مولانا حافظ حماد احمد ترکؔ
نائب مدیر، ماہنامہ مفاہیم، کراچی
اس وقت ہم فاتح بلدیہ میں واقع آئی ایچ ایچ کے صدر دفتر کے سامنے موجود ہیں۔ آئی ایچ ایچ ایک عالمی فلاحی ادارہ ہے جو ۱۹۹۲ء سے آفات زدہ یا جنگ سے متاثرہ خطوں میں امدادی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے۔ آئی ایچ ایچ کا صدر دفتر ترکی میں ہے جبکہ پانچ بر اعظموں میں رسائی رکھنے والے اس ادارے کے ذیلی دفاتر ۱۲۳ ممالک میں فعال ہیں جہاں بےشمار رضا کار سرگرمِ عمل ہیں۔ اس ادارے کا ہدف مظلوم انسانوں کی مدد اور انھیں بنیادی انسانی حقوق تک رسائی دلانا ہے چاہے مظلوم کسی خطے، کسی ملک اور کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ آئی ایچ ایچ کی امدادی سرگرمیاں صرف غذا اور دوا تک ہی محدود نہیں بلکہ تعلیمی اور ثقافتی نوعیت کی بھی ہیں۔ یہ ادارہ اولاً غذائی اجناس اور رہائش و لباس فراہم کرتا ہے تاکہ فوری نوعیت کے مسائل کا ازالہ کیا جا سکے، پھر بچوں کے لیے تعلیمی اداروں کے قیام اور بڑوں بالخصوص خواتین کے لیے تربیتی اداروں کا ایک منظم سلسلہ جاری کرتا ہے جہاں ایک طرف بچے تعلیم حاصل کر کے ملک و ملت کا سہارا بنیں؛ ایک اچھا انسان اور ایک مثالی مسلمان تیار کرنا ان اداروں کی اولین ترجیح ہوتی ہے، تو دوسری طرف خواتین کو گدائی کے عار سے اور نوجوانوں کو بے روز گاری کے وار سے بچایا جاتا ہے۔ خواتین سلائی و دیگر فنون سیکھ کر با عزت طور پر رزقِ حلال کماتی ہیں اور نوجوان مختلف شعبوں میں مہارت پیدا کر کے اپنے خاندان کا سہارا بنتے ہیں۔ ان تعلیمی اداروں سے پڑھے ہوئے اکثر نوجوان آئی ایچ ایچ کے لیے رضاکارانہ خدمات بھی انجام دیتے ہیں۔ فلاحی سرگرمیاں تو دنیا میں بہت سے ادارے انجام دیتے ہیں لیکن آئی ایچ ایچ کا طرّۂ امتیاز ان کا نظم و ضبط اور اعلیٰ معیار ہے۔ جو معیار ادارے کے ذمے دار افراد اپنے لیے قائم کرتے ہیں،قریب قریب یتیموں اور بیواؤں کے لیے تعمیر کردہ عمارتیں اور مراکز بھی اسی معیار پر قائم کیے جاتے ہیں جہاں ہر طرح کی سہولت میسر ہوتی ہے۔ ایک اور امتیازی وصف آئی ایچ ایچ کا یہ ہے کہ یہاں مظلوم مسلمانوں کو کسی طور احساسِ کمتری کا شکار نہیں ہونے دیا جاتا۔ امداد کی تقسیم ہو یا ہنر کی تعلیم؛ کسی کی تحقیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انتہائی عزت و احترام اور وقار کے ساتھ یہ امور انجام دیے جاتے ہیں۔ آئی ایچ ایچ کے دفتر کے اس مختصر دورے میں مختلف شعبوں کا تعارف کروایا گیا۔ آخر میں وہ کمرہ دکھایا جہاں پانچ نمائندے بیٹھتے ہیں اور پانچ برِ اعظموں کا انتظام سنبھالتے ہیں۔ انھی میں سے ایک عاطف صاحب بھی تھے جن کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے اور وہ صدر دفتر میں برِ صغیر کے امدادی امور کی نگرانی پر مامور ہیں۔
