مفتی اویس پاشا قرنی
ضبط و ترتیب: مولانا محمد اقبال
افغانستان کی مختصر تاریخ: ایک جائزہ
افغانستان کی تاریخ تقریباً پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ معلوم تاریخ کے مطابق ٦٠٠ قبل مسیح میں،اس سر زمین پر خانہ بدوش رہتے تھے۔ ٣٣٠ ق م تک یہ ملک داریوش سلطنت کا مشرقی صوبہ تھا۔ ٣٢٧ ق م میں سکندرِ اعظم نے اس ملک کو اپنا مسکن بنایا تھا اور اس نے تقریباً تین سال تک بلخ؛ جو آج کل افغانستان کا ایک صوبہ ہے؛ کو اپنا دار السلطنت بنایا تھا۔ افغانستان کی تاریخ میں آتا ہے کہ سکندرِ اعظم نے یہاں ’’سکندریہ‘‘ کے نام سے کئی شہر آباد کیے تھے۔ سکندرِ اعظم کے بعد ۸۴ءسے ۲۴۱ء تک افغان سر زمین پر کو شانؔ سلطنت کا دور تھا، جس کا دار الحکومت کاپیسا تھا۔ اس کے بعد جب اسلام کی کرنیں عالمِ عرب سے نمودار ہوئیں تو بہت جلد افغان سر زمین پر اسلام کی روشنی پڑی۔ امیر المؤمنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں افغانستان کے اہم حصے مسلمانوں کے زیرِ سایہ آئے اور خلافتِ راشدہ کے بعد یہ ملک خلافتِ بنی امیہ میں بھی اسلامی سلطنت کا حصہ رہا۔ لیکن پھر جب خلافتِ عباسیہ کے عہدمیں خلافت کی مرکزیت کمزور ہوئی تو ۹۷۷ء میں اس ملک پر غزنوی خاندان کی سیادت تسلیم کی گئی۔
سب سے پہلے سبکتگین نے حکومت قائم کی اور ان کے بعد ان کے بیٹے سلطان محمود غزنوی بن سبکتگین اس عظیم سلطنت کے فرماں روا بنے۔ محمودغزنوی ۹۷۱ء میں غزنی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سبکتگین ایک ترک کماندار تھے، انھوں نے ۹۷۷ء میں سلطنت کی بنیاد رکھی تھی۔ سلطان محمود جن کو اسلامی تاریخ کے چند عظیم جرنیلوں اور سلاطین میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ کی فوج میں افغان، غوری، سلجوق، مغل،عرب کے علاوہ دس سے پندرہ ہزار ہندو سپاہی بھی شامل تھے۔ کم و بیش سلطان کی فوج کی تعداد ایک لاکھ تھی۔ عباسی خلیفہ نے ۹۹۹ء میں سلطان محمود کو یمین الدولۃ کا خطاب عطا کیا۔ سلطان محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے کیے، ان حملوں میں سومنات کی فتح کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ سلطان محمود غزنوی اسلامی تعلیمات کے بڑے پابند تھے اور مسلم حکمرانوں میں قرآن و سنت کی تعلیمات پر سختی سے عمل کرنے والےحکمرانوں میں آپ کا نام آتا ہے۔ غزنوی سلطنت کا دار الحکومت غزنی تھا۔ سلطان محمود غزنوی ۱۰۳۰ء میں انتقال کر گئے۔ ان کے بعد ان کے بیٹے محمد غزنوی ان کے جانشین بنے اورپھر کئی حاکم آئے، آخر کار اس خاندان کی حکومت ۱۱۸۷ء میں ختم ہوئی۔ ہمیں اس سفر میں قندھار سے کابل جاتے ہوئے غزنی میں قیام کا موقع میسر آیا اورسلطان کے مقبرے پر حاضری بھی ہوئی جس کی تفصیل اپنے مقام پر آئے گی ان شاء اللہ۔
