۴ء میں فرڈینینڈ اور شاہ چارلس نے صلح پر آمادگی ظاہر کر دی اور پانچ سال کےلیے بھاری خراج کے عوض جنگ بندی ہوگئی اور ہنگری عثمانی سلطنت کے زیرِنگیں آ گیا۔ ہنگری کی فتح سے قبل اور اس کے بعد بھی سلطان نے ایران پر متعدد مرتبہ لشکر کشی کی اور بہت سے علاقے فتح کیے لیکن مجموعی طور پر ترک لشکر کو موسم کی شدت اور دیگر مصائب کے سبب ناکامی کا  سامنارہا۔ سامانِ رسد کی عدم فراہمی نے بھی بہت سی مشکلات پیدا کر دیں۔

 سلطان سلیمان القانونی کی گراں قدر خدمات میں بحری فوج کی ترقی اور تنظیم سر ِفہرست ہے۔ اس زمانے میں عثمانی بیڑا بحر ِروم میں جنگل کے شیر کی طرح راج کرتا تھا اور دو مرتبہ اپنے سے کہیں زیادہ طاقتور اتحادی بیڑے یعنی اسپین، وینس اور پوپ کے مشترکہ بیڑے کو بد ترین شکست سے دو چار کر چکا تھا۔ سلطان نے اپنے عہد میں بہت بڑے بڑے جنگی بحری جہاز تیار کروائے اور متعدد ماہرین کو عثمانی بحریہ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا، انھی میں ایک معروف نام خیر الدین باربروس کاہے جو اپنی قابلیت، تجربے اور صلاحیت میں یکتا تھے اور تمام بحری جنگجو اِن سے بخوبی واقف تھے۔ خیرالدین بار بروس یورپ میں بحری قذاق مشہور تھے، کیونکہ انھوں نے اپنا ذاتی بیڑا تیار کیا تھا جس کے ساتھ وہ بحرِ روم کے تجارتی جہازوں کو لوٹا کرتے تھے۔ انھوں نے اسپین کے مجبور ومظلوم مسلمانوں کی بڑی تعداد کو اپنے جہازوں کے ذریعے الجزائر منتقل کیا، یہ مسلمان اسپین کی ظالم حکومت کی ایذا رسانیوں سے بہت تنگ تھے، تقریباً ستر ہزار مسلمان خیرالدین باربروس کی مدد سے الجزائر پہنچ گئے۔ سلطان سلیمان القانونی نے انھیں عثمانی بحریہ کا امیر ِاعظم مقرر کیا۔ وینس، ہنگری اور پوپ کے مشترکہ بحری بیڑے کو خیرالدین پاشا نے ہی شکست سے دو چار کیااور وینس وغیرہ کے بہت سے جزیرے عثمانی سلطنت میں شامل کیے۔ دوسری طرف الجزائر پر پہلے ہی سے خیرالدین باربروس کا قبضہ تھا جو یورپ کے سر پر لٹکی ہوئی تلوار کی مانند تھا۔ شاہ چارلس نے الجزائر کی فتح کے لیے بیڑا روانہ کیا لیکن اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

سلیمان القانونی کے عہد میں اہلِ یورپ میں عثمانی ریاست کی حیثیت ایک عظیم قوت کے طور پر مسلم تھی۔سلاطینِ یورپ کی باہمی معرکہ آرائی میں  سلطان سلیمان القانونی نے فرانس کی درخواست پر اس کا حلیف بننا قبول کیا اور کئی جنگوں میں شہنشاہ چارلس کے خلاف فرانس کا ساتھ دیا۔ فرانس کو اس معاہدے کے نتیجے میں عثمانی ریاست سے جو مراعات ملیں ناقابلِ بیان ہیں۔ فرانسیسی جہاز کے علاوہ کوئی جہاز عثمانی بحری حدود میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ فرانس کو بہت کم محصول کے عوض تمام بندرگاہوں سے تجارت کی اجازت تھی، فرانسیسی شہریوں کو خصوصی حقوق دیے گئے اور عثمانی حدود میں بھی ان کو اپنے قوانین کے مطا بق فیصلوں کی گنجائش دی گئی، کسی فرانسیسی کے خلاف عثمانی عدالت فیصلہ نہیں کرسکتی تھی، جب تک کہ فرانسیسی کونسل کا نمائندہ اس کارروائی کا حصہ نہ ہو۔

