مولانا حافظ حماد احمد ترکؔ
نائب مدیر، ماہنامہ مفاہیم، کراچی
ریحان لی سے شان لی عرفہ کا سفر تقریباً چار گھنٹے کا تھا۔ راستے میں ایک جگہ کھانے کے لیے رکے۔ بہت ہی خوبصورت ہوٹل تھا، ہوٹل کے ساتھ مصنوعی ندی بنائی گئی تھی۔ یہ ہوٹل شام کی سرحد سے زیادہ دور نہ تھا اور شام کا پہاڑی سلسلہ بہت واضح نظر آ رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں سفر دوبارہ شروع ہوا۔ گاڑی میں کوئی خرابی تھی اس لیے سفر طویل ہو گیا اور رات کے وقت شان لی عرفہ میں داخل ہوئے۔ وہیں ایک مقامی ہوٹل میں عشائیے سے لطف اندوز ہوئے۔ شان لی عرفہ کے کباب بہت مشہور ہیں اور یہاں کا خاصہ ہیں۔ ان کبابوں کی ہم نے جتنی شہرت سنی تھی اس سے کہیں بڑھ کر پایا۔ کھانے کے تمام اجزا بہت عمدہ تھے۔ یہاں سے فارغ ہوئے تو آئی ایچ ایچ کے مرکز پہنچے اور رات یہیں قیام کیا۔
شان لی عرفہ کا اصل نام عرفہ ہے۔ شان لی کا مطلب ہے شان والا، شان دار۔ ۱۹۸۴ء میں Turkish Grand National Assembly نے عرفہ کو یہ لقب دیا۔ اس لقب کا پس منظر یہ ہے کہ پہلی جنگِ عظیم کے دوران جب فرانسیسی افواج عرفہ پر حملہ آور ہوئیں اور بہت سے حصے پر قبضہ کر لیا گیا تو دار الحکومت سے مدد طلب کی گئی۔ سرکاری افواج پہلے ہی بہت سے محاذوں پر مصروفِ پیکار تھیں اس لیے عرفہ کے شہریوں کو از خود دفاع کا پیغام ملا۔ عرفہ کے مقامی لوگوں نے محدود وسائل اور دستیاب ہتھیاروں سے قابض فرانسیسی افواج پر حملہ کر دیا۔ تربیت یافتہ افواج جو ہر طرح کے ہتھیاروں سے لیس تھیں اس پر زور حملے کی تاب نہ لا سکیں اور انھیں شکست کھاتے ہی بنی۔ فرانسیسی سپاہیوں کی پسپائی نے عرفہ کے شہریوں کی ہمت اور جرأت کے قصے ہر طرف پھیلا دیے اور عرفہ کی پارلیمنٹ کے ارکان کی سفارش پر عرفہ شہر کو سرکاری طور پر ’’شان لی‘‘ کا لقب دیا گیا۔ اس شہر میں ترکوں کے علاوہ عربوں اور کردوں کی بھی خاصی تعداد مقیم ہے۔ ترکوں کے عمومی مزاج کے بر خلاف یہاں کھانے میں مرچ مسالے کا استعمال خوب کیا جاتا ہے۔ عرفہ کے مقامی کھانوں کی شہرت ترکی ہی میں نہیں عالمی سطح پر مسلم ہے۔ شام کی سرحد سے ملحق یہ شہر تاریخی اہمیت کا حامل اور کئی تہذیبوں کا راز دان ہے۔ ان دنوں موسم سرد ہے اور نومبر کا مہینا ہے اس لیے ہمیں دشواری نہیں ہوئی ورنہ عرفہ کی گرمی ناقابلِ برداشت ہوتی ہے۔ دو دن قبل استنبول میں ہمارے لیے جیکٹ اور مفلر کے بغیر نکلنا ممکن نہیں تھا جبکہ یہاں عام لباس میں بھی نکلا جا سکتا تھا۔ نمازِ فجر آئی ایچ ایچ کے مرکز میں ادا کی۔ نماز کے بعد سامان سمیٹ کر ناشتے کے لیے چلے آئے۔ ناشتے پر ہماری ملاقات استاذ بہجت کے ساتھ ہوئی۔ استاذ بہجت آئی ایچ ایچ کے نمائندے ہیں اور انتہائی جذبے کے ساتھ عالمِ اسلام کی خدمت میں کوشاں ہیں۔ کئی دہائیوں سے انھوں نے خود کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ استاذ بہجت اس ’’فریڈم فلوٹیلا‘‘ کا بھی حصہ تھے جو ۲۰۱۰ء میں فلسطینی مسلمانوں کی حمایت کے لیے روانہ ہوا۔ یہ ایک بحری امدادی قافلہ تھا جو کشتیوں پر مشتمل تھا۔ اسرائیلی ظالم افواج نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتےہوئے (جو کہ یہودی افواج کا عام وتیرہ ہے) اس غیر مسلح نہتے قافلے پر حملہ کر دیا جس میں متعدد رضا کار شہید ہوئے۔ اس قافلے میں عالمی خبر رساں اداروں کے نمائندے بھی موجود تھے۔ اسرائیلی افواج نے فلسطینی مسلمانوں تک اس امداد کو نہیں پہنچنے دیا جو غذائی اجناس پر مشتمل تھی۔ قافلے میں شامل رضا کار گرفتار ہوئے جنھیں عالمی دباؤ پر رہا کر دیا گیا۔ بہجت صاحب نے دورانِ گفتگو مختلف مقامات کے حالات بیان کیے۔ بہجت صاحب کی گفتگو سننے کے لیے ایک ترجمان کی خدمات حاصل کی گئیں لیکن بہجت صاحب شامی مسلمانوں کا ذکر کرتے ہی جذبات کی رو میں بہہ پڑتے۔ ان پر رقت طاری ہو جاتی اور بولتے چلے جاتے۔ ترجمان بار بار ان سے درخواست کرتا کہ آپ ٹھہر جائیں تاکہ میں اردو میں ترجمہ کر سکوں لیکن وہ ترجمان پر ہی برہم ہو جاتے۔ ترجمان ادھر بولنا شروع کرتا ادھر وہ بات کاٹ کر دوبارہ گفتگو شروع کر دیتے۔ ان کی گفتگو سے عیاں تھا کہ وہ شامی مسلمانوں کے لیے کس قدر فکر مند ہیں اور ان کے بہتر مستقبل کے لیے منصوبہ سازی کر رہے ہیں۔
استاذ بہجت کے ساتھ ملاقات ختم ہوئی تو شہر کی سیاحت کے لیے روانہ ہوئے۔ پہلا مقام مقامِ ایوب تھا جہاں ایک غار کو حضرت ایوب علیہ السلام سے منسوب کیا گیا ہے اور لکھا ہے کہ آپ علیہ السلام نے بیماری کے ایام میں اسی غار میں قیام کیا۔ یہ مقام انتہائی روحانی اور نورانی مقام ہے اور جی چاہتا ہے کہ گھنٹوں یہیں بیٹھے رہیں، لیکن جگہ تنگ ہونے اور زائرین کی کثیر تعداد کی وجہ سے سپاہی تین منٹ بعد لوگوں باہر بلا لیتا ہے۔یہاں سے روانہ ہوئے تو اگلا قیام دار المرضیٰ پر ہوا۔
دار المرضیٰ پاکستانی احباب کے تعاون سے قائم کردہ ایک مرکز ہے جہاں شامی مہاجرین کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ یہاں معذور اور بیمار مہاجرین کو لایا جاتا ہے۔ جن کا مرض عارضی ہوتا ہے وہ صحت یابی کے بعد چلے جاتے ہیں اور باقی مریض اور معذور یہیں قیام کرتے ہیں۔ خواتین کے لیے ایک منزل مختص ہے جہاں صرف خواتین ہی کی تیمارداری کی جاتی ہے۔ ایک شامی مہاجراستاذ ابو موسیٰ کی نگرانی میں یہ مرکز شامی مہاجرین کی خدمت میں مصروفِ عمل ہے۔ دارالمرضٰی میں مختلف جگہوں پر سبز ہلالی پرچم بھی دیواروں پر لگائے گئے ہیں جہاں پرچم کے ساتھ یہ جملہ لکھا ہوا ہے: شکراً، أهل باکستان ۔ جب ہم نے ان معذور اور بیمار شامیوں سے گفتگو کی اور انھیں بتایا کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ جو اٹھ سکتے تھے وہ اٹھ کر بہت تپاک سے ملے اور جو معذور تھے وہ دعائیں دینے لگے۔ ایک حصہ یتیم بچوں کے لیے متعین تھا جہاں تین سال سے دس سال تک کے بچے کھیل میں مشغول تھے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے پاکستانی مسلمانوں کو اس کارِ خیر کی توفیق دی۔
