صوفی جمیل الرحمان عباسی
مدیر ماہنامہ مفاہیم و ناظمِ شعبۂ تحقیق و تصنیف، فقہ اکیڈمی
۵۸۹ ہجری میں سلطان الملک الناصر صلاح الدین یوسف بن ایوب بن شاذی کے انتقال کے بعد سلطنتِ ایوبیہ ان کے جانشینوں میں تقسیم ہو گئی۔ مصر ان کے بیٹےالملک العزیز عماد الدين کے حصے میں آیا جبکہ دمشق اور اس کے مضافات ان کے بیٹے الملک الافضل نور الدین علی، کرک صلاح الدین ایوبی کے بھائی الملک العادل کے حصے میں آیا جب کہ حلب الملک الظاہر غازی غیاث الدین بن صلاح الدین کے ہاتھ آیا۔ والی مصر الملک العزیز دمشق کی طرف روانہ ہوئے تاکہ یہ شہر الملک الافضل سے چھین لیں۔ اس موقعے پر صلاح الدین ایوبی کے بھائی الملک العادل والئ کرک نے ان دونوں کے درمیان صلح کرا دی اور علاقے از سرِ نو تقسیم کیے گئے۔۵۹۱ ہجری میں بھی اسی طرح کی کوشش ہوئی۔ اس موقعے پر صلاح الدین ایوبی کے خاص دوست قاضی الفاضل نے ان کے درمیان صلح کرا دی۔ لیکن اگلے سال الملک العزیز نے دمشق پر قبضہ کر لیا اور بعد میں یہاں کی حکومت اپنے چچا الملک العادل کے حوالے کر دی۔ صلاح الدین ایوبی اور فرنگیوں کے درمیان جو صلح ہوئی تھaی اس کی مدت ۵۹۳ ہجری میں ختم ہو رہی تھی۔ القاضی الفاضل کو صورتِ حال کا ادراک تھا۔ انھوں نے الملک العادل کو جو دمشق میں تھے خط لکھا اور فرنگیوں کے خلاف جہاد کی تیاری کی ترغیب دی۔ اس خط کا خاطر خواہ اثر ہوا اور دمشق میں جہاد کی تیاریاں ہونے لگیں۔ صلح کی مدت ختم ہوتے ہی فرنگیوں نے بیت المقدس فتح کرنے کا اعلان کیا اور شاہ المان (جرمنی) کو جنگ میں شرکت کی دعوت دی اور پیش قدمی شروع کر دی لیکن الملک العادل نے آگے بڑھ کر عکا کے نزدیک ان کا مقابلہ کیا اور انھیں شکستِ فاش سے دوچار کیا اور آگے بڑھ کر یافا شہر فتح کر لیا۔ البتہ اسی سال فرنگیوں نے بیروت پر قبضہ کر لیا۔ اس سال کئی مقامات پر مسلمانوں اور فرنگیوں کی جنگیں جاری رہیں۔ ۵۹۴ ہجری میں فرنگیوں نے ایک لشکرِ جرار مسلمانوں کے قلع قمع کے لیے منظم کیا۔ الملک العادل اور ان کے بھتیجے، الملک العزیز اور الملک الافضل کی مشترکہ فوجیں لبنان کی طرف بڑھیں اور توران یا تبنین کے علاقے میں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں لیکن لڑائی کی نوبت نہیں آئی اور صلح ہو گئی۔۵۹۵ ہجری میں شاہِ مصر الملک العزیز کا انتقال ہوا۔ ان کے دس سالہ بیٹے المنصور تخت پر بیٹھے۔ اکثر امرا کی رائے تھی کہ ایک بچہ مصر کی حکومت نہیں چلا سکتا بلکہ مصر کی حکومت الملک العادل کے حوالے کرنی چاہیے جو ایک نیک دل حاکم اور علماے کرام و فقہا کی پیروی کرنے والے تھے۔ لیکن کچھ لوگوں نے الملک الافضل کو بلا کر حکومت ان کے حوالے کر دی۔ جنھوں نے المنصور کو تخت نشین رہنے دیا لیکن نظامِ سلطنت اپنے ہاتھ میں رکھا۔ ۵۹۶ ہجری میں الملک الافضل نے مصری فوجوں کے ساتھ دمشق پر حملہ کر کے محاصرہ کر لیا۔ الملک العادل ماردین کے محاصرے میں مشغول تھے۔ وہ دمشق کی طرف روانہ ہوئے۔ اکثر مصری امرا، الملک الافضل کے دل سے حمایتی نہ تھے۔ انھوں نے محاصرے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور دوسری طرف مصری فوجیں موسم سرما کی سختیوں سے گھبرا گئیں تھیں۔ چناں چہ الملک العادل کے آنے کی خبر سن کر مصری محاصرہ اٹھا کر چل دیے لیکن مصر کے امرا نے الملک العادل سے درخواست کی کہ تیزی سے سفر کر کے مصر پہنچیں۔ چناں چہ الملک الافضل کے پہنچنے سے پہلے ہی الملک العادل، قاہرہ میں داخل ہوئے جہاں انھیں خوش آمدید کہا گیا۔ اب المنصور اور اس کے حامی امرا نے بھی ان کی بادشاہی قبول کر لی۔ اس طرح پورا مصر امن و امان کے ساتھ الملک العادل کی حکومت میں داخل ہو گیا۔
۶۰۳ ہجری میں طرابلس اور حمص کی طرف فرنگیوں کے حملے بڑھ گئے۔ حمص کے والی اسد الدین شیر کوہ میں ان کا مقابلہ کرنے کی سکت نہ تھی۔ چناں چہ الملک العادل اور والیٔ حلب الملک الظاہر اپنی فوجوں کے ساتھ ان کی مدد کو بڑھے اور عکا شہر کا محاصرہ کیا، یہاں فرنگیوں نے مسلمان قیدیوں کی رہائی کے بدلے صلح کی درخواست کی جو قبول ہوئی، اس کے بعد یہ لشکر طرابلس کی طرف بڑھا اور یہاں کچھ فرنگی دستوں کو شکست دے کر مالِ غنیمت حاصل کیا آخر کار فرنگیوں نے صلح کی درخواست کی جو قبول کر لی گئی۔۶۱۳ ہجری میں مسلمانوں اور فرنگیوں کی صلح ختم ہوئی۔ الملک العادل اپنے بیٹے الملک المعظم کے ساتھ مصر سے شام کی طرف نکلے۔ دمشق سے گزرتے ہوئے انھوں نے اہلِ دمشق کو دفاع مضبوط کرنے کا حکم دیا اور جولان کی طرف جاتے ہوئے مرج الصُفر پہنچ گئے۔ یہاں والیٔ حِمص اسد الدین شیر کوہ بھی ان سے آملے۔ فرنگی جولان کی طرف بڑھے۔ الملک المعظم نے اپنی فوج کو لے کر قدس اور نابلس کے درمیان ڈیرے ڈال دیے تاکہ فرنگی قدس کی طرف پیش قدمی نہ کر سکیں۔ فرنگیوں نے طور قلعے کا محاصرہ کیا لیکن یہاں کے امرا نے کامیابی سے دفاع کیا۔ چناں چہ مایوس ہو کر فرنگی عکا کی طرف لوٹ گئے۔ ۶۱۵ ہجری میں شاہِ روم نے حلب کی طرف حملہ کیا، بدقسمتی سے الملک الافضل بن صلاح الدین نے اس کی حمایت کی لیکن الملک الاشرف موسی ابن الملک العادل نے ان کا راستہ روکا اور شکست سے دوچار کیا۔ اسی سال فرنگی دمیاط کی طرف حملہ آور ہوئے تو الملک المعظم بن عادل نے قَيمون کے علاقے میں ان کا مقابلہ کیا۔ اللہ کے فضل سے فرنگیوں کو شکستِ فاش ہوئی۔ بڑی تعداد مقتول ہوئی اور بہت سارے فرنگی قیدی بنائے گئے۔ البتہ فرنگی برج سلسلہ نامی جزیرہ نما پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہےجو دفاعی لحاظ سے بہت اہم جگہ تھی۔ الملک العادل اس خبر سے بہت دلبرداشتہ اور غمگین ہوئے اور بیمار پڑ گئے۔ فرنگیوں نے دمیاط کا محاصرہ کر لیا اور دورانِ محاصرہ ہی الملک العادل نے انتقال فرمایا۔ ان کی موت کے موقعے پر ایک غلط خبر کی وجہ سے، مسلمان لشکر کے سالار الملک الکامل محمد بن الملک العادل کو مصر جانا پڑا۔ ان کی غیر موجودگی میں کفار نے سخت حملے کیے۔ بادشاہ کے انتقال اور سالار کی رخصتی سے مسلمانوں کے حوصلے پست ہو گئے تھے، نتیجے میں فرنگیوں کو دمیاط پر غلبہ حاصل ہوا۔ الملک الکامل جب واپس آئے تو دیکھا کہ شہر فتح ہو چکا ہے لہذا وہ محاصرہ کر کے بیٹھ گئے۔ (تاریخ ابنِ کثیر) ’’اس دوران خشکی و تری میں بہت سی لڑائیاں ہوئیں۔ یہاں تک کہ عام مسلمان بھی کافروں کی فوج پر حملہ آور ہو جاتے۔ تین سالہ محاصرے کے بعد دونوں فریق تنگ آ چکے تھے، صلح کی بات چل پڑی تھی لیکن ایک رات مسلمانوں نے ایسا سخت حملہ کیا کہ عیسائیوں کے چھکے چھوٹ گئے اور انھوں نے یکطرفہ طور پر صلح کی درخواست کر دی۔ چنانچہ صلح کا آٹھ سالہ معاہدہ، قیدیوں کی رہائی کی شرط پر طے پایا‘‘۔ (السلوك لمعرفة دول الملوك)
۶۲۵ ہجری میں ایک بڑا فرنگی لشکر صِقِلِّيہ کی طرف سے حملہ آور ہو ا۔ اس نے عَكَّا اور صور کی طرف ڈیرے ڈالے اور پھر صَيدا شہر مسلمانوں سے چھین لیا۔ قبرص جزیرے کا فرنگی حاکم بھی پیش قدمی کرتا ہوا یہاں پہنچا۔ آس پاس کے مسلمان خوف و دہشت کا شکار تھے۔ الملک الکامل محمد بن عادل مصر سے فوجیں لے کر شام کی طرف گامزن ہوئے اور بیت المقدس میں داخل ہوئے اور اس کے بعد نابلس پہنچے۔ یہاں کے حاکم اور آپ کے بھتیجے الملک الناصر داؤد بن معظم نے خطرہ محسوس کیا اورتشویش کا اظہار کیا اور اپنے دوسرے چچا الملک الاشرف سے مدد طلب کی جو شام پہنچ آئے اور الملک العادل سے رابطہ کیا۔ الملک العادل نے کہا کہ میں تو صرف بیت المقدس کی حفاظت اور فرنگیوں سے دفاع کی خاطر آیا ہوں۔ اب جبکہ آپ شام آ گئے ہیں تو میں واپس ہوتا ہوں آپ ہی دفاعِ قدس کا فریضہ سر انجام دیں۔ لیکن الملک الاشرف نے کہا کہ ہم مل کر دفاع کریں گے۔ چناں چہ دونوں لشکر مل گئے۔ اس اتفاق کو دیکھتے ہوئے کئی دوسرے ایوبی امرا بھی ان کے ساتھ آ ملے۔ لیکن یہ اتفاق عارضی ثابت ہوا۔ اگلا سال تفرقے اور تحزب کا سال تھا۔ ایوبی حکمران باہم دست و گریبان ہونے لگے۔
