لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

عباد الرحمٰن کی ایک اہم خصوصیت: کبائر سے اجتناب

سورۃ الفرقان، آیت: ۶۸۔۷۱

﴿وَالَّذِینَ لَا یَدعُونَ مَعَ اللّٰهِ إِلٰـهًا اٰخَرَ وَلَا یَقتُلُونَ النَّفسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّٰهُ إِلَّا بِالحَقِّ وَلَا یَزنُونَ، وَمَن یَّفعَل ذٰلِکَ یَلقَ أَثَامًا، یُّضٰعَف لَهُ العَذَابُ یَومَ القِیٰمَةِ وَیَخلُد فِیه مُهَانًا، إلَّا مَن تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِهِم حَسَنٰتٍ، وَکَانَ اللّٰهُ غَفُورًا رَّحِیمًا، وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّه یَتُوبُ إِلَی اللّٰهِ مَتَابًا﴾

’’اور جو اللہ کے ساتھ کسی بھی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے، اور جس جان کو اللہ نے حرمت بخشی ہے، اسے ناحق قتل نہیں کرتے، اور نہ وہ زنا کرتے ہیں، اور جو شخص بھی یہ کام کرے گا، اسے اپنے گناہ کے وبال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ قیامت کے دن اس کا عذاب بڑھا بڑھا کر دگنا کردیا جائے گا، اور وہ ذلیل ہو کر اس عذاب میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔ ہاں مگر جو کوئی توبہ کرلے، ایمان لے آئے، اور نیک عمل کرے تو اللہ ایسے لوگوں کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کردے گا، اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ اور جو کوئی توبہ کرتا اور نیک عمل کرتا ہے، تو وہ درحقیقت اللہ کی طرف ٹھیک ٹھیک لوٹ آتا ہے‘‘۔

تفسیر وتوضیح 

سورۃ الفرقان کی آخری آیات میں مومنین مخلصین کے اوصاف کا تذکرہ چل رہا ہے، ان اوصاف میں سے بعض کا ذکر ہو چکا ہے اور یہاں مزید تین ان اوصافِ جلیلہ کا مطالعہ کیا جائے گا، جن کی بدولت اللہ تعالیٰ کے بندے عباد الرحمٰن کی صف میں شامل ہو جاتے ہیں۔ البتہ ماقبل مذکور اوصاف اور ان اوصاف میں فرق یہ ہے کہ پہلے ذکر کیے گئے اوصاف ایجابی ہیں، یعنی ایسے ہیں جنھیں اپنی زندگی کا حصہ اور معمول بنانا مطلوب ہے اور ان اوصاف سے متصف ہونے کی بدولت ایک بندۂ مؤمن کی شخصیت میں دل آویزی اور محبوبیت پیدا ہوتی ہے۔ جبکہ زیرِ مطالعہ اوصاف سلبی پہلو رکھتے ہیں، یعنی یہاں مذکور افعال واعمال سے اجتناب مطلوب ہے، اور چونکہ یہ افعال اللہ تعالیٰ کی نظر میں ناپسندیدہ ہیں، اس لیے اللہ کے نیک بندے ان سے اجتناب کرتے ہیں۔ چنانچہ مذکورہ آیاتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے جن تین اوصاف کا ذکر کیا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے: ﴿وَالَّذِینَ لَا یَدعُونَ مَعَ اللّٰهِ إِلٰـهًا اٰخَرَ﴾ ’’اور جو اللہ کے ساتھ کسی بھی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے‘‘۔ یہ مطلوبہ اوصاف میں سے چھٹا وصف ہے۔ یعنی وہ مومنین مخلصین جنھیں قرآنِ کریم نے رحمٰن کے بندوں کی طرف نسبت دے کر شرَف بخشا ہے، ان کی شان یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے پروردگار کی عبادت میں اخلاص کے اس درجے پر فائز ہیں کہ ان کی عبادات وطاعات میں شرک کا شائبہ تک نہیں ہے۔ چنانچہ یہ ان کے لیے بڑی فضیلت کی بات ہے۔ یہاں سورۃ الفرقان کی ان آیات میں عباد الرحمٰن کے کئی اوصاف مذکور ہیں، ان میں سے ایک وصف ’’عبدیت‘‘ ہے اور دلچسپ بات یہ ہے عباد الرحمن کو یہاں باقی اوصاف کے بجائے مذکورہ وصف سے موسوم کیا گیا ہے، اس لیے کہ ان کا خصوصی وصف یہ ہے کہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور اس عبادت میں ان کا اخلاص اتنا واضح ہے کہ انھیں باقی اوصاف کے مقابلے میں اس وصف سے موسوم کیا گیا۔ عبادالرحمٰن کے وصفِ عبادت کی مزید اہمیت اس سے بھی واضح ہوتی ہے کہ اس کے اثبات کے بعد اب غیر اللہ کی عبادت کی نفی کرتے ہوئے فرمایا:﴿وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ﴾اس سے پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرک کتنا بہت بڑا گناہ اور توحید کی کتنی اہمیت ہے۔ اسی طرح اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شرک انسانی معاشرے کے لیے سب سے بڑا مرض ہےاور اس کی جتنی نفی کی جائےگی اتنا ہی توحید پر یقین پختہ ہوتا چلا جائے گا۔ علامہ زحیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: الصفة السادسة البعد عن الشرك: وهو عبادة أحد مع الله أو عبادة غير الله، وهو أكبر الجرائم، لذا قال تعالى: ﴿إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ، وَيَغْفِرُ ما دُونَ ذلِكَ لِمَنْ يَشاءُ﴾ (سورۃالنساء، آیت: 48) (التفسير المنير في العقيدة والشريعة والمنهج، ج:۱۹ ،ص:۱۱۵) ’’عباد الرحمٰن کی چھٹی خصوصیت یہ ہے کہ وہ شرک سے دور رہتے ہیں جو کہ سب سے بڑا جرم ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: بے شک اللہ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے، اور اس سے کمتر ہر بات کو جس کے لیے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے‘‘۔ اس میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ شرک قبیح ترین گناہ ہے اور ہمارے دین میں سب سے بڑا جرم قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ شرک سے کم کسی بھی گناہ کو بغیر توبہ کے جب چاہے معاف کرسکتا ہے، لیکن شرک کی معافی نہیں، اس لیے کہ یہ ناقابلِ معافی جرم ہے، سوائے اس کے کہ شرک کا ارتکاب کرنے والا اپنے اس شنیع فعل سے سچے دل سے توبہ کرے۔

