لاگ ان

منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

لاگ ان

منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

ابنِ عباس
معاون قلم کار

کامیاب انسان کے اوصاف

عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضي الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺقَالَ: «قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَخْلَصَ (اللَّهُ )قَلْبَهُ لِلْإِيمَانِ وَجَعَلَ قَلْبَهُ سَلِيمًا وَلِسَانَهُ صَادِقًا وَنَفْسَهُ مُطْمَئِنَّةً وَخَلِيقَتَهُ مُسْتَقِيمَةً وَجَعَلَ أُذُنَهُ مُسْتَمِعَةً وَعَيْنَهُ نَاظِرَةً فَأَمَّا الْأُذُنُ فَقَمِعٌ وَالْعَيْنُ مُقِرَّةٌ بِمَا يُوعَى الْقَلْبُ وَقَدْ أَفْلَحَ مَنْ جَعَلَ قَلْبَهُ وَاعِيًا»(مسند احمد ، شعب الایمان)

حضرت ابو ذَر غِفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’یقینا وہ شخص کامیاب ہو گیا جس نے اپنے قلب کو ایمان کے لیے خالص کر لیا اور اس نے اپنے دل کو سلیم و صحیح بنایا اور اپنی زبان کو سچا بنایا اور اپنے نفس کو مطمئن رکھا اور اپنے اخلاق کو مستقیم کیا اور اپنے کانوں کو (مستمع )توجہ سے سننے والا بنایا اور اپنی آنکھوں کو دیکھنے والا بنایا جہاں تک کانوں کی بات ہے تو اس کی مثال قیف سی ہے اور آنکھ پیوست کرنے والی ہے ان چیزوں کو جنھیں دل یاد رکھتا ہے اور مقرر تحقیق کہ جس نے اپنے دل کو یادداشت رکھنے والا بنایا‘‘ ۔

تشریح

تعمیرِ شخصیت اور تزکیۂ نفس کے اعتبار سے یہ ایک عظیم الشان حدیث ہے ۔ ہم اس کو حصوں میں تقسیم کر کے اس کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ حدیث پاک کے پہلے حصے میں انسان کی کامیابی کی لازمی اور بڑی شرط ایمان ِخالص کا ذکر کیا گیا ۔دوسرے حصے میں ایمان کے کچھ ثمرات اور ایمان کی بنیاد پر شخصیت میں پیدا ہونے والی چند صفات کا ذکر کیا گیا۔ اس اعتبار سے یہ حدیث سورۃ المومنون کی ابتدائی آیات کے مشابہ ہے ۔جہاں ﴿قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ﴾ ’’تحقیق کامیاب ہوئے ایمان والے‘‘ فرمانے کے بعد ایمانی صفات و اعمال بیان کیے گئے ہیں۔حدیثِ مبارکہ کے آخری حصے میں ایمان کی ترو تازگی اور پختگی کے چند ذرائع اور اشارۃ ایک لائحہ عمل کا ذکر کیا گیا۔

«قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَخْلَصَ قَلْبَهُ لِلْإِيمَانِ» یہ حدیث کا پہلا جملہ ہے جو مسند احمد کی روایت کے مطابق ہے ۔ نحوی ترکیب کی رو سے فعل أَفْلَحَ کا فاعل مَنْ بنتا ہے چناں ترجمہ یوں ہو گا: ’’تحقیق کامیاب ہوا وہ شخص جس نے اپنے دل کو ایمان کے لیے خالص کیا‘‘ ۔ لیکن شعب الایمان کی روایت میں جو مشکاۃ میں بھی منقول ہے لفظ اللہ کا اضافہ ہے اور پہلا جملہ یوں ہے «قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَخْلَصَ اللهُ قَلْبَهُ لِلْإِيمَانِ» اس ترکیب میں أَخْلَص َ کا فاعل اسم جلالہ اللہ بنتا ہے اس ترکیب کے مطابق ترجمہ یوں ہو گا: ’’کامیاب ہوا وہ شخص جس کے دل کو اللہ نے ایمان کے لیے خالص کر دیا‘‘ ۔ دونوں صورتوں میں نتیجے کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس لیے کہ ہر انسان نے خود محنت کر کے اپنے دل کو خالص کرنا ہے اس اعتبار سے وہ فاعل خود ہے جسے اصطلاح میں ’’کاسب‘‘ کہا جاتا ہے جبکہ اخلاص قلب اور ایمان کی توفیق دینا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اس اعتبار سے فاعلِ حقیقی یا ’’خالقِ اخلاص‘‘ اللہ تعالیٰ ہے ۔تو روایتوں کے اس لفظی فرق سے اخلاص کے عمل کا پورا تصور سامنے آ جاتا ہے کہ انسان نے اللہ تعالٰی کی ہمت و توفیق سے محنت کر کے اپنے دل کو خالص اور اپنے ایمان کو مضبوط بنانا ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالی سے دعا بھی مانگتے رہنا چاہیے جیسا کہ ایک مسنون دعا میں یہ الفاظ آتے ہیں :«اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ اِجْعَلْنِي مُخْلِصًا لَكَ وَأَهْلِي فِي كُلِّ سَاعَةٍ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ» (سنن ابی داؤد ) ’’اے اللہ! ہمارے اور ہر چیز کے رب مجھے اور میرے گھر والے کو اپنے لیے خالص کر دے دنیا اور آخرت کی ہر گھڑی میں‘‘ ۔