الملک الکامل کا صلیبیوں سے اتحاد اور قدس کی حوالگی
الملک الکامل کے مقابلے میں دوسرے بھائیوں نے نہ صرف اتحاد کر لیا بلکہ انھوں نے جلال الدین خوارزم شاہ کو بھی ساتھ ملا لیا۔ جس کی نظریں سلطنت ایوبی پر کافی عرصے سے لگی ہوئی تھیں۔ اس پر الملک الکامل سے بڑی غلطی سرزد ہوئی کہ مسلمان مخالفین کے مقابلے میں انھوں نے شاہِ رومانیہ فریڈرک ثانی سے اس شرط پر اتحاد کر لیا کہ حالات نارمل ہونے کے بعد بیت المقدس فرنگیوں کے حوالے کیا جائے گا۔ چناں چہ ۵۲۶ ہجری، ۱۲۲۹ عیسوی میں ایک معاہدے کے تحت بیت المقدس عیسائیوں کے انتظام میں چلا گیا۔ معاہدے کی اہم شقیں یہ تھیں کہ مسجدِ اقصیٰ کا انتظام مسلمانوں کے پاس رہے گا۔ اور اسلامی شعائر قائم رکھے جائیں گے اور فرنگی شہر میں جنگی قلعے تعمیر نہ کریں گے۔ دس سال کے لیے دونوں فریق جنگ نہ کریں گے اور دونوں فریقین کو بیت المقدس میں آنے جانے کی اجازت ہو گی۔ (واقدساہ، ۳۹۳) افسوس جو مقدس شہر ایوبی نے جہاد و قتال سے حاصل کیا تھا، ان کے جانشینوں نے طشت میں رکھ کر عیسائیوں کو پیش کر دیا۔ جس دن قدس شہر عیسائیوں کے حوالے کیا گیا، وہاں کے مسلمان دھاڑیں مار مار کر روئے، اس کے علاوہ دوسرے علاقے کے مسلمانوں میں بھی اس خبر سے ایک کہرام برپا ہو گیا۔ ہر طرف آہ و فغاں اور الملک الکامل کے لیے ملامت کا سلسہ شروع ہو گیا۔ ایوبیوں میں سے الملک الناصر داؤد، جنھیں آگے چل کر بیت المقدس کا عارضی فاتح بننا تھا، اس حرکت پر بہت تنقید کرتے تھے۔ الملک الکامل نے اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ مسجد الاقصیٰ اور دیگر متبرک مقامات تو مسلمانوں کے کنٹرول ہی میں ہیں، ہم نے عیسائیوں کو محض شہر اور ان کے گرجا ہی دیے ہیں اور معاہدے کے تحت عیسائی شہر کی گری ہوئی دیواریں تعمیر نہیں کر سکتے، اس طرح مستقل قبضہ برقرار رکھنا ان کے لیے مشکل ہو گا۔ (مفرج الكروب في أخبار بني أيوب) حافظ شمس الدین سبط بن جوزی نے انھی دنوں جامع دمشق میں فضائلِ بیت المقدس بیان کرنے شروع کیے۔ ایوبی حکمرانوں کی چپقلش جاری رہی۔ اسی دوران خوارزم شاہ نے بھی ان کے بعض علاقوں پر حملے کیے۔ بلکہ اگلے کئی سالوں میں ایوبیوں اور خوارزمیوں کی لڑائیاں جاری رہیں اور بعض دفعہ ایوبیوں کو خوارزمیوں کے خلاف صلیبیوں سے بھی اتحاد کرنا پڑا۔
الملک الناصر اور فتح بیت المقدس
