علامہ شبلی نعمانی
مسلمانوں نے جوعلوم وفنون خودایجاد کیے اورجن میں وہ کسی کے مرہونِ منت نہیں، ان میں ایک یہ فن بھی ہے۔ عام خیال یہ ہے اورخودہم کوبھی ایک مدت تک یہ گمان تھا کہ یہ فن بھی مسلمانوں نے یونانیوں سے لیا۔ ابنِ اثیر نے مثل السائر میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’یونانیوں نے فنِ بلاغت پر جو کچھ لکھا ہے اگرچہ اس کاترجمہ عربی میں ہوچکاہے لیکن میں اس سے واقف نہیں اور اس لیے اس فن میں میں نے جونکتے اضافے کیے ہیں، ان میں سے کسی کامیں مقلد نہیں بلکہ خود مجتہد ہوں‘‘ ۔ابنِ اثیر نے گواپنے آپ کو یونان کی خوشہ چینی کے الزام سے بچایا ہے لیکن عبارت سے اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ اصل فن یونان ہی سے آیاتھا، لیکن اب اس خیال کی غلطی علانیہ ثابت ہوگئی۔ اصل یہ ہے کہ ارسطو نے ایک کتاب ریطوریقا کے نام سے لکھی تھی جس کو اس نے منطق کا ایک حصہ قرار دیا تھا۔ ریطوریقا وہی لفظ ہے، جس کوانگریزی میں ریٹارک کہتے ہیں۔ اردو میں اس لفظ کا ترجمہ خطابت یافنِ تقریر ہو سکتا ہے۔ یہی کتاب ہے جس کی نسبت لوگوں کودھوکہ ہوا کہ مسلمانوں کا فنِ بلاغت اسی سے ماخوذ ہے۔ اس کتاب کوشیخ بو علی سینا نے اپنی کتاب منطقیات شفا میں پورا پورا لے لیا ہے، یعنی اس کے مطالب اپنے الفاظ میں ادا کر دیے ہیں۔ ابنِ رشد نے اس کتاب کے اصل ترجمے کی جواصلاح کی تھی، اس کا بڑا حصہ بیرو ت میں چھپ گیاہے۔ یہ ذخیرے ہمارے سامنے ہیں اوران سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا فنِ بلاغت ارسطو کی کتاب سے چھو بھی نہیں گیاہے۔ ارسطو کی کتاب کا موضوع یہ ہے کہ جب کوئی تقریر کسی موقعے پر کی جائے تو امورِ ذیل قابل لحاظ ہوں گے:
(۱) مضمونِ تقریر کیا ہے؟ (۲) تقریر کے مخاطب کون لوگ ہیں؟(۳) تقریر کرنے والا کون ہے؟
ان مختلف حیثیتوں کے لحاظ سے تقریر کے مقدمات کس قسم کے ہونے چاہییں۔ چنانچہ ارسطو نے اس کتاب میں بتایا ہے کہ واغط، وکیل، حکیم، فریق مقدمہ وغیرہ وغیرہ کی تقریر کے اصول کیا ہیں؟ اور ہرایک کے طریقۂ استدلال کو کس طرح ایک دوسرے سے مختلف ہونا چاہیے۔ اگرچہ اس میں شبہہ نہیں کہ ارسطو کی یہ کتاب نہایت دقیق اورلطیف مباحث پر مشتمل ہے اوراگرچہ اس کا بھی سخت افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس کتاب سے کچھ فائدہ نہیں اٹھایا لیکن بہرحال مسلمانوں کافنِ بلاغت ایک جداگانہ چیز ہے اور اس کے وہ خود موجد ہیں۔ فنِ بلاغت پر جہاں تک ہم کو معلوم ہے، سب سے پہلی جوکتاب لکھی گئی ہے، وہ دلائل الاعجاز، عبدالقاہرالجرجانی ہے، اس سے پہلے کی تصنیفیں بھی ہم نے دیکھی ہیں، لیکن درحقیقت ان کواس فن کی تصنیف نہیں کہہ سکتے۔ دلائل الاعجاز کے بعد اور بہت سی کتابیں لکھی گئیں، یہاں تک کہ ’مطول‘ اور ’مختصر معانی‘ پر گویا خاتمہ ہوا۔
