لاگ ان

ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

لاگ ان

ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

ہفتہ 21 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 23 نومبر 2024

گفتگو: ڈاکٹر محمدرشید ارشد
ٹرانسکرپشن: دانیال بن شفیق

شعبۂ اسلامی علوم، جامعہ بحریہ، کراچی، کے اساتذہ سے گفتگو، جسے ضبط و ترتیب کے بعد قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے

Rudyard Kipling لٹریچر کا آدمی ہے، اُس کی ایک نظم ہے جس کا ایک جملہ بڑا مشہور ہے: East is East, and West is West, and never shall the twain meet، مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب ہے اور یہ دونوں مل نہیں سکتے۔ کل ہی ایک مجلس میں سلیم احمد،کراچی کے بہت مشہور شاعر تھے، دانشور بھی تھے، ڈرامہ نگار بھی تھے اُن کی ایک طویل نظم سننے کا اتفاق ہوا’’مشرق ہار گیا ہے‘‘ ۔اُس کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے کہ مشرق ہار گیا ہے اور مغرب نے کیسے influence کیا ہے مشرق کو تو وہ غیر معمولی چیز ہے، اس آزاد نظم کے ابتدائی چند مصرعے یہ ہیں:

کِپلنگؔ نے کہا تھا :

’’مشرق مشرق ہے

اور مغرب مغرب ہے

اور دونوں کا ملنا نا ممکن ہے‘‘

لیکن مغرب مشرق کے گھر آنگن میں آ پہونچا ہے

میرا نوکر بی بی سی سے خبریں سنتا ہے

میں بیدلؔ اور حافظؔ کے بجائے

شیکسپئیرؔ اور رلکےؔ کی باتیں کرتا ہوں

ہمارے ہاں بھی چونکہ آپ کو پتاہے کہ مغربی فکر یا مغربی طرزِ زندگی یا اِس کو جدیدیت بھی کہا جاتا ہے، وہ آئی ہے ایک طرح سے gun point پر یعنی یہ تہذیبوں کے درمیان، قوموں کے درمیان ثقافتی، علمی، تہذیبی لین دین چلتا رہتا ہے، ایک دوسرے سے ہم لین دین کرتے ہیں لیکن ہمارے ساتھ تو جو ہوا ہے، وہ جبر کے ساتھ ہوا ہے اور ہم سے مراد ہے، امتِ مسلمہ ۔ اور آپ دیکھیں نا جب بھی ہمارے ہاں پڑھے لکھے لوگوں میں گفتگو ہوتی ہے کہ بھئی ہم امتِ مسلمہ پچھڑ کیوں گئی؟ پیچھے کیوں رہ گئی؟ کیونکہ ایک belated consciousness کا ایک احساس ہے نا کہ ہم پیچھے رہ گئے اور ایک جیسے catching up syndrome کا شکار ہیں ہم، کہ ہمیں کسی طریقے سے catch up کرنا ہے مغرب کے ساتھ یعنی وہ آگے آگے بھاگ رہے ہیں، ہم اُن کے پیچھے پیچھے جا رہے ہیں، اُس میں ایک سوال کیا جاتا ہے Pervez Hoodbhoy کی ایک کتاب ہے، میرے خیال سے eighty’s میں چھپی تھی: Islam and Science تو یہاں ایک سوال اٹھایا جاتا ہے کہ بھئی جو enlightenment ہے، یہ مسلم امت میں کیوں نہیں آئی؟ اور روشن خیالی کی تحریک تھی تو یہ یہاں کیوں نہیں آئی؟ یا ہم سے یہ ترقی کی بس کیوں چھوٹ گئی؟ اور ہم زوال کا شکار کیوں ہوئے؟ آپ کو معلوم ہے؟ پورا ایک افسانہ ہے عروج و زوال کا کہ جی ہم بہت عروج پر تھے پھر ہم زوال کا شکار ہو گئے، پہلے مغرب جو ہے، وہ زوال کا شکار تھا، اب وہ عروج پر ہے بلکہ علامہ اقبال کی شاعری میں بھی اِس کی طرف اشارہ ہے، اُن کے خطبات میں بھی اشارہ ہے کہ جدید مغرب کی تشکیل میں مسلمانوں کا بہت حصہ ہے یعنی جو early renaissance ہے، اُس کے بارے میں کہا جاتا ہے نا کہ بھئی وہ تو اپنی تُراث سے لا تعلق ہو گئے تھے medieval age میں، Christian era میں اور ہر چیز پر جیسے ایک sacred canopy تھی اور زندگی کے سارے شعبے مذہب کی چھت و چھایا میں ہو رہے تھے اور Church کی اور Pop کی hegemony تھی اور وہاں کے کچھ لوگوں کا یہ خیال بھی تھا کہ philosophy became the handmaiden of theology، فلسفہ جو ہے، وہ الٰہیات کی باندی بن کے رہ گیا تھا تو یہ جو کہتے ہیں کہ renaissance میں ہم نے اپنی رومی اور یونانی جو تراث ہے،اُس کی ہم نے بازیافت کی ہے اور چونکہ وہ کہا کرتے تھے کہ بھئی ہماری یہ دو origins ہیں ، جو ہمارا ذہن ہے، جو ہماری فکر ہے، جو ہمارے تصورات ہیں، اُس کا origin یونان ہے اور جو ہمارا عمل ہے، ہمارا قانون ہے، ہماری سلطنت ہے، وہ مغرب سے ملی ہے، ٹھیک ہے نا یعنی آج بھی آپ دیکھیں: Michel Foucault ایک بہت مشہور French Thinker ہے، اُس نے یہ بات کہی ہے ،اور بہت سے لوگوں نے بھی یہ بات کی ہے کہ بھئی دو ہی چیزیں ہیں اصل میں جو قوموں کے عروج و زوال کو طے کرتی ہیں، وہ ہیں Knowledge and Power، گویا مغرب والوں نے یہ کہا کہ ہمارا knowledge جہاں سے آیا ہے، وہ Greek سے ہے، Greek thought یا philosophy ہے اور ہماری power کا جو structure ہے، وہ Roman Empire سے آیا ہے۔ تو میں بتا یہ رہا تھا کہ مسلمانوں نے اُن کے اِن علوم کی باز یافت میں حصہ ڈالا ہے، جب Spain میں مسلمانوں کی حکومت تھی ، وہاں کی universities میں، قرطبہ اور غرناطہ کی یونی ورسٹیوں میں پورے Europe سے لوگ جاتے تھے اور پڑھتے تھے، تب بہت سی یونانی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا گیا، تو پھر گویا Europe کے لوگوں نے، جو عیسائی تھے، اُنھوں نے بھی اپنے علوم کو دوبارہ سے حاصل کیا ہے، اُس کا جو ذریعہ بنے، اُس کا جو آلہ بنے، وہ مسلمان بنے ۔