 ۱۵۴۶ء میں خیرالدین باربروس کا انتقال ہو گیا جس سے عثمانی بحریہ کو بڑا دھچکا لگا۔خیرالدین محض ایک سپاہی نہیں بہت علم دوست انسان تھا۔ اس نے اپنی پوری زندگی کی کمائی سے ایک تعلیمی ادارہ بھی تعمیر کروایا۔ خیرالدین کی طرح ایک اور بحری کمان دار طورغوت تھا جو ذاتی بحری بیڑے کا مالک تھا اور یورپ کے تجارتی جہازوں کو لوٹتا تھا، اس نے بھی عثمانی بحریہ میں اپنی قابلیت کے جوہر دکھائے۔ طرابلس اسی کے ہاتھوں فتح ہوا۔

 سلیمان القانونی کے عہد میں ایک بڑا محاذ پرتگالی جنگجوؤں کے خلاف تھا، ۱۵۲۵ سے ۱۵۵۴ءتک ان کے ساتھ متعدد بحری معرکے ہوئے لیکن عثمانی بحریہ کو کامیابی نہیں مل سکی۔ ایک اور مشکل محاذ مالٹا کا تھا جس میں عثمانی بحریہ کو سخت ہزیمت اٹھانی پڑی اور پچیس ہزار عثمانی سپاہی شہید ہوئے۔ اگر چہ اس مہم میں ایک سو اسی کے قریب بحری جہازوں پر مشتمل لشکر مالٹا پر حملہ آور ہوا تھا لیکن عثمانی لشکر کو بھاری نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔

تختِ ہنگری کے دعوے دار  فرڈینینڈ کے مرنے کے بعد اس کے بھائی نے ۱۵۶۶ء میں علمِ بغاوت بلند کیا اور سلیمان القانونی کے مقررکردہ حاکمِ ہنگری کو معزول کرنے کا اعلان کیا۔ اس وقت سلیمان القانونی کی عمر ۷۶ سال ہوچکی تھی اور ضعف وعلالت کے سبب وہ گھوڑے پر نہیں بیٹھ سکتاتھا، لیکن پھر بھی اس نے لشکر کی قیادت کا اعلان کیا اور پالکی میں سوار ہو کر روانہ ہوگیا۔ اسی سفر کے دوران سلطان سلیمان القانونی کا انتقال ہوگیا۔ یہ ستمبر ۱۵۶۶ء کی رات تھی۔ صدرِ اعظم صوقو لِلّی نے سلطان کی وفات کو مخفی رکھا اور مسالہ لگا کر اسے محفوظ کر دیا۔ لوگوں کو بتایا کہ سلطان علیل ہیں اور لشکر اپنے ہدف کی طرف بڑھتارہا۔ دوسری طرف شہزادہ سلیم کو سلطان کی وفات سے آگاہ کر دیا گیا تاکہ وہ قسطنطنیہ پہنچ کر تخت سنبھال لے۔ جب شہزادہ سلیم نے اپنی حکومت کا اعلان کیا تب لشکر کو وفات کی خبر سنائی گئی۔ لشکر کو اس حملے میں کامیابی حاصل ہوئی۔