آج کل یہ فن جس طریقے سے پڑھا اورپڑھایا جارہا ہے، اس سے زیادہ کسی فن کی مٹی خوار نہیں، طلبہ اور علما ان لفظوں اورعبارتوں کوجو ’مختصر معانی‘ وغیرہ میں مذکور ہیں، بار بار دہراتے ہیں لیکن خود نہیں جانتے کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں۔ یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ جب انسان کسی فن کے مسائل کو سمجھ لیتا ہے اور اس پر حاوی ہوجاتا ہے تو جہاں کہیں ان مسائل کا موقع آتا ہے، انسان ان کو استعمال کرسکتا ہے اور کرتا ہے۔ مثلاً اگر تم نے عربی فنِ نحو میں مہارت حاصل کرلی ہےتو جب کوئی عربی عبارت تمہارے سامنے آجائے گی، تم اس کوبے تکلف پڑھتے چلے جاؤگے۔ لیکن فنِ بلاغت کی درس وتدریس کی یہ حالت ہے کہ ’مختصر معانی‘ اور ’مطول‘ سو سو بار دہرا چکے ہیں، لیکن اگر قرآنِ مجید کی کوئی عبارت یا عربی کا کوئی شعر دے دیا جائے تو ہرگز نہ بتاسکیں گے کہ اس میں کیا کیا بلاغت کے اصول پائے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان درسی کتابوں میں مسائل بلاغت کو اس طرح صاف اور سلجھا کر نہیں لکھا ہے کہ طالب علم کے ذہن میں اصل مسئلے کی تصویر اتر جائے۔ مسئلہ ابھی پورا بیان بھی نہیں ہوا ہے کہ اس کے ساتھ لفظی جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں اور طالب علم کا ذہن ان بے ہودہ بحثوں میں پریشان ہو جاتا ہے۔
ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ان مسائل کے لیے کثرت سے مثالیں نہیں پیش کی جاتیں۔ عبدالقاہر جرجانی نے جومثالیں لکھ دی تھیں، وہی آج تک چلی آتی ہے بلکہ ان میں سے بھی بہت سی چھوٹ گئیں۔ مسائلِ بلاغت کے ذہن نشین کرنے کاسب سے بہترطریقہ یہ ہےکہ اپنی زبان میں اس کی مثالیں سمجھائی جائیں۔ لیکن ہمارے علما عربی مثالوں میں اس قدر محدود ہیں کہ کسی اور زبان سے ان مسائل کی مثالیں پیش ہی نہیں کرسکتے۔ ان وجوہ کی بنا پر ہم نے ارادہ کیاہے کہ وقتاً فوقتا ًفنِ بلاغت کے مہمات مسائل اس رسالے میں اس طرح اداکیے جائیں کہ مسئلے کی تصویر دل میں اترجائے اوراس غرض کے لیے تمام مثالیں اردو کے کلام سے دی جائیں۔ چنانچہ اس پرچے میں ہم فصاحت کے مسئلے پر بحث کرتے ہیں، جوبلاغت کا پہلا زینہ ہے۔
فصاحت کی تعریف علماے ادب نے یہ کی ہے کہ، ’’لفظ متنافرالحروف نہ ہو، نامانوس نہ ہو، قواعدِ صرفی کے خلاف نہ ہو‘‘۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ لفظ درحقیقت ایک قسم کی آواز ہے، اورچونکہ آوازیں بعض شیریں، دل آویز اور لطیف ہوتی ہیں۔ مثلاً طوطی و بلبل کی آواز اور بعض مکروہ و ناگوار مثلاً کوے اور گدھے کی آواز، اس بنا پر الفاظ بھی دوقسم کے ہوتے ہیں، بعض شستہ، سبک، شیریں اور بعض ثقیل، بھدے، ناگوار۔ پہلی قسم کے الفاظ کو فصیح کہتے ہیں اوردوسرے کو غیرفصیح۔ بعض الفاظ ایسے ہوتے ہیں کہ فی نفسہ ثقیل اورمکروہ نہیں ہوتے لیکن تحریر و تقریر میں ان کا استعمال نہیں ہوا ہے، یا بہت کم ہوا ہے، ایسے الفاظ بھی جب ابتداءً استعمال کیے جاتے ہیں توکانوں کو ناگوار معلوم ہوتے ہیں، ان کو فنِ بلاغت کی اصطلاح میں غریب کہتے ہیں۔ اس قسم کے الفاظ بھی فصاحت میں خلل انداز خیال کیے جاتے ہیں لیکن یہ نکتہ یہاں لحاظ کے قابل ہے کہ بعض موقعوں پر غریب لفظ کی غرابت اس وجہ سے کم ہوجاتی ہے کہ اس کے ساتھ الفاظ بھی اسی قسم کے ہوتے ہیں مثلا ایک شاعر کہتا ہے: ’’عذریت رسول کی خاطر جلائی نار‘‘ ۔ نار کا لفظ اس موقعے پر نہایت نامانوس اوربیگانہ ہے لیکن یہی لفظ جب ترکیبوں کے ساتھ اردومیں مستعمل ہوتا ہے، مثلا نارِدوزخ، نارِجہنم، تو وہ غرابت نہیں رہتی۔فصاحت کے مدارج میں اختلاف ہے، یعنی بعض الفاظ فصیح ہیں، بعض فصیح تر، بعض اس سے بھی بڑھ کرفصیح۔
معانی و الفاظ کی مناسبت
حسنِ کلام میں ایک بڑا نکتہ یہ ہے کہ مضامین کی نوعیت کے لحاظ سے الفاظ استعمال کیے جائیں۔ لفظ چونکہ آوازکی ایک قسم ہے اور آواز کے مختلف اقسام ہیں، مہیب، پررعب، سخت،نرم ،شیریں، لطیف۔ اسی طرح الفاظ بھی صورت اوروزن کے لحاظ سے مختلف طرح کے ہوتے ہیں۔ بعض نرم، شیریں ا ورلطیف ہوتے ہیں، بعض سے جلالت اور شان ٹپکتی ہے بعض سے درد اورغمگینی ظاہر ہوتی ہے۔ اسی بنا پرغزل میں سادہ، شیریں، سہل اورلطیف الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ قصیدے میں پرزور، شاندار الفاظ کا استعمال پسندیدہ سمجھا جاتاہے۔ اسی طرح رزم و بزم، مدح و ذم، فخرو ادعا، وعظ و پند، ہر ایک کے لیے جدا جدا الفاظ ہیں۔
شعرا میں سے جو اس نکتے سے آشنا ہیں، وہ ان مراتب کا لحاظ رکھتے ہیں اوریہ ان کے کلام کی تاثیر کا بڑا راز ہے، لیکن جواس فرق مراتب سے واقف نہیں، یا ہیں لیکن ایک خاص رنگ ان پراس قدر چڑھ گیا ہے کہ ہرقسم کے مضامین میں ایک ہی قسم کے لفظ ان کی زبان سے ادا ہوتے ہیں، ان کا کلام بجز ایک خاص رنگ کے بالکل بے اثر ہو تاہے۔ یہی نکتہ ہے کہ سعدی سے رزم اور فردوسی سے بزم نہیں نبھ سکتی۔ فردوسی نے جہاں حضرت یوسف کی نالہ وزاری کو اپنی کتاب یوسف زلیخا میں لکھا ہے، لکھتا ہے، بغرید یوسف د گربارہ زار۔ رزم، بزم، فخر، حسرت، شوق، ہرایک مضمون کے لیے خاص قسم کے الفاظ موزوں ہیں اوران مضامین کے لیے انہی الفاظ کواستعمال کرنا چاہیے۔ مثلاً ایک شاعر نے جلال اور غیظ کو ان الفاظ میں اداکیاہے:
کم تھا نہ ہمہمہ اسد کردگارسے |
نکلا ڈکارتا ہوا ضیغم کچھار سے |
کیا جانے کس نے ٹوک دیا ہے دلیر کو |
سب دشت گونجتا ہے یہ غصہ ہے شیرکو |
تھا یہ بپھرا ہوا عباس مرا شیرجواں |
سینہ حر پہ رکھے دیتا تھا نیزے کی سناں |
لرزہ تھا رعبِ حق سے ہر ایک نا بکار کو |
روکے تھا ایک شیر جری دس ہزار کو |
