لاگ ان

ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

لاگ ان

ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

صوفی جمیل الرحمٰن عباسی
ناظمِ شعبۂ تحقیق و تصنیف، فقہ اکیڈمی، مدیرِ ماہ نامہ مفاہیم، کراچی

معرکۂ عین جالوت اور احیاے خلافت

۲۵ رمضان ۶۵۸ ھ ۱۲۶۰ ء میں تاتاریوں اور مسلمانوں کے درمیان فلسطین میں نابلُس اور بیسان کے درمیانی علاقے عین جالوت میں ایک تاریخی معرکہ پیش آیا جس میں مسلمانوں کو عظیم الشان فتح نصیب ہوئی ۔ جس سے مسلمانوں کو حیاتِ جدید اور تنظیمِ نَو کی امنگ نصیب ہوئی ورنہ وہ دنیا سے اپنے مکمل خاتمے کے منتظر تھے۔ اسی فتح کے نتیجے میں، چند سال پیش تر، بغداد میں ختم ہونے والی عباسی خلافت کا مصر میں احیا کر دیا گیا۔ منگولوں کو یہاں ایسی شکستِ فاش ہوئی جس نے ان کے دانت کھٹے کر کے انھیں پسپائی پر مجبور کیا بلکہ ان کے تکبر کو خاک میں ملا دیا۔

عالمِ اسلام کی حالت 

 ساتویں صدی ہجری میں مسلمانوں کی حکومت؛چین سے لے کر اندلس تک، دنیا کے تقریبا نصف حصے پر پھیلی ہوئی لیکن عالمِ پیری میں تھی ۔ خلافتِ عباسیہ اپنی زندگی کے آخری دن گزار رہی تھی۔ عباسی حکمران آلِ بُوَیہ کی شیعہ سرپرستی سے نکلنے کے بعد سلجوقیوں کی سنی سرپرستی میں آرام کی زندگی گزار رہے تھے۔ بالفعل ان کی حکومت صرف عراق کے کچھ حصے پر تھی اور باقی ملک خو دمختیار لیکن باہم متحارب ریاستوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔

منگول حملوں کی ابتدا 

عالمِ اسلام پر منگولوں کی تاخت و تاراج کی ابتدا، ۶۱۶ ھ میں بخارا سے ہوئی ۔اس کے بعد سمرقند، خراسان،کابل،سلطنتِ خوارزمی اور دیگر علاقوں کو فتح کرتے کرتے آخر کار،۶۵۶ ھ  ۱۲۵۸ ء میں، ہلاکو خان اور کتبُغا کی سرکردگی میں بغداد میں داخل ہوئے ۔ منگول سالار نے قبضے کے بعد آخری عباسی خلیفہ مستعصم بالله، ان کی اولاد اور مسلمانوں کے امرا و علما کو قتل کرنے کے بعد شہر بغداد میں قتل عام کا حکم دیا۔ ۴۰ دن تک قتل عام جاری رہا۔ بغداد میں کچھ عرصہ رکنے کے بعد تاتاری مزید آگے بڑھے اور اگلے دو سالوں میں فلسطین، شام اور اس کے پایۂ تخت اور مسلمانوں کے سابقہ دار الخلافہ دمشق کو بھی فتح کر چکے تھے۔ دمشق کی فتح کے بعد وہ مصر کی جانب متوجہ ہوئے لیکن اس ملک کو کمزور جانتے ہوئے فوج کشی کی حاجت محسوس نہ کی بلکہ ایک متکبرانہ خط کو کافی سمجھا۔ خلافِ توقع مصریوں کی طرف سے سخت جواب آیا جس نے تاتاریوں کے غیض و غضب کو بھڑکا دیا۔ ہلاکو خان کا خاص کمانڈر کتبُغا (کتبُغانوین) مصر پر حملے کے منصوبے بنانے لگا۔

مصر کی حکومت 

مصر پر ان دنوں ممالیک کی حکومت تھی۔ اس کا مختصر پَسْ منظر یہ ہے کہ صلاح الدين ایوبی رحمہ اللہ (۵۳۲۔۵۸۹ ھ  ۱۱۳۷  ۱۱۹۳ ء)کے انتقال کے بعد سلطنتِ ایوبی بکھر کر باہم متحارب علاقائی حکومتوں میں تقسیم ہو گئی۔ ساتویں صدی ہجری کی ابتدا میں مصر پر ایوبی حکمران، المَلِك الصالح نجم الدين ایوب (۶۰۳۔۶۴۸ھ۱۲۰۶۔۱۲۴۹ ء) کی حکومت تھی جو سلطان صلاح الدین ایوبی کے بھائی سلطان الملك العادل سيف الدين کے پوتے تھے۔ دوسرے علاقوں کے ایوبی حکمران انھیں ناپسند کرتے تھے۔ چنانچہ حاکمِ دمشق صالح اسماعیل (الملک الصالح کے چچا)، حاکمِ کرک ناصر داؤد اور حاکمِ حمص منصور ابراہیم نے، مصر کے خلاف صلیبیوں کے ساتھ ایک اتحاد قائم کیا۔ معاہدے کی رو سے مصر کے خاتمے کے بعد، بیت المقدس عیسائیوں کو دیا جانا تھا جبکہ مصر ایوبیوں میں تقسیم کیا جانا تھا۔ ۶۴۲ھ میں الملک الصالح نے ریاستِ خوارزم کے زوال کے بعد ماری ماری پھرنے والی خوارزمی فوج کی مدد حاصل کی اور مخالفین کی متحدہ فوج کو شکستِ فاش دے کر شام اور فلسطین کو اپنی حکومت میں شامل کر لیا لیکن جلد ہی خوارزمی ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔اس وقت الملک الصالح نے افواج کی کمی غلام خرید کر پوری کرنے کی کوشش کی۔

