لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

مدیر
ماہنامہ مفاہیم، کراچی

رمضان میں صدقہ و خیرات کی کثرت

اللہ تعالی کے بے پایاں احسانات ہم پر جاری و ساری ہیں جو اللہ کی جود و عطا کا مظہر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ سخی رسول اللہ ﷺ ہیں۔ ایک روایت میں آتا ہے: «اللَّهُ تَعَالَى أَجْوَدُ جُودًا ثُمَّ أَنَا أَجْوَدُ بَنِي آدَمَ» (مشكاة المصابيح) ’’اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ سخی ہیں، پھر اس کے بعد میں تمام بنی آدم سے بڑھ کر سخی ہوں ‘‘ ۔ یہی بات حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے، وہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں فرماتے ہیں: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ القُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَجْوَدُ بِالخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ المُرْسَلَةِ» (متفق علیہ) ’’رسول اللہ ﷺ لوگوں کو خیر پہنچانے میں سب لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے اور ماہِ رمضان میں آپ زیادہ سخی ہو جایا کرتے تھے جب کہ حضرت جبریل علیہ السلام آپ سے ملاقات کرتے تھے۔ اور وہ ہر رات آپ ﷺ سے ملا کرتے تھے اور آپ کو قرآن کا دور کراتے تھے، پس پھر رسول اللہ ﷺ سخاوت اور فیض رسانی میں چلتی ہوا سے بھی زیادہ تیز ہو جایا کرتے تھے ‘‘۔رسول اللہ ﷺ کی ابتدائی سخاوت بھی سب لوگوں سے بڑھ کر تھی لیکن آپ کی اضافی سخاوت جو رمضان میں ظہور پذیر ہوتی تھی وہ جو چلتی ہوا سے بھی تیز تھی ۔ رمضان کی سخاوتِ مزید کی وجہ کی جانب ایک اشارہ اس روایت میں پایا جاتا ہے کہ یہ اس دورۂ قرآنی کے سبب تھا جو آپ ﷺ جبریل علیہ السلام کے ساتھ مل کر کیا کرتے تھے۔

اس وقت ہم رمضان المبارک میں ہیں ۔ ہم یقیناً قرآنِ کریم کی سماعت اور اس کی درس و تدریس میں مشغول ہیں تو دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہم میں ’’سخاوتِ نبوی‘‘ کا کوئی عشر ِعشیر پیدا ہوا کہ نہیں ۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: أُحِبُّ للرجلِ الزیادةَ بالجودِ في شهرِ رمضانَ اقتداءً برسول الله ﷺ ، ولحاجةِ الناسِ فيه إلی مصالحِهم (لطائف المعارف) ’’میں لوگوں کے لیے پسند کرتاہوں کہ وہ رمضان میں سخاوت کا مظاہرہ کریں ، رسول اللہ ﷺ کی پیروی کے سبب اور اس لیے بھی کہ رمضان میں لوگوں کو سامان ِ ضرورت کی حاجت بھی ہوتی ہے ‘‘۔

رمضان کی سخاوت کا مشہور و معروف طریقہ تو افطار کی ضیافت ہے۔ احادیث میں افطار کرانے کی فضیلت نقل ہوئی البتہ آج کل اسے سماجی یا کاروباری تعلقات اور میل ملاپ کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے ۔ اس صورت میں اجرو ثواب کا انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن جس چیز کی جانب توجہ مبذول کرانا مقصود ہے کہ اس طرح کی افطار پارٹیوں میں غریب و مسکین لوگوں کو بھی ضرور شامل کرنا چاہیے جو نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے ۔حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ روزہ رکھتے توکسی مسکین کے بغیر افطار نہیں کرتے تھے اور بسااوقات اپنا کھانا بھی مساکین کو دے دیتے۔(لطائف المعارف) حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ مسجد میں کھانا رکھوا دیتے اور فرماتے کہ یہ مسجد میں رک کر مشغولِ عبادت،مسافر اور حاجت مند کے لیے ہے ‘‘۔ (فصل الخطاب فی الزہدوالرقاق والآداب، محمد نصر الدین محمد عویضہ) سلف کے بارے میں آتا ہے کہ وہ بلا بلا کر مساکین کو افطار میں شریک کیا کرتے تھے تو ہمیں افطار کی دعوتوں میں مساکین کی شرکت کا خیال رکھنا چاہیے ‘‘۔

افطار کی دعوتوں کا ایک جدید طریقہ ’’افطار پیکیج‘‘ ہے ۔یعنی افطار کا سامان پیک کرکے ضرورت مند لوگوں تک پہنچا دیا جائے۔ موجودہ حالات میں اس کے اہتمام کی بھی بہت ضرورت ہے۔رمضان میں سخاوت کی ایک صورت راشن کی فراہمی ہے۔ ہوش رُبا مہنگائی کے اس عالم میں کہ انسان کی بہت بنیادی غذائی ضروریات بھی اتنی مہنگی ہو گئیں کہ مساکین کی پہنچ سے دور ہو گئیں تو اس کا اہتمام بھی کرنا چاہیے۔ نبیٔ اکرم ﷺ نے رمضان المبارک کو «شَهْرُ الْمُوَاسَاة» یعنی ہمدردی کا مہینا بھی قرار دیا ہے۔تو ہماری ہمدردی کا مستحق و ہ سفید پوش طبقہ ہے جو مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے ۔ہمیں وہ حدیثِ قدسی یاد رکھنا چاہیے جس کے مطابق اللہ تعالیٰ بندے سے سوال کرے گا: يَا ابْنَ آدَمَ اسْتَطْعَمْتُكَ فَلَمْ تُطْعِمْنِي ’’اے بندے! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا تو نے مجھے کھلایا نہیں ہے‘‘ ۔بندہ کہے گا: اے میرے رب! میں تجھے کیسے کھلاتا؟ تُو تو سب جہانوں کا رب ہے۔ اللہ فرمائے گا: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّهُ اسْتَطْعَمَكَ عَبْدِي فُلَانٌ، فَلَمْ تُطْعِمْهُ؟ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ أَطْعَمْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي ’’کیا میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا نہیں مانگا تھا؟ تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا، اگر تو اسے کھلاتا تو اسے میرے پاس پا لیتا ‘‘ ۔(مسلم ) اس طرح کا مکالمہ پانی اور لباس کے بارے میں بھی اس روایت میں نقل ہوا ہے ۔ہمیں چاہیے کہ ماہِ مبارک میں مالی صدقات کا اہتما م کرتے ہوئے محتاجوں اور ضرورت مندوں کی حاجات پوری کرنے کی کوشش کریں ۔ یہ وہ افضل صدقہ ہے جب کی خبر ہمارے رسول ﷺ نے دی تھی جب آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سا صدقہ افضل ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا: «صَدَقَةٌ فِيْ رَمَضَانَ» (ترمذی) ’’رمضان میں صدقہ کرنا‘‘۔

لرننگ پورٹل