صدر دفتر کا دورہ مکمل ہوا تو پیدل ہی ’’اکسرائے‘‘ روانہ ہوئے۔ ’’اکسرائے‘‘ بھی استنبول کا مشہور علاقہ ہے جہاں ’ہواش‘ کا اڈہ ہے۔ ’ہواش‘ ایک بس سروس ہے جو استنبول کے مختلف علاقوں سے چلتی ہے اور ہوائی اڈے تک جاتی ہے۔ جیسے ہی بس آئی تو بس میں سوار ہوئے اور ہوائی اڈے کی طرف روانہ ہو گئے۔ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ استنبول میں دستیاب پبلک ٹرانسپورٹ کی مختلف انواع کا بھی ذکر ہو جائے۔ استنبول میں تین طرح کی بسیں اور تین طرح کی ریل گاڑیاں پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے چلتی ہیں۔ ایک بس تو یہی ’ہواش‘ ہے جو مختلف مقامات سے ہوائی اڈے تک جاتی ہے۔ ایک بس وہ ہے جو استنبول کے اندر ایک مقام سے دوسرے مقام تک جاتی ہے اور عام سڑک پر چلتی ہے۔ بس کی تیسری قسم وہ ہے جو کراچی کی گرین لائن اور اسلام آباد یا لاہور کی میٹرو بس جیسی ہے جسے آپ ڈیڑھ بس بھی کہہ سکتے ہیں یعنی ایک اور آدھی بس، کیونکہ یہ عام بسوں سے بڑی ہوتی ہے، نیز یہ عام سڑک کے بجائے متعین کردہ سڑک پر چلتی ہے۔ ریل گاڑیوں سے ہماری مراد وہ سواریاں ہیں جو پٹڑی پر چلتی ہیں، ان میں ایک تو ٹرام ہے جو استنبول کے یورپی حصےمیں چلتی ہے اور پھر اس ٹرام کا ہی ایک سلسلہ استقلال اسٹریٹ کے لیے مختص ہے۔ دوسری ریل گاڑی مرمراے کہلاتی ہے جو آبنائے باسفورس میں بنائی گئی سرنگ سے گزرتی ہے یعنی یورپ کو ایشیا سے ملاتی ہے، اور تیسری ریل میٹرو کہلاتی ہے جو استنبول ہی کے مختلف مقامات تک جاتی ہے۔ تینوں کی پٹڑیاں الگ الگ ہیں۔ اور ایک شہر سے دوسرے شہر جانے والی ریل گاڑی ان سے الگ ہے۔ ایک اور اہم اور کثیر الاستعمال ذریعہ کشتی یعنی ferry ہے جو خلیجِ باسفورس کے مختلف حصوں کو باہم ملاتی ہے۔ یہ کشتی دوسرے شہروں تک بھی جاتی ہے۔کچھ علاقوں میں چھوٹی ویگن نما گاڑیاں بھی پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ ٹیکسی کا استعمال ان کے علاوہ ہے۔
کہیں کہیں بلدیہ کی جانب سے دوسرے علاقوں میں جانے کے لیے چیئر لفٹ بھی لگائی گئی ہیں۔ یہاں چیئر لفٹ کو ’’ٹیلی فیرک‘‘ کہتے ہیں۔بس، ٹرام اور ریل میں کرائے کی ادائیگی استنبول کارڈ سے کی جاتی ہے جس کا ذکر گزشتہ اقساط میں آ چکا ہے۔ ایک دفعہ کارڈ میں پیسے ڈلوالیں، پھر اسی کارڈ کو ہر جگہ استعمال کر سکتے ہیں۔ صرف سفر کے لیے ہی نہیں، تفریح گاہوں اور سیاحتی مقامات پر بھی یہ کارڈ استعمال ہوتا ہے حتی کہ عوامی غسل خانے بھی اس کارڈ کی توانائی سے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ استنبول کے ان ذرائع کو دیکھ کر یک لخت شہرِ کراچی کا منظر آنکھوں میں گردش کرنے لگتا ہے اور وہاں کی پبلک ٹرانسپورٹ کی دگردوں صورتِ حال پر افسوس ہونے لگتا ہے۔ شہرِ کراچی کے باشندے تو روز ہی یہ مناظر دیکھتے ہیں، جو کراچی سے باہر ہیں وہ اس منظر کا نظارہ کرنا چاہیں تو ضمیر جعفری کی نظم ’’کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے‘‘ پڑھ سکتے ہیں۔ یہاں کا نظام دیکھ کر یہی خواہش ہوتی ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہر کوبھی استنبول کی طرح ٹرانسپورٹ کے جامع نظام کی ضرورت ہے۔ ایک اور چیز یہ دیکھنے میں آئی کہ جگہ جگہ کہیں درخت کے ساتھ اور کہیں کسی جنگلے کے ساتھ سائیکلیں بندھی ہوئی تھیں جنھیں اسی کارڈ کے ذریعے سے کھول کر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سائیکل کا ٹریک بھی الگ بنا ہوا ہے۔ جہاں ضرورت پوری ہوئی، وہیں سائیکل کو قریبی متعین جگہ چھوڑ دیا۔ سائیکل کے علاوہ بعض جگہ اسکوٹی بھی نظر آئی۔ اسکوٹی سے ہماری مراد لیڈیز اسکوٹر نہیں بلکہ سائیکل سے مشابہ ایک چھوٹی سواری ہے جس میں دو پہیوں کے درمیان ایک تختہ لگا ہوتا ہے، ایک پاؤں تختے پر ہوتا ہے اور دوسرے کو زمین پر مار کر آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔یہ بات بھی سننے میں آئی کہ بلدیہ نے تدریجاً؛ پارکنگ کی فیس میں خاطرخواہ اضافہ کردیا ہے تاکہ ذاتی گاڑیوں کے استعمال پر پبلک ٹرانسپورٹ کو ترجیح دی جائے۔ بہرحال؛ یہ تھا استنبول میں سیاحت کے عوامی ذرائع کا مختصر تعارف۔ اب ہم دوبارہ آپ کو ہوائی جہاز میں لے چلتے ہیں جہاں ہم استنبول سے حطائی کا سفر کر رہے ہیں۔
استنبول سے حطائی تک تقریباً دو گھنٹے کا سفر تھا۔ حطائی پہنچے تو رات ہو چکی تھی۔حطائی شہر سے قریب ہی ایک مقبرہ ہے جو حضرت حبیب نجار رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب ہے۔ شیخ حبیب نجار وہ نیک ہستی ہیں جن کا ذکر سورۂ یٰس کی ان آیات میں ہے: وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَىٰ قَالَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ ﴿٢٠﴾ اتَّبِعُوا مَن لَّا يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُم مُّهْتَدُونَ ﴿٢١﴾ وَمَا لِيَ لَا أَعْبُدُ الَّذِي فَطَرَنِي وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴿٢٢﴾ أَأَتَّخِذُ مِن دُونِهِ آلِهَةً إِن يُرِدْنِ الرَّحْمَٰنُ بِضُرٍّ لَّا تُغْنِ عَنِّي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا وَلَا يُنقِذُونِ ﴿٢٣﴾ إِنِّي إِذًا لَّفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿٢٤﴾ إِنِّي آمَنتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُونِ ﴿٢٥﴾ قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ۖ قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ ﴿٢٦﴾ بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ ﴿٢٧﴾ ’’اور شہر کے پرلے علاقے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا۔ اس نے کہا : اے میری قوم کے لوگو ! ان رسولوں کا کہنا مان لو۔ ان لوگوں کا کہنا مان لو جو تم سے کوئی اجرت نہیں مانگ رہے، اور وہ صحیح راستے پر ہیں۔ اور بھلا میں اس ذات کی عبادت کیوں نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے ؟ اور اسی کی طرف تم سب کو واپس بھیجا جائے گا۔ بھلا کیا اسے چھوڑ کر میں ایسوں کو معبود مانوں کہ اگر خداے رحمن مجھے کوئی نقصان پہنچانے کا ارادہ کرلے تو ان کی سفارش میرے کسی کام نہ آئے، اور نہ وہ مجھے چھڑا سکیں؟ اگر میں ایسا کروں گا تو یقینا میں کھلی گمراہی میں مبتلا ہو جاؤں گا۔ میں تو تمہارے پروردگار پر ایمان لاچکا۔ اب تم بھی میری بات سن لو۔(آخر کار بستی والوں نے اس کو قتل کر دیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سے) کہا گیا کہ: جنت میں داخل ہو جاؤ، اس نے (جنت کی نعمتیں دیکھ کر) کہا کہ: کاش! میری قوم کو معلوم ہو جائے، کہ اللہ نے کس طرح میری بخشش کی ہے، اور مجھے باعزت لوگوں میں شامل کیا ہے‘‘ ۔
