﴿وَالَّذِینَ إِذَا ذُکِّرُوا بِاٰیٰتِ رَبِّهِم لَم یَخِرُّوا عَلَیهَا صُمًّا وَّعُمیَانًا﴾
’’اور جب انھیں اپنے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ ان پر بہرے اور اندھے بن کر نہیں گرتے‘‘۔
تفسیر وتوضیح
سورۃ الفرقان میں عباد الرحمٰن یعنی اللہ تعالیٰ کے مخصوص اور مقبول بندوں کے ان اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ جن سے متصف ہو کر کوئی شخص حق باری تعالیٰ کے خاص اور ممتاز بندوں یعنی ’’عباد الرحمٰن‘‘ میں شامل ہوسکتا ہے۔ آیت کے زیر مطالعہ حصے میں ایک مزید وصفِ خاص کا ذکر ہے اور وہ ہے ’’اللہ تعالیٰ کی آیاتِ مبارکہ سے اثر پذیری یعنی اللہ کی آیات سن کر ان کے ایمان و یقین اور تعمیل و اطاعت میں اضافہ ہو جانا‘‘۔
خرور یعنی گرنے کا مفہوم:
﴿وَالَّذِینَ إِذَا ذُکِّرُوا بِاٰیٰتِ رَبِّهِم لَم یَخِرُّوا عَلَیهَا صُمًّا وَّعُمیَانًا﴾ ’’اور جب انھیں اپنے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ ان پر بہرے اور اندھے بن کر نہیں گرتے‘‘ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کیشان یہ ہوتی ہے کہ جب انھیں ان کے پروردگار کی آیات کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے، تو وہ ان آیات پر اندھے بہرے بن کر گرتے نہیں، یعنی غافل اور بے بصیرت لوگوں کی طرح ایسا رویہ اختیار نہیں کرتے کہ گویا انھوں نے سنا اور دیکھا ہی نہیں مفسرین اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں: لَمْ يَتَغَافَلوا عنها، كَأَنهُم صُمٌّ لَمْ يَسْمَعُوها وعُمْيٌ لمْ يَبْصُروها بَلْ وَعَتْها قلوبُهم وتفتَّحَتْ لها بَصَائِرُهم فَخَرُّوا للهِ ساجِدينَ مُطيعينَ(التفسير الميسر) ’’عباد الرحمٰن کو جب آیات سے نصیحت کی جاتی ہےتو وہ ان آیات کی جانب سے غفلت کا مظاہرہ نہیں کرتے، کہ خدا نخواستہ وہ بہرے بن جاتے ہیں اور انھیں سنتے نہیں اور اندھے بن کر انھیں دیکھتے نہیں بلکہ ان کے دل انھیں سمجھتے ہیں اور ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور وہ اللہ کے حضور سجدے اور اطاعت میں گر جاتے ہیں‘‘۔
مندرجہ بالا تفسیر سے بھی واضح ہوتا ہے اور علامہ زمحشریرحمہ اللہ نے اس کی تصریح بھی کی ہے کہ آیتِ مبارکہ میں گرنے کا لفظ اپنے لغوی معنی میں نہیں بلکہ محاورے کے طور پر استعمال ہوا ہے ۔ علامہ فرماتے ہیں: لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْها ليس بنفيٍ لِلْخُرُورِ وإنما هو إثباتٌ له ونفيٌ لِلصَّمَمِ وَالْعَمْيِ كما تقول: لايلقاني زيدٌ مُسَلِّمًا هو نفيٌ لِلسّلامِ لا لِلِّقاء (الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل، ج:۳، ص:۲۹۵) ’’یہاں لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْها میں خرور یعنی گرنے کی نفی نہیں ہو رہی، بلکہ اس کا اثبات ہو رہا ہے، نفی یہاں بہرے پن اور اندھے پن کی ہو رہی ہے۔ مثلاً آپ کہتے ہیں: لايلقاني زيد مسلما ، اس میں ملاقات کا انکار نہیں بلکہ سلام کا انکار ہے‘‘ ۔ پس آیت کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے ایسے نہیں ہیں جو اللہ کی آیات سن کر ان کی طرف متوجہ نہ ہوں بلکہ سمیع وبصیرانسان کی طرح ان کا گہرا اثر قبول کرتے ہیں اور احکامِ الہیہ کے سامنے خود کو گرا بلکہ بچھا دیتے ہیں اور ان کی پیروی اختیار کرتے ہیں۔ ایک جگہ اللہ تعالی نے اسی طرزِ عمل کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا: ﴿أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ﴾ (الحدید:۱۶) ’’کیا اہلِ ایمان کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل جھک جائیں ، اللہ کی یاد اور اس حق کے لیے جو نازل ہوا‘‘ قرآن کریم میں ایک اور جگہ مومنین کی یہی صفت یوں بیان کی گئی ہے: ﴿إنَّمَا المُؤمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللّٰهُ وَجِلَت قُلُوبُهُم وَإِذَا تُلِیَت عَلَیهِم اٰیٰتُه زَادَتهُم إِیمَانًا وَّعَلٰی رَبِّهِم یَتَوَکَّلُون﴾ (الانفال: 2) ’’مومن تو وہ لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور ترقی دیتی ہیں اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں‘‘۔
احکامِ خداوندی کی تعمیل بصیرت کے ساتھ
پچھلی تفصیل سے ظاہر ہے کہ اس آیت میں ایک تو یہاں مومنین کے عمومی رویے کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اہلِ کفر کی طرح آیاتِ الٰہیہ کی تعمیل سے انکار اور ان کے مقابل سرکشی نہیں کرتے۔ بلکہ وہ اللہ کی آیات کی اطاعت و پیروی کرتے ہیں۔ ان آیات میں اہلِ ایمان کے ایک خاص وصف کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے وہ اندھوں بہروں کی طرح بغیر سوچے سمجھے اور بغیر دیکھے بھالے آیتوں پر عمل کی کوشش نہیں کرتے بلکہ وہ پورے تَیَقُّظ اور احساسِ ذمے داری کے ساتھ ان کی حکمتوں میں غور کرتے ہیں اور سوچ سمجھ کر ان کی پیروی کرتے ہیں۔ درحقیقت اسلامی تعلیمات کی اساس وبنیا د ایمان ویقین پر استوار ہے جو اپنے اعتدال، اپنے فطری محاسن وخوبیوں کی بدولت انسانی ذہن وفکر کو اپیل کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روشن ضمیر اور پاک باطن نفوس جن کے اندر حق کی قبولیت کی استعداد ہوتی ہے، وہ پوری بصیرت کے ساتھ احکامِ الہٰیہ سن کر ان کا گہرا اثر قبول کرتے ہیں اور انھیں پوری توجہ سے سنتے اور حرزِ جان بناتے ہیں۔
اس آیتِ مبارکہ سے یہ بات بھی پتا چلتی ہے کہ تحقیق وجستجو کا یہ حکم دینی اور دنیوی معاملات میں یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ یہ حکم جس طرح احکامِ الٰہیہ اور امورِ دین میں ضروری ہے کہ یہاں بغیر تحقیق کے اندھے بہروں کی طرح امورِ دین پر گرنا مذموم عمل ہے، اسی طرح دنیوی امور میں بھی یہی حکم ہوگا۔کیونکہ دین کے معاملات پر عمل کرنا واجب اور مقدم ہے، تو جب وہاں یہ کہا گیا کہ بغیر تحقیق کے عمل نہیں کرنا چاہیے تو دنیوی معاملات میں عمل کوئی فرض واجب تو ہے نہیں، اس لیے یہاں بطریقۂ اولیٰ جلد بازی سے بچنا چاہیے۔ لہٰذا اس آیتِ مبارکہ میں ایک بہترین حکمت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ کسی کام کی حقیقت پر غور کیے بغیر اسے انجام نہیں دینا چاہیے اور اسی طرح کسی شخص کے خوش نما نعروں پر جب تک اس کی حقیقت کا پورا پورا علم نہ ہو اندھا دھند اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ دین کا معاملہ ہو یا دنیا کا بغیر تحقیق اس پر آنکھیں بند کر کے عمل پیرا نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہر معاملے میں اس بات کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ جب تک کسی دینی یا دنیوی امر کا پورا علم نہ ہو اس پر بے بصیرتی کے ساتھ گرنا نہیں چاہیے۔ یہی اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کے اوصافِ حمیدہ اور بامقصد زندگی کے آداب میں سے ہے، جیسا کہ حضرت شعبی رحمہ اللہ نے فرمایا: ولا ينبغي للمؤمن أن يكون إمَّعَةً بل يكون على بصيرة من أمره ويقين واضح بين. (ابنِ كثير، ج:۶، ص:۱۱۹) ’’مومن کےلیے یہ جائز نہیں ہے کہ بے سمجھے کسی کام میں لگ جائے بلکہ اس پر لازم ہے کہ اپنے کام سے پوری طرح باخبر ہو اور بصیرت کے ساتھ اسے بجا لائے‘‘۔
