فرید بن مسعود
معاون قلم کار
اگر آپ مارکیٹ میں کپڑا بیچنے نکلیں اور خریدار محض ایک یا دو قسم کے ہی کپڑے پہنتے ہوں تو آپ کا کپڑا ایک حد سے زیادہ نہیں بکے گا۔ فرض کریں اگر آپ کی مارکیٹ میں سارے خریدار دعوتِ اسلامی کے کارکنان ہوں، اور آج سے کوئی دس سال پہلے کی دعوتِ اسلامی ہو اور آپ کے خریدار صرف ایک خاص قسم کا سفید کرتا پاجامہ اور سبز عمامہ پہنتے ہوں تو آپ کی دکان پر کوئی خاص بکری نہیں ہوگی۔ اگر یہ اصول بہت ہی سادہ سی مثال سےواضح ہوتا ہے تو اصولی بات یہ ہے کہ معاشرے میں کسی قسم کی طے شدہ درجہ بندی (stratification)؛تنوع (diversity) کے امکانات کم کردیتی ہے۔ تنوع کی کمی جدید مارکیٹ کے سرمایہ دارانہ اہداف سے متصادم ہے۔ اس کا ایک ثبوت مردوں اور عورتوں کے کنزیومر ڈیٹا کا فرق ہے جس کے مطابق خواتین کپڑوں پر مردوں سے زیادہ خرچ کرتی ہیں کیونکہ خواتین کے لباس میں مردوں کی نسبت بہت زیادہ تنوع پایا جاتا ہے۔ اب ذرا جدید مارکیٹ کی وسعت کو ذہن میں لائیں جس میں خود آپ بھی ایک جنسِ قابلِ فروخت ہیں اورآپ کا سوشل میڈیا کا استعمالی ڈیٹا بھی ایک کاموڈٹی ہے۔ ایسے میں سرمائے کی ہموار روانی کے لیے کس قدر وسیع تنوع درکار ہوگا۔ ایک اچھا سرمایہ دارانہ نظام کبھی آپ کے ثقافتی، مذہبی یا قومی مظاہر کے خلاف نہیں کھڑا ہوگا، اس بے اعتنائی سے آپ کو رواداری کا شبہہ ہونے لگے گا۔ اصلاً سرمایہ داری روادار نہیں بلکہ تنوع کی پرچارک ہے۔ مذہبی، قومی یا ثقافتی شناختیں مارکیٹ میں انسانی اظہار کے ممکنات میں اضافے کا ذریعہ بنتی ہیں، البتہ صرف ایک مذہب، ایک ثقافت اور ایک قوم ہو تو یہ ممکنات کی فہرست میں محدودیت لے آتے ہیں۔ اس لیے آپ کو اچھے سرمایادارانہ معاشروں میں ملٹی کلچرل ازم، بین الاقوامی مقابلے نظر آئیں گے اور ہر شخص ہر قسم کے مذہبی تہواروں کو مناتا نظر آئے گا۔ اس تنوع کے پیچھے سرمایہ داری کی اصل قدر ’’آزادی‘‘ کار فرما ہے۔ یہ بات بہت باریک ہے اور اس میں غلط فہمی ہو سکتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام مذہبی تقسیم کو اون نہیں کرتا، مذہبی تنوع کو سیلیبریٹ کرتا ہے۔ اگر آپ سرمایہ دارانہ نظام کے کسی حامی پر اعتراض کریں کہ کیا تم مذہبی تقسیم کے قائل ہو؟ تو فوراً جواب آئے گا کہ ارے نہیں ہمارے لیے تو مذہب بے معنی سی چیز ہے، ہاں البتہ مذہبی تہوار، انسان دوستی، محبت وغیرہ کو ہم سیلیبریٹ کرتے ہیں۔
سرمایہ داری کی کمیونسٹ تنقید میں یہ بات آپ کو صاف نظر آئے گی کہ مذہبی، ثقافتی اور قومی شناختیں سرمایہ دار طبقے کا اپنا تسلط قائم رکھنے کا بہانہ ہے اور اس شناخت پر مبنی تقسیم سے وہ معاشرے کی اصل استحصالی تقسیم یعنی بورژوا اور پرولتاریہ (یعنی سرمایہ دار اور مزدور) پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔اس لحاظ سے اشتراکیوں نے ہمیشہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک اصولی موقف اپنائے رکھا اور آزادی کے نام پر اس طبقے کے بنائے ہوئے دجل کو واضح کرتے رہے۔ اسی لیے اشتراکی بظاہر لبرل سرمایہ داروں کے مقابلے میں مذہب کے زیادہ مخالف بھی نظر آتے ہیں۔