﴿وَلَا یَقتُلُونَ النَّفسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّٰهُ إِلَّا بِالحَقِّ﴾ ’’اور جس جان کو اللہ نے حرمت بخشی ہے، اسے ناحق قتل نہیں کرتے‘‘۔ یہ عباد الرحمٰن کے اوصاف میں سے ساتواں وصف ہے، کہ یہ کسی انسانی جان کے قتل کا اقدام نہیں کرتے، سوائے استثنائی صورتوں کے، مثلا؛ کسی حد میں یا قصاص میں۔ کیونکہ اسلامی تعلیمات کی رو سے شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ قتلِ عمد ہے، اس لیے کہ اس سے پورے معاشرے کی بقا خطرے میں پڑ جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے۔ علامہ زحیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: الصفة السابعة اجتناب القتل: وهو إزهاق النفس الإنسانية عمدا دون حق، وهو اعتداء على صنع الله، وإهدار لحق الحياة الذي هو أقدس حقوق الإنسان. (التفسير المنير في العقيدة والشريعة والمنهج، ج:۱۹ ،ص:۱۱۵) ’’ساتویں صفت قتل سے اجتناب ہے؛ وہ عمداً کسی بے گناہ انسان کی جان لینا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے حق میں تجاوز ہے اور ایک ایسی زندگی کا حق ضائع کرنا ہے جو انسان کے بنیادی حقوق میں سب سے زیادہ مقدس ہے‘‘