١١٨۷ء سے ١٢٢٠ ء تک غوری سلطنت نے غزنوی سلطنت کی جگہ لے لی اور غوریوں نے غزنی شہر کو جلا کر تباہ کر دیا۔ سلطان محمود غزنوی کے زمانے میں غوریوں کے امیر محمد بن سوری تھے۔ انھوں نے سلطان محمود غزنوی کے خلاف بغاوت کی، سلطان محمود غزنوی نے ان کی سرکوبی کی اور محمد بن سوری کو گرفتار کرلیا۔ جب وہ انھیں اپنے ساتھ غزنی لے جا رہے تھے تو غزنی پہنچنے سے پہلے راستے میں محمد بن سوری وفات پاگئے۔ سلطان نے ان کے بیٹے ابو علی کو غور کے علاقے کا حاکم بنادیا، مگر ان کے خلاف ان کے بھتیجے عباس بن محمد بن سوری نے بغاوت کی اور انھیں گرفتار کر کے خود حاکم بن بیٹھے۔ پھر عباس بن محمد بن سوری نے سلطان ابراہیم غزنوی کے خلاف سرکشی کی تو سلطان ابراہیم نے انھیں ہٹا کر ان کے بیٹے محمد بن عباس کو غور کا حاکم مقرر کر دیا۔ محمد بن عباس کے بعد ان کے بیٹے ملک قطب الدین غور کے حکمران بنے اور ان کے بعد عزالدین حسین ان کے جانشین ہوئے۔ عز الدین کے سات بیٹے تھے، انھوں نے اپنی سلطنت کوان میں تقسیم کردیا۔ ان میں ایک ملک الجبال محمد قطب الدین بھی تھے جنھوں نے فیروز کوہ کو اپنا دار الحکومت بنادیا۔ مگر انھی ملک الجبال کا دوسرے بھائیوں کے ساتھ اختلاف ہوا اور ناراض ہو کر غزنی چلے گئے۔ وہاں بہرام شاہ حکمران تھے۔ بہرام شاہ نے بغاوت کے شبہے میں ملک الجبال کو قتل کرا دیا۔ ملک الجبال کے بھائی غور کے حاکم سلطان سیف الدین سوری نے بھائی کے مظلومانہ قتل کا بدلہ لینے کا فیصلہ کیا اور غزنی پر حملہ کیا تو بہرام غزنوی مقابلہ نہیں کرسکے اور غزنی چھوڑ کر چلےگئے۔ سیف الدین سوری نے اہلِ غزنی سے اچھا سلوک کیا اور اپنا لشکر واپس غور بھیج دیا، لیکن غزنی کے باشندوں نے دوبارہ بہرام غزنوی کے ساتھ خفیہ رابطہ کر کے انھیں واپس بلالیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ سلطان سیف الدین سوری نے خود بھی واپسی کا ارادہ کیا تھا، مگر بہرام کے غزنی آنے کی خبر ملتے ہی انھوں نے اہلِ غزنی سے مشاورت کی تو انھوں نے بہرام کے خلاف لڑنے کا مشورہ دیا۔ سلطان کو ان کی خفیہ ساز باز کا پتا نہیں تھا جب وہ ان کے مشورے سے فوج لے کر مقابلے کے لیے نکلے تو پوری فوج بہرام غزنوی سے جاملی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سیف الدین سوری گرفتار ہو کر دھوکے سے قتل کر دیے گئے۔ اس وقت سلطان سیف الدین کے بھائی علاء الدین فیروز کوہ کا حکمران تھا۔ اس نے بھائیوں کے قتل کا انتقام لینے کے لیے غزنی پر حملہ کیا۔ اس لڑائی میں بہرام غزنوی کو زبردست شکست ہوئی اور علاء الدین نے غزنی شہر کو نذرِ آتش کر دیا، محمود غزنوی کا بسایا ہوا شہر جو عظمت و سطوت کا نشان تھاسات دن جلتا رہا اوریہاں کے باشندوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں علاء الدین کو علاء الدین جہاں سوز کے نام سے یاد کیا گیا۔ افغانستان پر غوری خاندان نے١١٨۷ء سے ۱۲۰۶ء تک حکمرانی کی۔