«وَجَعَلَ قَلْبَهُ سَلِيمًا» قلبِ سلیم سے مراد وہ بھلا چنگا دل ہے جو باطنی امراض مثلا حسد و کینہ دوسرے اخلاق ذمیمہ اور احوال ردیئہ سے پاک ہو جو حب دنیا اور مولی حقیقی اور آخرت کی غفلت سے سے محفوظ ہو ۔سورہ الشعراء میں ابراہیم علیہ السلام کے تذکرے میں آخرت کی کامیابی کے حوالے سے فرمایا گیا: ’’جس دن کسی کو مال و اولاد کام نہ دے گی سوائے اس کے، کہ جو قلبِ سلیم لے کر آئے‘‘ ۔ سورۃ ق آیت ۳۳ میں جنت کے مستحق متقین کی صفات میں اس صفت کا ذکر ہوا ہے: ﴿مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُنِيبٍ﴾ ’’جو اپنے رب سے بن دیکھے ڈرتا رہا اور قلبِ منیب (رجوع کرنے والا دل ) لے کر حاضر ہوا‘‘ احادیث میں ایسے صاف ستھرے دل کو قلب مخموم کا نام دیا گیا ۔

«وَلِسَانَهُ صَادِقًا» سچی زبان میں قول اور وعدے دونوں کی سچائی شامل ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ سچ انسان کو نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف اور انسان پابندی سےسچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں صدیق لکھ دیا جاتا ہے‘‘ ۔

«وَنَفْسَهُ مُطْمَئِنَّةً» ’’اور اس نے اپنے نفس کو بنایا نفس مطمئن‘‘ جب انسان سچ کو اختیار کرے گا تو اسے نیکی کی توفیق ملے گی ۔ اس کے نتیجے میں انسان کو اطمینان حاصل ہو گا ۔ جیسا کہ ترمذی کی روایت میں آتا ہے: ’’بے شکر سچائی اطمینان کا باعث ہے‘‘ اورمسندِ احمد کی روایت میں فرمایا: ’’نیکی وہ ہے جس کی طرف نفس اطمینان محسوس کرے اور جس کی طرف قلب بھی مطمئن ہو جائے‘‘ ۔ ملا علی القاری نے اس موقعے پر خاص طور پر اللہ تعالی کے ذکر کو لازم پکڑنے کی طرف اشارہ کیا ہے اس لیے کہ وہ دلوں کے اطمینان کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔نفس مطمئن، رب کی رضا اور تقدیر پر راضی رہتا ہے ۔اسی طرح رب کی ربوبیت ، نبی کی نبوت اور اسلام کی حقانیت پر راضی رہتا ہے ۔ آخرت کو اپنا مطلوب و مقصود بنا کر اور اس کے لیے قربانیاں دے کر بھی وہ پریشان نہیں ہوتا بلکہ مطمئن رہتا ہے۔

«وَخَلِيقَتَهُ مُسْتَقِيمَةً» ’’اور اس نے اپنی خلقت یا طریقے کو مستقیم کیا‘‘ ۔ خلیقہ سے جبلت و فطرت بھی مراد لی گئی یعنی وہ ودیعت کردہ فطری صلاحیتِ خیر و شر پر گامزن ہے اور کسی افراط و تفریط کا شکار نہیں ہوتا۔ خلیقہ سے مراد ، اخلاق و عادات و اطوار بھی لی گئی ہیں کہ اس کے اخلاق و عادات اور اعمال سنت و شریعت کے مطابق ہوتے ہیں جو ظاہر ہے سلامتی فطرت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ پس انسان کو ہر معاملے میں سنت و شریعت کو ترجیح دینی چاہیے اور فطرت کے نزدیک تر رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

