سلیمؔ احمد (۱۹۲۷۔۱۹۸۳ء)
معروف نقاد اور شاعر
جدیدیت کی روح یہ اصول ہے کہ کسی بات کواس بنا پر تسلیم نہ کیا جائے کہ وہ ہم سے پہلے سے چلی آ رہی ہے، یا ہم پر خارج سے عائد کی گئی ہے یا ہم سے بالاتر ہے، بلکہ ہر چیز کے حسن وقبح، خیروشر، منفعت ومضرت کا فیصلہ تجربے کی روشنی میں کیا جائے۔ اس لیے جدیدیت کے معنی زیادہ سے زیادہ ’’تجرباتی‘‘ ہونے کے ہیں۔ لیکن تجربہ کس کا؟ ہمارا اپنا۔۔۔ اور اگر ہم کسی دوسرے کے تجربے کو قبول بھی کرتے ہیں تو اس شرط پر کہ ہم جب چاہیں اپنے تجربے کی بنا پر اسے رد کر دیں۔ ظاہر ہے کہ ان معنوں میں جدیدیت مذہب کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ مذہب کی بنیاد عقیدہ، وحی، ایک مافوق الفطرت قوت کے اقرار اور اس کے احکام کے سامنے بے چوں وچرا سر جھکانے پر ہے۔ اسی طرح جدید یت اخلاقی قیود کو بھی تسلیم نہیں کرتی کیونکہ اخلاق کا تعلق بھی بالعموم مذاہب ہی سے رہا ہے اور جہاں براہِ راست مذہب نہیں ہے، وہاں ایک بالاتر ہستی یا کم از کم خارجی دباؤ کے اثرات ضرور موجود رہے ہیں۔ بالفرض اخلاق کے معنی صرف معاشرتی اصولوں کے لیے جائیں تو بھی معاشرے کا خارجی دباؤ اپنی جگہ موجود رہتا ہے۔ مذہب اور اخلاق کی طرح جدیدیت معیارات کو بھی نہیں مانتی۔ کیوں کہ معیار کے معنی پھر کسی خارجی پیمانے کو تسلیم کرنے کے ہیں۔ جدیدیت ان سب چیزوں کا انکار کرتی ہے۔ اس بنا پر کہ یہ ذاتی تجربے کی راہ کے پتھر ہیں لیکن انکار کے معنی اثبات کا دروازہ بند کرنے کے نہیں ہیں۔ جدیدیت ان میں سے کسی کا بھی اثبات کر سکتی ہے، بشرطیکہ ذاتی تجربہ اس کی تصدیق کرے۔ لیکن جو آدمی حسن وقبح اور خیروشر کے معاملات میں ذاتی تجربے کو بنیاد بناتا ہے وہ انفرادیت پسند ہوتا ہے۔ جدید ہونے کے معنی انفرادیت پسند ہونے کے ہیں۔ یہاں انفرادیت پسند ہونے کے معنی وہ نہیں ہیں جو عام طور پر مراد لیے جاتے ہیں۔ انفرادیت پسند اسے نہیں کہتے جو صرف دوسروں سے مختلف ہونا چاہتا ہے بلکہ اسے جو ہر چیز کا پیمانہ اپنی ذات کو سمجھتا ہے لیکن یہ ذات بھی کوئی مقررہ یا طے شدہ چیز نہیں ہے۔ ہمارے محسوسات اور جذبات بدلتے رہتے ہیں، پسند اور ناپسند میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں، خیالات وافکار میں تغیروتبدل ہوتا رہتا ہے۔ اس لیے انفرادیت پسندی کے معنی تغیرپسندی کے بھی ہیں۔ تو جدیدیت کے معنی زیادہ سے زیادہ تجرباتی، زیادہ سے زیادہ انفرادیت پسند اور زیادہ سے زیادہ تغیرپسند ہونے کے ہیں۔ نشاۃِ ثانیہ کے بعد کی مغربی تہذیب کو ہم ان ہی معنوں میں جدید کہتے ہیں۔ اچھا، اس لفظ کواب اپنی تاریخ کے پس منظر میں دیکھیے۔ غدر سے پہلے جدید کا لفظ صرف ’’نئی چیز‘‘ یا ’’نئی بات‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔ اس کے معنی صرف اتنے تھے کہ ہر نئی چیزیا نئی بات یا نیا کام مزیدار معلوم ہوتا ہے لیکن غد ر کے بعد اس لفظ کا استعمال اس سے مختلف معنوں میں ہونے لگا، مثلاً جدید شاعری کے معنی اس شاعری کے ہوئے جو ’’پیروئ مغربی‘‘ میں کی جائے۔ یا جدید مذہب کے معنی اس مذہب کے ہوئے جو سائنس یا عقل کے مطابق ہو۔ اس اختلافِ معنی کے علاوہ ایک اور فرق یہ پیدا ہوا کہ اس سے پہلے جدید ہونا انفرادی اُپَج کا نتیجہ ہوا کرتا تھا، لیکن اب جدید ہونا ایک مستقل رجحان بن گیا ہے اور اس رحجان کے ساتھ یہ ضرورت محسوس ہونے لگی کہ ہر بار لفظ جدید کی ایک نئی تعریف کی جائے۔ چنانچہ حالی کے زمانے کی جدیدیت اور چیز ہے، نیاز فتح پوری اور ان کے ساتھیوں کی جدیدیت اور چیز، ۱۹۳۶ء کے ادیبوں کی جدیدیت اور ہے، ۱۹۴۷ء کے بعد کے ادیبوں کی اور۔ اور اب تویہ نوبت ہے کہ ادیبوں اور شاعروں کے جتنے گروپ ہیں، جدیدیت کے اتنے ہی معنی ہیں۔ بظاہر یہ صورتِ حال پریشان کن معلوم ہوتی ہے لیکن ہے جدیدیت کی روح کے عین مطابق۔ بعض لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ اس صورت میں تو تہذیب، اخلاق اور فن کے سارے معیارات تباہ ہو جائیں گے۔ ہمارا واضح اور حتمی جواب یہ ہے، اگر ایسا ہوا تو یہ جدیدیت کے تقاضوں کے عین مطابق ہوگا۔ لیکن فی الحال اس بحث میں الجھنے کے بجائے ہم اردو شاعری میں جدیدیت کا سلسلۂ نسب متعین کرنا چاہتے ہیں۔ اردو شاعری میں جدیدیت کا سب سے پہلا اورسب سے بڑا شاعر غالب ہے۔ غالب سے پہلے جو کچھ ہے، روایتی معاشرے کی روایتی شاعری ہے۔ اس کے بعد کوئی ایسا شاعر پیدا نہیں ہوا جس کی ذاتِ واحد میں جدیدیت کی اتنی خصوصیات جمع ہوں۔ مذہب، عقیدہ، احکام، اخلاق اور معیارات سب کے سب اس بت شکن کی سبک دستی کے بہانے ہیں اور وہ ان چیزوں کو کسی خارجی کسوٹی پر رد نہیں کرتا بلکہ صرف اپنی ذات کے پیمانے پر۔ یہاں بعض لوگوں کو غالب کی انانیت یاد آئےگی۔ لیکن گھسے پٹے خیالات نے ہر بات کی تفہیم ناممکن بنا دی ہے۔ انانیت ہو یا کوئی اور صفت، شاعری میں تو یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ شاعر نے اسے تشخیصِ حقیقت یا انکشافِ ذات کا ذریعہ بنایا ہے یا نہیں۔ انانیت پسند تو غالب سے پہلے بھی گزرے ہوں گے اور اپنی تمام زندگی میں میر، غالب سے زیادہ انانیت پسند تھے اور یوں کہنے کو انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’حیف بندے ہوئے خدا نہ ہوئے‘‘ یا ’’اہلِ نظر ہمیں کو معبود جانتے ہیں‘‘ لیکن یہ سب روایتی معاشرے کے روایتی خیالات ہیں۔ غالب کی انانیت پرستی صرف ومحض انانیت پرستی نہیں تھی۔ یہ غالب کی وہ قوت تھی جس کی مدد سے وہ ہر خارجی معیار کو رد کرکے ذاتی حقائق کی اجنبی سرزمین میں داخل ہوتا ہے۔