غوری خاندان میں سب سے پہلے حکمران شہاب الدین محمد غوری ہوئے ہیں۔ انھوں نے شمالی ہند میں فتوحات کے جھنڈے گاڑ دیےاور سب سے پہلے ان کے دور میں ہندوستان میں اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی گئی۔ انھوں نے ملتان پھر لاہور اور پھر دہلی کو فتح کیا۔ ۱۱۹۱ءمیں ان کامقابلہ دہلی و اجمیر کے ہندو حکمران پرتھوی راج چوہان سے ہوا، اس جنگ میں پرتھوی راج ڈھائی لاکھ فوج کے ساتھ میدان میں اترا جبکہ اس کے مقابلے میں محمد غوری کے پاس فقط تین ہزارمجاہدین تھے۔ اس جنگ میں اس قلیل لشکر نے شکست کھائی۔ محمد غوری نے اس کے ایک سال بعد ایک لاکھ بیس ہزار افراد پر مشتمل فوج میدان میں اتاری اور پرتھوی کے مقابلے میں آئے۔ پرتھوی راج کی فوج کی تعداد تین لاکھ تھی اور اب بھی تین گنا زیادہ تعداد تھی مگر غوری نے اسے شکستِ فاش دے دی۔ پرتھوی کو گرفتار کرکے قتل کردیا گیا، یہ معرکہ تاریخ میں بہت مشہور ہوا ہے۔ سلطان نے ہندوستان میں مزید فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا اور بنارس تک اپنی حکومت کی سرحدیں بڑھائیں۔ ۱۲۰۶ء میں جہلم کے قریب نماز کی حالت میں محمد غوری شہید کر دیے گئے۔ سلطان شہاب الدین غوری کے دور میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیر تشریف لائے اور اپنی دعوتی کوششوں کا آغاز کیا۔ جب فتنۂ تاتار نے عالمِ اسلام کے مراکز کو تہہ و بالاکردیا اور تاتاری آندھی بن کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوا تو افغانستان بھی اس کا نشانہ بنا اور یہ ملک تقریباً سو سال کے لیے تاتار منگولوں کے قبضے میں آگیا۔ تاتاریوں کے بعد افغانستان کو ١٣٦٤ء میں تیمور نے فتح کیا۔ ۱۳۶۴ء سے ۱۵۰۶ ء تک بابر نے افغانستان میں حکومت کی اور ایک بڑے عرصے تک یہ ملک مغلوں کی سلطنت میں شامل رہا۔ ۱۷۰۹ء میں میرویس نیکہ نے افغانستان میں سلطنت قائم کی اور افغان حکومت کو باہر سے آئے ہوئے حملہ آوروں سے آزاد کرا کر یہاں اصل باشندوں کی حکومت کا راستہ ہموار کیا، جس کی وجہ سے میرویس کا نام آج تک افغانوں میں نہایت احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔
۱۷۰۷ء سے ۱۷۴۷ء تک میرویس ہوتکؔ اور ان کے خاندان نے حکومت کی۔ اس کے بعد بابااحمد شاہ ابدالی (افغانستان میں احمد شاہ ابدالی کو بابا کہا جاتا ہے)نے افغانستان کی حکومت سنبھالی جس کے نتیجے میں ایک وسیع ریاست تشکیل دی گئی۔ احمد شاہ ابدالی نے ابتدا میں ایران کے بادشاہ نادر شاہ افشار کی فوج میں ایک نڈر کماندار کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور ۱۷۴۷ء میں نادر شاہ افشار کے قتل کے بعد احمد شاہ ابدالی کو افغانستان کا حکمران منتخب کیا گیا۔ احمدشاہ ابدالی نے بہت جلد منتشر افغان قبائل کو متحد کر دیا اور ایک مستحکم افغانستان کی بنیاد رکھی۔ آپ نے افغانستان کا دار الحکومت قندھار بنا کر یہاں سے اپنی ریاست کی سرحدیں مشرق و جنوب کی سمت میں ہندوستان، مغرب کی طرف سلطنتِ فارس تک بڑھائیں۔ آپ نے خراسان سے کشمیر اور ہندوستان تک غرباً اور شرقاً جبکہ دریا ے آمو سے بحیرۂ عرب تک شمالاً جنوباً اپنی سلطنت کو وسیع کیا۔احمد شاہ ابدالی نے۱۷۴۸ء سے لے کر۱۷۶۷ء تک ہندوستان پر سات بار حملہ کیا۔ انھوں نے۱۷۴۷ءمیں درۂ خیبر عبور کیا اور اپنے پہلے حملے میں پشاور کو اپنی سلطنت میں شامل کیا، اور پھر آگے بڑھ کر ہندوستان کے کئی علاقے اپنی سلطنت میں شامل کیے۔ آپ کے ہندوستان پر حملوں میں سب سے بڑا معرکہ پانی پت کی تیسری لڑائی سمجھی جاتی ہے، جس میں انھوں نے۱۷۶۱ء میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی دعوت پر جنونی مرہٹوں کی بڑھتی ہوئی یلغار کا راستہ روکا ۔ یہ وہ وقت تھا جب امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ برصغیر میں مسلمانوں کی علمی و دینی قیادت کر رہے تھے۔ حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ نے محسوس کیا کہ مغل سلطنت ہندو مرہٹوں کی یلغار کے سامنے بے بس ہو چکی ہے تو آپ رحمہ اللہ نے مرہٹوں کی سرکوبی کے لیے افغانستان کے بادشاہ احمد شاہ ابدالی کو خط لکھا اور ان سے مدد مانگی۔ احمد شاہ ابدالی نے حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کی استدعا پر مرہٹوں کے خلاف جنگ کرنے کے لیے ہندوستان کا رخ کیا ۔حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ نے احمد شاہ ابدالی کے نام خط میں لکھا: ’’دریں زمانہ پادشاہے کہ صاحب اقتدار و شوکت باشد وقادر بر شکست لشکر کفار و دور اندیش ، جنگ آزما ، غیر از ملازمان آں حضرت موجود نیست ، لاجرم بر آں حضرت فرض عین است قصد ہندوستان کردن و تسلط کفار مرہٹہ برہم زدن وضعفاے مسلمین راکہ در دست کفار اسیر اند اخلاص فرمودن ، اگر غلبۂ کفر معاذا للہ بر ہمیں مرتبہ ماند ، مسلماناں اسلام فراموش کنند ، و اندکے از زمان نگذرد کہ قومے شوند کہ نہ اسلام را دانند نہ کفر را۔ ایں بلاے عظیم است کہ قدرت بر دفع آں بہ فضل ایزد منان غیر آں حضرت را میسر نیست۔ (شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے سیاسی مکتوبات ،ص:۵۲، از خلیق احمد نظامی )ترجمہ: اس زمانے میں ایسا بادشاہ جو صاحب اقتدار و شوکت ہوجو مخالفین کے لشکر کو شکست دے سکے اوردور اندیش ہو اور جنگ آزما ہو سوائے آنجناب کے اور کوئی نہیں ہے۔ یقینی طور پر جناب عالی پر فرض عین ہے کہ ہندوستان کا رخ کریں اور مرہٹوں کا تسلط توڑ دیںاور ضعفاے مسلمین کو کافروں کے پنجے سے نجات دلائیں ۔ اگر معاذ اللہ دشمنوں کا تسلط اسی طرح جاری رہا تو مسلمان اسلام کو بھول جائیں گے اور تھوڑے زمانے کے بعد مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تمیز بھی مشکل ہو جائے گی۔ یہ ایک بلاے عظیم ہے ، اس بلاے عظیم کے دفع کرنے کی قدرت بہ فضل خداوندی جناب کے سوا کسی کو میسر نہیں‘‘۔