ممالیک کا تعارف

اس دور میں غلاموں کی خرید و فروخت عام تھی۔ عام کاموں کے علاوہ غلاموں سے فوجی خدمات لینا پرانا طریقہ چلا آتا تھا۔ لیکن الملک الصالح نجم الدین ایوب نے فوجی خدمت کے پیشِ نظر اس طریقے کو باقاعدہ ایک فن کی شکل دے ڈالی اور وہ کثرت سے غلام خریدنے لگے۔ انھوں نے اپنے ساحلی محل کےسامنے اپنے ممالیک کے لیے قلعہ بنوایا۔ یہاں ان غلاموں کو لغتِ عرب، شعر و ادب، قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم کے بعد فنون ِ حرب و ضرب سکھائے جاتے۔ ملک الصالح ان کے کھانے پینے کی خود نگرانی کرتے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانے میں شریک ہوتے۔ ان ممالیک کو الملک الصالح کی نسبت سے الصالحیہ اور ساحل کی نسبت سے البحریہ کہتے تھے۔ جلد ہی یہ لوگ فوج میں اہم خدمات انجام دینے لگے۔ یہ طبقہ ممالیک الصالحیہ البحریہ کے نام سے مشہور ہو گیا۔

مصر اور مملوک حکومت

شعبان ۶۴۷ھ میں الملک الصالح نجم الدین ایوب نے بیمار ہو کر انتقال کیا۔ ان کے بعد ان کے بیٹے توران شاہ نے حکومت سنبھالی۔ لیکن جلد ہی توران شاہ اور ان کی سوتیلی ماں ملکہ شجر ۃ الدر میں اختلافات ہو گئے۔ توران شاہ کے قتل کے بعد ملکہ شجرۃ الدر نے ایک مملوک عز الدين ايبك التركمانی سے شادی کر کے انھیں اَلمَلِكُ الْمُعِزُّ کے لقب سے بادشاہ بنوا دیا۔ مصر میں یہ پہلے مملوک بادشاہ تھے۔ انھوں نے ممالیک کی خرید و تربیت کے سلسلے کو جاری رکھا۔ ان کے مملوک الممالیک الْمُعِزِّیَه کے نام سے مشہور ہوئے۔عز الدین ایبک کے انتقال کے بعد، ان کے پندرہ سالہ بیٹے نور الدین کو الممالیک المعزیہ کے سینیر کمانڈر سیف الدین قطز کی سرپرستی میں حکمران بنایا گیا۔ یہ وہ عرصہ تھا جس میں اسقاطِ بغداد کے بعد تاتاری شام اور فلسطین وغیرہ کو روندے جا رہے تھے۔ اس وقت اہلِ مصر کو اپنی باری آنے کا خطرہ محسوس ہوا۔ ان حالات میں یہ خیال عام پھیل گیا کہ تخت پر پندرہ سالہ لڑکے کا بیٹھنا مناسب نہیں ہے بلکہ کسی بڑے کو حکمران بنانا ضروری ہے چنانچہ قرعۂ فال سیف الدین قُطُزکے نام نکلا۔

سیف الدین قطز کا تعارف

سيف الدين قطز کا اصلی نام محمود بن ممدود تھا۔ یہ جلال الدين خوارزم شاہ کے بھانجے تھے۔ جی ہاں وہی جلال الدین جو دو مرتبہ تاتاریوں کو شکست دینے بعد شکست کھا کر پہلے ہندوستان اور وہاں سے ایران وغیرہ کی طرف نکل گئے تھے۔ شاہِ خوارزم کے خاندان کے کافی سارے لوگ قیدی بنا کر دمشق میں بیچ دیے گئے تھے۔ محمود بن ممدود بھی انھی میں تھے جنھیں ایوبیوں نے خرید لیا۔ ایوبی تعلیم و تربیت نے اس خوارزم شاہی بچے کو مثالی بنا دیا۔ بعد میں کرتے کراتے یہ ملک المعز عز الدین ایبک کے غلام بنے اور بالاخر الملک المظفر کے لقب سے مصر کے تخت پر جلوہ افروز ہوئے۔

مصر کی سیاسی و معاشی حالت

جب سیف الدین قطز کو بادشاہ بنایا گیا۔ اس وقت مصر برے حالوں میں تھا۔ پڑوسی مسلمان ملکوں سے دشمنی جاری اور تعلقات منقطع تھے۔ شامیوں کے ساتھ دو جنگیں بھی ہو چکی تھیں۔ جنگ و جدال کے سبب خزانہ خالی اور ملک معاشی بد حالی کا شکار تھا۔ سیاسی استحکام نام کو نہ تھا۔ دس سال میں چار حکمران تبدیل ہو چکے تھے۔الممالیک الصالحیہ اورالممالک المعزیہ کی آپس میں رنجش عروج پر تھی چنانچہ ممالیک صالحیہ میں سے کئی ایک مصر چھوڑ کر شام جا آباد ہوئے تھے۔ 

الملک المظفر کے نیک عزائم

جس دن سیف الدین قطز کو حکمران تسلیم کیا گیا،انھوں نے امرا، علما اور اصحابِ رائے کے سامنے اپنا اعلامیہ ان الفاظ میں جاری کیا:’’میں حکومت کے مزے لینے کے لیے تخت پر نہیں بیٹھا بلکہ کافروں کے خلاف جہاد کے لیے میں نے کرسی سنبھالی ہےاس لیے کہ حکومت کے بغیر یہ ممکن نہ تھا اور کم سن بادشاہ نور الدین کے لیے یہ کام مشکل تھا۔ جب ہم دشمن کو شکست دے لیں گے تو پھر حکومت کا معاملہ تمھارے ہاتھ میں ہو گا،تم جسے چاہو اسے کرسیٔ اقتدار پر بٹھا دینا۔اس لیے کہ کسی خاص خاندان  یا گروہِ ممالیک کو حقِ حکومت حاصل نہیں ہے اور نہ ہی یہ حق وراثت میں منتقل ہو گا ‘‘۔ یہ اعلامیہ روحِ اسلام کے عین مطابق تھا جس سے قطز کی مقبولیت میں بہت اضافہ ہوا۔

 اصلاحی اقدامات 

 سیف الدین قطز نے دورانِ قید تاتاریوں کو قریب سے دیکھا تھا۔ان کی جنگی چالوں، مکاریوں اور ذہنیت سے وہ خوب واقف تھے۔ وہ جانتے تھے کہ تاتاری جلد ہی مصر کا رخ کریں گے۔چنانچہ وقت ضائع کیے بغیر ان کے مقابلے کی تیاری مکمل کرنی چاہیے۔ 

