لاگ ان

ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

لاگ ان

ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

ابنِ عباس
معاون قلم کار

انبیاے کِرام علیہم السّلام کے جانشین

عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ: «الْعُلَمَاءُ خُلَفَاءُ الْأَنْبِيَاءِ» (مجمع الزوائد و قال الهيثمي رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَرِجَالُهُ مُوَثَّقُونَ)

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’علماے دین؛ انبیاے کرام کے خلیفہ اور مسند نشین ہیں‘‘۔

تشریح

اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہونے کی وجہ سے نبی کریمﷺ کا اپنی امت کے ساتھ تعلق متعدد نسبتوں پر مبنی تھا۔ ایک طرف آپﷺ مسلمانوں کے حکمران تھے اور اسلامی حدود اور نظام کا قیام آپ ہی کے ذمے تھا۔ دوسری طرف آپﷺ مسلمانوں کے لیے قرآن و سنت کی تعلیم و تشریح بھی فرماتے تھے اور تیسری طرف آپ ان کی تربیت و تزکیے کے بھی ذمے دار تھے۔ نبی کریمﷺ کے بعد مختلف گروہوں نے آپ کی امت میں آپﷺ کی جانشینی کی۔ چنانچہ نبی اکرمﷺ کی سیاسی نیابت خلفا نے کی اور ان کے لیے خلیفہ کی اصطلاح کا استعمال بھی ہوا جو مشہور و معروف ہے۔ نبی کریمﷺ کی علمی جانشینی علماے اہل سنت نے کی۔ان کے دو بڑے گروہ ہیں جن پر فقہ و روایت کا غلبہ رہا: وہ علما و فقہا کہلائے اور جنھوں نے امت کے تربیت و تزکیہ کا بیڑا اٹھایا وہ صوفیا کہلائے۔ چونکہ خلیفہ کی اصطلاح ایک سیاسی منصب کے لیے رائج ہو چکی تھی اس لیے علما و صوفیا کے لیے خلیفہ کی اصطلاح کا استعمال نہیں کیا گیا۔ لیکن یہ دونوں طبقے امت میں آپﷺ کی نیابت ہی کرتے ہیں جس کی طرف حدیثِ زیرِ مطالعہ میں لفظ خلیفہ سے اشارہ کیا گیا۔ البتہ صوفیاے کرام کے حلقے میں خلیفۂ مجاز کی اصطلاح کا استعمال عام ہے یعنی کسی شیخِ مربی کا وہ شاگرد و مرید جس کی تربیت ایک خاص درجے تک ہو چکی ہو اور اب اسے اپنے شیخ کی طرف سے عامۃ الناس کی تربیت اور اس مقصد کے لیے بیعت لینے کی اجازت دی گئی ہو۔ اصطلاح کا یہ استعمال اسی تصورِ نیابت کے تحت ہی رائج ہوا ہے۔سننِ ترمذی کی روایت میں علماے کرام کے لیے وارث کا لفظ آیا ہے : «إِنَّ العُلَمَاءَ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ، إِنَّ الأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلاَ دِرْهَمًا إِنَّمَا وَرَّثُوا العِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَ بِهِ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ» ’’بے شک علما؛ انبیاے کرام کے وارث ہیں اور بے شک انبیا، درہم و دینار نہیں چھوڑ جاتے بلکہ وہ تو علم چھوڑ جاتے ہیں، جس نے اس علم کو لے لیا اس نے (اس وراثت میں سے ) بڑا حصہ پا لیا۔

ایک کمزور درجے کی روایت میں ان علمی جانشینوں کے لیے یوں دعا منقول ہوئی ہے :«اللَّهُمَّ ارْحَمْ خُلَفَائِي» ’’اے اللہ میرے خلفا پر رحم فرما‘‘ ۔ پوچھا گیا کہ آپ کے یہ خلفا کون ہیں؟ تو خلفا کی تعریف ان کے وظیفے کے ساتھ کی گئی: «الَّذِينَ يَرْوُونَ أَحَادِيثِي وَسُنَّتِي وَيُعَلِّمُونَهَا لِلنَّاسِ» ’’وہ جو میری احادیث اور سنتیں بیان کرتے ہیں اور لوگوں کو ان کی (علمی و عملی ) تعلیم کرتے ہیں‘‘ ۔(المعجم الاوسط، طبرانی) نبی کریمﷺ کے ان جانشینوں کی عزت و احترام اور ان کے حقوق کی ادائی ہماری دینی ذمے داری ہے۔ایک روایت میں آتا ہے: ’’بے شک بوڑھے مسلمان کی عزت کرنا، اُس حاملِ قرآن کی عزت کرنا جو نہ تو قرآن کے آداب و حدود کو پامال کرتا ہو اور نہ ہی اس سے بے رغبتی و بے تعلقی کا مظاہرہ کرتا ہو اور عادل حکمران کی عزت کرنا، اللہ تعالیٰ کی عزت میں سے ہے‘‘ ۔(سنن ابی داؤد) آپﷺ نے فرمایا جو ہمارے دین کے عالم کاحق نہ پہچانے وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔(صحیح الترغیب والترہیب)

لرننگ پورٹل