اپنی ہستی ہی سے جو ہو کچھ ہو
یا
ہنگامۂ زبونی ہمت ہے انفعال
حاصل نہ کیجے دہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو
اور ان معنوں میں وہ جن حقائق تک پہنچتا ہے، ان کے بارے میں اس کا یہ دعویٰ سچا ہے کہ میں عندلیبِ گلشن ناآفرید ہ ہوں۔ یہ گلشن ناآفریدہ کیا ہے؟ ایک بے حد جدید دنیا ہے جس میں حق و باطل کا تعین مافوق الفطرت عقیدوں کی بنا پر نہیں ہوتا۔ نہ خیروشر کے معیارات خارجی طور پر عائد کیے جاتے ہیں، نہ اجتماعی واہموں کو قانون کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ دنیا ایک حددرجہ آزاد فرد کی دنیا ہے جس کا خالق، حاکم اور قانون وہ آپ ہے اور یہ فرد انتہا کا انفرادیت پسند ہے۔ انفرادیت پسند اور تغیر پسند۔ اسے ایک طرف وباے عام میں مرنا قبول نہیں ہے اور دوسری طرف جنت اس لیے قبول نہیں ہے کہ ’’ہے ہے اقامت جاودانی ہے‘‘ ۔ غالب کے زمانے میں یہ دنیا صرف غالب کے خوابوں میں بستی تھی۔ غالب نے خواب اور حقیقت کو اس طرح ملایا کہ آج یہ دنیا ہم سب کی تقدیر ہے۔ جدید دنیا غالب کی دنیا ہے۔ لیکن غالب کے مقابلے میں جدید شاعری کرنے اور جدید شاعری کی بنیاد ڈالنے والے حالی کی شاعری کچھ یوں ہی سی جدید ہے۔ اس بنا پر نہیں کہ غالب بڑا شاعر تھا اور حالی چھوٹے شاعر تھے۔ اس بنا پر کہ حالی نے جدیدیت کے معنی قومی زبوں حالی یا مناظرِ فطرت پر نظمیں لکھنا سمجھا۔ یہ شاعر ی ان معنوں میں تو جدید ضرور تھی کہ اردو والوں کے لیے نئی تھی لیکن جدیدیت، حقیقی جدیدیت سے حالی کی طبیعت کو رتی بھر بھی مناسبت نہیں تھی۔ وہ کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے کہ فرد غالب کی طرح اتنی بڑی آزادی کا خواب دیکھ سکتا ہے۔ انھیں جدیدیت سے زیادہ اپنا مفلر عزیز تھا۔ پھر حالی میں یہ سکت بھی نہیں تھی کہ اپنی ذات کو پیمانۂ اقدار بنا سکیں۔ ان کی زندگی میں سرسید اور کرنل ہالرائیڈ داخل نہ ہوتے تو وہ رنگِ قدیم پر ہی قائم رہتے۔ وہ جدید شاعری اس لیے نہیں کرتے کہ ان کی فطرت کا تقاضا ہے۔ جدید شاعری وہ اس لیے کرتے ہیں کہ سرسید اور کرنل ہالرائیڈ کا تقاضا ہے۔ حالی میں اخلاق پرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وہ تو میرے خیال میں بائیں ہاتھ سے پانی بھی نہیں پیتے ہوں گے۔ ایسے آدمی کا فطری جدیدیت سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ حالی جدید نہیں تھے، زمانے اور سرسید کی ستم ظریفی نے انھیں جدید بنا دیا تھا۔ اور آپ چاہیں تو اسے میری ستم ظریفی کہہ لیں کہ مجھے حسرت، حالی سے نسبتاً زیادہ جدید معلوم ہوتے ہیں۔ میں نے ’’نسبتاً‘‘ کہا ہے۔ بظاہر یہ بات کچھ الٹی سی معلوم ہوتی ہے۔ حسرت نے حالی کی طرح نظم نگاری نہیں کی جسے عام طور جدیدیت کی ایک علامت سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے ایک قطعی روایتی ذریعۂ اظہار یعنی غزل کو اپنایا اور اس میں بھی انفرادیت کے بجائے دوسروں کی تقلید کو یہاں تک کام میں لائے کہ ایک طرح سے پوری اردو غزل کو دوبارہ لکھ دیا لیکن اس کے باوجود یہ حسرت ہی ہیں جو،
