لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمته اللّٰه

سوم

مفسر کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ تفسیر میں آنحضرت ﷺ کے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے انوار سے روشنی حاصل کرے اور کسی آیت کی ایسی تفسیر نہ کرے جو حضراتِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تفسیر کے خلاف ہو، کیونکہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مدرسۂ نبوت کے بلاواسطہ شاگرد ہیں اور حق تعالیٰ شانہٗ کی جانب سے آنحضرت ﷺ ایسے معلمِ انسانیت کو ان کا معلم ومرشد اور ہادی بنایا گیا، جیسا کہ متعدد مقامات پر فرمایا ہے: ﴿وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ﴾ ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ کی تعلیمِ کتاب وحکمت کے بعد قرآن فہمی میں صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ہمسر کون ہوسکتا ہے؟ پھر صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نزولِ وحی اور اس کی عملی تشکیل کے عینی شاہد ہیں، امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے الاتقان میں امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کا ارشاد نقل کیا ہے: واللّٰه مانَزَلَتْ آیةٌ إلا وقد علمتُ فیمَ أُنزِلت وأین أنزلت، إن ربي وهب لي قلبا عقولا ولسانا سئولا ۔ (الاتقان، نوع:۸) ’’اللہ کی قسم! جو آیت بھی نازل ہوئی اس کے بارے میں مجھے معلوم ہے کہ کس بارے میں نازل ہوئی اور کہاں نازل ہوئی؟ میرے رب نے مجھے بہت سمجھنے والا دل اور بہت پوچھنے والی زبان عطا فرمائی ہے‘‘ ۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے برسرِمنبر فرمایا: سلوني، فواللّٰه لاتسألون عن شيء إلا أخبرتکم وسلوني عن کتاب اللّٰه، فواللّٰه ما من آیة إلا وأنا أعلم أَ بِلیلٍ نَزَلَتْ أم بنهار، أم في سهل أم في جبل (حوالۂ بالا) ’’مجھ سے سوال کرو، پس اللہ کی قسم! مجھ سے جو بات بھی پوچھو گے اس کا جواب دوں گا اور مجھ سے کتاب اللہ کے بارے میں پوچھو، پس اللہ کی قسم! قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نہیں جس کے بارے میں مجھے یہ علم نہ ہو کہ وہ رات کے وقت اتری تھی یا دن کے وقت، میدان میں اتری تھی یا پہاڑ پر‘‘ ۔ اسی طرح فقیہ الامت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد نقل کیا ہے: والذي لاإلٰه غیره ٗ مانزلت آیة من کتاب اللّٰه إلا وقد علمت فیمن نزلت وأین نزلت ولو أعلم مکان أحد أعلم بکتاب اللّٰه مني تناله المطایا لأتیته ٗ (حوالۂ بالا) ’’اس ذات کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں، کتاب اللہ کی جو آیت بھی نازل ہوئی اس کے بارے میں مجھے معلوم ہے کہ کس کے حق میں نازل ہوئی؟ اور کہاں نازل ہوئی؟ اور اگر مجھے معلوم ہو کہ کوئی شخص کتاب اللہ کا مجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے اور اس تک پہنچنا ممکن ہو تومیں ضرور اس کی خدمت میں حاضر ہوتا‘‘ ۔ پھر صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایسی محنت و جانفشانی سے فہمِ قرآن میں مہارت حاصل کی تھی کہ کوئی دوسرا شخص اس کا تصوّر بھی نہیں کرسکتا، اس سلسلے میں صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بہت سے عجیب وغریب واقعات نقل کیے گئے ہیں، ان تمام واقعات کو نقل کرنا موجبِ طوالت ہوگا، یہاں حضرت ابوعبدالرحمن اسلمی رضی اللہ عنہ کا صرف ایک فقرہ نقل کردینا کافی ہوگا، وہ فرماتے ہیں: حدثنا الذین کانوا یقرءون القرآن، کعثمان بن عفان رضي الله عنه وعبداللّٰه بن مسعود رضي الله عنه وغیرهما أنهم کانوا إذ تعلموا عن النبي ﷺ عشر آیات لم یتجاوزوها حتّٰی یعلموا ما فیها من العلم والعمل، قالوا: فتعلمنا القرآن والعلم جمیعا ولهٰذا کانوا یبقسون مدة في حفظ السورة (الاتقان، نوع:۷۸) ’’جو حضرات ہمیں قرآن پڑھاتے تھے جیسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور دیگر حضرات رضوان اللہ علیہم اجمعین، انھوں نے ہمیں بتایا کہ وہ جب آنحضرت ﷺ سے دس آیتیں سیکھ لیتے تھے تو آگے نہیں پڑھتے تھے، یہاں تک کہ ان آیات میں جو کچھ علم وعمل ہے اس کا علم حاصل نہ کرلیں، وہ فرماتے تھے کہ ہم نے قرآنِ کریم، علم اور عمل تینوں کو اکٹھے سیکھا تھا، اسی بنا پر وہ مدت تک ایک سورت کے حفظ میں مشغول رہتے تھے‘‘۔ الغرض تفسیرِ نبوی کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تفسیر سب سے مقدم ہے اور حقیقت میں وہ بھی آنحضرت ﷺ ہی کی تعلیم کا ثمرہ ہے، اس لیے ایک مفسر کے لیے اس کا نظر انداز کرنا کسی طرح ممکن نہیں اور اسی ضمن میں اکابرتابعین رحمۃ اللہ علیہم کی تفسیر آتی ہے جنھوں نے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے قرآنِ کریم کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی، اس لیے مفسر پر لازم ہے کہ وہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہم کی تفسیر کے خلاف نہ چلے۔