انھیں دعوتِ دین کی پاداش میں ان کی قوم نے شہید کر دیا تھا۔ رات کافی ہو گئی تھی اس لیے اس طرف نہ جا سکے۔ رات ہمارا قیام ترکی کے ایک سرحدی شہر ریحانلی میں تھا۔ ہمیں آئی ایچ ایچ کے زیرِ انتظام یتیم بچوں کے ایک وسیع مرکز مدینۃ الأیتام میں ٹھہرایا گیا۔ یہ چار دیواری میں محصور ایک رہائشی کالونی جیسا مرکز تھا جہاں ایک ترتیب پر مکانات بنے ہوئے تھے۔ کھیل کا میدان، وسیع اراضی پر قائم اسکول اور دستکاری کے مراکز بھی نظر آئے۔ ہمیں بھی ان مکانات میں سے ایک میں ٹھہرایا گیا جو یتیم شامی بچوں کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ بلا شبہہ یہ مکان کسی بھی طرح کراچی کی بہترین رہائشی سوسائیٹیوں سے کم نہیں تھا۔ عمدہ طرزِ تعمیر، فرنیچر انتہائی نفیس اور در و دیوار نہایت شاندار اور پھر ضرورت کی ہر چیز، انواع و اقسام کے برتن، واشنگ مشین وغیرہ۔ الغرض حجم میں چھوٹا ہونے کے باوجود یہ مکان ہر اعتبار سے معیاری تھا۔
نمازِ فجر اور ناشتے کے بعد یہاں سے روانہ ہوئے۔ راستے میں شام کی پہاڑیوں کا طویل سلسلہ ہمیں مسلسل غیروں کے ظلم اور اپنوں کی بے حسی کے قصے سناتا رہا۔ کبھی کبھی سرگوشی میں ان کا شکریہ بھی ادا کرتا تھا جو روزِ اول سے آج تک شام کی ویرانی پر نوحہ کناں اور اس کی رونقوں کی بحالی میں صبح و شام مصروفِ کار ہیں۔ شام وہ ارضِ مقدس ہے جسے سورۂ بنی اسرائیل میں با برکت قرار دیا گیا اور احادیث میں شام کے ساتھ جڑے رہنے کی تلقین کی گئی۔ تاکید کے ساتھ بتایا گیا کہ جب ہر سمت گمراہی کے اندھیرے ہوں گے تو خیر شام میں ہو گا۔ عیسیٰ علیہ السلام یہاں نزول فرمائیں گے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فضائل الصحابہ میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا کہ: ’’بے شک خیر کو دس حصوں میں تقسیم کیا گیا پس نو حصے تو شام میں رکھے گئے اور دسواں اِدھر باقی زمین میں۔ اور شر کے بھی دس حصے کیے گئے، اس کے نو حصے تو باقی زمین میں ہیں اور دسواں حصہ شام میں رکھا گیا ہے‘‘ ۔
بخاری شریف کی روایت ہے کہ نبیٔ اکرمﷺنے شام کے لیے دعا فرمائی۔ آپﷺکے الفاظ ہیں: «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى شَأْمِنَا» ’’اے اللہ! ہمیں ہمارے شام میں برکت عطا فرما‘‘ ۔ طبرانی کی روایت میں ہے کہ آپﷺنے فرمایا: «طُوبَى لِلشَّامِ (ثَلَاثَ مَرَّاتٍ)، فَقُلْنَا: لأَيٍّ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ لأَنَّ مَلاَئِكَةَ الرَّحْمَنِ بَاسِطَةٌ أَجْنِحَتَهَا عَلَيْهَا» ’’شام کے لیے بشارت ہو! شام کے لیے بشارت ہے! شام کے لیے خوش خبری ہے!‘‘ ۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کس لیے؟ آپﷺنے فرمایا: ’’کیونکہ رحمٰن کے فرشتے اس پر اپنے پروں کو پھیلائے رہتے ہیں‘‘ ۔