دار المرضیٰ سے روانہ ہوئے اور قریب ہی واقع آئی ایچ ایچ کے لاجسٹک سینٹر پہنچے جہاں فاتح فاؤنڈیشن کی جانب سے شامی خاندانوں میں راشن کی تقسیم کا انتظام تھا۔ جب لوگ جمع ہو گئے تو وہاں موجود ایک شامی بزرگ شیخ ابراہیم نے ہمارا استقبال کیا۔ شیخ ابراہیم کی نگرانی میں ہی یہاں راشن تقسیم ہونا تھا لہذا انھوں تقسیم سے پہلے حضرت قبلہ استاذ مفتی اویس پاشا قرنی صاحب کو دعوت دی کہ وہ گفتگو فرمائیں لوگ متوجہ ہیں اور پاکستانی مسلمانوں کے جذبات سننا چاہتے ہیں۔ استاذِ گرامی نے مختصر سی گفتگو کی جس میں مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق اور باہمی اخوت کو اجاگر کیا۔ اس کے بعد شیخ ابراہیم نے گفتگو کی، انھوں نے پاکستانی مسلمانوں بالخصوص فاتح فاؤنڈیشن کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ مفتی اویس پاشا صاحب کی گفتگو آپ نے سنی اور انھوں نے واضح عربی میں گفتگو کی جس کے ترجمے کی حاجت نہیں، پھر شیخ ابراہیم نے ایک حدیثِ مبارکہ سنائی اور اسی کی وضاحت پر مشتمل گفتگو کی۔ شیخ شامی النسل تھے اور نہایت فصیح عربی میں گفتگو کر رہے تھے۔ انھوں نے یہ حدیث شریف سنائی جو بخاری میں وارد ہوئی ہے: قال رسول اللهﷺ:«مَثَلُ المُؤْمِنِينَ في تَوَادِّهِمْ وتَرَاحُمِهِمْ وتَعَاطُفِهِمْ، مَثَلُ الجَسَدِ إذا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى له سَائِرُ الجَسَدِ بالسَّهَرِ والحُمَّى» رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: ’’مؤمنوں کی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت و مودت اور باہمی ہمدردی کی مثال جسم کی طرح ہے کہ جب اس کا کوئی عضو تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے بہ ایں طور کہ نیند اڑ جاتی ہے اور پورا جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے‘‘۔
یہاں سے فارغ ہوئے تو آئی ایچ ایچ کی گاڑی میں قریب ہی ایک محلے میں جا پہنچے جہاں چند گھروں میں راشن پہنچانا تھا۔ رضاکاروں کے پاس پہلے سے ان گھرانوں کا ریکارڈ درج تھا۔ جاتے جاتے ایک رضا کار نے ہمیں بہت سے غبارے بھی تھما دیے جن پر آئی ایچ ایچ کا نام اور نشان منقش تھا، انھوں نے کہا کہ جن گھروں میں بچے نظر آئیں انھیں یہ غبارے تقسیم کر دیں۔ جہاں جہاں بھی ہم نے بچوں کو غبارے دیے بچوں نے بہت ہی خوشی کے ساتھ وصول کیے اور انھیں پھلانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے لگے۔ یہاں ہماری امدادی سرگرمی مکمل ہو گئی۔ جہاز کی روانگی میں کافی وقت تھا لہٰذا شہر کی سیاحت کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ عرفہ میں ایک جگہ مقامِ ابراہیم کے نام سے مشہور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے نمرود نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکا تھا۔ اس مقام پر دو بلند ستون ہیں جن کے درمیان کافی فاصلہ ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان ستونوں پر غلیل بنا کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اچھالا گیا تھا۔ کچھ دور ایک انتہائی قدیم عمارت کی باقیات ہیں جہاں محراب پر یہ قرآنی آیت لکھی ہوئی ہے کہ ’’اے آگ ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی والی ہو جا ابراہیم پر‘‘۔ اس کے ساتھ ہی ایک تالاب ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں نمرود کے حکم پر آگ لگائی گئی تھی جو تالاب میں تبدیل ہو گئی۔ اور تالاب میں کثیر تعداد میں سیاہ رنگ کی خوبصورت مچھلیاں تیر رہی تھیں جو ان لوگوں کے خیال میں وہ لکڑیاں تھیں جو بطورِ ایندھن وہاں جمع کی گئی تھیں۔ لیکن یہ ساری باتیں حقیقت سے بہت دور معلوم ہوتی ہیں کیونکہ مفسرین نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقام ’’بابل‘‘ بتایا ہے جو عرفہ سے بہت دور ہے۔ صرف مقامِ ابراہیم ہی نہیں اور بھی بہت سے مقامات ہیں جن کی نسبت درست معلوم نہیں ہوتی لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس سے ترکوں کی خوش عقیدگی ظاہر ہوتی ہے۔ اسی مقام پر ایک شخص قدیم عثمانی سلاطین کی طرز کی قبائیں اور شاہی طرز کی ٹوپیاں تھامے کھڑا تھا۔ معلوم ہوا کہ تین لیرا کے عوض یہ لباس پہن کر لوگ تصاویر کھنچواتے ہیں اور پھر لباس واپس کر دیتے ہیں۔ عثمانیوں سے عقیدت نے ہمیں بھی مجبور کیا کہ چند لمحات کے لیے ہی صحیح، یہ شاہی لباس ضرور زیب تن کرنا چاہیے چنانچہ فوراً اس آدمی سے شاہی قبا اور عمامہ لیا اور پہن کر مقامِ ابراہیم میں موجود محراب کے نیچے جا کھڑے ہوئے۔ جب لباس واپس کیا تو اس آدمی نے ہم مہمانوں کا اکرام کرتے ہوئےپیسے لینے سے انکار کر دیا، محض دعاؤں کی درخواست کی اور لباس واپس لے لیا۔
اسی مقام سے متصل ایک ہوٹل میں کھانا کھایا۔ وہی عرفہ کے کباب اور خاص ذائقہ یہاں بھی میسر آیا۔ کھانے کے بعد ایک طویل راستے سے واپس روانہ ہوئے۔ یہ مقام بلندی پر واقع ہے۔ آتے وقت تو گاڑی پر آئے تھے لیکن واپس جاتے ہوئے سیڑھیوں کا استعمال کیا۔ ان سیڑھیوں سے پورے شہر کا بآسانی نظارہ کیا جا سکتا تھا۔ جہاز کی روانگی کا وقت قریب تھا لہٰذا شان لی عرفہ کے ہوائی اڈے کی طرف روانہ ہوئے۔ ترکش ایئر لائن کی دو گھنٹے کی پرواز کے بعد استنبول ائیر پورٹ پہنچے اور بس کے ذریعے بہت سہولت کے ساتھ رہائش گاہ پہنچ گئے۔ رات گہری ہو چکی تھی چنانچہ جلد ہی نیند نے آغوش میں لے لیا۔
نمازِ فجر کے لیے اٹھے تو وہی ہاؤ ہو سنائی دی جو گزشتہ پیر سنی تھی۔پیر بازار کے لیے دور دور سے سبزی فروش، پھل فروش ، برتن اور نجانے کیا کیا کچھ لے کر بازار جمانے کو تیار تھے۔ نمازِ فجر باجماعت ادا کر کے ناشتے کی خریداری کے لیے بازار میں نکل گئے۔ بازار سے کچھ سامان لیا اور پھر ایک بیکری میں داخل ہوگئے جہاں ’’بوریک‘‘ فروخت ہو رہا تھا۔ بوریک کا ذکر گزشتہ اقساط میں ہو چکا ہے۔ بیکری میں ہی ناشتے کا پہلا دور ہوا جس میں مختلف اقسام کے بوریک کام میں لائے گئے۔ پھر ذرا آگے بڑھے تو ایک جگہ انواع و اقسام کے سوپ تیار ہو رہے تھے، کچھ وقت (بقولِ اکبرؔ) ’’سوپ کاری‘‘ کی نذر ہو گیا۔ یہاں سے نکلے تو استاذِ محترم کے ساتھ قریب ہی ’’بابِ عالم‘‘ پہنچ گئے۔ بابِ عالم ایک ادارہ ہے جو طلبہ کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتا ہے۔ ترکی میں جتنے بھی بیرونی ممالک کے طلبہ آتے ہیں، اس ادارے کے منتظمین اُنھیں تھوڑا بہت وظیفہ بھی دیتے ہیں۔ بابِ عالم میں داخل ہوئے تومختلف کمرے اور مختلف میزیں نظر آئیں، معلوم ہوا کہ ہر برِّ اعظم کے لیے ایک الگ میز مختص ہے جہاں اس خطے کے طلبہ ہی جمع ہوتے ہیں، اور ہر میز پر کچھ معاونین (coordinators) ہوتے ہیں جو درحقیقت سینیر طلبہ ہوتے ہیں۔ بابِِ عالم کے تحت ان طلبہ کو مطالعے کے لیے کتب دی جاتی ہیں، تربیتی نشستیں منعقد ہوتی ہیں، نیز طلبہ کو سیاحتی مقامات پر بھی لے جایا جاتا ہے۔ ایک خطے کے طلبہ کا دیگر خطوں کے لوگوں سے رابطہ رہتا ہے، کبھی کھانا اور دعوتِ افطار وغیرہ کا اہتمام ہوتا ہے۔ ایک خطے کے مسلمانوں کے مسائل سے باقی عالمِ اسلام کو آگاہی ہوتی ہے۔ اس سے دو بڑے فائدے حاصل ہوتے ہیں: اول تو یہ کہ طلبہ دیارِ غیر میں جا کر خراب نہیں ہوتے، نظریاتی طور پر پختہ اور فعال رہتے ہیں، دوسرے یہ کہ پوری امت کے احوال و مسائل سے واقف ہوجاتے ہیں۔ ان کا مطمحِ نظر اپنی ذات، اپنی قوم اور اپنا ملک نہیں رہتا بلکہ اقبالؔ کے بقول ان کا عقیدہ یہ بن جاتا ہے کہ ’’ہر ملک ملکِ ماست کہ ملکِ خداے ماست‘‘ ہر ملک ہمارا ملک ہے کیونکہ ہمارے خدا کا ملک ہے۔ یہ ادارہ اگرچہ بہت بڑا نہیں ہے لیکن اپنی ذات میں انفرادی نوعیت کا حامل ہے۔ یہاں سے باہر نکلے تو رہائش کا رخ کیا۔ اب بازار سے گزرے تو منظر بدل چکا تھا۔ خوب گہما گہمی تھی اور بازار پوری طرح سج گیا تھا۔ہم نے ناشتے کے لیے خریداری کی اور واپس رہائش گاہ پہنچ گئے۔ آج استنبول میں ہمارا آخری دن تھا اور کل شام ہمیں کراچی کے لیے روانہ ہونا تھا۔ ویسے تو استنبول میں کئی اہم مقامات دیکھنے سے رہ گئے تھے اور دس دن کے سفر میں ان سب کا احاطہ ممکن بھی نہیں تھا لیکن ایک اہم مقام ’’اسماعیل آغا جامی‘‘ دیکھنا ناگزیر تھا، چنانچہ تیاری کر کے رہائش گاہ سے نکلے اور روانہ ہوگئے۔ بس اسٹاپ پر کافی انتظار کے بعد بس آئی، ہمارے یہاں بس کا انتظار نسبتاً مشکل ہوتا ہے کیونکہ کچھ معلوم نہیں ہوتا تین منٹ کا انتظار ہوگا یا تیس منٹ کا۔ استنبول کی بسیں گوگل میپ کے ساتھ مربوط ہوتی ہیں، چنانچہ آپ نقشے پر بس کی آمد کا وقت بھی دیکھ سکتے ہیں۔ بس میں بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی چنانچہ کھڑے ہو کر سفر کرنا پڑا۔ یوں تو کراچی کی اصطلاح میں دو ہی صورتیں ممکن ہیں، یا تو بس میں بیٹھ کر سفر کیا جاتا ہے یا لٹک کر، عموماً تیسری صورت کم ہی درپیش ہوتی ہے۔ استنبول کی بسوں میں کرسیاں کم ہوتی ہیں، خالی جگہ زیادہ ہوتی ہے۔ بہرحال؛ پندرہ منٹ بعد ہم استنبول کی روحانیت اور نورانیت کے مرکز ’’اسماعیل آغا‘‘ پہنچ گئے۔ یہ اسماعیل آغا آخر کیا ہے؟ یہ جاننے کے لیے ابھی کچھ مت کیجیے، صرف انتظار کیجیے ہماری اگلی قسط کا جو کہ اس سفرنامے کی آخری قسط ہوگی ان شاء اللہ۔