سفرنامہ: مفتی اویس پاشا قرنی
ضبط و ترتیب: مولانا محمد اقبال
جہاد کے متعلق قوم پرستوں کے نام نہاد بیانیے کی حقیقت
جب ہم افغانستان کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ایک بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ افغان معاشرہ ایک اسلامی اور قبائلی معاشرہ ہے، اس کی بنیادیں بہت مضبوط ہیں۔ مذہب؛ افغان قوم کی روایت وثقافت کا ایک ایسا حصہ ہے جسے اس معاشرے کی اقدار کی مکمل نفی کیے بغیر جدا نہیں کیا جا سکتا اور افغان قوم اپنی روایات واقدار کے متعلق انتہائی حساس اور غیر لچکدار واقع ہوئی ہے۔ جب بھی کسی نے ان روایات کے خلاف اقدامات کیے تو افغان ملت میں سخت اضطراب پیدا ہوا اور افغان قوم نے اس پر انتہائی ردِ عمل کا اظہار کیا۔ ماضی میں بعض ناعاقبت اندیش حکمرانوں نے جو یورپ کی تہذیب سے متاثر تھے، انھوں نے ترقی اور نام نہاد روشن خیالی کے نام پر اسلامی تعلیمات اور افغان روایات کے برعکس اقدامات کیے جیسے خواتین کی نام نہاد آزادی کے نام پر بے حیائی کو فروغ دینا، یورپی لباس کی ترویج اور تعلیمی اداروں میں مخلوط نظامِ تعلیم کی پذیرائی وغیرہ۔ ان روشن خیال حکمرانوں اور نام نہاد اصلاح پسندوں میں امیر امان اللہ خان کا نام سرِ فہرست ہے۔ وہ ترکی کے کمال اتا ترک سے بہت متاثر تھے اور ان کی طرح اصلاحات افغانستان میں لانا چاہتے تھے، مگر افغانستان جیسے روایتی معاشرے میں روایت سے بغاوت اور جدیدیت کی طرف سفر کرنا آسان نہیں تھا۔ اس لیے امان اللہ خان کے خلاف بغاوت ہوئی اور اس بغاوت کے نتیجے میں امان اللہ خان۱۹۲۹ء میں ملک چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ یہ بغاوت کی اصل اور حقیقی وجہ تھی مگر آج کل قوم پرستوں نے اس بنیادی وجہ سے آنکھیں بند کر کے اسے برطانوی سازش کا افسانہ بناکر متعارف کرایا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ انگریز نے یہاں کے مذہبی رہنماؤں کے ساتھ مل کر افغانستان میں تباہی مچائی۔ بد قسمتی سے افغانستان کی جدید تعلیم یافتہ نئی نسل اس پورے پَسْ منظر سے ناواقف ہے اور قوم پرستوں کے اس بیانیے کو ہی درست سمجھتی ہے۔ ممکن ہے انگریز نے امیر امان اللہ خان کے خلاف عوامی احتجاج کو اپنے حق میں استعمال کیا ہو اور افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ہو، مگر اس احتجاج کی نوبت کیوں آئی اور مداخلت کا موقع کس نے فراہم کیا؟ اس پر غور کرنے کے لیے شاید کسی کے پاس وقت نہیں ہے، ورنہ بخوبی اس بغاوت کی حقیقی وجہ سامنے آجا تی ۔ اگر امان اللہ خان مغربی تہذیب کو اپنی قوم پر مسلط نہ کرتے تو احتجاج کی نوبت ہی نہ آتی۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ امیر امان اللہ خان کے بعد ان کے بعد برسر اقتدار آنے والے نادر شاہ نے ان جدت زدہ اقدامات کی اصلاح کا ارادہ کیا اور اپنی تہذیب و روایات کے مطابق تعلیمی نظام بنانے کے لیے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ، حضرت مولانا سید سلیمان ندوی اور سر راس مسعود کو مشاورت کے لیے مدعو کیا۔ اپنی پہلی ملاقات میں نادر شاہ نے علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ سے اپنے اس ارادے کا اظہار یوں کیا: ’’میری کوشش ہے کہ افغانستان میں دین و دنیا کو جمع کروں اور ایک ایسے اسلامی ملک کا نمونہ پیش کروں جس میں قدیم اسلام اور جدید تمدن کے محاسن یکجا ہوں‘‘۔ (سیرِ افغانستان، سید سلیمان ندوی،ص:۶۲)اسی طرح اسی دورے میں علامہ محمد اقبال نے نادر شاہ کی شخصیت کا جو مشاہدہ کیا تھا اسے کابل میں ایک جلسے میں اس طرح بیان کیا: ’’مجھے خوشی ہے کہ افغانستان کو ایک ایسا مردِ کامل مل گیا ہے جس کا وہ عرصے سے انتظار کر رہا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ اعلیٰ حضرت نادرشاہ کی شخصیتِ ایجاد کار کو اسی لیے پیدا کیا گیا ہے کہ افغانستان کو ایشیا میں ایک نئی قوم بنا کر دنیا سے تعارف کرائیں۔ اس وطن کے نوجوانوں کو چاہیے کہ اس بزرگ رہنما کو اپنی تعلیم و تربیت کا معلم سمجھیں کیونکہ ان کی تمام زندگی ایثار، اخلاص اور اپنے ملک کے ساتھ صداقت اور اسلام کے ساتھ عشق و محبت سے لبریز ہے‘‘۔ (سیرِ افغانستان، سید سلیمان ندوی، ص:۸۴)نادرشاہ اپنے پیش رو کی بے اعتدالیوں سے خوب واقف تھے اور اس لیے انھوں نے ان تمام لوگوں کو واپس بلایا جنھوں نے امیر امان اللہ کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ مگر قدرت نے یاوری نہیں کی، نادر شاہ جیسی شخصیت کو شہید کر دیا گیا۔ خلاصہ یہ کہ امیر امان اللہ خان نے افغانستان میں جس طرح اصلاحات کے نام پر مغربی تہذیب کی طرف پیش رفت کرنا چاہی اس کاردِ عمل آنا فطری تھا، اسے روکا نہیں جا سکتا تھا اور اس کے ساتھ نادر شاہ جیسے نیک حکمران نے موافقت اس لیے نہیں کی کہ یہ طرزِ عمل ان کی نظر میں درست نہیں تھا۔ لہٰذا قوم پرستوں کا یہ بیانیہ کہ امان اللہ خان معصوم تھے اور انھوں نے کسی قسم کی غلطی نہیں کی بلکہ انگریزوں نے سازش کے تحت اقتدار سے الگ کیا، بالکل حقائق پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ حقیقت وہی ہے کہ یہ دراصل روایت اور جدیدیت کی کشمکش تھی، جس میں مذہبی طبقہ روایت جبکہ امان اللہ خان جدیدیت کے علم بردار تھے۔ ممکن ہے کہ امان اللہ خان نیک نیتی کی بنیاد پر یہ سب کچھ کر رہے ہوں، مگر جو کچھ کر رہے تھے غلط کر رہے تھے اور توقع کے مطابق اس کے نتائج ان کے حق میں اچھے نہیں آئے۔
اسی طرح جب سویت یونین نے افغانستان کی سر زمین پر حملہ کیا تو یہاں کے غیور عوام نے اپنی آزادی کے لیے جنگ لڑی اور اس جنگ میں پڑوسی ممالک اور عالمی قوتوں نے بھی افغان عوام کی مدد کی۔ اس مدد اور تعاون کو بنیاد بناکر قوم پرستوں نے یہ بیانیہ بنایا کہ یہ جنگ افغان عوام کی آزادی کی جنگ نہیں تھی بلکہ امریکہ اور روس کی جنگ تھی۔ اس بیانیے میں بھی یہ قوم پرست کامیاب دکھائی دیتے ہیں اور ہماری نئی نسل بلکہ بہت سے مذہبی لوگ بھی اس بیانیے سے متاثر ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ امیر امان اللہ خان نے جن اصلاحات کا آغاز کیا تھا اور اس کے بعد افغانستان میں جو تعلیمی نظام متعارف ہوا تھا اس نے ایک ایسی نسل تیار کی جو مغربی طرزِ زندگی کی دلدادہ تھی اور اس نسل نے بادشاہت کے بجائے جمہوریت اور سیکیولرازم کا مطالبہ کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل محمد داؤد نے ظاہرشاہ کی حکومت کا خاتمہ کر کے جمہوریت نافذ کی اور پھر نور محمد ترکئی نے کمیونسٹ انقلاب برپا کیا اور حفیظ اللہ امین نے سویت یونین کو افغانستان میں مداخلت کی دعوت دی۔ اس دعوت کو بنیاد بناکر سویت یونین افغانستان پر حملہ آور ہوا اور اس کے مقابلے میں افغان عوام نے جنگِ آزادی کا آغاز کیا اور بالآخر روس کو پسپا کر دیا، یہ ہے اصل حقیقت۔ ظاہر بات ہے اس جنگ کے ذمے دار بھی یہی سیکیولر، کمیونسٹ حکمران تھے نہ کہ مذہبی رہنما، اس لیے سویت یونین کو مداخلت کی دعوت مذہبی لوگوں نے نہیں دی بلکہ انھوں نے تو اس کا مقابلہ کیا۔ اب اگر امریکہ نے یا کسی اور ملک نے اس میں کردار ادا کیا ہے یا اس سے فائدہ اٹھا یا ہے تو صرف اس وجہ سے اسے امریکہ کی جنگ نہیں قرار دیا جاسکتا۔ بالکل یہی طریقۂ واردات قوم پرستوں نے امریکہ اور طالبان کے درمیان جنگ میں بھی اپنایا ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ یہ جنگ دراصل پاکستان کی جنگ ہے، پاکستان افغانستان کے خلاف طالبان کو استعمال کرنا چاہتا ہے اور افغان سرزمین پر خون ریزی چاہتا ہے۔ حالانکہ اس میں اصل بات اتنی سی ہے کہ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اور طالبان کی حکومت کا خاتمہ کیا تو اس کے مقابلے کے لیے افغان قوم نے جنگ لڑی۔ اب اس جنگ میں کن ممالک اور قوموں کو فائدہ پہنچتا ہے اور کن کو نقصان، اس کاذمے دار کوئی مخصوص طبقہ نہیں۔ بلکہ یہ تو ہر جنگ کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے کہ یہ اگربعض قوموں کے حق میں نقصان کا باعث ہوتی ہے تو بعض دیگر کے حق میں اس کے فوائد بھی بہر حال ہوتے ہیں، اس سے تو دنیا کی کوئی جنگ مستثنیٰ نہیں ہے۔ لہٰذا قوم پرستوں کا سازش والا بیانیہ محض ایک فریب ہے، اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
اسی طرح یہ سمجھنا بھی از حد ضروری ہے کہ کیا مادی ترقی کے لیے اپنی روایات اور اپنے مذہب سے بغاوت ضروری ہے اور اپنی تہذیب سے روگردانی کیے بغیر مادی ترقی ممکن نہیں ہے؟ اس سوال کو ہم دو طرح سے سمجھنے کی کوشش کریں گے: اوّلاً اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ اگر بالفرض ہماری تہذیب مادی ترقی میں رکاوٹ بن جائے تو کیا ہم اپنی اقدار، روایات اور مذہبی تعلیمات قربان کریں گے اور اس کا اختیار ہمارے پاس ہے؟ ظاہر بات ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہوگا، اس لیے کہ بحیثیتِ مسلمان ہمارے پاس یہ اختیار نہیں ہے، بلکہ اس کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے پاس ہے۔ دوسرے یہ کہ اپنی تہذیب سے بغاوت کیے بغیر کیا ہماری مادی ترقی ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب مشاہدے پر مبنی ہوگا کہ کیا جن مسلم ممالک میں جدیدیت کو فروغ دیا گیا اور اپنی تہذیب سے بغاوت کی گئی تو کیا وہاں ترقی ہوئی ہے یا ابھی تک عنقا ہے؟ اس کا جواب بھی واضح ہے۔ ہمارے سامنے ترکی اور کسی نہ کسی درجے میں مصر کی مثالیں ہیں، ترکی نے کمال اتاترک کی قیادت میں اپنی تہذیب سے بغاوت کا فیصلہ کیا اور مشرقی تہذیب کا ایک ایک نشان مٹا ڈالا، مگر ترکی نے اس کے ذریعے کوئی ترقی نہیں کی۔ بلکہ ترکی نے تب ترقی کی جب وہ اپنی تہذیب کی طرف واپسی کے راستے پر ہے۔ اسی طرح مصر میں جدیدیت نے انیسویں صدی میں پنجے گاڑ دیے مگر ابھی تک اس نے قابلِ ذکر ترقی نہیں کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مادی ترقی کا جدیدیت سے بالکل تعلق نہیں ہے، بلکہ یہ قوموں کے عزم، اپنے نظام کے ساتھ کمٹمنٹ اور خود احتسابی سے جڑی ہوئی ہے۔ لہٰذا اپنی تہذیب سے بغاوت کرنے میں ترقی ڈھونڈنا اور اس مقصد کے لیے اپنی تاریخ سے رشتہ توڑنا ایک احمقانہ اور غیر دانشمندانہ طرزِ عمل ہے۔