داخلی اتحاد و اتفاق 

سیف الدین قطز جانتے تھے کہ اتحاد کے بغیر مسلمان فلاح نہیں پا سکتے۔ اگرچہ وہ خود الممالیک المعزیہ سے تعلق رکھتے تھے لیکن انھوں نے ممالیک الصالحیہ کے ساتھ اپنے اختلافات ختم کرتے ہوئے ان کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔ انھوں نے قریبی ریاستوں میں جا آباد ہو نے والے مملوک سرداروں کو مصر واپسی کا پیغام دیا۔ چنانچہ ادھر ادھر سے لوگ واپس آنے لگے۔ ان میں ماہر ترین مملوک کمانڈر رکن الدین بیبرس بھی تھے۔سیف الدین قطز نے ان لوگوں کا استقبال بہت عمدگی سے کیا۔ جس سے شکر رنجی دور ہوئی اور دوستانہ تعلقات قائم ہونے لگے۔ فوجوں کا سالار فارس الدين أَقَطَائی الصغير کو بنایاجو اگرچہ ان کے سابقہ مخالف گروہ ممالیک سے تعلق رکھتے تھے لیکن اپنی لیاقت کی بنیاد پر اس منصب کے لائق سمجھے گئے۔ اس اقدام نے مملوکوں کی رہی سہی تشویش بھی ختم ہو گئی۔ داخلی استحکام کے لیے انھوں نے ریاست کے نا اہل وزیر کو معزول کر کے زين الدين يعقوب کو وزیر مقرر کیا۔

خارجی اتحاد و اتفاق

سیف الدین قطز نے پڑوسی مسلمان ریاستوں کے ساتھ اتحاد کی کوششیں بھی شروع کر دیں۔شام کے ساتھ مصر کی لڑائیاں ہو چکی تھیں۔ وہاں ایوبی خاندان کے ملک الناصر حاکم تھے جو ممالیک کو ناپسند کرتے تھے۔ بلکہ مصر کے خلاف تاتاریوں سے مدد مانگنے کی کوشش بھی کر چکے تھے۔ لیکن سیف الدین قطز نے ان کی خدمت میں ادب و احترام کے ساتھ ایک خط تحریر کیا جس میں تاتاری خطرے کے پیشِ نظر انھیں شام اور مصر کے اتحاد اور متحدہ مملکت کی بادشاہت کی پیش کش کی اور لکھا کہ بادشاہ آپ ہوں گے اور میں مصر میں آپ کا نمائندہ ہوں گا۔اگر آپ تشریف لائیں گے تو میں فی الفور کرسیٔ حکومت آپ کے لیے خالی کر کے آپ کی خدمت کروں گا۔ اگر آپ کو یہ پیش کش قبول نہ ہو تو میں اپنی فوجوں کو آپ کی سرکردگی میں دینے کو تیار ہوں تاکہ آپ دشمن کا مقابلہ کر سکیں۔ملک الناصر نے احمقانہ طور پر یہ پیش کش ٹھکرا دی ۔ چنانچہ دشمن کے حملے کی اطلاع ملی تو شہریوں کو تاتاریوں کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہوئے فلسطین کی طرف فرار ہوا۔ اس موقعے پر اس کی فوج کے ایک بڑے حصے نےاس سے بغاوت کر تے ہوئے غیر ت مند بادشاہ سیف الدین قطز کے پاس جانے کو ترجیح دی۔ اس سے سیف الدین قطز کی فوجی قوت میں بہت اضافہ ہوا۔سیف الدین قطز نے دوسری قریبی ریاستوں کو بھی اتحاد و امداد کی دعوت پر مبنی خط لکھے۔ ان میں سے حماہ کے حاکم امیر منصور نے آپ کی دعوت کو قبول کیا اور بہ نفسِ نفیس اپنی فوج کے ایک حصے کو لے کر مصر تشریف لے آئے۔ سیف الدین قطز نے تاتاریوں سے شکست کھا کر منتشر ہو جانے والے فوجیوں کو پناہ دینے کا اعلان کیا، چنانچہ حلب، دمشق اور فلسطین وغیرہ کے بہت سارے فوجی مصر میں آکر آپ کی فوج میں شامل ہو گئے۔ 

تاتاریوں کی طرف سے دھمکی آمیز خط

سیف الدین قطز ذو القعدۃ ۶۵۷ ھ میں حکمران بنائے گئے تھے۔ چند ماہ بعد ہی یعنی اگلے سال صفر یا ربیع الاول میں انھیں منگولوں کی طرف سے شدید اہانت اور خوفناک دھمکیوں پر مشتمل خط موصول ہوا۔تاتاریوں کی طرف سے دھمکی آمیز اور مبنی بر حقارت خط ملنے کے بعد قطز نے امرا اور کمانڈروں کا ایک مشاورتی اجلاس بلایا۔ تاتاریوں نے غیر مشروط طور پر ملک حوالے کرنے یا جنگ کی تیاری کا اعلان کیا تھا۔ الحمد للہ کسی امیر نے ملک تاتاریوں کے حوالے کرنے کی رائے تو نہ دی لیکن تمام تر دینی غیرت اور ملی حمیت کے باوجود اکثر امرا تاتاریوں پر حملہ کرنے کے حق میں نہ تھے۔ ان کی رائے تھی کہ ہم تیاری کر کے مصر ہی میں بیٹھے رہیں، اگر تاتاری حملہ کریں تو ہم ان کا مدافعانہ مقابلہ کریں۔ذہن میں رکھیے کہ یہ وہ دن تھے کہ مقولہ مشہور تھا: ’’اگر تم سے کوئی کہے کہ تاتاری شکست کھا گئے ہیں تو اس خبر کی تصدیق نہ کرنا‘‘۔ سیف الدین قطز جانتے تھے کہ اب تک تمام مسلمان ریاستوں نے تاتاریوں کے خلاف دفاعی جہاد کیا تھا۔ یعنی وہ اپنے علاقوں میں مقیم رہ کر اپنی باری کا انتظار کرتے اور تاتاریوں کے حملے کے وقت دفاع کرنے کی کوشش کرتے۔ لیکن ان میں سے کوئی کامیاب نہیں ہوا۔ وہ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ مسلمان عام طور پر خوفزدہ ہیں اور ان کے حوصلے پست ہیں چنانچہ انھوں نے مصر کی حدود سے باہر نکل کر تاتاریوں پر حملہ کرنے کی رائے کا اظہار کیا۔اس فیصلے کا ایک دینی رخ بھی تھا کہ فلسطین دشمن کے حملے کی لپیٹ میں تھا اور وہاں مدافعت کی طاقت نہ ہونے کے سبب قریبی علاقوں پر بھی جہاد فرض ہو چلا تھا۔تو اب جب مصری تاتاریوں کی طرف پیش قدمی کرتے تو اس میں صرف مصر کا دفاع نہیں بلکہ ایک شرعی فریضے کی ادائی بھی شامل ہوتی جو یقینا اللہ کی مدد کو اپنے جانب متوجہ کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہوتا۔ قطز کی اس رائے میں رکن الدین بیبرس آپ کے حامی تھے۔سیف الدین قطز نے جب دیکھا کہ ان کے امرا پیش قدمی کے بارے میں پس و پیش سے کام لے رہتے تھے۔ تو انھوں نے امرا کوتنبیہ کرتےہوئے فرمایا: يا أُمَراءَ المسلمين! لكم زمانٌ تأكلونَ أموالَ بيتِ المال وأنتم لِلغزاةِ كارهينَ وأنا مُتوَجِّهٌ إلى طاعة الله ورسوله والذَّبِّ عن عباد الله، فمن اختار منكم الجهادَ يَصْحَبْنِي ومن لم يختَرْ ذلك يرجِعْ إلى بيته، فإن الله مُطَّلِعٌ عليه وخطيئةُ حريمِ المسلمين في رقابِ المتأَخِّرين.’’اے امراے مسلمین! تم ایک زمانہ بیت المال سے کھاتے رہے ہو، اب جب کہ جہاد کا وقت آیا ہے تو اس سے جان چھڑا رہے ہو۔ میں نے تو اپنا رخ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اور مسلمانوں کی مدافعت کی جانب سیدھا کر لیا ہے۔ تم میں سے جو بھی جہاد کو اختیار کرتا ہے وہ میرے ساتھ چلے اور جو جہاد کو اختیار نہیں کرتا وہ اپنے گھر لوٹ جائے۔ بے شک اللہ اس سے باخبر ہے۔ اور یاد رکھو مسلمانوں کی پامالی حرمت کا وبال جہاد سے پیچھے رہنے والوں کی گردنوں پر ہو گا‘‘۔ یہ کہتے ہوئےسیف الدین قطز شدّتِ جذبات سے رونے لگے اور امرا کے سامنے کھڑے ہو کر کہنے لگے: يا أُمراءَ المسلمين! مَنْ لِلْإسلامِ إن لَمْ نَكُنْ نَحْنُ’’اے مسلمان سردارو ! اسلام کا اور کون حمایتی بنے گا اگر ہم نہ بنے تو؟‘‘۔یہ ایسے جادو اثر کلمات تھے کہ امرا کی چیخیں نکل گئیں۔’’ہم ہر قیمت پر تاتاریوں کا رستہ روکیں گے‘‘ ہر طرف سے آوازیں بلند ہونے لگیں۔ کئی ایک امرا نے سیف الدین قطز کی حمایت میں تقریریں کیں اور آخر کار تمام امرا منگولوں کے خلاف اقدامی جہاد کرنے پر متفق ہو گئے۔سیف الدین قطز کے تاتاریوں سے جنگ پر مصر اور فتح کے حوالے سے پر امید ہونے کی وجہ یہ بھی تھی کہ انھوں نے بہت پہلے خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی تھی اور ان سے مصر کی حکومت اور تاتاریوں کی شکست کی بشارت پائی تھی۔علامہ ابنِ کثیر نے اپنی تاریخ میں قطز کا یہ بیان نقل کیا ہے: لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِﷺفِي الْمَنَامِ وَقَالَ لِي أَنْتَ تَمْلِكُ الدِّيَارَ الْمِصْرِيَّةَ وَتَكَسِرُ التَّتَارَ’’ میں نے رسول اللہﷺ کو خواب میں دیکھا تو آپﷺ نے مجھ سے فرمایا: تم ملک مصر کے بادشاہ بنو گے اور تاتاریوں کا زور توڑو گے‘‘۔

سفیروں کا قتل 

یہاں قطز نے رکن الدین بیبرس کی رائے کے مطابق ایک عجیب فیصلہ کیا اور منگولوں کے چاروں سفیروں کو قتل کر کے ان کے سر قاہرہ میں نمایاں مقامات پر لٹکا دینے کا حکم دیا۔ اگرچہ یہ فیصلہ شریعت کی تعلیمات کے خلاف تھا لیکن دکتور علی محمد الصلابی کی توجیہ کے مطابق، قطز نے انھیں عام دشمن سمجھنے کے بجائے فساد فی الارض کا مرتکب قرار دیا جیسا کہ وہ امان دینے کے باوجود مسلمانوں کے بچوں بوڑھوں اور عورتوں کو قتل کر تے رہے۔ یا شاید وہ مسلمانوں پر کافروں کے طاری رعب کو دور کرنا چاہتے تھے یا عوام پر اپنی بے جگری ظاہر کرنا چاہتے تھے،یا بغداد میں مسلمانوں کے قتلِ عام اور اس میں ہر طرح سے انسانی قوانین کی خلاف وزی کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔ ایک توجیہ یہ بھی کی گئی ہے کہ وہ اس قدام سے تاتاریوں کے ساتھ صلح کے کسی خیال کے امکان کا بھی سدباب کر دینا چاہتے تھے تاکہ امرا اور افواج مقابلہ کرنے کے لیے یکسو ہو جائیں۔ بہرحال کسی بھی وجہ سے یہ غیر شرعی اقدام ایک نیک مسلمان بادشاہ سے سرزد ہوا۔

