مدیر
مدیر ماہنامہ مفاہیم، کراچی
موسم سرما کی آمد آمد ہے۔ ہمارے موسموں کو دیکھنے کے انداز مختلف ہیں ۔بعض عوام بیچارے کپڑوں کو سوچتے ، لنڈے کھوجتے ہیں۔خواتین کو فراہمیٔ گیس کی چنتا ستاتی ہے توڈرائیور حضرات کو سی این جی کے لالے پڑتے ہیں۔ شاعر حضرات موسم کا تاثرکسی اور انداز میں لیتے ہیں۔بعض کو ’’یونہی موسم کی ادا دیکھ کہ‘‘ یاد آتا ہےکہ انسان کس سرعت سےبدلتا ہے،بعض روتے روتے چیخ اٹھے:’’اُس نے دور ہونا تھا بارشوں کے موسم میں؟‘‘ اور بعض اِس طرح کے کام کرنے والے، خود کو یوں ملامت کرتے ہیں کہ’’اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں‘‘اور بعض ایسے درویش بھی ہوتے ہیں جو مواسم کے ظواہر و مظاہر سے قطع نظر اپنے اندر ایک موسم سجا لیتے ہیں :
نہ کوئی غم خزاں کا ہے نہ خواہش ہے بہاروں کی |
ہمارے ساتھ ہے امجد کسی کی یاد کا موسم |
انسان اگر حریم ذات سے نکل کر ، دیوار جاں توڑ کر ، اپنی ہستی کو ذرا بھول کر دیکھے تو ہجر و وصال کے پیچھے بہتیرے موسم اور بھی ہیں:
کتنے موسم سرگرداں تھے مجھ سے ہاتھ ملانے میں |
میں نے شاید دیر لگا دی خود سے باہر آنے میں |
یہ تو موسم والوں کا معاملہ تھا ،موسم والے ،موسموں کو دیکھتے رہتے ہیں لیکن’’اللہ والے‘‘ہر موسم کے پیچھے’’موسم گر‘‘کودیکھتے ہیں۔ تو اللہ والے؛ موسموں کو ایک دوسرے ہی انداز سے دیکھتےہیں۔مثلاً بارش ہی کو لےلیں: اللہ کے نبی ﷺ جب اسے پاتے تو اپنے کپڑوں پر لے لیتے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے وجہ پوچھی تو فرمایا:« لِأَنَّهُ حَدِيثُ عَهْدٍ بِرَبِّهِ تَعَالَى» ’’اس لیے کہ یہ اپنے رب تعالی کے پاس سے ابھی ابھی آئی ہے‘‘۔(صحیح مسلم) تو دیکھنے والی آنکھ اور سوچنے والا دل اگر اللہ والا ہو گا تو وہ موسمِ سرما ہو یا گرما، ہر ایک کو دوسری طرح سے دیکھے گا جیسا کہ اللہ کے نبی ﷺ نے دکھلایا :«اِشْتَكَتِ النَّارُ إِلَى رَبِّهَا، فَقَالَتْ: يَا رَبِّ أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا، فَجَعَلَ لَهَا نَفَسَيْنِ: نَفَسٌ فِي الشِّتَاءِ، وَنَفَسٌ فِي الصَّيْفِ، فَشِدَّةُ مَا تَجِدُونَ مِنَ الْبَرْدِ مِنْ زَمْهَرِيرِهَا، وَشِدَّةُ مَا تَجِدُونَ مِنَ الْحَرِّ مِنْ سَمُومِهَا»’’دوزخ نے اپنے رب کو شکایت کہ اے رب میرے حصوں نے خود ایک دوسرےکو کھانا شروع کر دیا ہے ۔تو اللہ تعالی نے دوزخ کو دو سانس بھرنے کی اجازت دے دی ، ایک سانس گرمیوں میں اور ایک سانس سردیوں میں ، پس تم جو سردی کی شدت پاتے ہو تو وہ دوزخ کے ٹھنڈے عذاب (زمہریر ) کی وجہ سےہےاور جو تم گرمی کی شدت پاتے ہو وہ دوزخ کے گرم عذاب (سموم) کے سبب ہے‘‘۔(متفق علیہ)دیکھیے ہمارے پیغمبر ﷺنے گرمی اور سردی دونوں میں دوزخ کو یاد کرا دیا ۔تودوزخ میں عذاب گرمی کا بھی ہے اور سردی کا بھی اور دنیا کے موسم سرد بھی ہیں اور گرم بھی ، پس دونوں موسموں میں دوزخ سے نجات اور جنت کی فوز و فلاح کے لیے محنت کرتے رہنے کی ضرورت ہے :
یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند |
بہار ہو کہ خزاں، لا الہٰ الا اللہ |
اللہ کے بہترین بندوں کی صفت بھی کچھ ایسی ہی بیان کی گئی کہ وہ :«يُرَاعُونَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ وَالْأَظِلَّةَ لِذِكْرِ اللَّهِ»’’وہ ذکرُ اللہ کی غرض سے ، سورج، چاند تاروں اور سایوں کی مناسبت تلاش کرتے رہتے ہیں‘‘۔(مستدرک حاکم) رسول اللہ ﷺ نے نماز ظہر کے تذکرے میں ارشاد فرمایا:« إِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا بِالصَّلاَةِ فَإِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ»’’جب گرمی شدت اختیار کر جائے تو نماز کو ٹھنڈا کیا کرو، کیونکہ گرمی کی شدت دوزخ کی ہوا کے سبب ہے‘‘۔