لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

مولانا محمد اقبال
رکن شعبۂٔ تحقیق و تصنیف

جذبۂ ایثار: اسلامی معاشرے کی اہم خصوصیت
سورۃ الحشر، آیت: 9

﴿وَالَّذِینَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالإِیمَانَ مِن قَبلِهِم یُحِبُّونَ مَن هَاجَرَ إِلَیهِم وَلَایَجِدُونَ فِی صُدُورِهِم حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا، وَیُؤثِرُونَ عَلٰی أَنفُسِهِم وَلَو کَانَ بِهِم خَصَاصَةٌ وَمَن یُّوقَ شُحَّ نَفسِه فَاُولٰٓئِکَ هُمُ المُفلِحُونَ﴾

وہ لوگ جو پہلے ہی سے اس جگہ (یعنی مدینہ میں) ایمان کے ساتھ مقیم ہیں۔ جو کوئی ان کے پاس ہجرت کر کے آتا ہے یہ اس سے محبت کرتے ہیں، اور جو کچھ ان (مہاجرین) کو دیا جاتا ہے، یہ اپنے سینوں میں اس کی کوئی خواہش بھی محسوس نہیں کرتے، اور ان کو اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، چاہے ان پر تنگ دستی کی حالت گزر رہی ہو۔ اور جو لوگ اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ ہوجائیں، وہی ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔

آیت زیرِ مطالعہ کا پَسْ منظر

صحیح بخاری میں اس آیت کے شانِ نزول کے متعلق حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھوک کی حالت میں حاضر ہوا، آپ ﷺ نے انھیں ازواجِ مطہرات کے یہاں بھیجا، تاکہ ان کو کھانا کھلا دیں۔ ازواجِ مطہرات نے اطلاع دی کہ ہمارے پاس گھروں میں پانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اس موقعے پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان صاحب کی مہمان نوازی کون کرے گا؟ ایک انصاری صحابی (حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ) کہنے لگے کہ میں کروں گا۔ چنانچہ وہ اس شخص کو اپنے گھر لے گئے اور اپنی اہلیہ سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے مہمان کی خاطر تواضع کریں۔ ان کی اہلیہ نے کہا کہ گھر میں بچوں کے کھانے کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے۔ انھوں نے کہا جو کچھ بھی ہے اسے نکال دو اور چراغ جلا لو اور بچے اگر کھانا مانگتے ہیں تو انھیں سلا ئیں۔ چنانچہ ان کی اہلیہ نے کھانا نکال دیا اور چراغ جلا دیا اور اپنے بچوں کو بھوکا سلا دیا۔ پھر وہ ظاہر تو یہ کر رہی تھیں جیسے چراغ درست کر رہی ہوں، لیکن انھوں نے اسے بجھا دیا۔ اس کے بعد دونوں میاں بیوی مہمان کے سامنے یہ تأثر دینے لگے کہ گویا وہ بھی ان کے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں، لیکن ان دونوں نے اپنے بچوں سمیت رات فاقے سے گزار دی۔ جب صبح ہوئی اور وہ صحابی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم دونوں میاں بیوی کے نیک عمل پر رات کو اللہ تعالیٰ ہنس پڑا یا یہ فرمایا کہ اسے پسند کیا۔ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿وَیُؤثِرُونَ عَلٰی أَنفُسِهِم وَلَو کَانَ بِهِم خَصَاصَةٌ وَمَن یُّوقَ شُحَّ نَفسِه فَاُولٰٓئِکَ هُمُ المُفلِحُونَ﴾ ’’یہ لوگ ان کو اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، چاہے ان پر تنگ دستی کی حالت گزر رہی ہو۔ اور جو لوگ اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ ہوجائیں، وہی ہیں جو فلاح پانے والے ہیں‘‘۔

تفسیر وتوضیح

یہ آیت اگرچہ ایک خاص واقعے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کی مہمان نوازی کے پس منظر میں نازل ہوئی ہے، مگر اس میں انصارِ مدینہ کے ایثار کی عمومی توصیف وتعریف بیان فرمائی گئی ہے کہ انصاری صحابہ جو مدینہ منورہ کے اصل باشندے ہیں، انھوں نے دل کھول کر مہاجرین صحابہ کی مدد کی۔ چنانچہ ان کی اس ایثار وقربانی کے متعلق فرمایا:

﴿یُحِبُّونَ مَن هَاجَرَ إِلَیهِم، وَلَا یَجِدُونَ فِی صُدُورِهِم حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا﴾ ’’جو کوئی ان کے پاس ہجرت کر کے آتا ہے یہ اس سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ ان (مہاجرین) کو دیا جاتا ہے، یہ اپنے سینوں میں اس کی کوئی خواہش بھی محسوس نہیں کرتے‘‘۔ یعنی انصارِ مدينہ نے مكہ سے آنے والے مہاجرين كو كھلے دل سے اپنے وطن میں خوش آمديد کہا۔ انھیں اپنی معیشت پر بوجھ نہیں سمجھا اس كے باوجود کہ وہ نادارى ومحرومى کی حالت میں یہاں آئے۔ اپنے وطن سے ہجرت کرنے والے عموماً مجبوری کی بنا پر وطن چھوڑتے ہیں، جب یہ مہاجرین کسی علاقے سے ہجرت کر کے آتے ہیں تو یہ اپنے ساتھ مال ومتاع نہیں لاسکتے اس لیے یہ نادار ہوتے ہیں اور نادار و تنگ دست علاقے کی معیشت پر بوجھ بن جاتے ہیں۔