 سلطان سلیمان کے عہد میں سلطنتِ عثمانیہ نے غیر معمولی عروج حاصل کیا۔ ایک طرف فوجی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہوا تو دوسری طرف ریاست میں خوشحالی کا دور دورہ ہوگیا۔ سلطان سلیمان القانونی؛ ایشیا، افریقہ اور یورپ پر حکمرانی کرتا تھا اور بحرِ روم، بحرِ ہند اور بحرِ احمر میں عثمانی جہاز شان وشوکت سے آتے جاتے تھے۔ سلطان کے عہد میں غیر مسلم باشندوں کو جو سہولیات دی گئیں ناقابلِ بیان ہیں۔ سزاؤں کے قوانین از سر ِنو مرتب کیےگئے۔ بازار میں منافع کی شرح اور خرید وفروخت کے ضابطے متعین ہوئے۔ اسی طرح سابقہ سلاطین کی پیروی میں سلیمان نے علم کی اشاعت پر خاص توجہ دی۔ کئی مدارس کی بنیاد ڈالی۔ سلیمان القانونی نے جس طرح دیگر امور میں آئین سازی کی، اسی طرح علما کے لیے بھی قوانین مقرر کیے۔ ریاستی سطح پر علما کو معزز و مکرم قرار دے کر انھیں ہر طرح کے محصولات سے بری قرار دے دیا۔ یہ سلیمان القانونی کا ایک بڑا کارنامہ ہے کہ علما کی تعظیم وتکریم جس طرح اس کے عہد میں ہوئی اس سے قبل نہیں تھی۔ سلیمان نے حرمین شریفین کی خدمت بہت بڑھ چڑھ کر کی اور اہلِ حرم کے لیے شاہی انعامات میں بہت اضافہ کر دیا۔ مکہ معظمہ میں چاروں مذاہب کے لیے الگ الگ چار مدارس کی بنیاد رکھی۔ اور شام کے اوقاف سے ان مدارس کے طلبہ کے لیے وظائف مقرر کیے۔ مدینہ شریف میں شاہی خزانے کے ساتھ ساتھ ذاتی رقم سے بھی صدقہ وخیرات کی مد میں کثیر مال ارسال کرنے کو شعار بنالیا۔ سلیمان القانونی جس طرح امورِ سلطنت میں ایک مدبر حاکم ثابت ہوا اسی طرح فنِّ تعمیرات میں بھی اعلیٰ ذوق کا حامل تھا۔ سلطان نے قسطنطنیہ، قونیہ، دمشق، بغداد اور دیگر شہروں میں عالی شان عمارات بنوائیں، بہت سی مساجد تعمیر کیں، اسپتال بنوائے۔ قسطنطنیہ میں ایک بڑی نہر جاری کی اور پل تعمیر کروائے۔

 سلطان سلیمان کے دور میں ہی مشہور ماہرِ تعمیرات معمار سنان نے اپنی مہارت کے جوہر دکھائے۔ معمار سنان نے سلطان سلیمان کے حکم پر پہلی مسجد ’’شہزادہ مسجد‘‘ تعمیر کی۔ شہزادہ مسجد سلطان سلیمان کے بیٹے محمد کی یاد میں تعمیر کی گئی جو ایک حادثے کا شکار ہوا اور ۱۵۴۳ء میں اس کا انتقال ہوگیا۔ سلطان سلیمان شہزادہ محمد کی وفات سے بہت دل برداشتہ ہوا۔ سلطان نے محمد کی وفات پر ایک مرثیہ بھی لکھا۔  شہزادہ محمد کی یاد میں بنائی گئی اس شہزادہ  مسجد کے احاطے میں درس گاہیں اور  مسافر خانے بھی تعمیر کیے گئے۔ سلطان سلیمان کے داماد رستم پاشا اور بیٹے شہزادہ محمد کا مقبرہ بھی یہیں واقع ہے۔ اسی دور میں سلطان سلیمان القانونی کی بیٹی ’’مہر ماہ سلطان‘‘ کے حکم پر دو مسجدیں تعمیر کی گئیں۔