(صحیح مسلم)اس حدیث میں بیان تو گرمیوں کے موسم میں کسی قدر تاخیر ظہر کا ہے لیکن دوزخ کی گرمی اور نماز کے ٹھنڈے کرنے کے ذکر سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آتشِ جہنم سے بچاؤ نماز اور دیگر اعمال کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔ جبھی تو جنت و مغفرت کی دعاؤں کی درخواست کرنے والوں کو آپﷺ اعمال کی طرف متوجہ کیا ، ملاحظہ فرمائیں چند مثالیں:«فَأَعِنِّي عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ»’’پس تو (اس قبولیتِ دعا میں)، اپنے نفس کے خلاف ، کثرتِ سجود کے ذریعے میری مدد کر‘‘«عَلَيْكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ لِلَّهِ»‘‘سجدوں کی کثرت (یعنی نماز) کوخود پر لازم کر لو‘‘۔«عَلَيْكَ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَا مِثْلَ لَهُ»’’تو روزے کو لازم پکڑ لے کہ اس جیسا کوئی عمل نہیں ہے‘‘۔(صحیح مسلم و مسند احمد )
ان مثالوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ چوٹی کے دو اعمال روزہ اور نماز کا ذکر کیا گیا تو موسمِ سرما کی آمد آمد پر سوچ لینا چاہیے کہ اعمال کے لیے، بلکہ نماز اور روزے دونوں کے لیے یہ ایک بہترین موسم ہے اتنا بہترین کہ ہمارے رسول ﷺ نے اسے خزاں کے بجائے بہار قرار دیتے ہوئے فرمایا:«الشِّتَاءُ رَبِيعُ الْمُؤْمِنِ»(مسندِ احمد)’’موسمِ سرما مومن کے لیے تو موسمِ بہار ہے‘‘۔ایک حدیث میں آتا ہے :«الشِّتَاءُ رَبِيعُ الْمُؤْمِنِ، قَصُرَ نَهَارُهُ فَصَامَ، وَطَالَ لَيْلُهُ فَقَامَ»’’موسمِ سرما مومن کے لیے بہار کی مانند ہے ،اس کے دن چھوٹے ہیں پس انسان روزہ رکھ سکتا ہے اور اس کی راتیں لمبی ہیں انسان آسانی سے قیام کر سکتا ہے‘‘۔ (شعب الایمان)
رسول اللہﷺ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بھی موسمِ سرما کو غنیمت سمجھتے رہے۔سیدنا عمررضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے:الشِّتَاءُ غَنِيمَةُ الْعَابِدِينَ’’سردیوں کا موسم تو عبادت گزاروں کا موسمِ غنیمت ہے‘‘۔(حلیۃ الاولیاء)سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، موسم سرما کی آمد پر فرمایا کرتے تھے: مَرْحَبًا بِالشِّتَاءِ فِيهِ تَنْزِلُ الْبَرَكَةُ أَمَا لَيْلُهُ فَطَوِيلٌ لِلْقِيَامِ وَأَمَّا نَهَارَهُ فَقَصِيرٌ لِلصِّيَامِ’’جاڑے کو خوش آمدید کہ اس میں برکت کا نزول ہوتا ہے ، اس کی لمبی راتیں قیام کے لیے ہیں اور چھوٹے دن صیام کے لیے ہیں‘‘۔(حلیۃ الاولیاء) مشہور تابعی عبید بن عمیر رحمہ اللہ آمدِ سرما پر اہلِ قرآن سےفرمایا کرتے تھے : قَدْ طَالَ اللَّيْلُ لقِراءَتِكُمْ فَاقْرَأُوا، وَقَصُرَ النَّهَارُ لِصِيَامِكُمْ فَصُوموا ’’رات تمہاری تلاوت کے لیے لمبی ہوئی ہے پس قرآن پڑھا کرو اور دن روزہ رکھنے کے لیے چھوٹا ہوا ہے پس روزہ رکھا کرو‘‘۔(حلیۃ الاولیاء) امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے : نِعْمَ زمانُ المؤمنِ الشتاءُ ليلُه طويلٌ يَقومُه و نَهارُه قصيرٌ يَصومُه ’’کیا ہی خوب زمانہ ہے مومن کے لیے سرما کا ، اس کی رات لمبی ہے اور وہ اس میں قیام کرتا ہے اور اس کے دن چھوٹے اور وہ روزہ رکھ لیتا ہے‘‘۔(حلیۃ الاولیاء)
رسول اللہ ﷺ نے سردیوں کے موسم میں روزے رکھنے کو ٹھنڈی غنیمت قرار دیتے ہوئے فرمایا: «الصَّوْمُ فِي الشِّتَاءِ الْغَنِيمَةُ الْبَارِدَةُ»’’ سردیوں میں روزہ رکھنا ٹھنڈی غنیمت ہے‘‘۔(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ) سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ فرمایا: کیا میں تمھیں ٹھنڈی ٹھار غنیمت کے بارے میں نہ بتاوں ؟ سامع نے کہا: حضرت! وہ کیا چیز ہے فرمایا: الصَّوْمُ فِي الشِّتَاءِ ’’سردیوں میں روزے رکھنا‘‘۔(السنن الکبری، بیہقی)