صوفی جمیل الرحمن عباسی
مدیر ماہنامہ مفاہیم و ناظمِ شعبۂ تحقیق و تصنیف، فقہ اکیڈمی
سلطنتِ عثمانیہ اور بیت المقدس
ساتویں صدی ہجری میں قائی نامی ترک قبیلہ منگولوں کی خون ریزی سے بچنے کے لیے ترکمانستان سے نکلا۔ ان کا ایک قافلہ جو چار سو خیموں پر مشتمل تھا، مختلف شہروں سے ہوتا ہوا ایشیاے کوچک کی طرف آ نکلا۔ ان کا ارادہ یہ تھا کہ قونیہ کے سلجوق حاکم علاؤ الدین کیقباد کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے قبیلے کے لیے کوئی جگہ ما نگی جائے۔ اثناے سفر انھوں نے سلجوقیوں اور بازنطینیوں کی ایک جنگ کا مشاہدہ کیا جس میں سلجوق شکست کھا رہے تھے۔ قائی قبیلے کے شہسوار اپنے سردار ارطغرل کے حکم پر سلجوقیوں کی مدد کرتے ہوئے جنگ میں کود پڑے جس سے جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور سلجوق لشکر کو فتح نصیب ہوئی۔ اس مدد کے صلے میں علاؤ الدین سلجوقی نے قائی قبیلے کو اناطولیہ کے علاقے میں بازنطینی سرحدوں کی طرف آباد کر لیا۔ ارطغرل غازی نے کئی صلیبی علاقے اور قلعے فتح کیے۔ یہاں تک کہ ۶۸۷ھ / ۱۲۸۸ ء میں ان کا انتقال ہوا۔
ارطغرل کے بیٹے اور جانشین عثمان غازی نے بھی بازنطینی علاقوں کی طرف توسیع کا سلسلہ جاری رکھا جس سے وہ علاؤ الدین سلجوقی کے منظورِ نظر بن گئے۔ ۶۹۹ھ میں منگولوں نے قونیہ فتح کر کے علاؤ الدین سلجوقی کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ لیکن کچھ عرصے بعد عثمان کے بیٹے اورخان منگولوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے۔ چونکہ اس علاقے میں کوئی مضبوط و متحد حکومت نہ تھی اس لیے عثمان خان نے مختلف راجواڑوں کو متحد کر کے عثمانی ریاست کی بنیاد رکھ دی۔ انھوں نے مختلف بازنطینی علاقوں کو فتح کرنا جاری رکھا۔ وہ انھیں قبولِ اسلام، جزیے کی ادائی یا جنگ کی پیش کش کرتے۔ تیسرے عثمانی حاکم اور خان نے فتوحات کا دائرہ وسیع کیا۔ ان کے دور میں شاہِ روم اندر نیکوس ثالث نے اناطولیہ پر حملہ کیا جس کا کامیابی سے دفاع کیا گیا اور اناطولیہ کے مزید کچھ علاقے فتح ہوئے۔
مراد اول نے بلقان اور بلغاریہ کے کچھ علاقے فتح کیے اور سربیا کو شکست دی جس میں اس کا بادشاہ مقتول ہوا اور اسی جنگ کے اختتام پر مراد شہید بھی ہو گئے۔ ۷۹۸ ھ/۱۳۹۶ ء میں شاہِ ہنگری اور پاپاے روم کی کوششوں سے کئی ملکوں کی اتحادی افواج عثمانیوں پر حملہ آور ہوئیں۔ان کا نعرہ تھا کہ سحق الأتراك أولا ثم احتلال القدس’’اولاً ترکوں کو تباہ کرو اور پھر قدس پر قبضہ کرو‘‘۔ اس فوج میں ہنگری، فرانس، جرمنی، ہالینڈ، اٹلی، برطانیہ وغیرہ کی فوجیں شامل تھیں جن کی تعداد ایک لاکھ تیس ہزار تھی۔ صلیبی لشکر دریاے ڈینیوب پار کر کے نیکو پولی پہنچا۔ یہاں سلطان با یزید اول یلدرم کی قیادت میں تعداد نوے ہزار ترک فوج ان کی منتظر تھی۔ یہاں ایک خونریز معرکہ پیش آیا اور عثمانیوں نے فرنگی فوجوں کو شکستِ فاش دی۔ سلطان بایزید یلدرم نے اپنے دورِ حکومت میں متعدد بار قسطنطنیہ کا محاصرہ بھی کیا لیکن فتح نہ کر سکے۔۸۰۴ ھ میں جب تیمور لنگ کی فتوحات کا سلسلہ جاری تھا تو سلطان بایزید، بغداد کے حاکم احمد بن اویس جلائری کو پناہ دینے کی وجہ سے تیمور کے ساتھ جنگ میں الجھ بیٹھے اور ۸۰۴ ھ میں اس سے شکست کھائی اور اسی کی قید میں وفات پائی۔ یہ دور عثمانی ریاست کے پہلے زوال کا عرصہ کہلاتا ہے۔ اس میں یورپی مقبوضات اور اناطولیہ کی ریاستیں الگ ہو گئیں۔
کچھ عرصے کے بعد بایزید کے بیٹے محمد اول نے سلطنت کو سنبھالا۔ ان کے بعد سلطان مراد ثانی نے سلطنت کو مضبوط کیا۔ ۸۲۵ھ / ۱۴۲۲ء میں انھوں نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا لیکن فتح ندارد۔ ۸۲۹ ھ / ۱۴۲۶ء میں انھوں نے دریاے ڈینیوب کے کنارے ہنگری کو شکست دی اور کچھ علاقے فتح کر لیے۔ ۸۴۳ ھ/ ۱۴۳۹ ء میں پاپاے روم أوجينيوس رابع کی کوششوں سے ایک صلیبی حملہ برپا کیا گیا جس کی قیادت جنرل ہونيادى کے ہاتھوں میں تھی جس نے چند معرکوں میں ترک فوجوں کو شکست دی۔ اب سلطان مراد ثانی خود مقابلے پر آئے اور حملہ آوروں کو مار بھگایا اور سربیا نے عثمانیوں کی اطاعت قبول کی اور ہنگری کے ساتھ امن معاہدہ طے پایا۔ ۸۴۸ ھ/ ۱۴۴۴ء میں پاپاے روم نے اپنے نمائندۂ خصوصی سیزارینی کو ہنگری کی طرف روانہ کیا اور اسے معاہدہ توڑنے اور عثمانیوں کے خلاف جنگ شروع کرنے پر قائل کیا اور کہا کہ مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ توڑنا گناہ یا جرم نہیں بلکہ جائز ہے۔ پوپ کی سازشوں نے فرانس، ہنگری، جرمنی، اٹلی پر مشتمل صلیبی لشکر تشکیل دیا جس نے بلغاریہ کے عثمانی علاقوں پر حملہ کر دیا۔ سلطان مراد ثانی خود فوج لے کر نکلے اور بلغاریہ کے شہر وارنا کے مقام پر جنگ ہوئی جس میں عثمانیوں کو شاندار فتح نصیب ہوئی اور شاہِ ہنگری اور کارڈنیل سیزارینی قتل کیے گئے۔ اس شکست کا بدلہ لینے کے لیے ۸۵۲ ھ/ ۱۴۴۸ ء میں کوسوو کی طرف ایک اور حملے کا آغاز کیا گیا لیکن صلیبیوں کو ایک بار پھر شکست ہوئی۔