تو بہر حال میں کہہ رہا تھا کہ بخاری و مسلم کی ایک بہت مشہور حدیث ہےحدیثِ جبرائیل،جو اُس میں جب نبیِ اکرمﷺ سے پوچھا گیا: «فَأَخْبِرْنِيْ عَنِ السَّاعَةِ» یعنی خاتمے کی بابت ارشاد فرمائیے، فرمایا کہ: «مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ» یعنی بتانے والا، پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا اس بارے میں۔ پھر اگلا سوال کیا گیا کہ: « فَأَخْبِرْنِيْ عَنْ أَمَارَاتِهَا» کہ اس کی نشانیاں بتا دیں، تو فرمایا کہ: «أَنْ تَلِدَ الأَمَةُ رَبَّتَهَا» کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی، اِس روایت کی کئی توجیہات ہیں لیکن ایک جدید توجیہ کچھ لوگوں نے کی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اِس وقت ہمارا status کیا ہے؟ اِس وقت سے مراد تقریباً دو سو برس سے جو ہمارا status ہے یاجو اِس وقت ہماری حیثیت ہے، لونڈی کی ہے، ہماری حیثیت غلام کی ہے، ہم subservient ہیں اور جو مالکہ ہے، وہ مغربی تہذیب ہے تو گویا لونڈی جو اِس وقت لونڈی ہے، اُس نے اپنی مالکہ کو جنا ہے یعنی گویا اسلامی تہذیب نے مغربی تہذیب کو جنم دیا یعنی جس کو جنم دیا تھا، وہ اُس کی مالکہ بن بیٹھی ہے، غالب آ گئی ہے۔ تو بہر حال یہ جو میں نے عرض کیا ہے نا کہ پھر ہم colonize ہو گئے اور یہ کہا جاتا ہے کہ ۱۷۸۹ء سے لے کے ۱۹۱۴ء تک، اِس کو کہا جاتا ہے the long nineteen century یعنی ۱۲۵ برس ، اِس میں امتِ مسلمہ تقریباً ساری کی ساری مغربی طاقتوں کے زیرِ نگیں آگئی، حجاز کا کچھ علاقہ، افغانستان، کچھ ترکی، کچھ ایران، بس یہ بچ گیا باقی ہم سب colonize ہو گئے۔ تو اُس کے بعد جو ہم پر اثرات ہوئے ہیں، وہ غیر معمولی ہیں اور یہ ٹھیک ہے کہ بھئی، آپ کو پتا ہے ہمارے یہاں دو انتہائیں ہیں: ایک انتہا جو مذہبی لوگوں کی طرف سے زیادہ تر ہوتی ہے، وہ ایک سازشی theory کا تصور ہے، ایک syndrome میں رہتے ہیں وہ کہ جی فلاں نے سازش کر لی، فلاں نے کر لی اور ہم تو گویا بہت اچھے بچے تھے، ہم میں کوئی مسئلہ نہیں تھا اور سات سمندر پار سے آ کر ڈاکوؤں نے ہمیں لوٹا کھسوٹا اور ہمارے ساتھ یہ کیا، اِس کے بر عکس جو ہمارے ہاں Islamic modernist کہلاتے ہیں، وہ بالکل opposite side پر کھڑے ہوتے ہیں، وہ سارا ملبا آپ کے بادشاہوں پر اور پھر آپ کی جو مذہبی class ہے، اُس پہ ڈال دیتے ہیں کہ جناب اِنھوں نے ہمیں پیچھے رکھا، اِنھوں نے ہمیں برباد کیا، اِنھوں نے ہمیں آگے نہیں بڑھنے دیا تو اصل میں بات یہ ہے کہ صحیح بات اِن دونوں کے درمیان کی ہے، منیر نیازی ایک بڑے اچھے شاعر ہیں، اردو کے بھی اور پنجابی کے بھی تو اُن کا ایک قطعہ بہت مشہور ہے، وہ کچھ اِس طرح کا ہے کہ:

کچھ اُنج وی راہاں اوکھیاں سن
کچھ گل وچ غم دا طوق وی سی
کچھ شہر دے لوگ وی ظالم سن
کچھ سانوں مرن دا شوق وی سی

