مفتی نذیر احمد ہاشمی مدظلہ
ضبط و ترتیب: مولانا عابد علی
ماخذ
اس کا ماخذ اجماع اور حضرت عمررضی اللہ عنہ کا عمل ہے چنانچہ بہت سے مسائل میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے اجتہاد سے کوئی فیصلہ فرمایا مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اجتہاد ورائے اس کے خلاف تھی اس کے باوجود انھوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے کسی فیصلے کو نہیں توڑا ۔
تشریح
جب کوئی واقعہ رونماہو اور کوئی معاملہ زیرِ بحث لایاگیا ،دورانِ بحث اور دورانِ تحقیق جو حالات اور شہاد تیں سامنے آئیں ان کے پیشِ نظر قاضی یا مجتہد نے کوئی فیصلہ دیا اور پھر بعد میں اس جیسے معاملے پر غور کرتے وقت ایسے دلائل سامنے آئے کہ اس کا فیصلہ پہلے فیصلے کے برعکس کر نا پڑا تو اس برعکس فیصلے کی وجہ سے پہلا فیصلہ منسوخ نہیں ہوگا ،اگر ایسا کیا جائے تو معاشرتی زندگی بے شمار الجھنوں کا شکار ہو کر رہ جائےگی، لہذا جو دلائل سامنے تھے ان کی روشنی میں فیصلے کیے گئے۔ ان حادثات اور معاملات میں بھی جو بعد میں آئے وہی فیصلے نافذ العمل ہوں گے۔ اگر بعد میں کیے جانے والے فیصلے کے پیشِ نظر پہلے والے فیصلے منسوخ کردیے جائیں تو ایک ہنگامہ کھڑاہوجائے گا اور مسائل ومشکلات کی شدت زندگی کو غیر متوازن بنادےگی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مقدمے میں ایک فیصلہ دیا مگر بعد میں اس جیسے دوسرے مقدمےمیں پہلےفیصلے کے برعکس فیصلہ دیا اور جب انھیں بتلایاگیا کہ یہ فیصلہ پہلے فیصلے کے خلاف ہے تو انھوں نے فرمایا تلك على ما قضينا وهذه على ما نقضي پہلا فیصلہ بھی برقرار ہے جو ہم نے کیا اور دوسرا بھی نافذ ہوگا جو ہم کررہے ہیں
حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ جملہ مَثَل بن چکا ہے۔ جس سے یہ قاعد کلیہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر ایک ہی جج یا مجتہد مختلف اوقات میں ایک جیسے معاملے پر دومختلف فیصلے دے تو دونوں فیصلے اپنی اپنی جگہ نافذالعمل ہوں گے۔ اور اگر دو جج یا مجتہد ایک جیسے معاملات پر مختلف فیصلے صادر کریں تو بھی دونوں فیصلے اپنی اپنی جگہ پر درست سمجھے جائیں گے اور دو نوں حضرات کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کے فیصلے کا احترام کریں ، اس لیے کہ حتمی طور پر کسی بھی فیصلے کے لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہی بالکل برحق اور صحیح ہے ۔ اجتہاد ی معاملات میں ہر مجتہد اپنا اجتہاد کرتا ہےاور ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے اجتہاد میں صحیح ہو، ساتھ ہی یہ بھی امکان ہوتا ہے کہ وہ اپنے اجتہاد میں غلطی پر ہو ۔ یہ مقام صرف اللہ اور اس کےرسولﷺ کو حاصل ہے کہ وہ جو فیصلہ فرمائیں وہعہر حال میں صحیحاور برحق ہوتا ہے اور اس کا ماننا ایمان کا بنیا دی تقاضا ہوتا ہے ۔
مثالیں
کوئی شخص حالتِ سفر میں ہو اورقبلہ معلوم نہ ہونے کی صورت میں اپنی عقلی جد وجہد سے کسی ایک سمت کو قبلہ تصور کرلے، پھرایک وقت کی نماز بھی اسی طرف ادا کرلے۔ اس کے بعد اگلی نماز کے لیےکوئی دوسری سمت کی طرف اس کی رائے منقول ہوجائے تو وہ دوسری اجتہادی رائے پر عمل کرےگا،لیکن اول رائے اس ثانی پر عمل کرنے سے باطل نہ ہوگی اس لیے کہ ایک اجتہاد دوسرےکو باطل نہیں کرتا،چنانچہ اس پر نماز کی قضا واجب نہ ہوگی۔
دوایسے کپڑے جن میں ایک نجس اور دوسرا پاک ہو ، اور دونوں اس طرح مل گئے ہوں کہ دونوں میں فرق نہ رہا ہواور پاک کپڑے کےانتخاب میں اجتہاد کرکے ایک کپڑے کو پاک قراردے کر نماز اداکرلی ،اس کے بعد اس کا اجتہاد ی انتخاب دوسرے کپڑے کے حق میں قائم ہو ، اب یہ دوسرا اجتہاد پہلے اجتہاد پر مبنی عمل کو باطل نہیں کر سکتا۔
اگر کوئی قاضی کسی فاسق شخص کی شہادت کو اس کے فسق کی بنا پر رد کردے، اس کے بعد یہ شخص توبہ کر کے اسی مقدمے میں شہادت کا اعادہ کرے تب بھی یہ شہادت مقبول نہ ہوگی۔ کیونکہ اس طرح پہلےفیصلےکو منسوخ کرنا پڑےگا ۔
اگر قاضی کسی امر پرایک فیصلہ کرے اور اس کےبعداس کا اجتہاد تبدیل ہوجائے اور اس امر کے بارے میں کوئی دوسرا فیصلہ کر لے تو پہلا فیصلہ منسوخ نہ ہوگا۔مستقبل میں دوسرے فیصلےکے مطابق فیصلہ کیا جائے گا نیز پہلافیصلہ بھی درست کہلائے گا۔صاحبِ ہدایہ نے اس کی دلیل بیان کی ہے:دوسرا اجتہاد اور پہلا اجتہاد دونوں برابر ہیں لیکن پہلےاجتہاد کو فیصلے اور قضاکی تقویت حاصل ہوگئی اس لیےوہ اپنی جگہ درست ہے ،پس و ہ دوسرےاجتہاد کی وجہ سے نہیں ٹوٹے گا ۔