گفتگو: ڈاکٹر رشید ارشد
ٹرانسکرپشن: عبد اللہ جان
الحمدلله وحده والصلاة والسلام علی من لا نبي بعده، رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ وَ یَسِّرْ لِيْ أَمْرِيْ وَ احْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ یَفْقَهُوْا قَوْلِيْ
ویسے تو یہ ایک بہت وسیع موضوع ہے لیکن کوشش ہوگی کہ اختصار کے ساتھ لفظ ’’ٹیکنالوجی‘‘ کا تعارف اور اس کے اثرات واضح کیے جا سکیں۔ جو عنوان ہے اس میں بنیادی طور پر تین کلیدی الفاظ ہیں، انہی سے بات کا آغاز کرتے ہیں۔ ایک لفظ ان میں ہے ’’ہم‘‘ ۔ دوسرا لفظ ہے ’’ٹیکنالوجی‘‘ ، اور تیسرا لفظ ہے ’’تبدیلی‘‘ ، پہلے اس پر ذرا بات کر لیتے ہیں کہ ہم کون ہیں؟ دوسری بات یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کیا ہے؟ جس کے بارے میں ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ہمیں بدل رہی ہے، اور تیسرا پہلو یہ ہے کہ ٹیکنالوجی ہمیں کس طرح اور کیسے کیسے بدل رہی ہے۔
’’ہم‘‘ کون ہیں؟
سب سے پہلے اگر ’’ہم‘‘ کی ہم بات کریں اس وقت آپ کو معلوم ہے کہ دنیا میں جو بنیادی اکائی کہہ لیں وہ Self ہے، Person ہے، یا اس کے لیےایک لفظ استعمال ہوتا ہے Human ۔ ہم بنیادی طور پر انسان ہیں۔ اور فلاں فلاں چیزیں گویا انسانیت کے لیے مسئلہ ہے، اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ ٹیکنالوجی کے حوالے سے پوری دنیا میں یہ گفتگو ہو رہی ہے کہ اس نے انسانیت کو یا انسانوں کو کیسے تبدیل کیاہے اور اس پر کیسے اثر انداز ہو رہی ہے، اس وقت جوایک بڑا مسئلہ ہے دنیا کے بڑے مفکرین اور فلسفیوں کے ہاں، اس کو کہتے ہیں ’’Dehumanization‘‘: یعنی اس میں جو خطرہ درپیش ہے کہ انسان ہونے کا مطلب اب کیا ہوگا؟ UNESCO مختلف دن مناتی ہے، ایک ’’World Philosophy Day‘‘ بھی منایا جاتا ہے جس کے لیے انھوں نے نومبر کی مہینے کا تیسرا جمعرات Third Thursday In November مقرر کر رکھا ہے۔ ہر اسی دن وہ ’’World Philosophy Day‘‘ مناتے ہیں اور یونیسکو والے ہر سال اس کا کوئی نہ کوئی Theme بھی دیتے ہیں کہ اس سال کا Theme یہ ہے، اس سال کا جو موضوع تھا اس کا Title یہ تھا: ’’The Forthcoming Human‘‘ کہ اب جو آگے آنے والا انسان ہے وہ کیا ہوگا اور جیسے لوگوں کے اندر ایک احساس ہو رہا ہے کہ انسان ہونے کا جو مطلب افلاطون سے لےکر کانٹ اور کانٹ سے لے کر مشل فوکو تک یہ انسان کا مطلب سمجھا جاتا تھا کیا انسان پر وہ Definitions عائد کی جاسکتی ہیں ، ’Humanity‘ کو بھی ایک خطرہ محسوس ہورہا ہے۔ کبھی آپ غور کریں جہاں پر بھی دنیا کے کچھ مفکرین جمع ہوتے ہیں اور یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس وقت انسانیت کو یا دنیا کو کونسے بڑے خطرات لاحق ہیں تو کبھی آپ غور کیجیے گا کہ ان میں سے بھی زیادہ تر کا تعلق سائنس اور ٹیکنالوجی سے ہے۔ مثال کے طور پرجو ایک بڑا مسئلہ لگتا ہے وہ Nuclear Catastrophe یا Nuclear Warfare ہے۔ اسی طرح ایک اور بڑا مسئلہ Climate Change کا ہے۔ ایک اورجو بڑا مسئلہ ہے وہ انسان کی بیگانگی یعنی Human Alienation یا انسان کے نفسی مسائل ہیں ۔ میں نے تین چیزیں آپ کے سامنے رکھی ہیں کبھی آپ اس پر غور کریں ان تینوں کے پیچھے ہاتھ ٹیکنالوجی ہی کا ہے یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ پوری دنیا میں مفکرین اور فلسفی ٹیکنالوجی کو ’Problematize‘ کر رہے ہیں، یعنی ایسا نہیں ہے کہ ہمیں بلاوجہ واہمہ ہوگیا ہے کہ ٹیکنالوجی انسانوں کے لیے یا انسانیت کے لیے خطرہ ہے، نہیں۔ اس پر بات ہورہی ہے اور ہر جگہ ہورہی ہے۔ لیکن میں یہ عرض کر رہا تھا کہ لوگوں کے نزدیک جو بنیادی unit ہے وہ ’’انسان‘‘ ہے۔ اور اصل میں تو ہم انسان ہی ہیں۔ اسی وجہ سے ایک خاص طرح کا humanism ہمارے ہاں بھی پھیل رہا ہے اور یہ بات لوگ کہنے لگے ہیں کہ سب سے بڑا مذہب جو ہے وہ تو اصل میں انسانیت ہے، لیکن میں توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ میں نے موضوع میں جو لفظ ’’ہمیں ‘‘ رکھا ہے اس میں، میں ’’ہم‘‘ کو انسان کے طور پر نہیں دیکھتا، یعنی میری ناقص رائے میں ہمارا جو ’’Basic essence‘‘ ہے وہ Human ہونانہیں ہے بلکہ ہمارا ’Basic essence‘ بندہ ہونا ہے۔ یعنی یہ کہنا غلط بات ہےکہ ہم Essentially انسان ہیں، نہیں، بلکہ ہم Essentially بندے ہیں۔ یہ ایک پرانا تصور ہے۔ انسان کا ایک essence ہوتا ہے ایک Accident ہوتے ہیں جو اس کے ساتھ لگے ہوتے ہیں ۔ تو ہمارے نقطۂ نظر سے بنیادی طور پر وجود دو ہی ہیں: ایک ’’اللہ‘‘ اور ایک ’’ماسوا اللہ‘‘ ۔ اور اللہ اور ماسوا اللہ میں ایک ہی تعلق ہے اور وہ تعلق یہ ہے کہ اللہ ’’معبود‘‘ ہے اور ماسوا اللہ سب کے سب ’’عبد‘‘ ہیں۔ اور میرا انسان ہونا یہ ایک Accident ہے۔ اور میرا بندہ ہونا یہ میرا essence ہے۔ میں اگر انسان نہ ہوتا تو جانور، پیڑ پودا ہوتا، پتھر وغیرہ یا میں کچھ بھی ہوتا، جس کو قرآن مجید شے کہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا جو کچھ ہے وہ اصل میں شے ہے۔ اور آپ کبھی غور کریں ما شاءَ اللهُ فهو شيءٌ جو اللہ نے چاہا گویا وہ شے ہے، میں یہ تو جہ دلانا چاہتا ہوں کہ ’’ہم‘‘ سے مراد کون ہے؟ تو ہم ’’عباداللہ‘‘ یعنی اللہ کے بندے ہیں۔ ہمیں کسی بھی مسئلے پر غور کرنا ہو وہ محض انسانیت کے رخ سے نہیں کرنا بلکہ ہمیں اس کو دیکھنا ہے کہ کوئی بھی چیز ہماری بندگی پر کیسے Affect کرتی ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم کا مطلب ’’عبد‘‘ ہے اور ہم سب اللہ کے بندے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ تمام مخلوقات اللہ کی بندی یا بندے ہیں لیکن مخلوقات کی دو قسمیں ہوتی ہیں:ایک قسم وہ ہے جس کو Free Will حاصل ہے۔ دوسری وہ جس کو Free Will حاصل نہیں ہے۔ تو تمام مخلوقات ایک لحاظ سے اللہ کے بندے ہیں۔ اور ایک عبادت بالاجبار ہے یا بالتسخیر ہے جو سب کو کرنی ہے۔ لیکن ایک عبادت بالخیار ہے یا عبادت بالاختیار کہہ لیں، وہ حکم ان لوگوں کو دیا گیا ہے جن کو Free Will دی گئی ہے اور قرآنِ مجید میں یہ موضوع مذکور ہے: ﴿إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا﴾ (الاحزاب: ۷۲) ’’بیشک ہم نے آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پرامانت پیش کی تو انھوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اورانسان نے اس امانت کو اٹھالیا۔ یقیناوہ زیادتی کرنے والا، بڑا نادان ہے‘‘ ۔ میر کا شعر ہے:
سب پہ جس بار نے گرانی کی |
اس کو یہ ناتوا ں اٹھا لایا |
انسان نے اس کو اٹھا لیا اور جتنا ہمیں علم ہے تو دو مخلوقات کے بارے میں ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ مکلف ہیں۔ یعنی ’’انسان‘‘ اور ’’جنات‘‘ اور ان کو Free Will حاصل ہے اور Free Will کا مطلب یہ ہے کہ یہ بندگی سے انکار کرسکتے ہیں۔ وہ بندگی جس کے لیے اللہ نے ہمیں پیدا کیا ہے۔ قرآن مجید میں قصۂ آدم وابلیس سات مقامات پر ذکر ہوا ہے۔ اس کی بہت سی حکمتیں علما بیان کرتے ہیں لیکن ایک بہت بڑی حکمت جو اس قصے میں ہمارے سامنے آتی ہے وہ Human Free Will کا اظہار ہے اور Free Will کا اظہار بات ماننے میں نہیں ہوتا، Free Will کا اظہار نافرمانی میں ہوتا ہے۔ یعنی فرشتے Free Willرکھتے ہیں یا نہیں رکھتے؟قرآن مجید کہتا ہے: ﴿لَّا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ﴾ (التحریم:۶) ’’وہ احکامات کی نافرمانی نہیں کرتے، اور جو ان سے کہا جاتا ہے وہ کرتے ہیں‘‘ ۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ Free Will ظاہر ہوتی ہے میری نافرمانی سے، آدم و حوا علیہما السلام دونوں کو منع کیا گیا تھا کہ آپ فلاں درخت کے پاس نہیں جائیں گے اور وہ چلے گئے۔ اب اس پورے واقعے میں کتنی حکمتیں ہیں وہ تو اللہ جانتا ہے لیکن ایک بہت بڑی حکمت وہ آدم علیہ السلام کی ’’Free Will‘‘ کا اظہار ہے۔ کہ آدم وہ ہے جو معصیت کرسکتا ہے۔ اور انسان صرف انکارنہیں کرسکتا، انسان کے اندر سرکشی اور تمرّد کا بیج بھی ہے یہاں تک کے انسان خدا کے مقابل بھی آسکتا ہے اور وہ خدائی اور الوہیت کا دعوٰی بھی کرسکتا ہے۔ ابھی اس کو دیکھیں گے کہ ٹیکنالوجی سے اس کا کیا تعلق ہے۔ بہرحال میں یہ عرض کر رہا تھا کہ ’’ہم‘‘ سے مراد یہاں پر بندے ہیں، اور ہماری سب سے بڑی شناخت یہ ہے کہ ہم اللہ کہ بندے ہیں۔ اور اس کے ساتھ جو ضمنی شناخت جڑی ہوئی ہے وہ یہ کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی امت ہیں۔
ٹیکنالوجی کا روایتی تصور
اب اگلی بات یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کو Traditionally کیسے دیکھا جاتا ہے؟ Modern Technology کیا ہے؟ اس کی کیا Dynamics ہیں؟ ٹیکنالوجی کا جو Original تصور تھا وہ کیا تھا؟مثال کے طور پر اگر ہم فلسفیانہ نقطۂ نظر سے دیکھیں تو ارسطو نے مقاصدِ علم متعین کیے کہ علم یا زندگی کے مقاصد کیا ہیں۔ اس میں سب سے پہلے نمبر پر رکھا تھا ’’معرفت ِحقیقت‘‘ یعنی حقیقت کو جاننا، Contemplation, Meditation,اور Reality کو دیکھنا اور اس پر غور و فکر کرنا۔ دوسرے نمبر رکھا تھا ’’How To Live A Moral Life‘‘ مجھے ایک Ethical Being کیسے بننا ہے۔ اگر اس کو ہم مذہبی معنوں سے جوڑ لیں تو دین بھی ہم سے دو مطالبے کرتا ہے ’’ایمان اور عمل صالح‘‘ مجھے کچھ چیزیں ماننی ہیں جس کا تعلق میرے ذہن اور فکر سے ہے اور مجھے کچھ کرنا ہے۔ تو اب آپ دیکھ لیں سب سے پہلے کیا ہے، ’’حقیقت کی معرفت‘‘ اور اس کے بعد کیا ہے کہ ایک اخلاقی وجود بننا۔ اور تیسرے نمبر پر اس نے کہا ہے Techne یعنی طاقت۔ اس میں Artifacts بھی آگئے اور اس کے اندر Tools بھی آگئے۔ انسان کو دنیا میں رہنا ہے اور اپنے نفس کو برقرار رکھنا ہے تو اس کے لیے کچھ نہ کچھ طاقت چاہیے کچھ نہ کچھ ایسے ذرائع چاہیے جس سے اس کی Sustenance ہوسکے۔ اس لیے عام طور ہمارے ہاں ٹیکنالوجی کی جو بنیادی تعریف کی جاتی ہے کہ ٹیکنالوجی کہتے ہیں Applied Science کواور اس سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے پہلے سائنس ہوتی ہے اور پھر اس کے بعد اس سے ٹیکنالوجی پھوٹتی ہے لیکن شاید ایسا نہیں ہے۔ اگر آپ انسانیت کے اعتبار سے دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ ٹیکنالوجی پہلے ہے اور سائنس بعد میں ہے۔ جیسے basic technology کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ basic technology کیا ہے؟، مثلاً fire ، یہ ایک ٹیکنالوجی ہے دو پتھر رگڑےگئے یا ایک خاص قسم کے درخت کے دو پتوں کو جب آپس میں رگڑا گیا تو اس سے چنگاری پیدا ہوگئی۔ تو آگ انسان کے بنیادی وجود کی Sustenance کے لیے۔ یعنی اس کی خوراک کے لیے اور پھر اس کو گرم رکھنے کے لیے ایک بنیادی ٹیکنالوجی ہے جو بالکل شروع میں سامنے آ گئی۔ مثال کے طور پر wheel ہے جس کو ہم پہیہ کہتے ہیں، یہ جو پہیے کا معاملہ ہے یہ بھی کوئی ایسا تھوڑی تھا کہ اس کے بیچ میں کوئی تھیوریٹیکل یا نظریاتی سائنس تھی اور اس کی بنیاد پر پہیہ ایجاد کیا گیا۔ اسی طرح جو Alphabets ہیں جس کو ہم Writing کہتے ہیں، بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ یہ بھی ایک ٹیکنالوجی ہے کیوں کہ ہمارا تصور یہ رہا ہے کہ انسانیت میں بہت عر صے تک جو Tradition تھی وہ Oral Tradition تھیاور Written Tradition تو ایک خاص phase کے بعد آئی ہے۔
میں ان تمام مثالوں سے یہ بات واضح کرنے کی کو شش کرہا ہوں کہ ٹیکنالوجی ایک خاص معنوں میں سائنس سے پہلے ہے۔ اور اگر آپ دینی لحاظ سے بات کریں تو ٹیکنالوجی وہ چیز ہے جو بنیادی ضروریات پوری کرنے میں انسان کی مدد کرتی ہے۔ دیکھیں اللہ تعالیٰ نے انسان میں دو طرح کی چیزیں رکھی ہیں۔ ایک طرح کی چیزیں انسان کے اندر ایسی ہیں کہ اس کا تعارف مُثْبَتْ کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ’’فطرت‘‘ کا لفظ ہے یہ ہماری دینی Vocabulary میں ایک Positive لفظ ہے۔ اسی طریقے سے روح کا لفظ ہے، روح کا لفظ بھی اپنے اندر بڑائی اور عظمت کے معنی رکھتا ہے۔ اسی طرح قلب مُثبت معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح عقل ہے، ضمیر ہے جو اس نوعیت کے مثبت Traitsہیں۔
اور پھر انسان کے اندر نفسِ امّارہ اور جبلتیں ہیں جن کوInstincts کہا جاتا ہے۔ اور انسان کے اندر شہوت اور غضب ہے۔ تو ایک طالب علم کی حیثیت سے مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ جو قلب، ضمیر، روح اور عقل ہے یہ اصل میں انسان کو اللہ تعالیٰ سے متعلق رہنے کے لیے دی گئی تھیں اور یہ اس کا سب سے بڑا مقصد ہے۔ اور یہ جو نفسِ امّارہ اور جبلتیں دی گئی ہیں یہ ہمیں دنیا سے متعلق رکھنے کے لیے دی گئی ہیں یعنی ہم میں بھو ک کی جبلت ہے، جنس کی جبلت ہے، Urge to Dominate ہے، یہ ہمیں دنیا سے متعلق رکھتی ہیں۔ اگر یہ جبلتیں ہمارے اندر نہ ہوتیں تو ہم شاید اپنے آپ کو Sustain نہ کر پاتے اور اپنی نسلوں کو آگے نہ بڑھا پاتے۔ اور یہ دنیا یا تمدن کا جو سفر ہے یہ آگے نہ چل پاتا، یہ نفسکے تقاضوں کے لیے ہیں۔ اب Traditionally کیا تھا، یعنی Modernity یا Enlightenment سے پہلے focus تھا نفس کے حقوق پر، نفس کے کچھ حقوق ہیں جو اللہ پاک نے انسان میں رکھے ہیں۔ اور ہماری دینی روایات بھی یہی کہتی ہیں کہ نفس کے ان حقوق کو ادا کرو اور دنیا سے تمتع کرو اور اس سے فائدہ اٹھاؤ۔ اپنی ضرویات کو پورا کرنے کے لیے یا حقوقِ نفس کی ادائی کے لیے جو ذرائع اور آلات و اوزار ہم نے استعمال کیے وہ اصل میں ٹیکنالوجی ہی تو تھی۔ لیکن دین یہ کہتا ہے کہ دنیا سے تمھیںجو تمتع کرنا ہے اور نفس کے حقوق ادا کرنے ہیں تو یہ تمھاری اصل حقیقت کے تابع رہنے چاہییں اور تمھاری اصل حقیقت کیا ہے وہ رب کی بند گی ہے۔ یعنی تمھیں ان چیزوں کو دنیا میں ایجاد اور دریافت کرنا ہے جو تمھاری بندگی کو Facilitate کرسکیں جو تمھاری بندگی کو آگے لے جا سکیں۔ گویا ٹیکنالوجی وہ Techne ہے جو بندے کو حقوق نفس کی ادائی میں معاون ہو اور اسے زندگی بسر کرنے میں سہولت دے تاکہ وہ سکون سے بندگی کر سکے۔ یہ ٹیکنالوجی کے بارے میں روایتی اور کلاسکل تصور تھا۔
ٹیکنالوجی کا جدید تصور
ٹیکنالوجی کایہ جو Modern Project ہے جس کو Modernity بھی کہا جاتا ہے۔ اس نے ٹیکنالوجی کے تصور کو بالکل ہی بدل دیا۔ پہلے اس نے انسان اور انسانیت کے تصورمیں تبدیلی کی، نتیجہ یہ کہٹیکنالوجی کا تصور بھی از خود بدل گیا۔ Modernity کی جو سب سے بڑی قدر ہے وہ ہے Human Autonomy, Human Liberty, Human Freedom اور یہ باتیں ہم خود سے نہیں بنا رہے، Immanuel Kant کا ایک بہت چھوٹا سا آرٹیکل ہے، جب بھی بات ہوتی ہے کہ روشن خیالی کسے کہتے ہیں، خِرداَفْروزی کسے کہتے ہیں، تحریکِ تنویر یا Enlightenment کسے کہتے ہیں تو کانٹ کے اسی مضمون کو بنیادی ماخذ قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے پہلے پیراگراف میں کانٹ نے خود ہی بتایا ہے کہ اصل میں انسان نے اپنے اوپر ایک خود ساختہ ذہنی غلامی اور تقلید عائد کر رکھی ہے جسے وہ Immaturity یا Minority یعنی نابالغیت سے تعبیر کرتا ہے۔ اور وہ نابا لغیت کیا ہے کہ انسان اپنے غیر کی رہنمائی میں زندگی بسر کرتا ہے خود سے رائے قائم نہیں کرتا۔ یعنی کہیں اسکا باپ ہے، کہیں پر اس کااستاد ہے، کہیں پر حاکم ہے اور کہیں پر مذہبی پیشوا ہے جو اس کو بتاتا ہے۔ کانٹ نے کہا کہ Enlightenment کسے کہتے ہیں کہ انسان کے اوپر جو ’’Self-Incurred Tutelage‘‘ ہے اسسے انسان نکلے اور خود سے سوچے، خود سے سمجھے، خود سے جانے اور ہر چیز کو خود طے کرے۔ اسے وہ کہتا ہے: ’’Sapere Aude‘‘ یعنی Dare To Use Your Own Reason or Dare To Understand۔ Traditional آدمی دنیا کے تمام مذاہب کا چاہے وہ مذاہب Revealed ہو یا Non revealed، عیسائیت، اسلام ہو یا یہودیت، ہندومت یا بدھ مت ہو، ان سب کا جو انسان تھا بنیادی طور پر وہ ’’Theonomous Being‘‘ یعنی governed by God تھا ، God Dependent Being تھا۔ اب خدا کا تصور مختلف ہوسکتا ہے، کہیں پر وہ personal God ہے، کہیں پر Order ہے، کہیں پر وہ abstraction ہے، کہیں پر وہ idea ہے، لیکن بہر حال خدا کا تصور تھا۔ روایت میں انسان ایک ایسا وجود تھا جو اپنے وجود میں، اپنی بقا میں ہر چیز میں خدا پرانحصار رکھتا تھا۔ لیکن اب ایک نیا آدمی پیدا ہوا جس کو کہا گیا کہ یہ ’’Autonomous Being‘‘ ہے یعنی governed by itself ہے۔ یہ بالکل اپنے اوپر انحصار کرسکتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ سب سے بڑی قدر اس کے اندر Self-determination ہے۔ اور اپنے آپ کو خود سے تشکیل دینا، اپنے آپ کوخود سے بنانا، اپنے وجود اور شعور کی کنڈیشنگ خود سے کرناکسی غیر کی مدد کے بغیر۔ اور خاص طور پر اس غیر کے بغیر جو Divine ہے۔ انسان As a Person اور انسان As Collectivity خود طے کرسکتا ہے کہ اس کو کیا ماننا ہے، کیا کرنا ہے، اور کیا بننا ہے۔ انسان سے اوپر کوئی اور طاقت ایسی نہیں ہے جو انسان کو یہ باتیں Dictate کرے۔ تو بہرحال یہ ہے جدید آدمی ہے۔
میں نے کہا تھا کہ ٹیکنالوجی انسان کو اس کی ضروریات پوری کرنے میں معاون چیزوں کا نام ہے تو جب انسان ہی بدل گیا تو اس کی ضروریات بھی بدل گئیں۔ جب اس کی ضروریات بدل گئیں تو ان ضروریات کو پورا کرنے والے آلات اور ٹولز بھی بدل گئے یعنی ٹیکنالوجی بھی بدل گئی تو انسان کے تصور کی تبدیلی سے ٹیکنالوجی کے تصور میں از خود تبدیلی آ گئی۔ روایت میں انسان عبد تھا اور عبد کا تعلق ’’Techne‘‘ سے یہ تھا کہ وہ نفس کے حقوق ادا کرنے میں چیزوں کو کیسے استعمال کرے۔ لیکن جب انسان کے تصور میں تبدیلی آئی تو بات حقوقِ نفس سے آگے چلی گئی۔ اب ٹیکنالوجی حقوقِ نفس کے بجائے ’’حظوظِ نفس‘‘ کو پورا کرنے بلکہ ’’حظوظِ نفس‘‘ نفس کی لذتوں کو maximize کرنے، زیادہ سے زیادہ بڑھانے کا نام ہے۔ یعنی اب دو پروجیکٹس ہیں مثال کے طور پر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ذریعے کیا کرنا ہے ایک تو human emancipation, human autonomy, human liberty and freedom اس کو maximize کرنا ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ انسان کی جدید تعریف میں انسان بنیادی طور پر ایک ’’Pleasure seeking animal‘‘ ہے، اور ٹیکنالوجی کا ایک بڑا مقصد جس کو ’’Hedonism‘‘ کہا جاتا ہے یعنی (لذتوں میں غیر معمولی اضافہ کرتے چلے جانا)۔ اور کچھ لوگوں نے ایک اصطلاح استعمال کی ہے ’’The Hedonistic Treadmill‘‘ کے ذریعے یہ آپ کا پورا سسٹم چڑھا دیتا ہے اور آپ ساری زندگی دوڑتے رہتے ہیں اور جسے بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ جو آپ کی ضروریات ہیں وہ Satisfy ہوسکتی ہیں۔ یہ Desire ہوتی ہے اور Desire کا اختتام ایک اور Desire ہوتی ہےخواہش کبھی ختم نہیں ہوتی۔ رسول ﷺ نے فرمایا: جو آدمی حریص ہو جائے اس کے پاس اگر ایک سونے کی وادی بھری ہوئی ہو تو وہ کہے گا کہ دوسری مل جائے دوسری مل جائے تو تیسری ہو، کبھی اس کو تسکین نہیں ہوتی اور ایسے ہی آدمی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایسے آدمی کا پیٹ قبر کی مٹی سے بھرتا ہے۔