اب سلطان محمد ثانی الفاتح حکمران بنے۔ جنھوں نےحکمران بنتے ہی فتحِ قسطنطنیہ کی تیاریاں شروع کر دیں اور ۸۵۷ ھ/ ۱۴۵۳ ء میں قسطنطنیہ فتح کر لیا۔ شاہِ بازنطین، قسطنطین یاز دہم قتل ہوا۔ دسویں صدی ہجری کے آغاز میں پرتگالی؛ مسلمان ممالک کو تاراج کرنے کے درپے تھے جب کہ ایران کے شیعہ حکمران اسماعیل صفوی ان کے اتحادی تھے جنھوں نے مصر کی سلطنتِ ممالیک کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ سلطان سلیم نے ۹۲۰ ھ میں اسماعیل صفوی کو شکست دینے کے بعد ۹۲۲ ھ میں ممالیک کو بھی شکست دی۔ انھی کے عہد میں حجاز، مصر، شام اور بیت المقدس عثمانیوں کے زیرِ انتظام آیا، عباسی خلافتِ ثانی کا خاتمہ ہوا اور خلافتِ عثمانیہ وجود میں آئی۔
سلطان سلیم اور سلیمان القانونی کا شمار طاقتور خلفاے عثمانی میں ہوتا ہے۔ ان کے دور میں فتوحات کا دائرہ مزید وسیع ہوا۔ سلطنت تین براعظموں یورپ، ایشیا اور افریقہ کے علاقوں تک پھیل چکی تھی۔ قبرص، سربیا، یوگوسلاویہ، بلغاریہ، کوسوو، ہنگری، پولینڈ، البانیہ، یونان، رومانیہ، ویانا سالونیکا، اس کے علاوہ فرانس، جرمنی، اٹلی اور آسٹریا کے کچھ علاقے اس کے علاوہ فلسطین، شام، حجاز، عراق، مصر، ایری ٹیریا، لیبیا، الجزائر وغیرہ خلافتِ عثمانیہ کے زیرِ سایہ آچکے تھے۔
عثمانی سلطنت کا زوال
سلطنتِ عثمانیہ کو، سترہویں صدی عیسوی میں بہت سارے خارجی و داخلی انتشارات کا سامنا کرنا پڑا۔۱۶۸۴ ءمیں پاپاے روم کی کوششوں سے یورپی طاقتوں مثلاً آسٹریا، اٹلی، روس، بولونیا وغیرہ نے ترکی کے خلاف ایک جنگی اتحاد تشکیل دیا۔ جنگوں کا یہ سلسلہ ۱۶۹۹ء تک چلا جب ترکوں کو شکست ہوئی اور فرانس کی کوششوں سے ایک معاہدہ طے پایا جس کی رو سے عثمانیوں کو بہت سارے یورپی مقبوضات سے ہاتھ دھونے پڑے۔ معاہدہ كارلو ویٹس (Treaty of Karlowitz) یورپ میں عثمانی انحطاط کی ابتدا کہلاتا ہے۔۱۱۳۰ ھ/۱۷۱۷ء میں معركۂ پٹروفاراڈين (Battle of Petrovaradin) میں ترکوں کو آسٹریا کے ہاتھوں سخت شکست ہوئی جس میں ان کے عظیم جرنیل محمد علی پاشا کو شہادت نصیب ہوئی۔ اس جنگ کے بعد ایک معاہدے کی رو سے ترکوں کو سربیا، بلغراد اور ولاشیا کے علاقوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ کچھ عرصے بعد مصر، شام اور لبنان میں مقامی لوگوں نے ترکوں سے علیحدگی کی تحریکیں چلائیں۔ ان کی سرپرستی روس اور اٹلی وغیرہ کرتے تھے۔ ترکوں کو ان بغاوتوں کے ناکام بنانے میں بڑی محنت، وسائل اور کثیر سرمایہ صرف کرنا پڑا۔ روس کے ساتھ عثمانیوں کی کئی جنگیں ہوئیں۔ بعض دفعہ عثمانیوں کو فتح نصیب ہوتی رہی لیکن اکثر میں روسیوں کا پلہ بھاری رہا۔ ۱۱۸۷ ھ/ ۱۷۷۳ ء میں روس نے سلطنتِ عثمانیہ کو سخت ہزیمت سے دوچار کیا۔ جنگ کا اختتام معاہدۂ کینارچہ (Kuchuk Kainarjae) پر ہوا۔ اس معاہدے کی رو سے ترکوں کو کریمن سے محروم ہونا پڑا، رومانیہ کے بعض علاقوں کو عثمانی سلطنت کے ماتحت آزاد حیثیت دی گئی اور روس کو ان ممالک کے سیاسی معاملات میں حقِ دخل اندازی دیا گیا۔ نیز روس کو سلطنتِ عثمانیہ کی عیسائی رعایا کےنگران و محافظ کے طور پر تسلیم کر لیا گیا اور تاریخ میں پہلی بار ترکی کو تاوانِ جنگ ادا کرنا پڑا۔
سولہویں صدی عیسوی میں شام کے علاقے میں مختلف بغاوتیں ابھرتی رہیں۔ فخر الدين المعني اور اس کے بعد بشیر الشہابی اور ظاہر العمر وغیرہ نے لبنان، سوریا اور فلسطین کے اکثر علاقوں پر خود مختار حکومتیں قائم کر لیں۔ بعد میں احمد الجزار نے بعض علاقوں پر اپنی حکومت قائم کر لی جو عثمانیوں کا ماتحت تھا۔ ۱۲۱۶ ھ/۱۷۹۸ ءمیں فرانس کے جرنیلنپولین بونا پارٹ نے مصر اور شام پر حملہ کیا اور بہت سارے شہروں کو تاراج کرنے کے بعد طاعون کی وبا اور ابو قیر کے سمندری معرکے میں انگریزی فوجوں کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد واپس لوٹ گیا۔ ۱۲۴۳ ھ/ ۱۸۲۷ ء میں یونانیوں نے بغاوت کی جو یورپ کی حمایت سے کامیاب ہوئی اور ترکوں کو یونان سے دستبردار ہونا پڑا۔ اسی طرح انیسویں صدی کے آخری عشروں میں تیونس، سوڈان، اریٹیریا اور صومالیہ بھی ترکوں کے ہاتھوں سے نکل گئے۔ ۱۱۵۷ ھ/ ۱۷۴۴ ء میں شیخ محمد بن عبد الوہاب اور نجد کے علاقے درعیہ کے امیر محمد بن سعود کے درمیان سلفی دعوت کے فروغ اور اس کی بنیاد پر ریاست کے قیام کا معاہدہ ہوا اور آہستہ آہستہ امارتِ درعیہ نے نجد کے دوسرے علاقوں کی طرف وسعت اختیار کی۔ عثمانیوں کے حکم پر والیٔ مصر محمد علی پاشا اور ان کے بیٹے ابراہیم نے ان کی سرکوبی کی اور آخر کار۱۸۱۸ ء میں ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔اس کے بعدتركی بن عبد الله بن محمد بن سعودنے سعودی سلطنت کا دوبارہ احیا کیا جس نے عثمانیوں کو اپنے علاقوں سے نکال دیا لیکن حائل کی امارت آلِ رشید نے ان سے ریاض وغیرہ چھین لیے۔ ۱۹۰۲ ء میں عبد العزیز بن سعود نے آلِ رشید کو شکست دی اور اس طرح نجد اور قریبی علاقوں پر سعودیوں کی حکومت قائم ہو گئی۔ پے در پے جنگوں کی وجہ سے ترکی کی معیشت بہت کمزور ہو چکی تھی اور ملک کئی ملین کا مقروض تھا۔ ۱۲۹۵ ھ /۱۸۷۸ ء میں ترک قومیت اور سیکیولر دعوت کو فروغ ملنا شروع ہوا اور جوانانِ ترک تنظیم اور اس کے اتحاد و ترقی عسکری ونگ کا آغاز ہوا۔ ان حالات میں آخری عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحميد ثانی بن عبد المجید ۱۲۹۳ – ۱۳۲۷ ھ/۱۸۷۶ – ۱۹۰۹ ء نے حکومت سنبھالی۔