جنگی تیاری اور مالی مشکلات 

لشکر کی تیاری، قلعوں کی مرمت اور سامانِ حرب و ضرب کے لیے رقم کی ضرورت تھی جس سے خزانہ تہی دست تھا۔ سیف الدین قطز نے امرا اور علما و فقہا کا ایک اجلاس بلا کر ان کے سامنے یہ صورتِ حال رکھی ۔ وہ عوام سے ٹیکس وصول کرنا چاہتے تھے لیکن اس کے لیے علماو فقہا کا فتوی ضروری تھا۔ اس وقت شیخ الاسلام عز بن عبد السلام رحمہ اللہ مصر میں مقیم تھے۔آپ نے ایک عظیم الشان فتوی تحریر فرمایا جس میں انھوں نے سب سے پہلے موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر جہاد کو فرضِ عین قرار دیا۔عوام سے ٹیکس لینے کو انھوں نے دو شرطوں کے ساتھ جائز قرار دیا: پہلی تو یہ کہ خزانے میں بالکل رقم باقی نہ رہے تب عوام سے اتنا ہی ٹیکس لیا جا سکتا ہے جو لشکر کی تیاری کے لیے کافی ہو، اس سے اضافی لینا جائز نہ ہو گا۔ دوسری یہ کہ عوام سے ٹیکس اسی وقت لیا جا سکتا ہے جب کماندار اور افسران اپنا سامانِ تعیش اور آلاتِ فاخرہ بیچ کر جہاد میں لگا چکے ہوں‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک جُراَت مندانہ اور انقلابی فتوی تھا جسے سیف الدین قطز نے بھی پوری طرح تسلیم کیا۔ انھوں نے سب سے پہلے اپنے آلات ِ فاخرہ فروخت کے لیے پیش کیے۔ ان کی دیکھا دیکھی دوسرے امرا اور وزرا نے بھی اپنا سامان فروخت کو پیش کر دیا۔ بعض امرا سے کسی ریاست کے برابر سامان نکلتا گیا اور یہ حقیقت سب پر آشکار ہو گئی کہ مصر غریب نہیں ہے بلکہ اس کے پیسے پر ایک گروہِ قلیل کا قبضہ ہے۔چنانچہ فوج کی تیاری کا سامان انھی پیسوں سے تیار ہو گیا اور عوام پر ٹیکس لگانے کی ضرورت نہ رہی۔ اس اقدام سے عوام الناس میں حکومت اور فوج کی خوب پذیرائی ہوئی اور لوگ جوق در جوق فوج میں شامل ہو نے لگے۔ جگہ جگہ فوجی مشقیں شروع ہو گئیں۔قاہرہ کے باہر ایک فوجی کیمپ بنایا گیا اور اِدھر اُدھر سے فوجی دستے وہاں پہنچنے لگے۔ 

فرضیتِ جہاد کا اعلان 

کفار سے جہاد کے متفقہ فیصلے کے بعد قاہرہ اور پورے مصر میں جہاد کی منادی کرائی گئی، جگہ جگہ ’’ نکلو جہادِ فی سبیلِ اللہ اور نصرتِ دینِ رسول اللہ کے لیے ‘‘ کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ حضرت شیخ الاسلام عز بن عبد السلام رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے علماے کِرام منبروں سے فرضیتِ جہاد بیان کرنے لگے۔ وہ عوام کو دنیا سے زہد اور جنت سے رغبت کی تعلیم دیتے اور شہادت کا اجر و ثواب بیان کر کے انھیں جہاد پر نکلنے کے لیے تیار کرتے۔ حضرت خالد بن ولید، عمرو بن قعقاع، زبیر بن عوام رضی اللہ عنہم، طارق بن زیاد، موسی بن نصیر، یوسف بن تاشقین، نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی رحمہم اللہ اجمعین کے قصے عام بیان ہونے لگے۔ غزوہ ٔبدر، غزوۂ احزاب، فتحِ مکہ، جنگِ یرموک، جنگِ قادسیہ، معرکۂ حطین، معرکۂ منصورہ اور معرکۂ فارسكور کے حالات زبان زدِ عام ہو گئے۔ان نیک کوششوں سے پورے مصر میں جہادی جذبہ بیدار ہو گیا۔۶۵۸ ھ کے ماہ ربیع الاول سے لے کر ماہ رجب تک جہاد کی تیاری زور و شور سے جاری رہی۔

مصر سے خروج 

الملک المظفر سیف الدین قطز رحمہ اللہ ماہِ شعبان ۶۵۸ ھ بہ مطابق جولائی ۱۲۶۰ ءمیں اپنی فوجوں کو لے کر مصر سے نکلے۔ وہ صحراے سینا عبور کر کے حدود فلسطین میں داخل ہو کر غزہ کے بالکل نزدیک جا پہنچے ۔یہاں الملک المظفر نے اپنی فوجوں سے خطاب کیا :’’اے گروہِ مسلماناں! مسلم بستیوں پر گزرنے والے قتل و غارت گری، آتش و آہنگ اور قید و بند کی داستانیں تم نے سن رکھی ہیں۔ تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کہ جو مال و اولاد نہ رکھتا ہو۔ تم جانتے ہو تاتاری شام میں اپنے پنجے گاڑ چکے ہیں جنھوں نے دینِ اسلام کی چولیں ہلا دی ہیں۔ مجھے دینی غیرت و حمیت نے دینِ اسلام کی خدمت و مدافعت پر ابھارا ہے۔ اے بندگانِ خدا ! تم پر واجب ہے کہ جہاد کے لیے اس طرح کھڑے ہو جاؤ جیسا کہ اس کا حق ہے۔ میں بھی تم ہی میں سے ایک عام فرد ہوں۔ میں بھی اور تم بھی اپنے اس رب کے سامنے کھڑے ہیں جو سوتا تک نہیں۔ جسے کوئی ٹالنے والا ٹال نہیں سکتا اور جس سے کوئی بھاگنے والا بھاگ نہیں سکتا۔ پس اے میری قوم! سچی نیتوں کے ساتھ اللہ کے لیے جنگ کرو۔ تمھاری یہ سوداگری تمھیں خوب نفع دے گی‘‘۔ اس پر تمام لوگ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے اور ایک دوسرے کو حلف دینے لگے کہ جب تک ظلم کے یہ اندھیرے دور نہ کر لیں گے چین سے نہ بیٹھیں گے۔یہاں سیف الدین قطز نے اپنی فوج کے مقدمے پر نامور کمانڈر ركن الدين بيبرس کو متعین کیا اور انھیں غزہ کے علاقے میں قدرے آگے بھیج کر باقی لشکر کو مقدمے سے کافی فاصلے پر رکھا تاکہ دیکھنے میں مقدمہ ہی پورا لشکر معلوم ہو۔ اس میں مخالف فوج یا اس کے جاسوسوں کو اندھیرے میں رکھنا مقصود تھا۔

