مفتی نذیر احمد ہاشمی مدظلہ
ضبط و ترتیب: مولانا عابد علی
تشریح
شرعی احکامات عمومی نوعیت کے ہوتے ہیں ۔ اس میں ہر ہر شخص کے لیے علیحدہ قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ اس لیے بعض دفعہ کسی شخص کے ذاتی حالات اس طرح کے ہوتے ہیں کہ اس عمومی حکمِ شرعی پر عمل حرج کا باعث بنتا ہے تو ایسی صورت میں شریعت نے کچھ اصول متعین کیے ہیں جن کی مدد سے اس مشقت کو دور کیا جا سکتا ہے۔ اور جس قدر ضرورت ہو اس معاملے میں آسانی پیدا کی جاتی ہے۔ اور جب وہ مشقت دور ہو جائے تو اصل حکمِ شرعی واپس لوٹ آتا ہے۔اس بات کو فقہاے کرام رحمۃ اللہ علیہم فرماتے ہیں: الأمر اذا ضاق اتسع۔
مثالیں
(۱) عام حالات میں کسی شخص پر قرض ہو تو اس پر ادائی کے لیے جبر کیا جا سکتا ہے، لیکن جب مدیون (قرض دار) نادار ہو اور اس کی طرف سے کوئی کفیل(قرض ادا کرنے کی ذمے داری لینےوالا) بھی موجود نہ ہو تو اس کے مالدار ہونے کی حالت کا انتظار کرنا ہوگا اور اگر وہ پورا دین (قرض)ایک ساتھ ادا کرنے پر قدرت نہ رکھتا ہو تو اس کے ساتھ قسط مقرر کرکے تعاون کیا جائے گا۔کیوں کہ مال نہ ہونے کی وجہ سے اسے اور مشقت میں نہیں ڈالا جائے گا اور اسے وسعت دی جائے گی۔
(۲) عام حالات میں شریعت نے صرف مردوں کی گواہی کو معتبر ٹھہرایا ہے اور عورت کی گواہی تبھی معتبر ٹھہرائی ہے جب وہ کسی مرد کی گواہی کے ساتھ ملی ہو ورنہ صرف عورتوں کی گواہی معتبر نہیں ہے، لیکن بعض مسائل میں ایسے مقامات وحالات جہاں مردوں کی حاضری اور واقفیت مشکل یا ناممکن ہو، ان مقامات پر عورتوں کی گواہی قبول کی جاتی ہےورنہ لوگوں کے حقوق کے ضایع ہونے کا اندیشہ ہے، جیسے بچے کے نسب اور پرورش کے حق کی حفاظت کے لیے بچے کی ولادت پر صرف ایک دایہ کی گواہی کا قبول کرنا کیوں کہ اس موقعے پر مرد موجود نہیں ہوتے اور اگر مردوں کی گواہی ہی قبول کی جائے تو بہت مشقت لازم آئے گی۔
(۳) زندگی کی حفاظت کے لیے مرے ہوئے جانور کا گوشت کھا لینا یا کسی اور شخص کے مال کو استعمال کرلینا شریعت نے جائز قرار دیا ہے۔ حالات بہتر ہونے پر اس شخص کو اس چیز کی رقم واپس کرنے کی اجازت ہے۔ شریعت نے جان بچانے کے لیے اس مشکل وقت میں نرمی کا معاملہ رکھا ہے۔
(۴)وفات کی عدت گزارنے والی عورت کے لیے اگر کوئی کمانے والا نہ ہو تو اس کی زندگی میں بہت حرج میں آنے کا اندیشہ ہے، اس لیے شریعت نے اس معاملے میں نرمی کرتے ہوئے دن کےوقت میں معاش کے حصول کے لیے باہر جانے کی اجازت دی ہے۔
(۵) شریعت میں متعین نیکی کے کاموں کی ادائیگی کے لیے کسی شخص کو اجرت پر رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ مثلاً تعلیمِ قرآن یا اذان دینے کے لیے معلم یا موذن کی خدمات معاوضہ دے کر وصول کرنے کی اجازت دی گئی ہے، جو فقہاے متاخرین کا مفتیٰ بہ قول ہے۔ کیوں کہ اگر کسی کو معاوضہ دے کر یہ کام نہ کروائے جائیں تو اندیشہ ہے کہ دین کی حفاظت و ابلاغ کا کام کرنے والا کوئی نہ ہو۔
(۶)کسی شخص کو حملہ آور، چور اور باغی سے اپنے آپ کو بچانے لیے اسے زخمی یا قتل کرنا بھی جائز ہے۔ کیوں کہ ان ظالمین سے اگر اس قسم کا دفاع جائز نہ کیا جائے تو پھر لوگوں کو شدید مشقت لاحق ہوگی اور اس طرح وہ ان ظالموں کے رحم وکرم پر ہوں گے۔ اور ان ظالموں اور مفسدین کو لوگوں پر ظلم کرنے کی آزادی مل جائے گی۔ حالاں کہ اللہظلم کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے ۔ اس لیے حملہ کرنے والے کو اپنے دفاع کے لیے زخمی کرنا یا قتل کرنا بھی جائز ہے۔