مولانا حافظ حماد احمد ترکؔ
نائب مدیر، ماہنامہ مفاہیم، کراچی
استنبول کی بلدیہ فاتح میں ایک مسجد ’’اسماعیل آغا جامی‘‘ کے نام سے معروف ہے جو خلافتِ عثمانیہ کے ایک شیخ الاسلام حضرت اسماعیل آغا آفندی رحمۃ اللہ علیہ کی جانب منسوب ہے جبکہ اس محلے کا نام ’’چار شنبہ‘‘ ہے۔ اور اس مسجد سے وابستہ صوفی اصلاحی جماعت کو اسماعیل آغا جماعت کہتے ہیں۔ اسماعیل آغا کا علاقہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے کراچی میں مدنی مسجد کے ارد گرد کا ماحول ہے۔ ہر طرف عمامے اور داڑھی والے لوگ نظر آتے ہیں۔ کتابوں، ٹوپیوں اور دیگر مذہبی مصنوعات کی دکانیں ہیں۔ اسماعیل آغا جماعت ایک ترک صوفی جماعت ہے جو سلسلۂ نقشبندیہ سے منسلک ہے۔ اسماعیل آغا مسجد میں اس سلسلے کے بیانات ہوتے ہیں۔ اس جماعت سے وابستہ افراد کا خاص حلیہ ہوتا ہے جو ان کی انفرادی شناخت بھی ہے۔ انھیں پورے ترکی کے دین دار حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مسجد سے کچھ ہی فاصلے پر ان کے زیرِ انتظام ایک شان دار مدرسہ بھی حالاً قائم ہواہے جہاں انتہائی معیاری انتظامات اور بہترین تعلیمی خدمات کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی جماعت سے وابستہ ایک میزبان ہمیں مدرسے کے اندر لے گئے اور مختصردورہ کروایا۔مدرسے کے دورے کے بعد ہمارے میزبان ہمیں مدرسے کی نچلی منزل میں لے گئے جہاں ایک بہت خوب صورت دروازہ لگا ہوا تھا۔ انھوں نے اسے کھولا تو اندر شادی ہال بنا ہوا تھا۔ بتایا گیا کہ جماعت سے وابستہ افراد کے لیے یہیں شادی کی تقریب منعقد کی جاتی ہے تا کہ دیگر مفاسد سے بچا جا سکے۔ اسماعیل آغا جماعت کا تعارف ہو اور شیخ محمود آفندی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر نہ ہو تو بات نا مکمل رہ جاتی ہے۔ اسماعیل آغا جماعت دراصل شیخ محمود آفندی رحمۃ اللہ علیہ کی اصلاحی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ شیخ کا خاندانی نام تو ’’اوستاؤ سَمان اوغلو‘‘ (بعض لوگ اسے استاد عثمان اوغلو بھی پڑھتے ہیں) تھا لیکن شہرت محمود آفندی کے نام سے ہوئی۔ شیخ محمود آفندی ۱۹۲۹ء میں ترابزون میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں کے علما سے حاصل کی۔ شیخ نے جب دینی تعلیم کی تحصیل شروع کی تو ریاست کی طرف سے دینی شعائر پر سخت پابندی تھی۔ بالخصوص عربی زبان اور علومِ اسلامیہ کی تحصیل بالکل ممنوع تھی۔ شیخ نے چھپتے چھپاتے اور سرکاری اہل کاروں کی نظروں سے بچتے ہوئے دینی تعلیم مکمل کی اور ۱۹۵۴ء میں استنبول میں اسماعیل آغا مسجد کے امام مقرر ہوئے۔ مشہور ہے کہ جب شیخ نے دیکھا کہ لوگ مسجد نہیں آتے اور لوگوں کے لیے نماز پڑھنا اور دیگر اسلامی شعائر اختیار کرناممنوع ہے تو لوگوں سے ربط ضبط بڑھانے کے لیے انھوں نے اہلِ محلہ کے گھروں پر جانا شروع کیا۔ دروازے بجاتے اور کہتے کہ کوئی کام ہو تو بتا دیں۔ کبھی سودا سلف لا کر دیتے کبھی اور کوئی تعاون کرتے۔ اس طرح لوگ آپ سے مانوس ہونے لگے اور دنیاوی کے ساتھ ساتھ دینی مسائل میں بھی آپ سے رہنمائی حاصل کرنے لگے، حتی آپ کے متعلقین کا حلقہ وسیع ترہوتا چلا گیا۔ ترکی میں اسلام کی نشأۃِثانیہ میں حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کا کردار بہت اہم اور ناقابلِ فراموش ہے۔ شیخ رواں برس ۲۳ جون کو خالقِ حقیقی سے جاملے۔ ۲۴ جون کو فاتح مسجد میں شیخ کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔
شیخ محمود آفندی کی وفات سے ترکی کے علمی و اصلاحی حلقے ایک عظیم اور مشفق سرپرست سے محروم ہو گئے لیکن شیخ اپنے بعد بے شمار علما اور مبلغین تیار کر گئے جو ترکی کے کونے کونے میں اسلامی روایات کے احیا کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ تھا اسماعیل آغا جماعت اور شیخ محمود آفندی رحمۃ اللہ علیہ کا تعارف۔ اب ہم واپس چلتے ہیں چار شنبہ کے محلے میں اوراس گلی کا جائزہ لیتے ہیں جہاں سے یہ عظیم سلسلہ شروع ہوا اور پورے ترکی میں پھیل گیا، بقولِ شاعر:
’’ایک گلی کی بات تھی اور گلی گلی گئی‘‘ |
نمازِ ظہر میں کچھ وقت باقی تھا اس لیے مختلف دکانوں سے خریداری شروع کر دی۔ جماعت کا وقت ہوا تو پورا بازار رضاکارانہ طور پر بند ہوگیا اور سب مسجد میں جا پہنچے اور نماز ادا کی۔ اسماعیل آغا مسجد اگرچہ بہت بڑی نہیں ہے لیکن بہت خوب صورت بنی ہوئی ہے۔ یہ مسجد ابتداءً ۱۷۲۳ء میں تعمیر کی گئی۔ ۱۸۹۴ء کے زبردست زلزلے میں اس مسجد کی تعمیر کو کافی نقصان پہنچا۔ مسجد کی تعمیرِ نو اور تزئین و آرائش کا کام ۱۹۵۲ء میں مکمل ہوا۔ اس کے ٹھیک دو سال بعد شیخ محمود آفندی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا انتظام سنبھال لیا اور ۱۹۹۶ء تک امامت کی ذمے داری نبھائی۔ ہم مسجد اور مدرسے کے دورے سے فارغ ہوئے تو واپس قیام گاہ روانہ ہوگئے اور ان نورانی اور روحانی مقامات کی یادیں اپنے ساتھ لے آئے ۔ دوپہر کا وقت تھا اور ناشتہ فجر کے فوراً بعد کیا تھا اس لیے قریب ہی ایک ہوٹل میں کھانے کے لیے بیٹھ گئے۔ کھانا کھا کر باہر نکلے تو مشورہ ہوا کہ کچھ دیر بازار میں گھوم پھر کر نمازِ عصر فاتح مسجد میں ادا کریں گے۔ نمازِ عصر سے ذرا قبل فاتح مسجد سے متصل ایک قہوہ خانے میں داخل ہوئے۔ قہوہ خانے کا منظر، قہوے کی پیالیاں، نشستیں اور قہوے کی پیشکش الغرض سب کچھ ہی اتنا دلکش اور نفیس ہے کہ اسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں اور کیفیت یہ ہے کہ الفاظ تخیل کا ساتھ دینے سے قاصر ہیں۔اور پھر قہوہ پیتے ہوئے پس منظر میں فاتح مسجد کا مینار ہو اور سماعتیں فاتح مسجد کی اذان سے لطف اندوز ہوں تو یوں جی چاہتا ہے کہ نہ یہ اذان کبھی ختم ہو اور نہ ہی یہ پیالی کبھی خالی ہو ، بقولِ غالبؔ:
’’رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے‘‘ |
تاکہ
’’بیٹھیں رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے‘‘ |
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے گو تلخ ہی سہی کہ دنیا کاپیمانہ کبھی نہ کبھی تو خالی ہو ہی جائے گا۔ ہمارے قارئین بھی آخری قسط پڑھتے ہوئے یہ کہہ اٹھیں گے کہ بارہا چائے اور قہوے کا ذکر ہو چکا اور ہر بار بقولِ فرازؔ:
’’اتنے سے واقعے کا فسانہ بہت ہوا‘‘ |
مگر کیا کریں،
’’بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر‘‘ |
اور پھر، صرف ہم ہی نہیں ہندوستان کے جو لوگ بھی استنبول گئے انھیں استنبول کے قہوہ خانوں نے اپنے سحر میں ایسا جکڑ لیا کہ یہ طِلِسْم عمر بھر نہ ٹوٹ سکا۔ علامہ شبلی نعمانی نے تو یہاں کے قہوہ خانوں کے مناظر ایسے دلکش انداز میں بیان کیے ہیں کہ ہم حسرت سے اس زمانے کو یاد کرتے ہیں اور قہوے کے اٹھتے ہوئے دھنویں میں ان مناظر کے نقوش بزورِ تخیل تراش تراش کر مٹا دیتے ہیں۔ انھی مناظر کے سحر میں گرفتار تھے کہ اقامت کی آواز آئی، ہم نے فوراً مسجد کا رخ کیا اور نماز میں شامل ہو گئے۔ سلطان محمد فاتح رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت اور مسجد کی نورانیت۔۔۔اللہ اللہ۔۔۔یہاں سے اٹھنے کو جی نہیں چاہتا لیکن:
’’اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘‘ |
کل کراچی کے لیےروانگی ہے اس لیے ارادہ ہوا کہ اہلِ کراچی کے لیے استنبول کی سوغات لیتے جائیں، چنانچہ فاتح مسجد سے متصل مالٹا بازار سے زیتون اور مٹھائی خریدی اور رہائش گاہ کی طرف روانہ ہوئے۔ ایک بات قابلِ ذکر ہے کہ جو لوگ بھی زیتون کا تیل خریدنا چاہیں وہ فاتح مسجد سے متصل بازار میں موجود ایک وقف ادرے سے خریداری کریں جہاں سامان خالص بھی ہے اور قیمت میں کم بھی ہے۔
نمازِ مغرب رہائش گاہ میں ادا کی۔ آج منصوبہ تھا میٹرو ٹرین میں سفر کا اور استقلال اسٹریٹ کے دورے کا۔ لہٰذا ہمارے استاد اور انتہائی ملن سار میزبان جناب مفتی احمد رضا صاحب کی معیت میں اس ارادے کی تکمیل کے لیے روانگی ہوئی۔ مفتی صاحب چونکہ ترکی میں ہی مقیم ہیں اس لیے ترکی زبان سے واقف ہیں اور ترکی کی تاریخ کا گہرا مطالعہ بھی رکھتے ہیں لہٰذا ہم تمام مقامات پر ان کے مطالعے سے استفادہ کرتے رہے۔ سب سے پہلے میٹرو ٹرین میں سوار ہوئے اور مفتی صاحب کے ساتھ سِرکیجی ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ یہ وہ ریلوے اسٹیشن ہے جہاں سے کبھی حجاز کے لیے سلطان عبد الحمید ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ریل گاڑی کا اجرا کیا تھا۔ اسی طرح یہاں سے کچھ عرصہ قبل تک جرمنی کے لیے بھی ٹرین جاتی تھی۔ اس اسٹیشن کے دورے کے بعد ہم مرمرائے (ایک ٹرین سروس کا نام ہے) میں سوار ہوئے جو سمندر کے اندر سفر کرتی ہے اور ایشیا کو یورپ سے ملاتی ہے۔ یہ ٹرین ایک سرنگ سے گزرتی ہے جو آبناے باسفورس کے پانیوں میں بنائی گئی ہے۔ یہ سرنگ تقریباً ساڑھے تیرہ کلو میٹر لمبی ہے جو یَینی کاپے اور اُسکودار کے درمیان ہے۔ یہ سفر پورا ہوا تو ہم نے گلاٹا ٹاور کا رخ کیا۔
گلاٹا ٹاور در اصل ساحلِ سمندر پر واقع ایک واچ ٹاور تھا جسے پہلی بار ۱۳۴۸ء میں رومی دور میں تعمیر کیا گیا۔ یہ اس وقت قسطنطنیہ کی سب سے اونچی عمارت تھی جس کی بلندی تقریباً ۲۲۰ فٹ تھی۔ اسے قسطنطنیہ کی علامت سمجھا جاتا تھا اور بحری جہازوں کو سَمت بتانے کے لیے اسے استعمال کیا جاتا تھا۔ بعد میں اسے قید خانے میں تبدیل کر دیا گیا۔ ایک مشہور قصہ بھی ہے کہ ایک سائنس دان’’حِذرافِن احمد چلپی‘‘ نےدونوں کندھوں کے ساتھ پَر باندھ کر ٹاور سے کود کر پرواز کی لیکن قریب ہی ایک مقام پر گر گیا۔ بہر حال، اب گلاٹا ٹاور ایک سیاحتی مقام ہے۔ ٹاور کے ساتھ پرانے طرز کی ایک ٹرام کھڑی ہے جس سے ٹاور میں داخلے کا ٹکٹ ملتا ہے۔ ٹاور گھومنے کا ضابطہ یہ ہے کہ پہلے لفٹ میں سب سے اوپر والی منزل پر پہنچ جاتے ہیں جہاں ایک شاندار نقشہ(ماڈل) استنبول کا رکھا ہوا ہے۔ اس نقشے میں استنبول کی تمام مساجد موجود ہیں اور ان پر ایک بلب لگا ہوا ہے۔ یہ نظام ایک اسکرین سے منسلک ہے جس پر تمام مساجد کے نام ہیں۔ آپ اسکرین پر جس مسجد کا بٹن دباتے ہیں۔ نقشے میں وہ مسجد روشن ہو جاتی ہے۔ اور نقشہ بھی ایسا حقیقی اور خوبصورت ہے کہ اصل کا گمان ہوتا ہے۔ اس نقشے والے کمرے کی بالائی منزل میں چار یا پانچ دروازے ہیں جو ٹاور کے کھلے حصے تک لے جاتے ہیں۔ ہر دروازے پر بڑی آہنی دوربینیں نصب ہیں جو بہت دور تک کا منظر دکھاتی ہیں۔ اب چلتے ہیں بیرونی حصے کی طرف، ٹاور کے کھلے حصے سے پورے استنبول کا منظر نہایت شاندار نظر آتا ہے۔ استنبول جانے والے اکثر لوگ خلیج اور آبناے باسفورس کے فرق میں الجھے رہتے ہیں۔ اگر گلاٹا ٹاور سے دونوں کو ایک بار دیکھ لیا جائے تو فرق واضح ہو جاتا ہے۔ آبناے باسفورس سمندر کا حصہ ہے جو ایشیا اور یورپ کے درمیان ہےجبکہ خلیج استنبول کے یورپی حصے میں ایک ندی یا نہر کی طرح ہے جس کے ایک طرف گلاٹا اور دوسری طرف ’’ایمی نو نو‘‘ ہے (جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے) ۔ یہاں کچھ دیر نظارہ کرنے اور تمام بڑی مساجد کا تعین کرنے کے بعد نیچے کی طرف روانہ ہوئے۔ آمد لفٹ سے ہوتی ہے، واپسی کے لیے زینہ بنا ہوا ہے جس کی ہر منزل پر آثارِ قدیمہ کی دو چار چیزیں رکھی ہوئی ہیں۔ سیڑھیاں خود آثارِ قدیمہ کا جزو معلوم ہوتی ہیں۔ ایک منزل پر بہت موٹی اور بڑی زنجیر رکھی ہوئی تھی، بتایا گیا کہ یہ اس زنجیر کا ٹکڑا ہے جو بازنطینیوں نے قسطنطنیہ کے داخلی بحری راستے پر لگائی تھی۔