۶۳۷ ہجری میں عیسائیوں نے بیت المقدس میں ایک قلعے کی تعمیر شروع کر دی جو معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔ اس بار الملک الناصر داؤد بن الملک المعظم بن عادل نے بیت المقدس پر حملہ کیا اور منجیق نصب کر کے خوب سنگ باری کی۔ عیسائیوں کے زیرِ تعمیر قلعے کو تباہ و برباد کرنے کے ساتھ ا نھوں نے شہر پر قبضہ بھی کر لیا۔ لیکن چند سال بعد ۶۴۱ ہجری میں الملک الناصر نے الملک الکامل کے معاہدے کی طرز پر ایک معاہدے کی رو سے بیت المقدس پھر صلیبیوں کے حوالے کر دیا۔
بیت المقدس صلیبیوں کے حوالے
ایوبی حکمرانوں کا خلفشار اور باہمی چپقلش جاری تھی۔ مصر پر الملک الصالح نجم الدین ایوب کی حکومت تھی جبکہ دوسری طرف کئی ایوبی حکمران ان کے مخالف تھے۔ ان میں سرِفہرست ان کے چچا الملك الصالح عماد الدين اسماعيل بن الملك والئ دمشق، ان کے چچا زاد الملك الناصر داؤد والئ کَرَک اور والئ حمص الملك المنصور تھے۔ انھوں نے الملک الصالح نجم الدین ایوب کے خلاف فرنگیوں سے اتحاد کر لیا۔ اس اتحاد کا اہم نکتہ یہ تھا کہ قدس، طبریہ اور عسقلان فرنگیوں کے حوالے کیے جائیں گے اور بدلے میں صلیبی اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر مصر پر حملہ کریں گے اور الملک الصالح نجم الدین ایوب سے ان کی جان چھڑائیں گے۔ اس طرح قدس کی تولیت ایک بار پھر ’’پر امن ‘‘ طور پر عیسائیوں کی طرف منتقل ہو گئی۔ صاحب المختصر فی اخبار البشر،الملك المؤيد عماد الدين اسماعيل (المتوفى: ۷۳۲ھ) کے بیان کے مطابق اس بار زیارات و مقدسات بھی صلیبیوں کے حوالے کر دیے گئے۔
الملک الصالح نجم الدین ایوب اور فتح بیت المقدس
اب کی بار صرف ایک سال صلیبیوں کو بیت المقدس پر قابض رہنے کا موقع ملا۔ ۶۴۲ ہجری میں مسلمانوں نے دوبارہ بیت المقدس پر قبضہ کر لیا۔ معاہدے کی دوسری شق ’’فتحِ مصر‘‘ کے لیے اتحادی افواج غزہ میں جمع ہونے لگیں تو الملک الصالح نجم الدین ایوب نے خوارزمیوں سے مدد طلب کی۔ سلطنتِ خوارزمی کے زوال کے بعد خوارزمی فوج اِدھر اُدھر کے حاکموں کی جنگی خدمت کر کے ہی گزارا کرتی تھی۔ چناں چہ خوارزمی غزہ پہنچ گئے۔ مصری فوج شام کی طرف روانہ ہوئی۔ آگے چل کر تاتاریوں کو شکست دے کر ’’الملک المظفر‘‘ کے لقب سے شہرت پا نے والے، الملک الصالح نجم الدین ایوب کے مملوک اور سالار رکن الدین بیبرس بھی مصری لشکر میں شامل تھے۔ ۶۴۲ ہجری میں مصری افواج نے متحدہ لشکر کو شکستِ فاش دی اور تعاقب کر کے ان کی بڑی تعداد کو قتل کیا۔ بیت المقدس، غزہ اور ساحلی علاقوں پر مصر کی حکومت قائم ہو گئی۔ اس طرح بیت المقدس ایک بار پھر طویل مدت کے لیے مسلمانوں کی تولیت میں آ گیا۔
کتابیات
وا قدساہ، دکتور سید حسین العَفّانی
البدایہ و النہایہ لابنِ کثیر
المختصر في أخبار البشر السلوك لمعرفة دول الملوك
مفرج الكروب في أخبار بني أيوب