غزہ میں تاتاریوں کا ایک لشکر مسلمانوں کو نظر آیا۔ رکن الدین بیبرس کی قیادت میں مصری فوج کے مقدمے سے ان کا ٹکراؤہوا جس میں تاتاریوں نے کچھ نقصان اٹھا کر راہ فرار اختیار کی۔ اس فتح کی خبر سے مصری فوجوں اور فلسطین کے مسلمانوں کے حوصلے بلند ہو گئے۔اس معرکے کے بعد بیبرس واپس بقیہ لشکر سے جا ملے۔ تاتاریوں کو اپنی موجودگی کا احساس دلا نے کے بعد مسلمان لشکر یہاں سے شمال کی جانب روانہ ہوا اور بحر ِابیض کے کنارے کنارے چل کر، یافا اور حیفا سے ہوتے ہوئے عکا کے بالکل نزدیک پہنچا اور کچھ دن کے لیے یہاں ڈیرے ڈال لیے۔

صلیبیوں کے ساتھ سفارت کاری

مسلمانوں کا یہ شہر ڈیڑھ سو سال سے صلیبیوں کے قبضے میں تھا جن کے ساتھ ان دنوں مسلمانوں کی صلح چل رہی تھی۔ سیف الدین قطز کو یہاں کے صلیبیوں کی طرف سے خطرہ محسوس ہوتا تھا کہ کہیں یہ تاتاریوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف جنگ میں نہ کود پڑیں۔ اسی خطرے کے سدباب کے لیے وہ یہاں پہنچے تھے۔ سیف الدین نے مسلمان امرا کا ایک وفد عکا کے صلیبی امرا کے پاس بھیجا جس کے بعد دو طرفہ وفود اور ضیافت اور تحائف کا تبادلہ ہوا۔ صلیبیوں نے اس جنگ میں مسلمانوں کو اپنی مدد کی پیش کش بھی کی۔ قطز نے کہا کہ ہمیں آپ کی مدد کی حاجت تو نہیں ہے لیکن ہم آپ سے غیر جانبداری کی توقع رکھتے ہیں۔ صلیبیوں نے غیر جانبدار رہنے کی یقین دہانی کرائی اور سابقہ معاہدات پر دونوں طرف سے اطمینا ن کا اظہار کیا گیا۔ مسلمان وفد نے عکا کی حالتِ زار کو دیکھ کر اطمینان کا اظہار کیا کہ اس وقت صلیبی اگر مسلمانوں کے خلاف ہونا بھی چاہیں تو ان کے حالات اس قابل نہیں ہیں بلکہ بعض امرا نے قطز کو مشورہ دیا کہ اگر ہم عکا پر حملہ کر دیں تو آسانی اپنا مقبوضہ شہر آزاد کرا سکتے ہیں۔ لیکن سیف الدین نے صاف کہا کہ ہم معاہدہ شکنی نہیں کریں گے‘‘۔

عینِ جالوت میں نزول

عکا کے عیسائیوں کی جانب سے مطمئن ہونے کے بعد قطز اپنے لشکر کو لے کر چلے اور عینِ جالوت کے مقام پر ڈیرے ڈال دیے ۔یہ ایک وسیع میدان تھا ۔ جو تین اطراف سے ٹیلوں سے گھرا ہوا تھا جب کہ ایک یعنی شمالی سمت اس کی بالکل کسی صحن کی طرح کھلی ہوئی۔ اطراف کے ٹیلوں پر جھاڑیاں اور درخت بھی موجود تھے۔ سیف الدین قطز نے ان درختوں کو کمین گاہ کے طور استعمال کرنے کا ارادہ کیا۔ انھوں نے مقدمۃ الجیش کو میدان کی شمالی سمت میں ٹھیرایا اور بقیہ فوج کو کمین گاہوں میں چھپا دیا۔

فلسطینی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد میدان میں آ موجود ہوئی۔ یہ سیف الدین قطز اور اس کی افواج کے خلوص و اخلاص اور عزم و ارادے کی برکت تھی کہ خواب غفلت میں ڈوبی قوم بیدار و ہشیار ہو گئی ۔ یہ لوگ کوئی ماہر فوجی نہ تھے لہذا انھیں فوجیوں کی خدمت جیسے کام سونپے گئے۔ان میں ایک بڑی تعداد بوڑھوں بچوں اور عورتوں کی بھی تھی جو مسلمانوں کا حوصلہ بڑھانے آئے تھے۔ یہ ۲۴ اور ۲۵ کی درمیانی رات تھی۔ جو آخری عشرے کی طاق رات ہونے کی وجہ سے امکانی طور پر لیلۃ القدر بھی تھی۔اس رات چشمِ فلک نے وہ نظارہ دیکھا جو دورِ صحابہ میں وہ دیکھا کرتی تھی کہ مسلمان امرا اور عام لشکری عبادت اور دعا و مناجات میں رات بھر مشغول رہے۔

