فرید بن مسعود
معاون قلم کار
پٹریشیا گرین فیلڈ ایک ماہرِ نفسیات ہیں اور ان کا شعبہِ اختصاص بچوں کی تعلیم ہے۔ ایک کتاب میں ’’اسکول بحیثیت ادارے‘‘ کا تجزیہ کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ اسکول فی نفسہ انفرادیت پسند انسان بنانے کی مشین ہے۔ ان کے مطابق اس کا ایک مظہر ان روایتی معاشروں میں بہت واضح ہوتا ہے جو ترقی کی طرف بڑھ رہے ہوتے ہیں۔ اس نے لکھا ہے کہ روایتی معاشرے خاندان کی اہمیت پر قائم ہوتے ہیں اور خاندان والے ایک دوسرے کے معاشی سہارے کی بنیاد بھی ہوتے ہیں۔ لیکن ایسے معاشرے میں ایک طرف تو اسکول معاشی بقا کے لیے لازمی حیثیت اختیار کر لیتا ہے اور دوسری طرف وہ شخص جو اسکول سے پڑھ کر کسی بھی قسم کا معاشی فائدہ حاصل کرتا ہے، وہ اس فائدے کو خاندان میں تقسیم کرنے سے کتراتا ہے۔ اس کے مطابق ایسی حالت میں معاشرے کا جزوِ فعال ایک خاندان سے ایک چھوٹی نوکلیئر فیملی میں تبدیل ہو جاتا ہے اور آخر کار صرف ایک شخص کی ذات تک محدود ہو جاتا ہے۔ مزید یہ کہ بہت سے مفلوک الحال خاندان اپنے میں سے کسی ایک یا دو کی تعلیم پر اس امید کے ساتھ ’اِنویسٹ‘ کرتے ہیں کہ اس سے بالآخر خاندان کا فائدہ ہوگا لیکن اسکول نامی مشین سے پیدا ہونے والا انسان خاندان مرکزی نہیں رہتا بلکہ اپنی ذات میں ہی گم ہو جاتا ہے۔
یہ سب اسکول میں پڑھائے جانے والے مواد کی کسی خامی کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اسکول کے ڈھانچے میں ہی ایسی خاصیت ہے کہ یہ نتائج جنم لیتے ہیں۔ مثلاً اسکول میں موجود افراد (ہم جلیس، اساتذہ اور انتظامیہ) سے ایک غیر انسانی، ادارتی تعلق جس وجہ سے ان سے اپنائیت محسوس نہیں ہوتی۔ مزید یہ کہ اسکول میں موجود مسابقت کا رجحان ہر دوسرے شخص کو ایک ایسی دوڑ میں شریک فرد بنا دیتا ہے جس کے آخر میں صرف جیتنے والا ہی کچھ حاصل کر سکتا ہے۔ روایتی تعلیم چاہے کھیت پر خاندان کے افراد کے ساتھ کھیتی باڑی سیکھنے کی ہو یا کسی ماہر بڑھئی کے پاس وقت لگانا ہو، دونوں صورتوں میں شخصی تعلق ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔پٹریشیا کے مطابق روایتی تعلیمی تناظر کل سے جز کی طرف لے کر جاتا تھا جبکہ اسکول کا تعلیمی سفر جز سے کل کی طرف جاتا ہے۔ وہ فونکس یعنی حروف تہجی کی آوازوں کی مثال دیتی ہیں جس سے ابتدا ہوتی ہے اور جملے کی کلیت بعد میں آتی ہے۔ اسی طرح تکنیکی علم بھی وسیع معاشرتی حقیقت کے تصور سے غیر متعلق ہو کر جز کو سمجھاتا ہے۔ اس کے برعکس روایتی معاشروں میں ہر علم بڑی حقیقت کے پیرائے میں سمجھا جاتا ہے اور معاشرتی تعلقات اور اسلاف کی اقدار کے ضمن میں اس کی حیثیت طے کی جاتی ہے چاہے بیج بونے کا علم ہو یا شاعری۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ’’روایتی‘‘ ان کے لیے کوئی مذہبی لفظ نہیں بلکہ وہ تو چین، افریقی اور لاطینی امریکہ کے ممالک سے مثالیں دیتی ہیں۔
اسکول کا یہ عنصری فرق ہی ایک معقول وجہ معلوم ہوتی ہے کہ انگریز نے صرف مواد کو تبدیل کر کے بر صغیر میں پہلے سے جاری مکاتب کو ہی اسکول میں کیوں تبدیل نہیں کردیا۔ گورمنٹ کالج لاہور کے سابق پرنسپل اور پنجاب یونیورسٹی کے بانیان میں شامل پروفیسر لائٹنر نے اپنی کتاب ’پنجاب کے مقامی نظامِ تعلیم کی تاریخ‘ میں اس پورے عمل کو تفصیل سے لکھا ہے کہ کس طرح سکھوں اور مسلمانوں کے تاریخی نظام ہاے تعلیم کو پہلے اچھی طرح اکھاڑا گیا اور پھر اس کی جگہ نیا تعلیمی نظام لایا گیا۔ اسی ضمن میں اس بات پر غور کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ آیا اسکول کے موجودہ نظام کی ’اسلام کاری ‘ سے کوئی روایتی مسلم شخصیت پیدا کی جا سکتی ہے؟ اور یہ بھی کہ آیا روایتی مسلم شخصیت آج کے معاشرے میں کسی سماجی اور معاشی مقام کو حاصل کر سکتی ہے؟