اگرچہ شام میں جنگی حالات اور کشیدہ صورتِ حال طویل عرصے سے چلی آرہی تھی لیکن موجودہ بحران کا آغاز ۲۰۱۱ء سے ہوا جب شام کے صدر بشار الاسد نے شامی مسلمانوں کے ایک مظاہرے پر ہیلی کاپٹر سے شیلنگ کروائی۔ اس وحشیانہ رویے کے ردِ عمل میں کئی شہروں میں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ بشار کے شیطانی ذہن اور فرعونی غرور نے ان مظاہروں کو بزورِ طاقت فرو کرنے کی کوشش کی لیکن جتنا ظلم بڑھتا رہا اتنا ہی مظاہرین کا جوش و ولولہ تقویت پاتا رہا اور ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ کچھ ہی عرصے میں مظاہرین کا یہ گروہ باقاعدہ باغی فوج میں تبدیل ہو گیا جس نے بشار کے آگے سر جھکانے پر شہادت کو ترجیح دی۔ یہاں عالمی شیطانی قوتیں حرکت میں آئیں، ایک طرف بشار کو روس نے تھپکی دی اور جنگ جاری رکھنے کا عندیہ دیا۔ ادھر باغیوں کو مختلف عالمی قوتوں نے اسلحہ فراہم کرنا شروع کیا۔ لوگ مرتے رہے اور شہر کے شہر ویران ہوتے رہے حتیٰ کہ حلب، رقہ، درعا، حمص، دمشق، ادلب وغیرہ جیسے بارونق اور تاریخی شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے۔ لاکھوں مسلمان نقل مکانی کر کے ترکی چلے آئے۔ کتنی ہی عورتیں اپنے بچوں اور شوہروں کو بے گور و کفن چھوڑ کر اس دیارِ غیر میں آ بسیں اور کتنے ہی بچے والدین سے محروم ہو گئے۔ جو آئے ان میں سے بھی بہت سے معذور اور مجروح تھے۔ دل تو سب کے ہی زخمی تھے، کتنے ہی لوگ دھماکوں اور گولیوں کا نشانہ بن کر ہاتھوں اور پیروں سے محروم ہو چکے تھے۔ یہ سب کچھ تو تاریخ کا حصہ ہے اور ایسا غمگین افسانہ ہے جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا،لیکن ایک پہلو اس افسانے کا اور بھی ہے جو یقینا یاد رکھے جانے اور بار بار دہرائے جانے کے لائق ہے، اور اس پہلو پر روشنی ڈالنے کے لیے ہم ایک سوال کرتے ہیں؟ آج یہ شامی مہاجرین نسبتاً بہتر حال میں ہیں اور انھیں رہائش و آسائش بھی میسر ہے تو یہ سب کیونکر ممکن ہوا؟ کون تھا جس نے انھیں سہارا دیا؟ ۲۰۱۲ میں جب ہم خبروں میں شام پر بمباری کا ذکر پڑھتے اور سنتے تھے اور ان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے کراچی کی شاہراہوں پر کاغذ کے ٹکڑے لہراتے تھے اور فلک شگاف نعروں اور دھواں دار تقریروں کے بعد مطمئن ہو کر گھروں کو لوٹ آتے تھے، تو کون تھاجو شہدا کی تدفین کرتا تھا، زخمیوں کی تیمار داری کرتا تھا، بچوں کی غذا کا انتظام کرتا تھا، مہاجرین کو مکانات فراہم کرتا تھا، جی ہاں، وہ یہی آئی ایچ ایچ کے بہادر ترک رضا کار تھے جنھیں ترک حکومت کی سرپرستی حاصل تھی۔ انھوں بمباری سے متاثرہ علاقوں میں دھماکوں کی گونج اور گولیوں کے شور میں امدادی سرگرمیاں انجام دیں۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ عالمِ اسلام کے مختلف خطوں سے شامی مسلمانوں کے لیے امداد کا سلسلہ شروع ہوگیا، اور ہمیں آئی ایچ ایچ کے ایک ذمے دار نے بتایا کہ یوں تو امدادی سرگرمیاں؛ عرب و عجم اور ایشیا یورپ افریقہ ہر خطے کی جانب سے ہوتی رہیں لیکن دو ممالک ایسے ہیں جنھوں نے بے تحاشا امداد پہنچائی: ایک پاکستان، اور دوسرا قطر۔ تو یہ ہم پاکستانیوں کے لیے باعثِ فخر بھی ہے اور مقامِ شکر بھی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی توفیق سے ایسا ممکن ہوا۔ اور اب بھی اس امداد کا سلسلہ جاری ہے۔ جب بھی ہم امت کے مسائل اور پریشانیوں کا ذکر سنتے ہیں اور مظلوم مسلمانوں کی خبریں بیان کی جاتی ہیں تو ہمیں احمد فرازؔ کا یہ خوب صورت شعر یاد آجاتا ہے اور ہم اپنے قارئین کو بھی یہی پیغام دینا چاہتے ہیں:
شکوۂ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا |
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے |
اب ہم آپ کو دوبارہ ریحانلی لے چلتے ہیں جہاں ہم شامی کے مقدس پہاڑی سلسلے کا نظارہ کرہے ہیں۔ہم انھی پہاڑیوں کے ساتھ چلتے رہے حتیٰ کہ شام کا سرحدی دروازہ آ گیا، یہاں سے آگے جانا ممکن نہیں تھا اس لیے دور سے ہی ارضِ مقدس کو سلام کیا اور نمناک آنکھوں اور مغموم دلوں کے ساتھ لوٹ آئے۔
ہماری اگلی منزل آئی ایچ ایچ کا لاجسٹک سینٹر تھا جہاں آج شامی مہاجرین میں امداد تقسیم ہونی تھی۔ اولاً اس سینٹر کا دورہ کیا۔ مختلف مراحل کا جائزہ لیا کہ کس طرح سامان کو محفوظ کیا جاتا ہے۔ کیسے ٹرکوں میں لوڈ ہوتا ہے وغیرہ۔ اس کے بعد اس مقام پر پہنچے جہاں امداد تقسیم ہو رہی تھی۔ ہم نے بھی اس تقسیم میں حصہ لیا۔ امدادی تھیلے؛ غذائی اجناس اور کپڑوں پر مشتمل تھے۔ ہر خاندان کے تھیلے پر اس کا نام لکھا ہوا تھا۔ در اصل یہ تمام مہاجرین اپنے ناموں اور خاندان کے افراد کی تعداد کے ساتھ رجسٹرڈ تھے۔ ہر خاندان کا تھیلا اس کے افراد کی تعداد کے موافق ہوتا تھا۔ ان میں بہت سارے چھوٹے بچے بھی تھے جن سے گفتگو ہوئی اور ان کی دل جوئی کے لیے ہم نے ان کے ساتھ مزاح بھی کیا۔
ایک طرف ترکی کی اس منظم امدادی سرگرمیوں پر خوشی اور اطمینان تھا کہ جن لوگوں کو امین بنا کرپاکستانی مسلمان فراخ دلی سے امداد روانہ کرتے رہے اور دیگر مسلمانوں کو بھی اس طرف راغب کرتے رہے، واقعتاً انھوں نے خدمت کا حق ادا کیا، تو دوسری طرف شامی مسلمانوں کی حالتِ زار اور معصوم یتیم بچوں کی اداس مسکراہٹیں باعثِ رنج و الم تھیں۔ وہ پھول جنھیں کھِل کر یہ گلشن مہکانا تھا، وہ ایک مرجھائی ہوئی کلی کی مانند ہم سے اور اپنے بڑوں سے سراپا سوال تھے کہ آخر انھیں کس جرم کی سزا دی گئی؟ ان سے ان کے والدین کیوں الگ کر دیے گئے؟ انھیں تعلیم کے حصول سے کیوں محروم کیا گیا؟ کیا انسانی حقوق کا راگ الاپنے والے انھیں انسان نہیں سمجھتے یااب تک انھیں اپنی عیاشیوں سے فرصت نہیں کہ ان پر بھی نظر کر سکیں۔ ہم دل ہی دل میں شرمندہ بھی تھے اور خدا سے معافی کے خواستگار بھی، کہ ہم ان شامی بھائیوں کی کما حقہ مدد نہ کر سکے اوراس کے ساتھ ساتھ احساسِ ندامت بھی غالب تھا کہ خود کو میسر نعمتوں پر خدا کا شکر ادا کرنے سے اب تک محروم رہے۔ یہاں سے فارغ ہوئے تو کچھ دیر آئی ایچ ایچ کے ایک ذمے دار سے گفتگو میں مشغول رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اسی بات کی ہے کہ ان بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جا سکے لیکن ہمارے پاس ایسے رضاکار نہیں ہیں جو تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوں۔ آئی ایچ ایچ کے لاجسٹک سینٹر سے نکلے تو شام ہونے والی تھی۔ ہماری اگلی منزل ترکی کا ایک اور سرحدی شہر شان لی عرفہ تھا چنانچہ ایک گاڑی میں شان لی عرفہ کی طرف روانہ ہوئے۔