چنانچہ ۱۷۶۱ء میں امام الہندحضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ کی دعوت پر احمدشاہ ابدالی ہندوستان کے مسلمانوں اور یہاں زوال پذیر مغل سلطنت کی حفاظت کے لیے ہندوستان آئےاور پانی پت کے میدان میں پانچ لاکھ مرہٹوں کو تاریخی شکست دی۔ اس جنگ کی ایک یاد گار وہ زمزمہ توپ ہے جو آج کل لاہور کے استنبول چوک میں نصب ہے، یہ توپ احمد شاہ ابدالی کے حکم سے مشہور سپہ سالار اور وزیرِ اعظم شاہ ولی خان نے شاہ نظیر سے ۱۷۵۷ء میں تیار کروائی تھی۔ یہ ان توپوں میں سے ایک ہے جو احمد شاہ ابدالی نے پانی پت کے میدان میں مرہٹوں کے خلاف ۱۷۶۱ء کی جنگ میں استعمال کی۔ فتح کے بعد سلطان نے واپسی کے وقت زمزمہ توپ لاہور لاکر افغان گورنر خواجہ عبدخان کے سپرد کر دی تھی۔ مرہٹوں کی اس اندوہناک شکست نے برصغیر کی تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ ۱۷۷۲ء میں یہ عظیم بادشاہ قندھار میں وفات پاگئے اور وہیں دفن کیے گئے۔( ہمیں بھی احمد شاہ بابا کے مزار پر حاضری کا موقع ملا جس کی تفصیل آئندہ اقساط میں بیان کی جائے گی، ان شاء اللہ)۔ ان کے بعد ان کے بیٹے تیمور شاہ ان کے جانشین منتخب کیے گئے۔ ۲۲ سال حکومت کے بعد تیمور شاہ ۱۷۹۳ء میں وفات پاگئے اور ان کے بیٹے شاہ زمان تختِ کابل کے وارث ہوئے۔ تیمور شاہ نے وفات سے پہلے سلطنت بیٹوں میں انتظامی لحاظ سے تقسیم کی، جس سے بھائیوں کے درمیان اقتدار کی جنگ شروع ہوئی۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی اپنی جڑیں مضبوط کر رہی تھی اور مغل سلطنت دن بہ دن کمزور ہو رہی تھی۔ ایسے میں قدرتی طور پر اور سابقہ تاریخ کے تناظر میں مغل سلطنت کی حفاظت کی امید صرف افغانستان سے ہی کی جاسکتی تھی، چونکہ احمد شاہ بابا کے جانشین تیمور شاہ نے بھی ماضی میں ہندوستان کی آزادی کے لیے اپنے عزائم کا اظہار کیا تھا مگر ایران کی سرحد پر ممکنہ خطرات کے پیشِ نظر ہندوستان کے مسلمانوں کی مددنہ کر سکے، اس لیے انگریز افغانستان سے ہر گز غافل نہیں تھا۔ اسی زمانے میں شاہ زمان کے خلاف قندھار میں احتجاج شروع ہوا، اس کی بنیادی وجہ اگرچہ بھائیوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش تھی مگر ساتھ مؤرخین اس کے تانے بانے ایسٹ انڈیا کمپنی سے بھی ملاتے ہیں، کیونکہ انگریز کو ہندوستان پر قبضہ کرنے کے لیے غیر مستحکم افغانستان کی ضرورت تھی۔ ۱۸۰۱ء میں آپس کی لڑائیوں اور بیرونی سازشوں کی بنا پر زمان شاہ کو تخت سے الگ کر دیا گیا اور شاہ محمود تخت نشین ہوئے۔ شاہ محمود تیمور شاہ کے بیٹے تھے، انھوں نے ایرانیوں کے تعاون سے اپنے بھائی شاہ زمان کے خلاف سازش کی اور انھیں اندھا کر کے قید کر دیا اور پھر ۱۸۰۱ء میں تخت پر قابض ہوئے۔ ان کی حکومت کے دو ادوار رہے ہیں، پہلا دور۱۸۰۳ء تک رہا۔ اس کے بعد ان کا بھائی شاہ شجاع ۱۸۰۳ء سے ۱۸۰۹ء تک رہا۔ پھر دوبارہ شاہ محمود ۱۸۰۹ء میں دوسری بار بادشاہ منتخب ہوئے اور ۱۸۱۸ء میں انھیں اقتدار سے الگ کیا گیا۔ شاہ محمود کے بعد ان کے بھائی علی شاہ ۱۸۱۸ء سے ۱۸۱۹ء تک افغانستان کے حکمران بنے اور بہت جلد ان کے بھائی ایوب شاہ نے انھیں معزول کر کے خود تخت پر قبضہ کیا۔ ایوب شاہ ۱۸۱۹ء میں تختِ افغانستان کے وارث ہوئے اور انھوں نے ۱۸۲۳ء تک افغانستان میں حکومت کی مگر انھیں قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد احمد شاہ کا قبیلہ سدوزئی اور خاندان تخت و تاج سے محروم ہوا اور محمد زئی قبیلے کی طرف افغانستان کا اقتدار منتقل ہوا جو ایک لمبے عرصے تک اس کے پاس رہا۔ محمد زئی قبیلے کو شروع سے احمد شاہی سلطنت میں وزارت کا منصب ملا تھا، چونکہ تیمور شاہ کے صاحبزادوں اور پوتوں میں اقتدار کی لڑائی ہوئی جس کی وجہ سے اس قبیلے کے سرداروں کو مختلف بھائیوں سے وفاداری کی سزا ملی اور بالآخر احمد شاہ کے خاندان کے تنزل کے نتیجے میں یہ قبیلہ تختِ کابل کا وارث ہوا۔
محمد زئی قبیلے سے تعلق رکھنے والے امیر دوست محمد خان، محمد شاہ درانی کی برطرفی کے بعد ۱۸۲۶ءمیں افغانستان کے فرمان روا بن گئے۔ انھوں نے ۱۸۳۵ء میں باقاعدہ امیر المؤمنین کا لقب اختیار کیا۔۱۸۳۵ء تا ١٨٦٣ء تک افغانستان پر امیر دوست محمد خان کی فرمان روائی رہی اور ان کے دور میں پہلی افغان اینگلو جنگ (۱۸۳۹ء۔۱۸۴۲ء) ہوئی۔ امیر دوست محمد خان نے دیکھا کہ انگریز بے پناہ مادی وسائل کے ساتھ ہندوستان پر قابض ہو چکا ہے، یہ کسی بھی وقت افغانستان کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ اور اسی طرح شاہ شجاع سکھوں کے ساتھ مل کر سازش میں مصروف ہے، جبکہ سکھوں نے پشاور پر قبضہ کیا ہے جو سید احمد شہید رحمہ اللہ کی تحریک کے باوجود آزاد نہیں ہو سکا، تو انھوں نے روس کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا فیصلہ کیا۔ مگر انگریزوں کو یہ فیصلہ پسند نہ آیا اور کابل پر حملہ کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۱۸۳۹ء میں انگریزوں کی طرف سے افغانستان پر چڑھائی کی گئی اور کئی سال تک افغانستان پر جنگ مسلط رہی اور کابل پر قبضہ کر لیا گیا۔ اس جنگ میں انگریزوں نے امیر دوست محمد خان کو گرفتار کر لیا مگر افغان بہادری اور جوانمردی کے ساتھ جم کر انگریز فوج کے خلاف لڑے۔ سواۓ ایک سپاہی کے، جسے عبرت کے لیے زندہ چھوڑا گیا، باقی سولہ ہزار برطانوی فوجیوں کو قتل کر دیا گیا۔ یوں ۱۸۴۲ء کی اس پہلی اینگلو افغان لڑائی میں انگریزوں کو عبرت ناک شکست ہوئی۔ اس کے بعد امیر شیر علی خان کی حکومت ۱۸۶۳ء سے ۱۸۷۹ء تک رہی۔ امیر شیر علی اور امیر یعقوب کے زمانے میں افغان اینگلو دوسری جنگ(۱۸۷۸ء تا ۱۸۸۰ء) ہوئی یہ جنگ اس لیے لڑی گئی کہ امیر شیر علی خان نے برٹش سفارت کاروں کو کابل میں رہائش کی اجازت دینے سے انکار کر دیا، جس پر انگریز نے افغانستان پر حملہ کر دیا۔ امیر شیر علی خان کی حکومت کے بعد ان کے بیٹے امیر محمد یعقوب خان نے حکومت سنبھالی۔ انھوں نے ۱۸۷۹ء تا ۱۸۸۷ ء تک یہ منصب اپنے پاس رکھا۔ وہ اپنے والد کی طرح جہاندیدہ نہیں تھے، اس لیے شروع ہی سے انگریز کی سازشوں کا شکار ہوئے۔
افغان اینگلو دوسری جنگ (۱۸۷۸ء تا ۱۸۸۰ء) کے بعد انگریزوں کے حمایت یافتہ امیر عبدالرحمن جو امیر یعقوب خان کے چچازاد تھے، انھوں نے کابل پر قبضہ کر لیا۔ ان کے والد سردار افضل خان سردار دوست محمد کے بڑے بیٹے تھے مگر سردار دوست محمد خان کی وفات کے بعد سردار دوست محمد خان کے منصب پر ان کے بیٹے سردار شیر علی خان جو سردار محمد افضل سے عمر میں چھوٹے تھے نے اقتدار سنبھالا۔ سردار شیر علی خان کے بعد ان کے بیٹے یعقوب خان اقتدار کے وارث ہوئے، مگر وہ بہت کمزور ثابت ہوئے، اس لیےامیر عبد الرحمن خان نے حکومت پر قبضہ کیا۔ انھوں نے ۱۸۸۰ء سے ۱۹۰۱ء تک افغانستان میں حکومت کی۔ انگریزوں نے امیر عبد الرحمن کے دورِ حکومت میں افغانستان کو بطور ایک آزاد ریاست تسلیم کر لیا۔ امیر عبدالرحمن کے بعد اس کے بیٹے امیر حبیب اللہ خان افغانستان کے حکمران منتخب ہوئے۔ ۱۹۰۱ء سے ۱۹۱۹ء تک امیر حبیب اللہ خان کی حکومت رہی۔ چونکہ امیر حبیب اللہ خان کے ساتھ انگریزوں کے اچھے تعلقات تھے، اس لیے ان کے دور میں افغانستان میں انگریزوں کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا جس کی وجہ سے عوام کے دلوں میں امیر حبیب اللہ خان کی نفرت پیدا ہوگئی، سبب یہ ہے کہ افغان قوم ہمیشہ سے غیور اور جرات مند رہی ہے اور غیر اقوام کی حکومت کو کبھی قبول نہیں کیا اور جبر و استبداد کے علم بردار انگریز حکومت کے پٹھوحکمران ہمیشہ ذلیل و خوار ہوتے رہے۔ اس نفرت کا نتیجہ یہ نکلا کہ انھیں ۱۹۱۹ء میں قتل کر دیا گیا۔ ان کے قتل ہونے کے بعد ان کے بیٹے امیر امان اللہ خان افغانستان کے بادشاہ بن گئے۔ان کی حکومت ۱۹۲۹ء تک رہی۔ امیر امان اللہ خان کے انگریزوں کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے اور ان کے دور میں تیسری اینگلو افغان جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں غیور افغانیوں کو فتح اور انگریز کو شکست ہوئی اور افغانستان ایک آزاد ملک کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا۔ امیر امان اللہ خان نے عالمی سطح پر افغانستان کو شناخت دینے اور ایک آزاد ریاست کے طور پر متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ امیر امان اللہ خان جدت پسند تھے اور وہ ترکی کے کمال اتا ترک والی اصلاحات افغانستان میں نافذ کرنا چاہتے تھے مگر افغانستان جیسے روایتی اور قبائلی معاشرے میں جدیدیت کو فروغ دینا اور اس کی طرف سفر کرنا آسان نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حسبِ توقع افغانستان میں اس کا سخت ردِ عمل آیا اور مختلف قبائل نے بغاوت کردی۔ اور اس بغاوت کے نتیجے میں امان اللہ خان ۱۹۲۹ء میں ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ امیر امان اللہ خان کے فرار کے بعد کابل پر بچہ سقہؔ نے قبضہ کیا اور لوٹ مارکی ایک بد نما تاریخ رقم کی۔ جب امان اللہ خان جیسے جہاں دیدہ فرماں روا نے بلاوجہ افغانستان میں افغان روایات اور اسلامی تہذیب کے بر عکس اقدامات کیے تو یہاں کے مذہبی رہنما اور ان کے زیر اثر عوام نے اس کی شدید مخالفت کی ۔ اس مخالفت کے نتیجے میں کارو بار حکومت کا متا ثر ہونا ایک لازمی امر تھا لہذا اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریزوں نے یہاں ایک مجرم پیشہ شخص حبیب اللہ جن کو لوگ بچہ سقہ کہتے تھے کی مدد شروع کی تاکہ اس کے ذریعے افغانستان میں اپنے مقاصد حاصل کر سکیں۔ بچہ سقہ کا اصل نام جبیب اللہ تھا۔ افغانستان کے علاقے کلکان کا رہائشی اور نسلی اعتبار سے تاجک تھا۔ اسے بچہ سقہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کاباپ بکریاں چرایا کرتاتھا،جب اس پیشے سے مطلوبہ معاشی فوائد حاصل نہ ہو سکے تو اس نے ’’سقہ‘‘ کا پیشہ اختیار کیا یعنی کنوؤں سے پانی بھر کر مشکیزوں میں گھروں کو مہیا کر نے لگا تو سقہ کے نام سے مشہور ہوا ۔لہذا اس کے بیٹے حبیب اللہ کو ’’بچہ سقہ‘‘ یعنی (پانی لانے والے کا بیٹا) کہا جانے لگا۔ بچہ سقہ شروع میں شاہی فوج میں بھرتی ہوا مگر ایک جرم کی وجہ سے پانچ ماہ قید کی سزا کاٹی ۔ رہائی کے بعد وہ فوج سے بھاگ کر پشاور آیا۔ جب افغانستان کے اندرونی حالات امان اللہ خان کے غیر دانش مندانہ رویوں سے کشیدہ ہوئے تو انگریزوں نے محسوس کیا کہ افغان عوام امان اللہ خان سے دل برداشتہ ہیں۔ ایسے میں افغانستان کے اندر مداخلت کا جواز مل گیا ، لہذا اس کا ایسا متبادل حکمران ہونا چاہیے جو ہمارے زیر اثر ہو، تو اس مقصد کے لیے انگریزوں نے بچہ سقہ کو میدان میں اتارا اور اس کی مدد کی ۔ اس طرح اس نے کابل پرقبضہ کر لیا اور اپنی حکومت قائم کی جو چند مہینے ہی چل سکی ۔ اس کی حکومت میں طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا، لوٹ مار کا بازار گرم رہا، مگر بہت جلد جنرل نادر خان نے اس حالت سے عوام کو نجات دلائی اور۱۹۲۹ء میں کابل کا تخت حاصل کر لیا ۔ ۱۹۲۹ء تا ۱۹۳۳ء نادر شاہ افغانستان کے حکمران رہے ۔
کتابیات
الکامل في التاریخ (لابن الأثير)
افغانستان د تاریخ په رڼا کی ( استاد احمد علی کھزاد)
افغانستان د معاصر تاریخ په رڼا کی ( شھسوار سنگر وال)
له احمد شاه بابا سره تر حامد کرزی
د افغانستان تاريخ له اصحابانو ترطالبانو( حانواک مفتی زادہ)
د افغانستان پر معاصر تاریخ یوه لنډه کتنہ (ڈاکٹر ابراہیم عطائی)
سیرِ افغانستان (مولا نا سید سلیمان ندوی)
تاریخِ افغانستان ( مولانا اسماعیل ریحان )