اس سے نچلی منزل پر پہنچے تو ایک اسکرین کے آگے لوگ کھڑے ہوئے نظر آئے اور اسکرین پر گلاٹا ٹاور کا منظر تھا جہاں ایک شخص کنارے پر کھڑا تھا اور اڑنے کے لیے پر تول رہا تھا۔اس کے دونوں کندھوں کے ساتھ پر بندھے ہوئے تھے۔ اسکرین کے بالکل سامنے زمین پر ایک نشان بنا ہوا تھا۔ ایک صاحب نے ہمیں وہاں دونوں ہاتھ پھیلا کر کھڑا ہونے کا اشارہ کیا۔ جیسے ہی ہم نے نشان پر پہنچ کر بازو پھیلائے وہ پروں والا شخص کود گیا اور اڑنے لگا۔ اب سمجھ میں آیا کہ یہ ایک کھیل ہے۔اس کھیل کی صورت یہ ہے کہ اسکرین پر ایک شخص کی وڈیو نظر آتی ہے اور اسکرین میں سینسر لگے ہوئے ہیں، جب کوئی شخص اسکرین کے سامنے کھڑے ہو کر ہاتھ پھیلاتا ہے تو اسکرین میں خود کار طور پر وہ آدمی اڑتا ہوا نظر آتا ہے اور اس کا تعلق اسکرین کے سامنے کھڑے ہوئے شخص کے ساتھ ہوتا ہے، جدھر یہ آدمی ہاتھ موڑتا ہے وہیں اسکرین میں نظر آنے والا آدمی بھی مڑ جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کھیل ہے، حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا، اگر حقیقی اڑان ہوتی تو مزہ ہی کچھ اور ہوتا۔ بہرحال، ہم جس طرف ہاتھ موڑتے تھے وہ شخص بھی اسی طرف مڑتا تھا۔ کبھی اوپر کبھی نیچے اور کبھی دائیں بائیں۔ لیکن ہم آپ کو بتا چکے ہیں کہ جس اڑنے والے شخص سے یہ واقعہ منسوب ہے وہ ایک جگہ گر گیا تھا، لہٰذا یہ اسکرین والا شخص بھی استنبول کی آبادی پر اڑتا ہوا تب آپ کے اختیار سے نکل جاتا ہے جب اسے گرنا ہوتا ہے۔ ہم نے خوب جتن کیے کہ اس شاہین کی پرواز میں کوتاہی نہ ہو اور یہ ہمارے قابو میں رہےلیکن ہمارا شاہین گرتا ہی چلا گیا۔
بہر حال، اس عارضی پرواز کو زمین بوس کرنے کے بعد ہم گلاٹا سے نکل آئے اور استقلال اسٹریٹ کی طرف بڑھے۔ راستے میں ایک جگہ پٹری بنی ہوئی نظر آئی۔ یہاں سیاحوں کے لیے ایک ٹرام چلتی ہے جو انھیں بازار کا چکر لگواتی ہے۔ استقلال اسٹریٹ کیا ہے یہ ہم آپ کو ضرور بتائیں گے لیکن ہمیں ہوٹل نظر آ گیا ہے۔ لہٰذا یہاں ہم کچھ دیر کھانے کے لیے رکیں گے پھر ’’آگے چلیں گے دم لے کر‘‘۔
کھانے سے فارغ ہوئے تو پا پیادہ ہی استقلال اسٹریٹ کی طرف بڑھے۔ اسقلال اسٹریٹ یا استقلال ایوینیو جسے ترکی زبان میں ’’استقلال جدیسی‘‘ بھی کہتے ہیں دنیا کے مشہور ترین سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے جہاں یومیہ لاکھوں لوگ آتے ہیں۔ تقریباً چودہ سو میٹر لمبی اس گلی میں دنیا کے بڑے اور مشہور برینڈ، ہوٹل، کیفے، کلب اور نجانے عیاشی کے کیا کچھ سامان دستیاب ہیں۔ العیاذ باللہ! اس گلی کو اسقلال کا نام ۱۹۲۳ء میں خلافت کے خاتمے اور جمہوریت کے آغاز پر دیا گیا اور اسے آزادی سے منسوب کیا گیا۔ جیسی نسبت ویسا کام۔ گلاٹا سے شروع ہو کر یہ سڑک تقسیم اسکوائر پر ختم ہوتی ہے جہاں ’’ترکِ ناداں‘‘ مصطفی کمال اتاترک کا مجسمہ نصب ہے۔ اس نام میں نہ کوئی کمال ہے نہ اسے’’اتاترک‘‘ یعنی باباے ترک کا لقب زیب دیتا ہے۔ اس نااہل، نالائق اور نادان ترک نے جہاں خلافت کی قبا کو چاک کیا وہیں سامانِ رفو کو نذرِ آتش کر کے رفو گروں کو بھی پابندِ سلاسل کردیا۔ وہ قبا جس نے تیرہ سو سال مسلمانوں کو زینت بخشی، مصطفی کمال کے ہاتھوں تار تار ہو کر بھولی بِسری یاد بن گئی:
ہنوز اک پرتوِ نقشِ خیالِ یار باقی ہے |
آج حسرت سے خلافتِ عثمانیہ اور اس زمانے کی رونقوں کو یاد کیا جاتا ہے۔ بہرحال،خلافت کی یاد بھی ایک غنیمت ہے کہ عظمتِ رفتہ کا ذکر حوصلہ افزائی کا ذریعہ اورروشن مستقبل کی امید کا باعث ہے:
کچھ نقش تری یاد کے باقی ہیں ابھی تک |
دل بے سر و ساماں سہی ویراں تو نہیں ہے |
استنبول میں جو سیاح آتے ہیں استقلال میں قیام کرتے ہیں، ایسے افراد کی زبانوں پر استنبول کے سیاحتی مقامات میں لے دے کر استقلال اور تقسیم اسکوائر ہی کا ذکر آتا ہے۔ اگر سیاحت؛ عیاشی، بے حیائی اور بے غیرتی کا نام ہے تو یقیناً سیاحتی مقامات یہی دو ہیں۔ ورنہ استنبول کی زینت تو سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا مزار شریف ہے۔ سلطان محمد فاتح کی مسجد اور مقبرہ ہے۔ آیا صوفیہ اور بازنطینیوں کی شکست و ریخت کی علامت دیوارِ قسطنطنیہ ہے۔
اس طویل سڑک سے گزر کر دوسری طرف پہنچے جہاں تقسیم اسکوائر واقع ہے۔ تقسیم اسکوائر ۱۹۲۸ء میں جمہوریہ ترکی کی پانچویں سال گرہ کی یاد میں تعمیر کیا گیا اور اب جدید استنبول کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ خلافتِ عثمانیہ کی پانچویں برسی پر دشمنانِ اسلام کے جشن کی علامت ہے۔ لیکن اس اسکوائر کے بالکل سامنے موجودہ ترک حکومت نے ایک انتہائی عمدہ اقدام کیا ہے۔ استقلال اسڑیٹ جیسے ہی ختم ہوتی ہے سامنے تقسیم مسجد کا انتہائی خوبصورت گنبد نظر آتا ہے۔ یہ مسجد اندر سے بھی بہت شاندار بنی ہوئی ہے۔ استقلال اسٹریٹ سے گزر کر آنے والے سیاحوں کے لیے یہ ایک پیغام ہے کہ عیاشی کا دور گزر چکا۔ اب ایک نئی صبح طلوع ہو گی جس کی علامت یہ مسجد ہے۔ اس لمبی گلی سے گزرتے ہوئے اور نئی تہذیب کے گندے انڈوں کو تاکتے ہوئے آپ حسرت کے ساتھ فیض کا آدھا مصرع پڑھ سکتے ہیں کہ ’’لمبی ہے غم کی شام‘‘ لیکن اختتام پر تقسیم مسجد کو دیکھتے ہی امیدیں لوٹ آتی ہیں اور مصرع مکمل ہو جاتا ہے کہ ’’شام ہی تو ہے‘‘۔ لیکن استنبول میں شام نہیں رات ہو چکی اور بقول انشا ؔجی:
’’شب بیتی، چاند بھی ڈوب چلا، زنجیر پڑی دروازے پر‘‘ |