 لیکن ان تمام محاسن کے ساتھ ساتھ سلطان سلیمان پر اپنے بے قصور بیٹے کے قتل کا داغ بھی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ سلطان کا بیٹا مصطفیٰ ریاستی امور میں مہارت کے ساتھ ساتھ علم وفضل اور اخلاق میں بھی شہرت رکھتا تھا اور عمر میں بڑا ہونے کی حیثیت سے تخت کا متوقع وارث تھا۔ سلطان سلیمان کی ایک نہایت چہیتی بیوی حرُم جو کہ نسلاً روسی تھی، اپنے نالائق اور عیش پسند بیٹے سلیم کو سلطان بنانے کا خواب دیکھ رہی تھی۔ چنانچہ اس نےشہزادہ  مصطفیٰ کے خلاف سلطان کے کان بھرنا شروع کیے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مصطفیٰ تخت پر قبضے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ان بے بنیاد الزامات کی بوچھار نے سلیمان کو کہیں کا نہ چھوڑا اور  بالآخر ایک دن سلیمان نے مصطفیٰ کو خیمے میں بلا کر مروا دیا۔ یہ حالت دیکھ کر دوسرا بھائی بایزید پریشان ہوگیا۔ اسے دیگر لوگوں نے ورغلا کر بغاوت پر آمادہ کر لیا، لیکن جلد ہی شکست کھا کر ایران میں پناہ لے لی۔ سلطان کے حکم پر؛ باوجودحفاظت کی یقین دہانی کے؛ ایرانی حاکم نے بایزید کو عثمانی سفیر کے حوالے کر دیا جسے سلطان نے قتل کروا دیا۔ ان معاملات کے ساتھ ساتھ مؤرخین نے لکھا ہےکہ سلیمان کے کچھ دیگر پہلو بھی تھے، جنھوں نے عثمانی ریاست کی تباہی کا آغاز کیا، مثلاً خواتین کی امورِ سلطنت میں حد سے زیادہ مداخلت، اسی طرح رشوت ستانی کا آغاز جسے بعد میں بہت فروغ ملا اور سرکاری مناصب فروخت ہونے لگے۔ رشوت کا آغاز مہر ماہ سلطان کے شوہر اور سلطان سلیمان القانونی کے داماد ’’رستم پاشا‘‘ نے کیا اور بڑی بڑی رقمیں وصول کیں۔ سلیمان کے عہد تک تو یہ  سلسلہ کسی درجے قابو میں تھا لیکن اس کے بعد اس رشوت خوری کی کوئی انتہا نہ رہی۔ آخری بات یہ کہ سلیمان القانونی نے سابقہ سلاطین کی اتباع نہ کی اور مجلسِ مشاورت کے لیے دیوان میں آنا چھوڑ دیا۔ اس سے قبل سلاطین  بذاتِ خود مجلس میں شریک ہوتے تھے اور وزرا سے مشورہ کرتے تھے۔ سلطان نے دیوان کے ساتھ علیحدہ ایک کمرہ اپنی نشست کے لیے مختص کیا اور وہی سے مجلس کی کارروائی کو سنتا۔ آہستہ آہستہ وزرا نے وہاں بیٹھنا چھوڑ دیا اور سلیمان خود ہی فیصلے صادر کرنے لگا۔ اس خرابی کا اظہار سلیمان کی وفات کے بعد ہوا جب سلاطین میں سلیمان جیسی ذہانت نہ رہی۔ سلیمان ایک مردم شناس آدمی تھا اور بہترین تدبیر کرتا تھا۔ بعد کے لوگوں نے جب از خود فیصلے کیے اور مشاورت ترک کردی تو سارا نظام تلپٹ ہو گیا۔ 

لشکر کی فتح کے بعد سلطان کا جسدِ خاکی قسطنطنیہ لایا گیا اورسلیمان القانونی کو سلیمانیہ مسجد میں دفن کیا گیا۔ یہ مسجد سلطان سلیمان کے حکم پر معمار سنان نے تعمیر کی تھی۔ اس کی تعمیر ۱۵۵۰ء میں شروع ہوئی اور  ۱۵۵۷ء میں مکمل ہوئی۔ یہ مسجد فنِ تعمیر کا ایک شاہ کار ہے۔ بازنطینی اس وہم کا شکار تھے کہ آیا صوفیہ جیسا گنبد بنانا ممکن نہیں اور عثمانیوں کے بس کی بات نہیں۔ معمار سنان نے یہ چیلنج قبول کیا اور آیا صوفیہ سے بڑا گنبد تعمیر کر دیا۔ یہ مسجد استنبول کی سات چوٹیوں میں سے ایک چوٹی پر واقع ہے اور سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ مسجد کے چار مینار ہیں  اور ان میں کل دس گیلریاں ہیں، جو اشارہ کرتی ہیں کہ سلیمان القانونی دسویں عثمانی سلطان تھے۔اس کے احاطے میں صرف مسجد ہی نہیں مدرسہ، اسپتال، کاروان سرائے، مسافر خانے، لنگر خانہ،علمِ حدیث اور علمِ طب کی علیحدہ درس گاہیں بھی قائم کی گئی تھیں۔ سلطان سلیمان القانونی، ان کی اہلیہ حرم سلطان اور ان کی بیٹی مہر ماہ سلطان یہیں مدفون ہیں، مسجد کے ساتھ ہی معمار سنان کا بھی مقبرہ ہے۔

کتابیات
السلاطین العثمانیون، راشد کوندوغدو،الناشر: دار الرموز للنشر،إسطنبول،۲۰۱۸ء
آلبوم پادشاہانِ عثمانی،مترجم: میلاد سلمانی،ناشر: انتشاراتِ قَقْ نُوس،استنبول،۲۰۱۵ء
تاریخِ سلطنتِ عثمانیہ، ڈاکٹر محمد عزیر، ناشر: کتاب میلہ، ۲۰۱۸ء
سلطنتِ عثمانیہ، ڈاکٹر علی محمد الصلابی،مترجم: علامہ محمد ظفر اقبال، ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور، جون ۲۰۲۰ء

لرننگ پورٹل