معرکے کا دن 

اگلے دن ۲۵ رمضان کو تاتاریوں کا لشکر شمالی سمت سے میدان میں داخل ہو کر مسلمانوں کے سامنے صف آرا ہوا۔ نمازِ فجر سے فارغ ہونے کے بعد طے شدہ ترتیب کے مطابق مسلمانوں کے مقدمے نے صف بندی شروع کی۔ اس مقدمے کو بہت سارے دستوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ہر ایک دستہ الگ رنگ کا جھنڈا اٹھائے ہوئے تھا اور اپنی باری پر صف میں داخل ہوتا تھا۔ جس سے تاتاری یہ سمجھے کہ مسلمانوں کا لشکر بہت ساری حکومتوں یا علاقوں کی فوجوں پر مشتمل ہے۔ جب سارا مقدمہ میدان میں اتر چکا تو تاتاری اسے پورا لشکر سمجھ بیٹھے اس لیے کہ غزہ کے معرکے میں بھی ان کا ٹاکرا اتنے ہی لشکر سے ہوا تھا۔ جب صف بندی مکمل ہو گئی تو قلیل لشکر دیکھ کر منگول حسبِ عادت چیختے چلاتے ہوئے بہت زور سے مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے۔ بیبرس اور ان کے فوجیوں نے بہت سکون کے ساتھ جم کر ان کا مقابلہ کیا اور بالکل خوف زدہ نہ ہوئے۔ جنگ کا نظارا کرنے والے فلسطینی عوام تکبیر کے نعروں کے ساتھ، اللہ کی جناب میں مجاہدین کے ثبات اور ان کی حفاظت و نصرت کے لیے بلند آواز میں دعائیں کیا جارہے تھے۔ مجاہدین کے نعروں سے میدان گونج رہا تھا۔مسلمانوں کو ثابت قدم دیکھ کر تاتاریوں نے مزید فوج میدانِ جنگ میں اتارکر زور کے حملے شروع کیے اور گھمسان کی لڑائی شروع ہو گئی۔اب منصوبے کے مطابق رکن الدین بیبرس نے منظم انداز میں پسپائی اختیار کرنا شروع کی۔ تاتاری اپنی قوت کے گھمنڈ اور گزشتہ شکست کا بدلہ لینے کے عزم سے اس قدر سرشار تھے کہ انھیں اس کا اندازہ ہی نہیں ہوا کہ یہ مسلمانوں کی کوئی چال بھی ہو سکتی ہے۔ پس وہ آگے بڑھ بڑھ کر حملے کرنے لگے اور مسلمان دفاعی انداز کی جنگ کرتے ہوئے منظم انداز میں پسپا ہوتے رہے یہاں تک کہ تاتاریوں کا پورا لشکر دور اندر تک میدان میں داخل ہو گیا۔اب سیف الدین قطز نے اپنی بقیہ فوج کو میدان میں داخل کیا جس نے تاتاریوں کو گھیرے میں لینے کی کوشش کی۔ لیکن تاتاریوں کی طرف سے خوفناک جنگ جاری رہی یہاں تک کہ ایک موقعے پر مسلمانوں کا میسرہ ان کے دباؤ میں آ گیا اور اس کی صفیں ٹوٹنے لگیں۔ یہ لڑائی کا فیصلہ کن مرحلہ تھا۔ جہاں مجاہد اسلام سیف الدین قطز نے اپنا خود اتار کر زمیں پر پٹخا اور تین دفعہ وَا إسلاماه ’’ ہاے اسلام مٹ گیا ‘‘ کی آواز بلند کی اور پھر میدان میں کود پڑے۔وہ با آواز بلند یہ دعا کر رہے تھے: ’’اے اللہ! ان تاتاریوں کے خلاف اپنے بندے قطز کی مدد فرما‘‘۔ بادشاہ کو اس شان سے میدان میں کودتے دیکھ کر مسلمان فوجیوں کی پامردی میں ڈھیروں اضافہ ہوا اور وہ جم کر لڑنے لگے۔ ایک موقعے پر قطز کا گھوڑا ہلاک ہو گیا تو نیا گھوڑے آنے تک وہ پاپیادہ لڑتے رہے۔ رکن الدین بیبرس، فارس الدین اَقَطائی الصغیر اور ملک المنصور نے اپنے بادشاہ کے ساتھ مل کر عظیم لڑائی کی۔آخر کار تاتاریوں کا زور ٹوٹ گیا اور ان کی صفیں بکھرنے لگیں اور لشکرِ کفار پوری طرح گھیرے میں آ گیا۔ اب مسلمان انھیں چن چن کر قتل کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ مسلمان منگول کمانڈر کتبُغا کو گھیرنے میں کامیاب رہے اور اسے اس کے بیٹوں سمیت واصل جہنم کر دیا۔ (ایک روایت کے مطابق کتبغا کو قید کر کے بعد میں قتل کیا گیا۔ واللہ اعلم)منگولوں کا تقریباً آدھا لشکر قتل کیا گیا اور بہت سارے قیدی بنائے گئے۔ اور بہت سارے جان بچا کر میدان سے بھاگنے میں بھی کامیاب رہے۔الملک المظفر سیف الدین قطز، جب پوری طرح ظفر مند ہو چکے تو سجدہ شکر بجا لائے، اپنے گال زمین پررگڑے اور اس کے بعد دو رکعت نماز ادا کی۔

فتح کے بعد

مسلمان سپاہی مالِ غنیمت اور زخمیوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہو گئے تو سلطان نے قیدیوں کا معائنہ کیا۔ قیدیوں میں تاتاریوں کا حلیف، مسلمانوں کا غدار اور سلطان صلاح الدین کے بھائی الملک العادل کا پوتا الملك السعيد حسن ابن العزیز بھی تھا ۔ جسے سیف الدین قطز کے حکم سے قتل کیا گیا۔ فتح کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔مسلمان عوام جگہ جگہ اٹھ کھڑے ہوئے اور تاتاریوں اور صلیبیوں کو قتل کرنے لگے، بعض جگہ عوام نے تاتاریوں کے حلیف مسلمانوں کو قتل کر کے ان کی منافقت کی سزا دی۔فتح کے بعد دمشق والوں کو فتح کی بشارت پر مبنی خط لکھ کر مسلمانوں کی فتح اور تاتاریوں کی ہزیمت کی خبر سنائی گئی۔یہ خبر سن کر یہاں کے سوئے ہوئے مسلمان جاگ اٹھے اور ڈھونڈ ڈھونڈ کو تاتاریوں کو قتل کرنے لگے۔ تاتاری جان بچا نے کے لیے منھ چھپاکر بھاگ رہے تھے اور بعض موت سے بچنے کے لیے ہتھیار پھینک کر قیدی بننا منظور کرتے۔ تاتاریوں کے قبضے کے دوران دمشق کے عیسائیوں نے مسلمانوں پر بہت ظلم کیے تھے۔ لہذا مسلمان عوام نے ان کی اچھی طرح خبر لی اور کئی ایک کو قتل کیا۔ ۳۰ رمضان کو جب سیف الدین قطز اپنی فوج کے ساتھ دمشق میں پہنچے تو وہاں کوئی تاتاری باقی نہ بچا تھا۔ دمشق کے مسلمان مرد عورتوں اور بچوں کا سیلاب آپ کے استقبال کو امڈ آیا تھا۔ اگلے دن قطز نے عید الفطر دمشق میں ادا کی یہ مسلمانوں کے لیے دہری خوشی کا موقع تھا۔لوگ ایک دوسرے کو عید کے ساتھ فتح اور آزادی کی مبارکباد دے رہے تھے۔ مساجد میں قطز اور ان کی فوجوں کے لیے خاص طور پر دعاؤں کا اہتمام کیا گیا۔یہاں سیف الدین قطز نے رکن الدین بیبرس کو ایک لشکر دے کر بھیجا تاکہ وہ بقیہ شامی علاقوں کو تاتاریوں کے ناپاک وجود سے پاک کر سکیں۔ یہ راستے میں بھاگتے ہوئے تاتاریوں کو قتل یا گرفتار کرتے اور مختلف علاقوں میں قید مسلمانوں کو آزاد کرتے ہوئے حمص اور پھر حلب تک جا پہنچے۔