اُن کا یہ دوسرا شعر ہے نا، کچھ شہر دے لوگ وی ظالم سن لیکن کچھ سانوں مرن دا شوق وی سی، ایک Algerian Thinker ہیں Malek Bennabi، الظاهرة القرآنية اُن کی کتاب بہت مشہور ہے، The Quranic Phenomenon اور بھی کئی کتابیں ہیں، اُن کا ایک بہت اچھا concept ہے colonizability کا، کہ ہم colonizable تھے، اِس وجہ سے ہم colonize ہوئے تو یا، جیسے ایک سادہ سا physiological concept ہے نا کہ انسان کا جسم جب کمزور ہو جاتا ہے، قوتِ مدافعت اُس میں کم ہو جاتی ہے تو پھر ہر طرح کا bacteria اور virus اُس پہ حملہ کرتا ہے، ظاہری بات ہے کیونکہ، ہمارے اندر colonizability کی conditions پیدا ہو گئی تھیں، ہم colonize ہو گئے تو بہر حال اُس کے بعد جو تبدیلیاں ہمارے ساتھ ہوئی ہیں، وہ غیر معمولی ہیں اور جو ہمارے طاقت کےادارے تھے ہماری حکومت، سلطنت کے، وہ توڑ دیے گئے، قضا کے ادارے ختم کر دیے گئے، جوہمارے تعلیم کے ادارے تھے، مدرسہ تھا، جامعہ تھی، اُس کو dismantle کر دیا گیا اور جو ہمارےاخلاقی تربیت کے سر چشمے تھے، خانقاہیں تھیں، اُن کو بھی ختم کر دیا گیا تو گویا ہمارے ساتھ ایک بہت بڑی واردات ہوئی ہے لیکن آپ دیکھیں نا کہ المیہ یہ ہے کہ یہ باتیں ہمارے بیانیے میں شامل نہیں ہیں یعنی ہمارے ساتھ یہ سب کیوں ہو گیا؟ آپ مطالعۂ پاکستان کو ہی دیکھ لیں تو مطالعۂ پاکستان میں جو binary ہمارے سامنے لائی جاتی ہے، وہ ہندو مسلم کیbinary ہے، سارا اسلامی، پاکستانی علم جو ہے، ساری Pakistan studies اِس پہ کھڑی ہوئی ہے، ہندو مسلمان، یہ دو الگ الگ قومیں تھیں، دو قومی نظریہ تھا، یہ تھا، وہ تھا، اُس میں جو غاصب اور جو استحصال کرنے والی قوت تھی یعنی استعماری انگریز، اُس کا مذکور ہی نہیں ہے یعنی مجھے ایسے لگتا ہے کہ ہمیں کوئی جیسے amnesia ہو گیا ہے ایک، collective amnesia ہمیں ہو گیا ہے۔ ہم یہ بھول گئے ہیں کہ بھئی انگریز نے کیا کیا تھا؟ اور اِس وقت تو آپ کو پتا ہے کہ پچھلے ۳۰، ۳۵، ۴۰ سال سے ایک پورا discipline مغرب میں develop ہو رہا ہے post-colonial studies کا یا decolonization کا تو اُس میں ہمارے پڑوس میں بہت کام ہوا ہے یعنی جو بھارت کے Ashis Nandy ہیں اور جناب Vishna ہیں پھر یہ جو politician ہے،جس کی کتابیں بہت مشہور ہیں، Shashi Tharoor یہ سب لوگ کام کر رہے ہیں،Inglorious Empire اور Era of Darkness وغیرہ وغیرہ پر، تو مطلب اُن کو اِس کا شعور ہے لیکن آپ دیکھیں ہمارے ہاں، ہمارے بیانیے میں اِس کا کوئی ذکر نہیں ہے اور اِسی لیے آپ دیکھتے ہیں آج کل کے دانشور ، وہ ہر وقت یہ رونا پیٹنا ڈالتے رہتے ہیں کہ بھئی اگر ہمارے پاس کوئی ادارے بنے ہیں، ہم تو ایک میل بھی railway کو نہیں بڑھا سکے، اُنھوں نے یہ بنا دیا، drainage بھی بنا دیا، فلاں بنا دیا، ڈھما بنا دیا، وہ تو یہ کہتے ہیں کہ اگر انگریز یہاں نہ آتا، آپ تو ابھی تک medieval age میں ہی جی رہے ہوتے تو ہمیں تو انگریز کو سلام کرنا چاہیے، آپ دیکھیں نا Karl Marx نے تعریف کی ہے اور ویسے تو ظاہری بات ہے کہ وہ ایک لحاظ سے وہ anti-imperialist تھا اور ایک خاص طرح کا جو liberal order ہے، اُس کے خلاف تھا لیکن اُس نے اِس کی تائید کی، اُس نے کہا کہ اچھی بات ہے یعنی یہ لوگ جو ہیں، وہ اِتنے پسماندہ تھے کہ بھئی اِن کو جو ہے، وہ اگر اِن پہ کوئی عرب آتے یا افغانی آتے تو وہ بھی اِن کے لیے مفید نہیں تھے۔ تو انگریزوں کا آنا اِن کے لیے blessing بن گیا کہ چلو کچھ تھوڑا سا grow کر گئے یہ، تھوڑا develop ہو گئے اور چونکہ اُس کا تصور بھی یہی ہے نا کہ بھئی مطلب جو انقلاب آئے گا، وہ phases میں آئے گا نا، agrarian age ہے، اُس کے بعد industrial age آئے گا پھر اُس کے بعد وہ انقلاب آئے گا، اِسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ اُس کے تصورات جو ہیں، وہ صحیح طرح کام نہیں کر سکے یعنی انقلاب اُس کا خیال تھا کہ جو سب سے زیادہ advanced ہیں industrially، industrial، جہاں پہ industries وغیرہ زیادہ ہیں، وہاں انقلاب آئے گا، مثال کے طور پہ England میں آئے گا تو وہاں تو نہیں آیا تو وہاں آیا ہے جہاں پر Agrarian society تھی یعنی China میں آیا ہے، ٹھیک ہے نا ۔ یا Russia میں آیا ہے تو وہاں تو ابھی اُس طریقے سے industrial age آیا ہی نہیں تھا۔اِسی لیے اُن کو باقاعدہ party بنا کر اور زور زبردستی لانا پڑا ورنہ Marx کی theory میں تو اُس کو اپنی ترتیب سے آنا تھا اور کیونکہ وہ ایک Historical materialism کا قائل تھا ۔