چہارم

مفسر کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اہلِ حق کے عقائد واعمال اور اخلاق کا پابند ہو، ’’الإتقان‘‘ میں امام ابوطالب طبری رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے: إن من شرطه صحة الاعتقاد أولا ولزوم سنة الدین، فإن من کان مغمومًا علیه في دینه لایؤتمن علیٰ الدنیا فکیف علیٰ الدین، ثم لایؤتمن في الدین علیٰ الأخبار عن عالم فکیف یؤتمن فی الأخبار عن أسرار اللّٰه تعالٰی ولأنه ٗ لایؤمن إن کان متهما بالإلحاد أن یبغي الفتنة ویغر الناس بلیّه وخداعه (الاتقان، نوع:۷۸) ’’مفسر کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پہلے تو اس کا عقیدہ صحیح ہو، دوسرے وہ سنتِ دین کا پابند ہو، کیونکہ جو شخص دین میں مخدوش ہو کسی دنیوی معاملے میں بھی اس پر اعتماد نہیں کیاجاسکتا تو دین کے معاملے میں اس پر کیا اعتماد کیا جائے گا؟ پھر ایسا شخص اگر کسی عالم سے دین کے بارے میں کوئی بات نقل کرے اس میں بھی وہ لائقِ اعتماد نہیں، اسرارِ الٰہی کی خبردینے میں تو کیا لائقِ اعتماد ہوگا۔ نیز ایسے شخص پر اگر الحادکی تہمت ہو تو اس کے بارے میں یہ اندیشہ ہے کہ وہ تفسیر لکھ کر کوئی فتنہ نہ کھڑا کردے اور لوگوں کو اپنی چرب زبانی ومکّاری سے گمراہ کرے‘‘۔

پنجم

اسی طرح ہر قسم کی بدعت وکج روی سے مفسر کے ذہن کا پاک ہونا بھی ضروری ہے، ورنہ اس کی تفسیر ناقابلِ اعتماد ہوگی، کیونکہ وہ قرآنِ کریم کو اپنی بدعت کے رنگ میں ڈھالنا شروع کردے گا، نام تو ہوگا تفسیرِ قرآن کا، لیکن جو کچھ وہ لکھے گا وہ قرآنِ کریم کی تفسیر نہیں ہوگی، بلکہ اس کے بدعت آلود ذہن کا بخارہوگا، اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں پر فہمِ قرآن کو حرام کردیا ہے جو بدعت وخواہشِ نفسانی کا چشمہ لگاکر قرآنِ کریم کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ’’الاتقان‘‘ میں امام زرکشی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’البرہان‘‘ سے نقل کیا گیاہے: اعلم أنه لا یحصل للناظر فهم معاني الوحی ولایظهر له أسراره ٗ وفي قلبه بدعة أو کبر أو هویً أو حب الدنیا أو هو مصرّ علیٰ ذنب أو غیر متحقق بالإیمان أو ضعیف التحقیق أو یعتمد علیٰ قول مفسر لیس عنده ٗ علم أو راجع إلیٰ معقوله وهٰذه کلها حجب وموانع بعضها آکد من بعض‘‘ ۔ (الاتقان، ج:۲،نوع:۷۸، ص:۸۱) ’’جاننا چاہیے کہ قرآنِ کریم کا مطالعہ کرنے والے پر وحی کے معانی ظاہر نہیں ہوتے اور اس پر وحی کے اسرار نہیں کھلتے، جبکہ اس کے دل میں بدعت ہو یا تکبر ہو یا اپنی ذاتی خواہش ہو یا دنیا کی محبت ہو یا وہ گناہ پر اصرار کرنے والا ہو یا اس کا ایمان پختہ نہ ہو یا اس میں تحقیق کا مادہ کمزور ہو، یا وہ کسی ایسے مفسر کے قول پر اعتماد کرے جو علم سے کورا ہو، یا وہ قرآنِ کریم کی تفسیر میں محض عقل کے گھوڑے دوڑاتا ہو، یہ تمام چیزیں فہمِ قرآن سے حجاب اور مانع ہیں، ان میں بعض دوسری بعض سے زیادہ قوی ہیں‘‘۔

ششم: تفسیر بالرائے

جس طرح مفسر کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے خیالات وافکار سے خالی الذہن ہوکر یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ اس آیت میں قرآنِ کریم کی دعوت کیا ہے، اور کن کن مسائل پر روشنی ڈالی جارہی ہے، خود اپنے خیالات وافکار قرآنِ کریم میں ٹھونسنے کی کوشش نہ کرے، اسی طرح اس کا یہ بھی فرض ہے کہ تفسیر بالرائے سے اجتناب کرے، کیونکہ تفسیر بالرائے حرام ہے اور اس پر سخت وعید آئی ہے، آنحضرت ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: من قال في القرآن برأیه فلیتبوأ مقعده ٗ من النار وفي روایة: من قال في القرآن بغیر علم فلیتبوأ مقعده من النار (رواہ الترمذی، مشکوٰۃ، ص:۳۵) ’’جس شخص نے قرآن میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنائے اور ایک روایت میں ہے کہ جس شخص نے بغیر علم کے قرآن میں کوئی بات کہی وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنائے‘‘۔ ایک اور حدیث میں ہے: من قال في القرآن برأیه ٖفأصاب فقد أخطأ (رواہ الترمذی وابوداؤد) ’’جس شخص نے قرآن میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی اس نے اگر ٹھیک کیا تب بھی غلط کیا‘‘۔

تفسیر بالرائے سے کیا مراد ہے؟

امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ ’’الاتقان، نوع:۷۸‘‘ میں ابن النقیب رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ تفسیر بالرائے سے کیا مراد ہے؟ اس میں اہلِ علم کے پانچ قول ملتے ہیں:

اول: یہ کہ تفسیرِ قرآن کے لیے جن علوم کی ضرورت ہے کوئی شخص ان کو حاصل کیے بغیر تفسیر کرنے بیٹھ جائے۔

دوم: کوئی شخص ان متشابہات کی تفسیر کرنے لگے جن کی مراد اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

سوم: غلط مذہب کو ثابت کرنے کے لیے تفسیر کرنا، یعنی کوئی شخص اپنے مذہبِ فاسد کو تو اصل بنائے اور تفسیر کو اس کے تابع کرے اور جس طرح بھی ممکن ہو کھینچ تان کر قرآنِ کریم کو اپنے مذہب پر چسپاں کرے۔

چہارم: بغیر دلیل کے کسی آیت کے بارے میں یہ دعویٰ کرنا کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی قطعی مراد یہ ہے۔

پنجم: محض اپنی خواہش وپسند کے مطابق تفسیر کرنا۔ (الاتقان، جلددوم، ص:۱۸۳)

تحریف ِمعنوی

خلاصہ یہ کہ یہ تمام صورتیں تفسیر بالرائے کے تحت داخل ہیں، ہمارے زمانے میں قادیانی، پرویزی وغیرہ دیگر گمراہ اور کج رو فرقوں کی تفسیروں کا یہی حال ہے، ان کی تفسیر، تفسیر بالرائے سے بڑھ کر قرآن کریم کی کھلی کھلی تحریفِ معنوی ہے، چنانچہ قرآنِ کریم کی آڑ لے کر قطعیاتِ دین کا انکار کیا جاتا ہے، آنحضرت ﷺ کی سنتِ متواترہ کو پسِ پشت ڈالا جاتا ہے، اسلام کے قطعی واجماعی عقیدے کو جھٹلایا جاتا ہے، چودہ سو سالہ اکابرِ امت کے اجماعِ مسلسل سے (جس کو قرآنِ کریم نے ’’سبیل المؤمنین‘‘ فرمایا ہے) انحراف کیا جاتا ہے اور لغت وزبان کے قواعد سے آزاد ہوکر قرآنِ کریم کو جاہلانہ تحریفات کا تختۂ مشق بنایا جاتا ہے، ضروری تھا کہ ایسی تحریفات کی بھی چند مثالیں ذکر کردی جاتیں، لیکن افسوس کہ اس مختصر مضمون میں اس کی گنجائش نہیں۔