سیف الدین قطز دمشق میں رک کر ضروری انتطامات کو دیکھتے رہے۔ یہاں تاتاریوں کے دوست، ابن الزكی قاضی تھے۔ ان کو معزول کر کے قاضی نجم الدين ابو بكر بن السنی کو دمشق کا قاضی بنایا گیا۔ امیر اشرف الايوبی اگرچہ تاتاریوں کا دوست تھا لیکن اس نے اپنے قصور کا اعتراف کیا تو سیف الدین قطز نے اسے معاف کر کے حمص کا والی بنا دیا۔موصل کا والی بدر الدين لؤلؤ تاتاریوں کا مشہور دوست اور مسلمانوں کا غدار تھا جو کچھ عرصہ قبل فوت ہو چکا تھا۔ اس کے بیٹے علاؤ الدين نے قطز کی فرمان برداری اور مسلمانوں سے وفاداری کا عہد کیا تو اسے حلب کا والی بنا دیا گیا۔ مسلمانوں کی ہیبت اور رعب و دبدبہ لوٹ آیا۔ ہلاکو خان ایران کے علاقے تبریز میں مقیم رہا لیکن اس نے دوبارہ شام کی طرف چڑھائی کا ارادہ نہیں کیا ۔البتہ اپنے ایک کمانڈر کو اس نے حلب کی طرف روانہ کیا جس نے کچھ لوٹ مار مچائی لیکن مملوک فوج کے آنے کی اطلاع پا کر مقابلہ کیے بغیر بھاگ نکلا۔

۲۶ شوال کو آپ نے قاہرہ واپسی کا ارادہ کیا تو ۶۴۸ھ والی، الملک الصالح نجم الدین ایوب کی متحدہ ریاست مصر بغیر کسی مسلمان کا خون بہائے قائم ہو چکی تھی ۔ یہ انقلاب پندرہ ماہ کی قلیل مدت  ذو القعدة ۶۵۷ھ سے شوال ۶۵۸ھ  تک) میں صرف جہاد فی سبیل اللہ کی برکت سے ظہور پذیر ہوا تھا۔الملک المظفر سلطان سیف الدین قطز رحمہ اللہ کے بعد ۶۵۹ ہجری میں ملک الظاہر رکن الدین بيبرس رحمہ الله حکمران بنے جنھوں نے کچھ عرصے میں فلسطین، شام اور ایشیاے کوچک کے کئی شہر صلیبیوں سے آزاد کر ا لیے اور عظیم مملوک سلطنت وجود میں آ گئی جو اگلے اڑھائی سو سال تک عالمِ اسلام کی محافظ بن کر کھڑی رہی۔

اِحیاے خلافت 

 مملوکوں کا عظیم کارنامہ بغداد میں نابود ہونے والی خلافتِ عباسیہ کو مصر میں زندہ کرنا ہے۔ سلطان بیبرس کو دمشق کے گورنر کی طرف سے اطلاع ملی کہ سقوطِ بغداد کے موقعے پر بچ نکلنے والے آخری خلیفہ،مستعصم باللہ کے چچا اور ان سے پچھلے خلیفہ المستنصر بالله کے بھائی احمد ابن الظاہر بن الناصر العباسی ہمارے رابطے میں آ گئے ہیں۔ سلطان نے گورنر کو حکم دیا کہ انھیں عزت و احترام کے ساتھ قاہرہ بھیج دیا جائے۔ جب وہ مصر میں تشریف لائے تو سلطان بیبرس نے پاپیادہ ان کا استقبال کیا اور ایک عظیم الشان محفل کا انعقاد کیا۔ جس میں اعیانِ سلطنت اور فقہاے ملت موجود تھے۔ جب قاضی القضاۃ قاضی تاج الدین نے احمد بن ظاہر کے عباسی اور خاندانِ خلیفہ سے ہونے کی تسلی کر لی تب پہلے انھوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کی۔ خلیفہ نے اپنے بھائی کا لقب المستنصر بالله اپنے لیے اختیار کیا۔ اس کے بعد سلطان بیبرس نے آپ کے ہاتھ پر ’’ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ پر عمل، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور جہاد فی سبیل اللہ کی پابندی، مال مطابق حق وصول کرنے اور مستحق پر خرچ کرنے‘‘ کی بیعت کی۔ اس کے بعد، سلطان العلماء شیخ الاسلام عز بن عبد السلام نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اس کے بعد دوسرے اکابر نے بیعت کی۔ بعد میں پوری سلطنت ممالیک میں خلیفہ احمد المستنصر باللہ دوم کی بیعت کو فروغ دیا گیا اور آپ کے نام کا خطبہ اور آپ کے نام کا سکہ جاری کیا گیا۔ سلطان بیبرس کو خلیفہ کی طرف سے سند و خلعت حکمرانی جاری کی گئی اگرچہ یہ ایک علامتی خلافت تھی لیکن اس کی برکت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ عباسی خلافت کا یہ سلسلہ ۹۲۳ھ تک جاری رہا۔ تا آنکہ آ خری عباسی خلیفہ المتوکل علی اللہ سلطان سلیم اول  عثمانی کے حق میں خلافت سے دست بردار ہو گئے جہاں سے سلطنتِ عثمانیہ کا سلسلہ شروع ہوا۔

کتابیات

نزهة الأنام في تاريخ الإسلام لابن دُقْماق (المتوفى: 809 هـ)، التتار من البداية إلى عين جالوت، راغب السرجاني

السلوك لمعرفة دول الملوك، المقريزي (المتوفى: 845ھ)سیف الدین قطز و معركة عین جالوت للصلابي

الأیوبیون والممالیک، دکتور قاسم عبده لبداية والنهاية أبو الفداء بن كثير (المتوفى: 774ھ)

لرننگ پورٹل