قول کو زید وعمرو کے حد سے سوا اہم نہ جان
روشنی ضمیر میں عقل سے اجتہاد کر
کا اعلان کرتے ہیں۔ یہ ایک غیرروایتی خیال ہے اور خواہ اسے پوری طرح جدید نہ کہا جا سکے مگر اس کا سلسلہ کسی نہ کسی طرح انفرادیت پرستی سے مل جاتا ہے۔ یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ شاعرکی ذاتی زندگی اور اس کی شاعری میں کتنی مطابقت ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ذاتی زندگی میں ایک شاعر قدیم ہو لیکن اس کی شاعری جدید ہو اور صورتِ حال اس کے برعکس بھی ہو سکتی ہے۔ حسرت کی شاعری پر ان کے تمام خیالات کا بہت زیادہ اثر نہیں معلوم ہوتا لیکن اتنا ضرور ہے کہ ان کی شاعری میں تجربے کا براہِ راست بیان ان کی زندگی سے پیدا ہوا ہے۔ وہ حسن وعشق کو موضوع بناتے ہیں مگر ان کا حسن وعشق روایتی نہیں ہے، اس میں حسرت کی شانِ اجتہاد ہے اور اگر کہیں کہیں وہ روایتی حسن وعشق سے ہم آہنگ بھی ہوتے ہیں تواس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انھوں نے روایت کو روایتی طور پر قبول کیا ہے بلکہ اس لیے کہ ان کے تجربے نے اس کی تصدیق کی ہے۔ حسرت کی جدیدیت کا ایک اور پہلو روایتی عشقِ حقیقی سے ان کا گریز ہے اور یہ گریز شعوری ہے۔ غزل کی روایت میں اس شعوری گریز کے معنی اس اعتبار سے اہم ہیں کہ حسرت کی غزل اس کے ذریعے قدیم غزل گوئی کے بجائے جدید غزل سے اپنا رشتہ جوڑ لیتی ہے۔ حالی کی جدید غزل ’’جدید‘‘ کا عنوان اپنے ماتھے پر سجانے کے باوجود اتنی جدید نہیں ہے جتنی حسرت کی غزل۔ حسرت کی غزل کا رشتہ آگے چل کر حسن وعشق کی بدلتی ہوئی روایت سے مل جاتا ہے جبکہ حالی کی جدید غزل اپنے قومی اور سیاسی مضامین کے باوجود جہاں کی تہاں رہ جاتی ہے۔ لیکن حسرت کی جدیدیت بہرحال ایک ایسے آدمی کی جدیدیت ہے جو کسی نہ کسی طرح قدیم روایتی تہذیب کی طرف لوٹنا چاہتا تھا یا کم ازکم اس سے اپنا رشتہ ضرور قائم رکھنا چاہتا تھا۔ اکبر کی شاعری میں روایتی معاشرے اور روایتی تہذیب کی طرف واپسی یا اس سے وابستگی کی کوشش بہت شعوری ہوکر نمایاں ہوئی ہے۔ ان معنوں میں اکبر جدیدیت کے ایک پر زور مخالف کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ لیکن جدیدیت سے جنگ اکبر نے جدیدیت کے اپنے ہتھیاروں سے لڑی ہے اور غور سے دیکھا جائے تو یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک شاعر کا شعور جدیدیت کو خود کسی حد تک قبول نہ کر لے۔ اکبر روایت پسند یا روایتی اس لیے نہیں ہیں کہ ان کی تربیت نے انھیں ایسا بنا دیا ہے۔ وہ روایتی ان معنوں میں ہیں کہ روایت کو شعوری طور پر پسند کرتے ہیں۔ یعنی اس کی تصدیق اپنے تجربے میں ڈھونڈتے ہیں۔ رشید احمد صدیقی کہتے ہیں کہ حالی ماضی کے اور اکبر حال کے شاعر ہیں۔ محمد حسن عسکری کہتے ہیں کہ اکبر ان معنوں میں حالی سے جدید تر ہیں کہ انھیں جدید چیزوں میں نئی نئی علامتیں نظر آتی ہیں۔ میرے نزدیک اکبر کی جدیدیت ان کے ’’تجرباتی‘‘ ہونے میں پوشیدہ ہے۔ وہ ہر اس چیز کی صداقت کی گواہی دیتے ہیں جوان کے تجربے میں سچی ہے اور تجرباتی سچائی کے ساتھ ان حقائق کو بھی تسلیم کر لیتے ہیں جوان کی شعوری پسندیدگی کے خلاف جاتے ہیں، مثلاً یہ بات کہ،
شعرِ اکبر کو سمجھ لو یادگار انقلاب
اس کو یہ معلوم ہے ٹلتی نہیں آئی ہوئی
ایک سچے تجرباتی رویے کے بغیر نہیں کہی جا سکتی۔ اس کے علاوہ وہ ایک معنوں میں انفرادیت پرست بھی ہیں کہ جب تاریخ کا پورا دھارا ان کے خلاف جا رہا تھا اور زمانے کی عام روش ’’چلو اس طرف کو ہوا ہو جدھر کی‘‘ تھی، اس وقت وہ،
ناز کیا اس پہ زمانے نے جو بدلا ہے تمھیں
مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں
کہہ، ہر زمانے کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ دیکھیے کتنی عجیب بات ہے کہ حالی کے زمانے میں جدید کے معنی قدیم معاشرے سے منقطع ہونے کے ہیں اور اکبر کے زمانے میں جدید معاشرے سے شعوری جنگ کے۔ کہا جاتا ہے کہ اکبر اپنی پسندیدگی میں روایتی اور اپنے رویے میں جدید ہیں جبکہ حالی اپنی پسندیدگی میں جدید اور اپنے رویے میں روایتی تھے۔ مجھے احساس ہے کہ شاعری ایک بہت پیچیدہ چیز ہے۔ اسے انفرادی اور اجتماعی شعور اور لاشعورکی اتنی آڑی ترچھی لکیریں کاٹتی ہیں کہ کسی شاعر کے بارے میں ایک معمولی سی بات کہنا بھی ہزاروں اختلافات کا دروازہ کھولنے کے برابر ہوتا ہے، پھر زندگی کی جدلیات ہماری تعریفوں پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ جدیدیت کے ایک معنی تو وہ ہیں جو میں نے غالب کے سلسلے میں متعین کیے ہیں یعنی مذہب، عقیدے، اخلاق اور طریقۂ سلف کے خلاف آزادہ روی، انفرادیت پسندی اور تغیرپرستی۔ لیکن اقبال کے سلسلے میں آپ کیا کہیں گے۔ اقبال ایک طرف تو اس خیال کے حامی ہیں کہ ملت از ضبط روایت محکم گردد۔ اس کے علاوہ اسلام پسند ہیں اور اسلامی عقائد، اخلاق اور روایات کے زبردست حامی اور مفسر ہیں۔ یعنی اس سلسلے میں ان کا رویہ یکسر روایتی ہے۔ دوسری طرف وہ ’’گفتند جہان ما آیا بتومی سازد گفتم کہ نمی سازوگفتند کہ برہم زن‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں۔