ترجمۂ قرآن کے آداب

قرآنِ کریم کا ترجمہ بھی تفسیر وترجمانی ہی کی ایک صورت ہے، اس لیے ترجمۂ قرآن میں بھی مندرجہ بالا اصول کا لحاظ رکھنا اشد ضروری ہے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ قرآنِ کریم کا صحیح ترجمہ کرنا اس کی تفسیر سے بھی مشکل اور نازک کام ہے، اس لیے اس میں حزم واحتیاط کی ضرورت اور بھی زیادہ ہے، ترجمہ کرتے وقت قرآنِ کریم کے الفاظ واسلوب کی رعایت کرنی چاہیے اور یہ ایسی مشکل اور دشوار گزار گھاٹی ہے کہ اچھے اچھے لوگ اس میں لڑکھڑا جاتے ہیں، یہاں مؤرخِ اسلام سید الملۃ والدین علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا اقتباس نقل کرتا ہوں، جو مولانا قاضی محمد زاہد الحسینی مدظلہٗ نے ’’معارف القرآن‘‘ میں ماہنامہ ’’العلم‘‘ کراچی کے حوالے سے نقل کیا ہے، سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’اس سلسلے میں مجھے دو باتیں کہنی ہیں: ایک تویہ کہ قرآنِ پاک کے ترجمے میں بے احتیاطی کو کام میں نہ لایاجائے، یہ تحریف ہے، اور جس کی سزا کا حال معلوم ہے، ترجمہ بالکل لفظی کرنا چاہیے، پھر اس کی تشریح اپنے ضروری مطلب کے ساتھ کرسکتے ہیں، یہ کسی طرح درست نہیں کہ ترجمے میں الفاظ کی رعایت کیے بغیر اپنے مطلوب کے مطابق کوشش کی جائے، یہ شدید تحریف ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ پھر کسی دوسری ضرورت کے وقت آپ کو اس آیت کا دوسرا ترجمہ دوسرے ڈھنگ سے کرنا پڑے گا، اس وقت آپ پر یہ ثابت ہوجائے گا کہ ہم نے اتباعِ ہویٰ کا دانستہ ارتکاب کیا۔ دوسری چیز یہ ہے کہ جمہورِ اسلام جس مسئلے پر اعتقادی وعملی طور پر متفق ہوں ان کو چھوڑ کر تحقیق کی نئی راہ اختیار نہ کی جائے، یہ طریق تواتر وتوارث کی بیخ کنی کے مترادف ہے، اس گناہ کا مرتکب کبھی میں خود ہوچکا ہوں اور اس کی اعتقادی وعملی سزا بھگت چکا ہوں، اس لیے دل سے چاہتا ہوں کہ اب میرے عزیزوں اور دوستوں میں سے کوئی اس راہ سے نہ نکلے، تاکہ وہ اس سزا سے محفوظ رہے جو ان سے پہلوں کو مل چکی‘‘۔ (معارف القرآن، ص:۲۶ از مولانا قاضی محمد زاہد الحسینی، بحوالہ ماہنامہ العلم کراچی، جنوری تا مارچ ۱۹۵۹ء)

چند مفید تفاسیر

تفسیرکے موضوع پر ان مختصر اشارات کو ختم کرتے ہوئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند مفید اور آسان تفاسیر کی طرف راہنمائی کردی جائے:

۱: معارف القرآن (آٹھ جلدوں میں) از مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ، اس میں قرآنِ کریم کے متن کے ساتھ حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کا ترجمہ ہے اور خلاصۂ تفسیر حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی بیان القرآن سے مأخوذ ہے اور پھر ’’معارف ومسائل‘‘ کے عنوان سے ضروری تشریحات ونکات اور مسائل ذکر کیے جاتے ہیں، ہمارے دور کی یہ مفید ترین تفسیر ہے۔

۲: معارف القرآن از مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ، محدثانہ انداز کی یہ بہترین تفسیر ہے، متنِ قرآن کے ساتھ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا ترجمہ ہے، تفسیر میں بیان القرآن کی پیروی کی گئی ہے اور حدیثی، کلامی، فقہی اور تاریخی فوائد کا گراں قدر اضافہ کیا گیا ہے، حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ اس کی تکمیل نہیں فرماسکے تھے، ان کے صاحبزادۂ گرامی حضرت مولانا محمد مالک کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور نے اس کی تکمیل فرمائی ہے۔

۳: فوائدِ عثمانی برترجمہ شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی قدس سرہٗ نے حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمے کو جدید قالب میں ڈھالا تھا اور سورۃالبقرہ اور سورۃ النساء کے فوائد بھی تحریر فرمائے تھے، بقیہ فوائد حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمائے، یہ تفسیر ایک ادبی شاہکار ہے اور قرآن فہمی کے لیے کلید کا حکم رکھتی ہے۔

۴: تفسیر کشف الرحمٰن از سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی رحمۃ اللہ علیہ، اس تفسیر میں بھی ترجمہ اور تفسیر کے لیے حضرت شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر موضح القرآن کو بنیاد بنادیا گیا ہے اور قرآنی مفاہیم کو دہلی کی ٹکسالی زبان میں کیا گیا ہے۔

وأٰخر دعوانا أن الحمد للّٰه رب العالمین

لرننگ پورٹل