بہر حال میں یہ عرض کر رہا تھا کہ ہم سب کو گویا اِس کی awareness ہونی چاہیے، اپنے طلبہ کے اندر بھی، یہ جو خاص طور پہ colonialism کا معاملہ ہے اور پھر اِس کے خلاف جو کچھ بھی باتیں ہوئی ہیں، ہمیں اُس کو سامنے رکھنا چاہیے، اِس میں ہمارے ہاں اکبر الٰہ آبادی جو ہیں اُن کو پڑھنا چاہیے اور اپنے طلبہ کو بھی متوجہ کرنا چاہیے، اقبال اور اکبر، اِن کا اِس پہ بہت کام ہے، ظاہر بات ہے اِن میں بہت فرق ہے یعنی اقبال بہت بڑے شاعر ہیں، اکبر اِتنے بڑے شاعر نہیں ہیں فنی اعتبار سے، بہت سے اشعار تو اُن کے لگتا ہے کہ وزن میں بھی نہیں ہیں باقاعدہ اور اِن دونوں میں فرق یہ ہے کہ اقبال نے بات کی ہے گہری فلسفیانہ سطح پر کہ اُس کی metaphysical یا ontologicalیا epistemological جو چیزیں تھیں، اُن کو دیکھا ہے۔ لیکن اکبر الٰہ آبادی نے اُس تہذیب کے جو اوضاع ہوتے ہیں نا یعنی اُس کی manifestations ہوتی ہیں، اُس پر بات کی ہے کہ ٹرین نے کیا اثر ڈالا ہے؟ type نے کیا اثر ڈالا ہے؟ ، type سے کیا تبدیلی آئی ہے؟ جو ہاتھ والا نل ہے اور جو جدید pipe ہے جس سے پانی آتا ہے، اِسی طریقے جدید science کے کیا نتائج ہیں؟ تو یہ دونوں لوگ گویا ہمارے لیے بہت مفید ثابت ہو سکتے ہیں اور اکبر الٰہ آبادی کو آپ دیکھیں نا کہ دو، دو مصرعوں میں اُنھوں نے، پورا colonial project بیان کر دیتے ہیں اور کتنی گہرائی میں جا کے مغرب نے ہمیں بدلا ہے:

مشرقی توسرِ دشمن کو کچل دیتے ہیں
مغربی اُس کی طبیعت کو بدل دیتے ہیں

تو گویا طبیعت میں جو metamorphosis ہوتا ہے اور بالکل بھیتر بدل جاتا ہے آدمی کا، دروں بدل جاتا ہے، یہ غیر معمولی صلاحیت مغرب میں ہے اور پھر آپ دیکھیں نا کہ جو colonialism کے دو projects تھے، ایک colonization of body کہہ لیں، of politics کہہ لیں، of territory کہہ لیں اور ایک colonization of heart and mind ہے تو یہ دو مرحلے ہیں، آپ دیکھیں نا اُن کا ایک شعر ہے، اُس میں دو مصرعوں میں اُنھوں نے بیان کر دیا ہے کہ:

توپ کھسکی پروفیسر پہنچے
اب بسولا ہٹا تو رندا ہے

ٹھیک ہے تو پہلا جو project تھا، وہ توپ کے ذریعے آیا، طاقت کے ذریعے آیا اور اُس کے بعد پروفیسر آ گئے، اُسی میں ظاہری بات ہے کہ orientalism بھی ہے اور اُسی میں ظاہری بات ہے missionaries بھی ہیں، مطلب بغیر imperialism، یہ Edward Said کے بعد تو اب یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے نا کہ یہ orientalism کا پورا project تھا، وہ ایک imperial project تھا اور وہ جیسے Macaulay نے کہا تھا نا کہ ہمارے محکوم بہت زیادہ تھے، کروڑوں میں تھے اُس وقت بھی، وہ ہزاروں میں تھے تو ہمیں اگر اِن کے اوپر حکومت کو برقرار رکھنا ہے تو ہمیں پھر ایک buffer نسل پیدا کرنی ہے جو ہمارے اور اِن کے درمیان جیسے interpreter کا کام کرے، جیسے افغانستان میں ہوا یعنی وہی لوگ تھے نا لٹک لٹک کے جا رہے تھے جہازوں سے یا کتنے لوگ تھے کہ وہ درمیان میں ایک agent طبقہ پیدا کرتا ہے استعمار، ٹھیک ہے اور اُس کے ذریعے پھر حکومت کرتا ہے۔ تو اُس نے جو یہ بات کہی تھی نا کہ بھئی ہم ایسے لوگ پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ جو اپنے خون میں اور اپنے چہرے کی رنگت میں تو ہندوستانی ہوں لیکن اپنے تصورات میں، خیالات میں اور خاص طور پہ کہا تھا اپنے taste میں، اپنے ذوق میں وہ مغربی ہوں، ٹھیک ہے تو وہ ایک نسل اُنھوں نے بنائی ہے، تو اُس کے لیے پھر پروفیسر آئے ہیں تو بسولا ہٹا تو رندا ہے تو بسولہ ایک کلہاڑا سا ہوتا ہے، وہ گویا مار دیتا ہے، ختم کر دیتا ہے ۔اور رندا چھیلتا ہے، نِک سُک سے درست کر دیتا ہے، وہ اقبال کا بھی جو ایک شعر ہے نا ظریفانہ شاعری میں کہ:

میاں نجاربھی چھیلے گئے ہیں
نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے

تو ، وہ بھی چھیلے گئے ہیں تو in well wounded man اُن کو چاہیے تھا، وہ اُنھوں نے بنا دیا ہے استعمار کے لیے اور پھر اُس میں ایک سب سے بڑا اُن کا جو ذریعہ بنا ہے، وہ تعلیمی ادارے ہیں اور ہم سب طالبِ علم بھی ہیں، استاد بھی ہیں تو اِس لحاظ سے ہمیں ظاہری بات ہے، اِس بات کا شعور یقیناً ہو گا کہ تعلیم کے اندر کتنی غیر معمولی صلاحیت ہے اور پھر یہ بات کہ universal education یا general education یا compulsory education بجائے خود ایک imperial project ہے یعنی یہ بات کہ تعلیم سب کو دی جائے گی اور جبراً دی جائے گی، ابھی بھی دیکھیے نا ہمارے ہاں جرمانے ہوتے ہیں باقاعدہ، جس کا بچہ نہیں جائے گا، اُس پر FIR کٹ جائے گی اور سب کو school میں لے کر آنا ہے تو کیوں لے کر آنا ہے؟ system کے لیے اُن کو تیار کرنا ہےآپ کو یعنی اگر آپ system سے باہر ہیں تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کوئی مشکوک آدمی ہیں، اس system کو چلانے کے لیے انھیں سستے مزدور اور مستری چاہییں، technicians چاہییں۔ تو آپ کے اسکولوں سے لے کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں تک، پورا جو order ہے، اُس کو چلانے کے لیے کچھ جانور چاہییں جو کھینچ سکیں اِس کی گاڑی کو، ایسے لوگ وہ تیار کرتے ہیں اور ظاہری بات ہے کہ اِس میں غیر معمولی صلاحیت ہے، اقبال نے کہا تھانا:

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اِسے پھیر
تاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب
سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر

یعنی سونے کے ہمالہ کو مٹی کےڈھیر میں میں بدل دیتا ہے یہ نظامِ تعلیم اور کتنی غیر معمولی صلاحیت ہے، اکبر ہی نے کہا تھا نا کہ:

شیخِ مرحوم کی یہ بات یاد آتی ہے
دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے

تو ہم سب دیکھتے ہیں کہ بھئی ہمارے دل اور ہماری اولادوں کے دل وہ بدل رہے ہیں اور بدل چکے ہیں اِس جدید تعلیم سے۔

ایک اور بات یہ کہ ہمارے ہاں جو مذہبی لوگ ہیں یا اساتذہ ہیں جو religious orientation رکھتے ہیں، اُن کو یہ احساس ہوتا ہے کہ الحاد بھی بہت بڑھ رہا ہے، بے دینی بڑھ رہی ہے تو الحاد سے زیادہ جو چیز بڑھ رہی ہے، وہ لاتعلقی ہے یعنی انکارِ خدا یا انکارِ مذہب تو چند لوگ کرتے ہیں اور as a fashion کرتے ہیں، زیادہ چیز یہ ہے کہ in difference ہے یا irrelevance ہے then what? یعنی خدا ہو تو بھی ٹھیک ہے، نہ ہو تب بھی ٹھیک ہے یعنی صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارا جو بھی بچہ social sciences میں honors کرتا ہے، کسی بھی field میں تو اب تو مسئلہ یہ ہے کہ social sciences ہیں یا شریعت ہے کیونکہ دیکھیں انسان اور اُس کے سارے متعلقات، اُس کا باطن ہے، وہ نفسیات نے حل کر دیا، وہ لوگوں کے ساتھ میل جول ہے، وہ sociology نے کر دیا، اُس کی سیاست political science نے کر دی، ممالک کے درمیان inter relations آ گئے، اُس کا معاشی مسئلہ، وہ economics نے حل کر دیا تو اب ضرورت کہاں ہے؟ یعنی خدا کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔اب مغرب میں بھی اور ہمارے یہاں بھی لوگ کہتے ہیں کہ عام آدمی خاص طور پہ جو public sphere کے دائرے ہیں، اُس میں وہ زندگی ایسے گزارتا ہے کہ as if God does not exist (گویا کہ خدا کا وجود ہے ہی نہیں)بس آپ کو کاروبار میں، market میں، آپ کو parliament میں، کچہری میں اور جناب high court میں اور باقی سارے معاملات میں جیسے خدا کی ضرورت نہیں،یعنی ہماری universities میں بھی ہوتا ہے، بعض اوقات نوجوان آپس میں بھڑ رہے ہیں، کوئی atheist ہے، کوئی theist ہے، وہ آپس میں گفتگو کر رہے ہیں، ایک دنگل سا ہو رہا ہے، ملاکھڑا ہو رہا ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ life style دونوں کا ایک ہی ہے، ambitions بھی دونوں کے ایک ہی ہیں، لباس بھی دونوں کا ایک ہی ہے، slangs بھی دونوں کے ایک ہی ہیں، body language بھی دونوں کی ایک ہے تو اِس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ کہ آپ خدا کو مانتے ہیں یا خدا کو نہیں مانتے، زندگی تو ساری ایک ہی ڈگر پہ گزر رہی ہے نا تو یہ جو، جس کو ہم secularization کہتے ہیں، یہ شاید اُس سے زیادہ بڑا خطرہ ہے کہ مذہب جو ہے، وہ غیر متعلق ہوتا چلا جائے اور زیادہ سے زیادہ آپ کی ایک personal party یا ایک human subjectivity کا حصہ بن جائے اور انسانوں کے جو اجتماعی جو معاملات ہیں، اُس میں سے نکل جائے۔

جاری ہے

لرننگ پورٹل