احکامِ دین کو اسلاف کی تعلیمات کی روشنی میں سمجھنا ضروری ہے
آیتِ مبارکہ میں بیان کردہ ’’سوچ و سمجھ‘‘ کے وصف کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اہلِ ایمان اپنے ہی ’’سوچ بچار‘‘ کو دین کی سمجھ و تشریح کا ماخذ سمجھ کر اسلاف امت سے الگ راستہ اختیار کر لیں ۔ بلکہ فہمِ آیات و احکام میں اسلاف کے طریق پر چلنا بھی اسی حکمت و بصیرت کا تقاضا ہے جس کا ذکر ما قبل ہو چکا ۔ اس لیے کہ نقلی و عقلی دلائل سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو بغیر احادیث کے سمجھا نہیں جا سکتا اور قرآن و حدیث کا وہی فہم لائقِ اعتبار ہے جو اجماع و تواترِ امت سے ثابت ہو۔لہذا احکامِ دین کو صرف اپنے مطالعے سے سمجھنا اور پھراپنی رائے پر اصرار کرنا درست طرزِ عمل نہیں ہے، بلکہ اسلاف کی تشریحات کی روشنی میں سمجھنا اور پھر ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔ مفتیٔ اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ مذکورہ آیت کی تفسیر کے ضمن تحریر فرماتے ہیں: ’’آیاتِ مذکورہ میں جس طرح اس امر کی سخت مذمت ہے کہ آیاتِ الٰہیہ کی طرف توجہ ہی نہ دیں، اندھے بہروں کا سا معاملہ کریں، اسی طرح اس کی بھی مذمت ہے کہ توجہ تو دیں اور عمل بھی کریں مگر بے سمجھے بے بصیرتی کے ساتھ اپنی رائے سے جس طرح چاہیں عمل کرنے لگیں۔ ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے ابنِ عون رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے حضرت شعبی رحمہ اللہ سے پوچھا کہ اگرمیں کسی مجلس میں پہنچوں جہاں لوگ سجدے میں پڑے ہوں اور مجھے معلوم نہیں کہ کیسا سجدہ ہے تو کیا میں بھی ان کے ساتھ سجدے میں شریک ہو جاؤں۔ حضرت شعبی رحمہ اللہ نے فرمایا نہیں۔ مومن کےلیے یہ درست نہیں ہے کہ بے سمجھے کسی کام میں لگ جائے بلکہ اس پر لازم ہے کہ بصیرت کے ساتھ عمل کرے۔ جب تم نے وہ آیتِ سجدہ نہیں سنی جس کی بنا پر یہ لوگ سجدہ کر رہے ہیں اور تمھیں ان کے سجدے کی حقیقت بھی معلوم نہیں تو اس طرح ان کے ساتھ سجدے میں شریک ہونا جائز نہیں۔ اس زمانے میں یہ بات تو قابلِ شکر ہے کہ نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقے میں قرآن پڑھنے اوراس کے سمجھنے کی طرف کچھ توجہ پیدا ہوئی ہے اور اس کے تحت وہ بطورِ خود قرآن کا ترجمہ یا کسی کی تفسیر دیکھ کر قرآن کو سمجھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں مگر یہ کوشش بالکل بے اصول ہے۔ اس لیے قرآن کو صحیح سمجھنے کے بجائے بہت سے مغالطوں کے شکار ہوجاتے ہیں۔ اصول کی بات یہ ہے کہ دنیا کا کوئی معمولی سے معمولی فن بھی نری کتاب کے مطالعے سے کسی کو معتد بہ نہیں حاصل ہوسکتا جب تک اس کو کسی استاد سے نہ پڑھے۔ معلوم نہیں قرآن اور علومِ قرآن ہی کو کیوں ایسا سمجھ لیا گیا ہے کہ جس کا جی چاہے خود ترجمہ دیکھ کر جو چاہے اس کی مراد متعین کرے۔ یہ بے اصول مطالعہ جس میں کسی ماہر استاد کی رہنمائی شامل نہ ہو، یہ بھی آیاتِ الٰہیہ پر اندھے بہرے ہوکر گرنے کےمفہوم میں شامل ہے‘‘ ۔ (معارف القرآن، ج:۶، ص: ۵۱۰) چونکہ لوگ نئی چیزوں کی طرف لپکتے ہیں، اس لیے آج کل بعض لوگ دانشور بن کر مختلف خوش نما عنوانات کے تحت دینی امور کے متعلق خود ساختہ آرا پیش کرتے ہیں، جس کی وجہ سے نوجوان نسل انھیں امت کا مسیحا سمجھ کر ان کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔لہذا اس آیتِ مبارکہ سے شاذ اور نادر آرا سے بچنے اور اپنی روایت سے جڑے رہنے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