ابتدائی دور میں سرمایہ دارانہ معاشرے نے مرد اور عورت کے فرق کو بھی کافی ’’سیلیبریٹ‘‘ کیا اور اس بنیاد پر مارکیٹ میں سرمایہ کمایا گیا۔ آپ’ بیٹی فرائڈن‘ کی کتاب’ فیمینن مسٹیک‘ پڑھیں تو وہ جس امریکی سرمایہ دارانہ معاشرے کا نقشہ کھینچتی ہے، ایسا اشتباہ ہونے لگتا ہے کہ جینڈر اور فیملی کے لحاظ سے یہ شاید زمانہ ٔقبل از جدیدیت کا کوئی روایتی معاشرہ ہے۔ اس کے برعکس اشتراکی شروع دن سے ہی جینڈر کے فرق کے خلاف تھے اور انتہائی مساوات کے قائل۔ فیمینزم کی تیسری لہر کے بعد جب سرمایہ دارانہ معاشروں میں جینڈر بائنری(۱) اور پدرسری فیملی پر تنقید ہونا شروع ہوئی تو سرمایہ داری نے کمال ہوشیاری سے جینڈر اور فیملی کے تصور کو بھی اتنا ہی بے معنی بنا دیا جتنا مذہب ، ثقافت اور قومی شناخت بن چکی تھی۔
ہمارے یہاں جینڈر پر بحث کا آغاز ٹرانس جینڈر بل کے تناظر میں ہوا اور اس ضمن میں پورا زور صرف اس بات پر لگایا گیا کہ اس بل سے ہم جنس پرستی بڑھ جائے گی۔ ٹرانس جینڈر بل میں مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس سے ہم جنس پرستی بڑھ جائے گی۔۔۔ وہ تو اس بل کے بغیر ہی بڑھ چکی ہے۔۔۔ مسئلہ یہ ہے کہ عسکری، سیاسی، فکری، علمی اور معاشی محاذوں کی شکست و ریخت کے بعد ایک واحد مورچہ روایتی فیملی بچا ہوا تھا جس میں رواجی انداز میں دین کے کچھ آثار قائم تھے، ہم عنقریب وہ بھی کھو دیں گے۔ فیمینزم کی تیسری لہر نہ مرد و زن کی مساوات کی بات کرتی ہے، نہ خواتین کے حقوق کی اور نہ ہی خواتین کے مردوں سے مخاصمانہ مقابلے کی۔ یہ جنس کی ہر قسم کی مذہبی، ثقافتی اور یہاں تک کہ طبیعی بنیادوں کی نفی پر قائم ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ شخصی پسند کی بنیاد پر اگر جنس کا تعین ہونے لگے تو خاندان وجود میں نہیں آئیں گے یا بچے پیدا نہیں ہوں گے۔ ہاں ایسا ضرور ہوگا کہ جو خاندان بنے گا اس میں افراد ایک ایسے صارفانہ تعلق (consumer relationship) سے جڑے ہوں گے جو خالصتاً افادی ہوگا اور اولاد ایک کموڈٹی بن جائے گی جس کے لیے سرمایہ کاری کی جائے گی۔یہ کوئی سائنس فکشن نہیں بلکہ ہم جنس پرست خاندانوں میں سروگیسی(۲) سے پیدا ہونے والے بچوں کو ہی دیکھ لیں۔ اس بازاری فیملی میں سرمائے میں اضافے کی اقدار تو رسوم کی شکل لے سکتی ہیں دین کی کوئی رمق البتہ کسی رسم کی صورت بھی باقی نہیں رہ سکتی۔
مزے کی بات یہ ہے کہ فیمینزم کی تیسری لہر سے اشتراکی فکر بھی نبرد آزما نہیں ہو پائی ہے۔ حکومتی سطح پر جہاں اشتراکی لوگ غالب ہیں یا تھے (مثلاً چین یا روس)، ان ملکوں میں تو اس تیسری لہر کی سیاسی سطح پر کھل کر مخالفت کی گئی ہے البتہ دنیا بھر میں اشتراکی فکر رکھنے والے لوگ اس ضمن میں جینڈر کے اسی موقف پر کھڑے ہیں جہاں لبرل سرمایہ دار کھڑے ہیں۔ یعنی مزید خطرے کی بات یہ ہے کہ نہ تو ہم خود اس یلغار کے خلاف کوئی ہتھیار رکھتے ہیں نہ ہی کہیں اور سے ہتھیار برآمد کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔
حواشی
(۱) جنسی ثنویت یعنی جنس کو صرف دو کیٹیگریز میں دیکھنا یعنی صرف مرد یا عورت
(۲) وہ جوڑے جو اولاد کے خواہشمند ہوں لیکن حمل کے مراحل سے بچنا چاہیں، اس جوڑے کے مرد کا مادہِ منویہ اور عورت کا بیضہ لے کر لیبارٹری میں اس کا جنین بنایا جاتا ہے اور پھر کسی دوسری عورت کا رحم کرائے پر لے کر سائنسی عمل کے ذریعے اس جنین کو اس عورت کے رحم میں رکھوا دیتے ہیں، اور مدتِ حمل گزرنے پر بچہ لے لیتے ہیں، جبکہ اس Surrogate Motherکو رحم استعمال کرنے کا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ عموماً معاشی طور پر مجبور خواتین اپنا رحم سروگیسی کے لیے پیش کرتی ہیں۔