«وَجَعَلَ أُذُنَهُ مُسْتَمِعَةً وَعَيْنَهُ نَاظِرَةً فَأَمَّا الْأُذُنُ فَقَمِعٌ وَالْعَيْنُ مُقِرَّةٌ (نَاظِرَةً )بِمَا يُوعَى الْقَلْبُ وَقَدْ أَفْلَحَ مَنْ جَعَلَ قَلْبَهُ وَاعِيًا» بقول ملا علی القاری حدیث کے آخری حصے میں آلات و اسبابِ علم کا ذکر فرمایا گیا۔جیسا کہ سورۂ بنی اسرائیل آیت ۳۶ میں فرمایا: ’’بے شک سمع و بصر اور دل و دماغ ان سب کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘ ۔دنیا میں ہر طرف اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی نشانیاں پھیلی ہوئی جو کائناتی اور آفاقی بھی ہیں اور انفسی بھی ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ہم عنقریب انھیں دکھائیں گے اپنی نشانیاں کائنات میں بھی اور خود ان کی جانوں میں بھی‘‘ ۔( فصلت:53) ان نشانیوں میں سے کچھ بصری ہیں اور کچھ سمعی اور بعض عقلی ہیں ۔ان تینوں قسم کی نشانیوں کو پہچاننے کے لیے انسان کو کان، آنکھ اور دل دیے ہیں۔ انھیں آلاتِ علم کہا جاتا ہے انھیں آلات ِ آیات بھی کہا جا سکتا ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر ان کے استعمال کی طرف متوجہ کیا گیا ہے:سورۃ النحل آیت ۷۸ میں فرمایا: ’’اور اللہ نے تمھیں اس حال میں ماؤں کے پیٹوں سے نکالا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے اور اس نے تمھارے لیے سمع و بصر اور دل و دماغ بنائے تاکہ تم شکر کرو‘‘ ۔ سمع و بصر دل و دماغ سے کام نہ لینے والوں کی شدید مذمت قرآن کریم میں کی گئی ہے فرمایا: ’’ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں ایسے لوگ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے یہی ہیں وہ جو غافل ہیں‘‘ ۔(الانعام :179)

«وَجَعَلَ أُذُنَهُ مُسْتَمِعَةً» ’’بنایا اس نے اپنے کانوں کو توجہ سے سننے والا‘‘ استماع ، توجہ اور اہتمام سے سننے کو کہتے ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ انسان سمعی نشانیوں ، نصیحتوں اور خدائی احکامات کو توجہ سے سننے والا ہو۔ حق بات اور ذات حق کی نشانیوں سے اعراض نہ کرے۔ یہ ایک اہم صفت ہے ۔سورة الحاقہ میں کشتیٔ نوح علیہ السلام کے تذکرے میں فرمایا: ’’تاکہ ہم اسے یاددہانی بنا دیں اور اسے یاد رکھے یاد رکھنے والا کان‘‘ ۔ سورۂ ق آیت ۳۷ میں نصیحت پکڑنے والوں کی صفت یوں بیان کی گئی : ’’بے شک اس میں البتہ نصیحت ہے اس کے لیے کہ جس کے پاس (زندہ ) دل ہو اور وہ کان لگا کر سنے اور وہ متوجہ ہو‘‘ ۔پس انسان کو چاہیے کہ نیکی کی بات ، نصیحت کی بات ، وعظ و تلقین وغیرہ کو دل لگا کر توجہ سے سننے کی کوشش کرے ۔اگر کسی وجہ سے طبیعت سننے پر آمادہ نہیں ہے تو جبر کر کے سننے کی کوشش کرے۔اس محنت کی برکت سے اللہ تعالیٰ طبیعت کو آمادہ کر دیتے ہیں ۔اس لیے کہ اس کا وعدہ ہے کہ جو ہمارے لیے محنت کرے اسے اپنے راستوں کی ہدایت دیں گے‘‘ ۔

«وَعَيْنَهُ نَاظِرَةً» ’’اور اس کی آنکھ کو بنایا دیکھنے والی‘‘ یہاں بھی دیکھنے سے مراد مجرد حیوانی دیکھنا نہیں ہے بلکہ مراد ہے توجہ سے دیکھنا اور چیزوں کی حقیقت کو سمجھنے اور ان کے موازنے سے عبرت حاصل کرنے کی کوشش کرنا اور اللہ کی نشانیوں پر غور کی نظر کرنا مراد ہے۔ سورۃ السجدہ آیت ۲۷ میں کائناتی نشانیوں پر گہری نظر کرنے کی ترغیب دلاتے ہوئے فرمایا گیا: ’’کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ ہم پانی کو ہانک دیتے ہیں بنجر زمین کی طرف پھر اس پانی سے ہم کھیتیاں اگاتے ہیں جس سے ان کے چوپائے اور یہ خود بھی کھاتے ہیں کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں‘‘ ۔نبی کریم ﷺ ، فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ’’کہ میری نظر مبنی بر موعظت و عبرت ہو‘‘ شمائل شریف میں رسول اللہ ﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ ’’آپﷺ دائمی طور پر فکر و اعتبار میں مشغول رہا کرتے تھے‘‘ ۔رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: ’’اللہ کی مخلوقات میں غور و فکر کیا کرو‘‘ ۔(الجامع الصحیح ) کئی بزرگوں اور بعض اصحابِ کرام نے تفکر کو عبادت قرار دیا ہے اس لیے کہ یہ انسان کو عبادت کے لیے تیار اور اس کے ایمان کو روشنی دیتا ہے۔ چناں چہ جب ام الدرداء رضی اللہ عنہا سے سے پوچھا گیا کہ حضرت ابو الدرداء کی افضل عبادت کیا تھی تو فرمایا: التفکر والاعتبار ’’غور و فکر‘‘ ۔(کتاب الزہد ، امام احمد ) افسوس جدید آلات ا ور ٹیکنالوجی نے انسان کو اس درجہ مصروف کر دیا کہ عبادت کی یہ قسم انسان سے متروک ہی ہو گئی ۔لیکن بہرحال کچھ وقت اس کام کے لیے رکھنا چاہیے ۔

اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے کان اور آنکھ کا قلب کے ساتھ تعلق واضح فرمایا:

«فَأَمَّا الْأُذُنُ فَقَمْعٌ وَأَمَّا الْعَيْنُ فَمُقِرَّةٌ مُقِرَّةٌ بِمَا يُوعَى الْقَلْبُ» ’’جہاں تک کانوں کی بات ہے تو وہ قِیف(کُپّی) کی طرح ہیں اور جو آنکھ ہے تو وہ دل میں پیوست کرنے والی ہے ان چیزوں کو جنھیں دل یاد رکھتا ہے‘‘ :قیف کے ذریعے بوتل وغیرہ میں مائع چیزیں ڈالی جاتی ہیں۔ کان کو قیف سے اس لیے تشبیہ دی گئی کہ یہ علم کی باتوں کو دل و دماغ تک پہنچانے کا ذریعہ ہے اور آنکھ پیوست کرنے والی ہے آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے اسے وہ دل میں ڈالتی رہتی ہے پس دل سمع و بصر کے لیے برتن کی طرح ہے کہ کانوں اور آنکھوں کی پہنچائی ہوئی معلومات و مشاہدات کو خود میں محفوظ رکھتا ہے اور پھر ان معلومات پر غور و فکر کر کے نتائج برآمد کرتا ہے ۔

«وَقَدْ أَفْلَحَ مَنْ جَعَلَ قَلْبَهُ وَاعِيًا» ’’تحقیق کامیاب ہوا وہ شخص جس نے اپنے دل کو یاد رکھنے والا بنایا‘‘ اگر ایک تین پرزوں کی مشین ہو تو اس کی کارگردگی کا انحصار اس پر ہے کہ تینوں پرزے درست کام کرتے ہوں ۔ تو اگر سمع و بصر تو قلب تک اپنی معلومات پہنچائیں لیکن دل مردہ ہو اور وہ ان معلومات کو محفوظ رکھ کر ان پر غور و فکر اور تفکرو اعتبار نہ کرے تو ہدایت ، اخلاص اور علم حقیقی کا یہ لائحہ عمل پایہ تکمیل تک نہ پہنچ پائے گا ۔ لہذا انسان کا دل بھی ایسا ہی ہونا چاہیے جو غور و فکر کرنے والا ہو اور ایسا ایک صحت مند دل ہی کر سکتا ہے۔ قلب کی صحت سے مراد ہے کہ وہ شہوات اور حبِ دنیا سے محفوظ ہو ۔ حدیث کا آخری جملہ پہلے جملے سے ملتا جلتا ہے جہاں فرمایا گیا تھا: «قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَخْلَصَ اللهُ قَلْبَهُ لِلْإِيمَانِ» ’’یقینی طور پر فلاح پاگیا وہ جس نے اپنے دل کو ایمان کے لیے خالص کیا‘‘ ۔حدیث کا ابتدائی جملہ کامیابی کی وجہ بتاتا ہے جو ایمانِ حقیقی ہے اور آخری جملہ اس وجہ کامیابی کے لائحہ عمل کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ دونوں جملوں میں تعلق یہ ہے کہ سچا اور پختہ ایمان اسی کو حاصل ہو گا جس کا دل یاد رکھنے والا ہو مطلب یہ کہ اس کا دل غافل نہ ہو اور اپنے آلات یعنی سمع وبصر کی معلومات کو اپنے اندر جمع کرے اور تفکر و اعتبار سے ایمان کی تکمیل کرے اور خود کو ایمان کے لیے خالص کر دے۔

لرننگ پورٹل