ان اشعار میں جو الفاظ آئے ہیں، جس طرح ان کے معنی غیظ وغضب کے ہیں، اسی طرح ان الفاظ کی آواز اورلہجے سے بھی ہیبت اور غیظ وغضب کا اظہار ہوتاہے۔
کلام کی فصاحت
یہ بحث مفرد الفاظ سے متعلق تھی۔ لیکن کلام کی فصاحت میں صرف لفظ کا فصیح ہونا کافی نہیں، بلکہ یہ بھی ضرور ہے کہ جن الفاظ کے ساتھ وہ ترکیب میں آئے، ان کی ساخت، ہیئت، نشست، سبکی اورگرانی کے ساتھ اس کو خاص تناسب اور توازن ہو، ورنہ فصاحت قائم نہ رہے گی۔ قرآنِ مجید میں ہے: ﴿مَا کَذَبَ الفُؤَادُ مَا رَاٰی﴾ فواد اور قلب دو ہم معنی الفاظ ہیں اور دونوں فصیح ہیں، لیکن اگراس آیت میں فواد کے بجائے قلب کا لفظ آئے توخود یہی لفظ غیر فصیح ہو جائے گا، جس کی وجہ یہ ہے کہ گو قلب کالفظ بجائے خود فصیح ہے، لیکن ماقبل اور مابعد کے جو الفاظ ہیں ان کی آواز کا تناسب قلب کے لفظ کے ساتھ نہیں ہے۔میر انیس کا مصرع ہے: ’’فرمایا آدمی ہے کہ صحرا کا جانور‘‘ ۔ صحرا اورجنگل ہم معنی ہیں اوردونوں فصیح ہیں، انیس نے مختلف موقعوں پر ان دونوں لفظوں کا استعمال کیاہے اورہم معنی ہونے کی حیثیت سے کیاہے لیکن اگر اس مصرعے میں صحرا کے بجائے جنگل کا لفظ آجائے تو یہی لفظ غیرفصیح ہوجائے گا۔ ذیل کے شعرمیں:
طائر ہوا میں مست، ہرن سبزہ زارمیں |
جنگل کے شیر گونج رہے تھے کچھار میں |
اگر جنگل کے بجائے صحرا لاؤ تو مصرعے کا مصرع پھس پھسا ہو جاتاہے۔
شبنم اور اوس ہم معنی ہیں اور برابر درجے کے فصیح ہیں لیکن اس شعر میں،
کھا کھا کے اوس اوربھی سبزہ ہرا ہوا |
تھا موتیوں سے دامنِ صحرا بھرا ہوا |
اگر اوس کے بجائے شبنم کا لفظ لایاجائے تو فصاحت خاک میں مل جائے گی۔ یہی ’’اوس‘‘ کا لفظ جو اس موقعے پراس قدرفصیح ہے، اس مصرعے میں، شبنم نے بھردیے تھے کٹورے گلاب کے، شبنم کے بجائے لایاجائے توفصاحت بالکل ہوا ہوجائے گی۔اس میں نکتہ یہ ہے کہ ہرلفظ چونکہ ایک قسم کا سُر ہے اس لیے یہ ضرور ہے کہ جن الفاظ کے سلسلے میں وہ ترکیب دیاجائے، ان آوازوں سے اس کو خاص تناسب بھی ہو۔ ورنہ گویا دومخالف سروں کوترکیب دیناہوگا۔ نغمہ اورراگ مفرد آوازوں یا سروں کا نام ہے، ہر سُر بجائے خود دلکش اوردل آویزہے، لیکن اگر دو مخالف سروں کو باہم ترکیب دے دیاجائے، تودونوں مکروہ جائیں گے۔ راگ کے دلکش اور مؤثر ہونے کا یہی گر ہے کہ جن سروں سے اس کی ترکیب ہو، ان میں نہایت تناسب اور توازن ہو۔الفاظ بھی چونکہ ایک قسم کی صوت اور سرہیں، اس لیے ان کی لطافت، شیرینی اور روانی اسی وقت تک قائم رہتی ہے جب گردوپیش کے الفاظ بھی ان کے مناسب ہوں۔
دبیر کامشہور مصرع ہے: ’’زیرِ قدم ِوالدہ فردوس بریں ہے‘‘۔ اس میں جتنے الفاظ ہیں یعنی زیر، قدم، والدہ، فردوس، بریں، سب بجائے خودفصیح ہیں، لیکن ان کے باہم ترکیب دینے سے جومصرع پیدا ہوا، وہ اس قدر بھدا اورگراں ہے کہ زبان اس کا تحمل نہیں کرسکتی۔ شاید تم کوخیال ہوکہ مصرعے کی ترکیب چونکہ فارسی ہوگئی ہے، اس لیے ثقل پیدا ہوگیا ہے لیکن یہ فصیح نہیں۔ سیکڑوں شعروں میں اس قسم کی فارسی ترکیبیں ہیں، لیکن یہ ثقل نہیں پایاجاتا، مثلا ًمیر انیس کہتے ہیں:
میں ہوں سردار ِشبابِ چمنِ خلدِ بریں |
میں ہوں خالق کی قسم دوش ِمحمدؐ کا مکیں |
پہلے مصرعے میں فارسی ترکیب کے علاوہ توالی اضافات بھی موجود ہے،لیکن بھداپن اور ثقل نہیں ہے۔جب کسی مصرعے یا شعر کے تمام الفاظ میں ایک خاص قسم کا تناسب، توازن اور توافق پایاجاتاہے اور اس کے ساتھ وہ تمام الفاظ بجائے خود بھی فصیح ہوتے ہیں تو وہ پورا مصرع یاشعر فصیح کہا جاتا ہے۔ یہی چیز جس کوبندش کی صفائی، نشست کی خوبی، ترکیب کی دل آویزی، برجستگی ،سلاست اور روانی سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہی چیزہے جس کی نسبت خواجہ حافظ فرماتے ہیں:
آں را کہ خوانی استاد گربنگری بہ تحقیق |
صنعت گراست اما شعر ِروان ندارد |
الفاظ کے توازن وتناسب سے کلام میں جوفرق پیدا ہوتا ہے وہ ایک خاص مثال میں آسانی سے سمجھ میں آسکتا ہے۔ میرانیس ،حضرت علی اکبر کے اذان دینے کی تعریف ایک موقعے پراس طرح کرتے ہیں، ’’تھا بلبلِ حق گو کہ چہکتا تھا چمن میں‘‘۔ اسی مضمون کودوسرے موقعے پر اس طرح ادا کرتے ہیں، بلبل چہک رہا ہے ریاض رسولﷺ میں۔ وہی مضمون ہے، وہی الفاظ ہیں، لیکن ترکیب کی ساخت نے دونوں مصرعوں میں کس قدرفرق پیدا کردیاہے۔
ایتلاف الوزنِ مع المعنی
ترکیبِ الفاظ کے لحاظ سے شعر کی بڑی خوبی یہ ہے کہ کلام کے اجزا کی جواصلی ترتیب ہے وہ بحال خودقائم رہے، مثلا فاعل، مفعول، مبتدا،خبر، متعلقات فعل جس ترتیب کے ساتھ ہروقت بول چال میں آتے ہیں، یہی ترتیب شعر میں باقی رہے۔ اگرچہ اس میں شبہہ نہیں کہ اس ترتیب کا بعینہ قائم رہنا قریب قریب ناممکن ہے، صرف ایک آدھ شعر یا بہت سے بہت شعر دوشعر میں اتفاقیہ یہ بات پیدا ہوجاتی ہے مثلا سعدی کے یہ اشعار:
بدو گفتم کہ مشکے یا عبیرے |
کہ ازبوے ولا ویزِ تو مستم |
بگفتا من گِلے نا چیز بودم |
و لیکن مدتے باگل نشستم |
جمالِ ہم نشین در من اثر کرد |
و گرنہ من ہمان خاکم کہ ہستم |
لیکن چونکہ نظم کا درحقیقت، سب سے بڑا ملال یہی ہے کہ اگراس کو نثر کرنا چاہیں تو نہ ہوسکے اوریہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب شعر میں الفاظ کی وہی ترتیب باقی رہے جو نثر میں معمولاً ہوا کرتی ہے۔ اس بنا پر شاعر کو کوشش کرنی چاہیے کہ اگر اصلی ترتیب پوری پوری قائم نہیں رہ سکتی، تو بہرحال اس کے قریب قریب پہنچ جائے۔ جس قدر اس کا لحاظ رکھا جائے گا، اسی قدر شعر زیادہ صاف، برجستہ، رواں، اور ڈھلا ہوا ہوگا۔ مثلا یہ اشعار:
کچھ توہوتے بھی ہیں وحشت میں جنوں کے آثار |
اورکچھ لوگ بھی دیوانہ بنادیتے ہیں |
دل نہیں مانتا جہاں جاؤں |
ہائے میں کیا کروں، کہاں جاؤں |