﴿وَلَا یَزنُونَ، وَمَن یَّفعَل ذٰلِکَ یَلقَ أَثَامًا﴾ ’’ اور نہ وہ زنا کرتے ہیں، اور جو شخص بھی یہ کام کرے گا، اسے اپنے گناہ کے وبال کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘۔ اسی طرح عباد الرحمٰن کے اوصاف میں سے ایک اہم وصف یہ ہے کہ زنا کے قریب بھی نہیں جاتے، کیونکہ یہ ان عزتوں کا پامال کرنا ہے جو محترم قرار دی گئی ہیں، اور اسی طرح یہ فعل انساب کو خلط ملط کرنا اور فحش وفساد کی اشاعت کا سبب بنتا ہے۔ علامہ زحیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: الصفة الثامنة اجتناب الزنى: وهو انتهاك حرمة العرض، وهو جريمة خطيرة تؤدي إلى اختلاط الأنساب، وإشاعة الأمراض، وهدم الحقوق، وإثارة العداوات والأحقاد والبغضاء. (التفسير المنير في العقيدة والشريعة والمنهج، ج:۱۹،ص:۱۱۶) ’’عباد الرحمٰن کی آٹھویں صفت ہے زنا سے اجتناب۔ زنا؛ عزت وآبرو کی پامالی  ہے جو ایک بڑا جرم ہے اور یہ انساب کے اختلاط، امراض کے پھیلانے، حقوق کے ضائع کرنے اور آپس میں عداوت، کینہ، نفرت جیسے شنیع افعال کے در آنے کا سبب بنتا ہے۔ اس آیت کے متعلق حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا: يا رسولَ الله، أيُّ الذنبِ أعظمُ؟ قال: «أن تجْعَلَ للهِ نِدّاً وهو خَلَقَكَ» قال: قلتُ: ثم أيٌّ؟ قال: «أن تَقْتُلَ ولَدَك خشية أن يأكلَ معك» قال: قلت: ثم أيٌّ؟ قال: «أن تُزَانَي حَليلةَ جَارِك» قال: وأنزلَ الله تعالى تصديقَ قولِ النبيﷺ ﴿وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ﴾ (سنن ابی داؤد، حدیث: 2310) ’’یا رسول اللہ! کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ کہ تم اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراؤ حالانکہ اسی نے تمھیں پیدا کیا ہے۔ میں نے پوچھا اس کے بعد کون سا گناہ بڑا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کہ تم اپنے بچے کو اس ڈر سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گا۔ میں نے کہا پھر اس کے بعد؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔ حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے قول کی تصدیق کے طور پر یہ آیت نازل ہوئی: وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ الخ‘‘۔لہذا یہ ایسے عظیم جرائم ہیں کہ ان کے مرتکبین کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ جو شخص بھی یہ کام کرے گا، اسے آخرت میں اپنے گناہ کے وبال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور آگے فرمایا: ﴿یُّضٰعَف لَهُ العَذَابُ یَومَ القِیٰمَةِ وَیَخلُد فِیه مُهَانًا﴾ ’’قیامت کے دن اس کا عذاب بڑھا بڑھا کر دگنا کردیا جائے گا، اور وہ ذلیل ہو کر اس عذاب میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان گناہوں کی وجہ سے ایسے مجرم (اگر وہ کافر ہوکر مرے) کا عذاب دگنا کرے گا، اور اس عذاب میں وہ ذلیل ہو کر رہمیشہ کے لیے رہے گا۔ البتہ اگر وہ مسلمان ہو تو جرم کے بقدر سزا پانے کے بعد جنت میں داخل کیا جائے گا، کیونکہ مومنین عذاب میں ہمیشہ نہیں رہیں گے۔

﴿إلَّا مَن تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِهِم حَسَنٰتٍ، وَکَانَ اللّٰهُ غَفُورًا رَّحِیمًا، وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّه یَتُوبُ إِلَی اللّٰهِ مَتَابًا﴾ ’’ ہاں مگر جو کوئی توبہ کرلے، ایمان لے آئے، اور نیک عمل کرے تو اللہ ایسے لوگوں کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کردے گا، اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ اور جو کوئی توبہ کرتا اور نیک عمل کرتا ہے، تو وہ درحقیقت اللہ کی طرف ٹھیک ٹھیک لوٹ آتا ہے‘‘۔ اس آیتِ مبارکہ میں فرمایا گیا ہے کہ اگر خدانخواستہ کوئی شخص ان گناہوں کا مرتکب ہو جائے اور اس کے بعد وہ توبہ تائب ہو کر کفر، شرک اور ہر قسم کے نفاق، شک و شبہے سے پاک ہو کر کامل مومن بن جائے اور اپنے ایمان کو عمل صالح سے آراستہ کرے، معروف اختیار کرے، منہیات سے اپنے آپ کو روکے، نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے، تو اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اپنی  بے پایاں رحمت سے اسے پاک صاف کر کے ان کے سیئات کو حسنات سے بدل دے گا۔ اس لیے کہ انابت الی اللہ کی برکت سے سابقہ گناہ مٹ جاتے ہیں اور طاعات وعبادات ان کی جگہ لےلیتی ہیں۔ گناہوں کا نیکیوں میں بدلنے کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ رجوع کرنے والے کے اندر سے سیئات کا ملکہ ختم کر کے اس کی جگہ حسنات کا ملکہ پیدا فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ جب ہر قسم کے سر کش کافر، گناہ گار بندے اپنے سابقہ معاصی پر نادم ہو کر توبہ کریں اور اپنے آپ کو ایمان اور عمل صالح سے آراستہ کریں، تو اللہ تعالیٰ اپنی وسیع رحمت کی بدولت ان پر فضل فرماتا ہے اور ان کے گناہوں کو حسنات میں بدل دیتا ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ عباد الرحمٰن جہاں اللہ تعالیٰ کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں وہاں ان کی یہ خصوصیت بھی کہ جن اعمال و افعال سے اللہ تعالیٰ نے منع کر دیا ہےان سے کلی اجتناب کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی عباد الرحمن کی صف میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین 

لرننگ پورٹل