امارتِ اسلامیہ افغانستان: توقعات اور چیلنجز
طویل لڑائیوں اور کئی انقلاب رونما ہونے کے بعد اس وقت افغانستان میں طالبان کی امارتِ اسلامیہ قائم ہے، اس لیے فطری طور پر نہ صرف یہاں کے باشندوں کو بلکہ دنیا میں بسنے والا ہر وہ مسلمان جو مسلمانوں کے سیاسی زوال پر دل گرفتہ ہے، اسے امارتِ اسلامیہ سے بہت سی توقعات ہیں۔ ہر ایک کی خواہش اور دلی آرزو ہے کہ امارتِ اسلامیہ دنیا میں اسلامی عدل و انصاف کی ایک مثال قائم کرے گی اور دنیا کے سامنے اسلامی نظام کا ایک نمونہ پیش کرے گی۔ جبکہ لوگوں کی ان توقعات اور آرزؤں کے ساتھ امارتِ اسلامیہ کو کئی اندرونی اور بیرونی چیلنجز درپیش ہیں۔ ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ امارتِ اسلامیہ کو عالمی برادری میں اپنا وقار بحال کرنا اور اپنی حکومت تسلیم کرانا ہے، جس میں ابھی تک کوئی قابلِ ذکر پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ اسی طرح اس اہم بیرونی چیلنج کے ساتھ بہت سے داخلی چیلنجز بھی موجود ہیں، ان میں سے ایک معاشی اور اقتصادی چیلنج ہے۔ اس لیے ملک کو معاشی لحاظ سے مستحکم کرنا اور عوام کے معاشی حالات درست کرنا از حد ضروری ہے تاکہ وہ دنیا میں باوقار حیثیت حاصل کر سکیں۔ کیونکہ جس ملک کی معیشت کمزور ہو وہ دنیا میں برابری کی سطح پر معاملات نہیں کر سکتا۔ اسی طرح ان چیلنجز میں شاید سب سے زیادہ مشکل چیلنج اپنے عوام اور خاص طور پر نئی نسل کو اعتماد میں لینا ہے۔ اس کی ضرورت اس لیے بہت زیادہ ہے کہ نئی نسل نسبتاً جدید تعلیم سے بہرہ ور ہے اور آزادانہ مزاج کے ساتھ زندگی گزارنے کی خواہش مند ہے۔ کیونکہ افغان معاشرے میں بدستور ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو جدیدیت سے متاثر ہے اور اس میں قوم پرستانہ خیالات راسخ ہیں، ان کے ساتھ سختی سے پیش آنے کے بجائے نرمی اور حکمت سے پیش آنا ضروری ہے، تاکہ داخلی اختلاف و افتراق اور خلفشار سے بچا جا سکے، کیونکہ داخلی انتشاراور تصادم ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ آج کل عالمِ اسلام کے خلاف عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ اور سیکیولر تہذیبی جنگ جاری ہے جس کا ایک پہلو فکری بھی ہے۔ چنانچہ یہ جنگ ہتھیاروں سے نہیں بلکہ قوم کی اصلاح کرنے اور حکمت عملی اپنانے سے جیتی جا سکتی ہے۔ اس معاملے میں امارتِ اسلامیہ کو موثر تعلیمی نظام تشکیل دینے پر توجہ دینی چاہیے۔ لہٰذا جذبات سے کام لینے کے بجائے موجودہ حالات میں معاشرے کی اصلاح کے لیے سنجیدہ، مثبت اور تعمیری اقدامات کی ضرورت ہے۔
کتابیات
الکامل في التاریخ (لابن الأثير)
افغانستان د تاریخ په رڼا کی (استاد احمد علی کھزاد)
افغانستان د معاصر تاریخ په رڼا کی (شھسوار سنگر وال)
له احمد شاه بابا سره تر حامد کرزی
د افغانستان تاريخ له اصحابانو ترطالبانو(حانواک مفتی زادہ)
د افغانستان پر معاصر تاریخ یوه لنډه کتنہ (ڈاکٹر ابراہیم عطائی)
سیرِ افغانستان (مولا نا سید سلیمان ندوی)
تاریخِ افغانستان (مولانا اسماعیل ریحان)