﴿وَیُؤثِرُونَ عَلٰی أَنفُسِهِم وَلَو کَانَ بِهِم خَصَاصَةٌ﴾ ’’اور ان کو اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، چاہے ان پر تنگ دستی کی حالت گزر رہی ہو‘‘۔ آیت کے اس حصے میں یہ فرمایا گیا ہے کہ انصارِ مدینہ نے نہ صرف یہ کہ ان مہاجرین کو اپنے وطن میں خوش آمدید کہا بلکہ ہر مشکل حالت میں ان مہمان مہاجرین کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر بھی ترجیح دی۔ انصارِ مدينہ ميں سے سب لوگ امیر ودولت مند نہیں تھے، بہت سے لوگ نادار اور تنگ دست بھى تھے، ليكن انھوں نے بھی اپنى ضروریات كو پسِ پشت ڈال كر اپنے مہاجر بھائيوں كى بھرپور مدد كى تھى۔ چنانچہ اس کی ایک مثال حضرت ابو طلحہ اور ان کی اہلیہ رضی اللہ عنہما کی ہے کہ جن كے اسى جذبۂ ايثار كے اعتراف میں یہ آیت نازل ہوئی کہ انھوں نے خود کو اور اپنے بچوں کو بھوکا رکھا مگر اپنے مہمان کی بھوک برداشت نہیں کر سکے۔ اور سارے انصار کی یہی کیفیت تھی کہ وہ ایثار سے کام لیتے تھے۔

﴿وَمَن یُّوقَ شُحَّ نَفسِه فَاُولٰٓئِکَ هُمُ المُفلِحُونَ﴾ ’’اور جو لوگ اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ ہوجائیں، وہی ہیں جو فلاح پانے والے ہیں‘‘۔ یعنی کامیاب لوگ درحقیقت وہی ہیں جو ملکۂ بخل سے نجات حاصل کریں۔ بخل کی طبیعت سے نجات والے کون ہیں؟ ان کے متعلق مفسرین فرماتے ہیں کہ ’’ہر وہ شخص بخل کے ملکے سے پاک ہے جو ایسے مال کے حصول سے بچتا ہے، جس کے لینے سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے اور ایسا مال اپنے پاس محفوظ نہیں رکھتا، جس کی ادائیگی کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے ‘‘۔(زاد المسير في علم التفسير،ج:۴، ص: ۲۵۹) اس آیتِ مبارکہ میں جہاں انصارِ مدینہ کو اس وصف کی بدولت کامیابی کی ضمانت دی گئی ہے وہاں ہر وہ شخص جو اس اہم اور عظیم وصف میں ان کے ساتھ ہو وہ بھی مذکورہ کامیاب لوگوں کی فہرست میں آتا ہے۔

حضرت عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نبیِ اکرم ﷺ کے پاس ایک ہزار دینار لے کر آئے، جس وقت حضور ﷺ ’’جیشِ عسرہ‘‘ کی تیاری میں مصروف تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے وہ دینار آپ کی گود مبارک میں ڈال دیے۔ میں نے نبیِ اکرم ﷺ کو دیکھا کہ وہ ان دیناروں کو اپنی گود میں الٹتے پلٹتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ آج کے بعد عثمان کا کوئی بھی عمل انھیں نقصان نہیں پہنچائے گا، ایسا آپ ﷺ نے دو بار فرمایا۔(سنن ِترمذی) حاصلِ کلام یہ ہے کہ ایثار یعنی اپنی ضروریات پر دوسروں کی ضروریات کو ترجیح دینا اسلامی معاشرے کی امتیازی خصوصیت ہے۔ جس طرح تعلیماتِ اسلام نے جذبۂ ایثار کی اہمیت وفضیلت بیان کی ہےاس کی نظیر دوسرے ادیان و اقوام کے ہاں ملنی مشکل ہے۔ اسلام نے صرف تعلیم ہی نہیں دی بلکہ مسلم قوم نے اس کی زندہ مثالیں بھی پیش کی ہیں۔ ہر زمانے میں ایسے خوش قسمت رہے ہیں جنھوں نے اپنی ضروریات پر دوسرے لوگوں کی ضروریات کو مقدم رکھا ہے۔ خاص طور پر ایثار کا یہ جذبہ حضرات صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی میں ہم بخوبی مشاہدہ کر سکتے ہیں، انھوں نے ہمیشہ دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کیا اور اپنی ضروریات کے مقابلے میں دوسروں کو خود پر ترجیح دی۔ آج کل ہمارے وطن کے مختلف حصوں میں سیلابی صورتِ حال درپیش ہےاور اس نے پہلے ہی سے مفلوک الحال لوگوں کی مصیبت میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ ایسے میں ایثار کے اسی جذبے کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جو مطلوب ہے اورجسے اسلامی تعلیمات کی نظر میں حقیقی کامیابی قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں مذکورہ آیتِ مبارکہ کا کامل مصداق بنائیں اور ہمیں ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین

لرننگ پورٹل