لہٰذا ہمیں بھی اب چلنا چاہیے۔ قریب کے ایک بس اڈے سے بس میں سوار ہوئے اور رہائش گاہ پہنچ کر لمبی تان لی۔ صبح ہوئی تو ایک ساتھی کے ساتھ منصوبہ بنایا کہ آج استنبول میں آخری صبح ہے، نمازِ فجر مہر ماہ مسجد میں ادا کرنی چاہیے، لہٰذا ہم دونوں روانہ ہو گئے اور نمازِ فجر مہر ماہ مسجد میں ادا کی (اس مسجد کا تعارف پہلی قسط میں گزر چکا ہے)۔ نماز کے بعد مفتی احمد رضا صاحب کے ساتھ ناشتہ کیا اور سامان باندھنے لگے کیونکہ آج شام کراچی کی طرف روانگی تھی۔ جو منصوبہ ہم نے استنبول میں سیر و سیاحت کا تیار کیا تھا اس میں اب صرف دو مقامات باقی رہ گئے تھے: ایک سلیمانیہ مسجد اور دوسرے توپ کاپی میوزیم جہاں ہم ایک بار جا چکے تھے لیکن مرمتی امور کے سبب یہ میوزیم بند تھا۔ توپ کاپی کو دیکھنا تو اتنے کم وقت میں ممکن نہیں تھا اس لیے سلیمانیہ مسجد کا قصد کیا۔ مفتی احمد رضا صاحب کی معیت میں روانگی ہوئی۔ پہلے پہل مفتی صاحب ایک بازار میں لے گئے جہاں اردو بازار کی طرح کتابوں کی دکانیں تھیں۔ اس کے بعد کسی عثمانی تحقیقی ادارے کا دورہ کروایا جہاں ایک ترک اسکالر کی تصنیفات کثیر تعداد میں موجود تھیں۔
اسی اثنا میں نمازِ ظہر کا وقت ہو گیا تو نمازِ ظہر آیا صوفیہ میں ادا کی گئی جس کا فاصلہ بہت زیادہ نہیں تھا۔ آیا صوفیہ میں یہ ہماری دوسری نماز تھی اور بہت باعثِ سعادت بات تھی۔ آیا صوفیہ سے نکلے اور سلیمانیہ مسجد کا قصد کیا تو بارش کے آثار نمودار ہوئے اور موسلا دھار بارش شروع ہو گئی اور سر چھپانا مشکل ہو گیا۔ لہٰذا ہم نے فوراً ہی رہائش گاہ پہنچنے کی ٹھانی کیا اور یوں سلیمانیہ مسجد کا دورہ ممکن نہ ہو سکا۔ یہ کہانی پھر سہی۔ دوپہر کے کھانے کے بعد سے مغرب تک روانگی کی تیاری جاری رہی اور نمازِ مغرب کے بعد استنبول ہوائی اڈے کے لیے روانہ ہو گئے۔ یہ قصہ ۲۳ نومبر ۲۰۲۱ء کا ہے جبکہ ہم ترکش ایئر لائن کی پرواز میں واپسی کے لیے سوار ہوئے اور آج ۵ اکتوبر ۲۰۲۲ء کو اس سفر نامے کی آخری قسط مکمل ہو رہی ہے۔ بہر حال ہم چھے گھنٹے کی ہموار پرواز کے بعد خیر و عافیت کے ساتھ وطنِ عزیز پہنچ گئے۔ یوں فاتح فاؤنڈیشن کے رضاکاروں کا یہ دس روزہ تربیتی و سیاحتی دورہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ آخر میں ہم پاکستان اور ترکی کے مسلمانوں کے لیے بالخصوص اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے بالعموم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سب کو خیر و عافیت نصیب فرمائیں اور قارئین کے لیے بھی غالبؔ کے دو شعر بطورِ دعا پیش کرتے ہیں:
ختم کرتا ہوں اب دعا پہ کلام |
شاعری سے نہیں مجھے سروکار |
تم سلامت رہو ہزار برس |
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار |